قسموں کی حفاظت کرنا اللہ تعالی کی تعظیم ہے

712۔ سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ حَلْفَ عَلَى مَالِ امْرِءٍ مُسْلِمٍ بِغَيْرِ حَقَّهِ، لَقِيَ اللهُ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ))

’’جس شخص نے ناحق کسی مسلمان بھائی کا مال حاصل کرنے کے لیے قسم کھائی تو وہ اللہ تعالی کو اس حالت میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘

سید نا عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں پھر رسول اللہﷺ نے ہمیں اللہ عزوجل کی کتاب سے اس مفہوم کی تصدیق کرنے والی آیت پڑھ کر سنائی: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ ۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝﴾ (آل عمران 77:3)

’’بلاشبہ جو لوگ اللہ کے ساتھ کیے گئے عبد اور اپنی قسموں کا سودا تھوڑی سی قیمت پر کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو گا اور قیامت کے روز اللہ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے: اس موقع پر سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ (مجلس میں) داخل ہوئے اور کہا: ابو عبد الرحمن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ) تمہیں کیا حدیث بیان کر رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا: اس اس طرح بیان کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: ابو عبد الرحمن سچ کہتے ہیں۔ یہ آیت میرے ہی معاملے میں نازل ہوئی۔ میرے اور ایک آدمی کے درمیان یمن کی ایک زمین کا معاملہ تھا۔ میں اس کے ساتھ اپنا جھگڑا نبی ﷺ کے ہاں لے گیا تو آپ نے پوچھا:

((هل لك بينَّة؟)) ’’کیا تمھارے پاس کوئی دلیل (یا ثبوت) ہے؟‘‘

میں نے عرض کی: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ((فیمینه)) ’’تو پھر اس کی قسم ( پر فیصلہ ہوگا)۔‘‘

میں نے کہا: وہ تو قسم کھائے گا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

((مَنْ خَلْفَ عَلٰى يَمِينٍ صَبْرٍ، يَقْتَفِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ هُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لَقِيَ اللهُ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانٌ))

’’جس شخص نے کسی فیصلہ کرنے والے کے مطالبے پر جھوٹی قسم کھائی کہ اس کے ذریعے سے مسلمان کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کرے تو وہ اللہ کے سامنے اس حالت میں حاضر ہوگا کہ وہ اس پرناراض ہوگا۔‘‘

اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ ۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝﴾ (آل عمران 77:3)

’’بلاشبہ جو لوگ اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے اور اپنی قسموں کا سودا تھوڑی قیمت پر کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا اور قیامت کے روز اللہ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘(أخرجه البخاري:2356، 2357، 2416، 2417، 2515، 2666 ،2667، 2673، 2676، 4546، 4550، 6676، 6677، 7183، 7184، و مسلم:138)

713۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضر موت سے اور ایک کندہ سے نبی ﷺ کے پاس آیا۔ حضری (حضر موت کے باشندے) نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میری زمین پر قبضہ کیے بیٹھا ہے جو میرے باپ کی تھی۔ اور کندی کہنے لگا: میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے، میں اسے کاشت کرتا ہوں، اس کا اس (زمین) میں کوئی حق نہیں۔ اس پر نبی نے حضری سے کہا:

((ألك بينة)) ’’کیا تمھارے پاس کوئی دلیل اور ثبوت وغیرہ ہے؟‘‘

اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ((فلک یمینه)) ’’پھر تمھارے لیے اس کی قسم ہے۔‘‘

اس نے کہا: اللہ کے رسول! بلاشبہ یہ آدمی بد کردار ہے، اسے کوئی پروا نہیں کہ یہ کس چیز پر قسم کھاتا ہے اور یہ کسی چیز سے پر ہیز بھی نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا:

((ليس لك منه إلا ذلك)) ’’تمھیں اس سے اس (قسم) کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔‘‘

وہ قسم کھانے کے لیے اٹھا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول اللہ ﷺلام نے فرمایا:

((أَمَا لَئِنْ خَلَفَ عَلٰى مَالِهِ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيْنَ اللهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضُ)) (أخرجه مسلم: 139)

سنو! بات یہ ہے کہ اگر اس نے ظلم و زیادتی سے اس شخص کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو بلاشبہ یہ شخص اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس سے اپنا رخ پھیر لے گا۔‘‘

714۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِءٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الجَنَّةَ)) .

’’جو شخص اپنی جھوٹی قسم کے ذریعے سے کسی مسلمان کا حق مارے تو اللہ تعالی اس کے لیے جہنم کی آگ کو واجب اور جنت کو اس پر حرام کر دیتا ہے۔‘‘

اس پر ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر چہ وہ معمولی سی چیز ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((وَإِن قَضِيْبٌ من أَرَاكٍ)) (أخرجه مسلم:137)

  ’’چاہے وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی ہو۔‘‘

توضیح و فوائد: اللہ تعالیٰ کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس کام کے کرنے یا نہ کرنے، صبح ہونے یا غلط ہونے پر اللہ تعالی کو گواہ بناتا ہے، ابتدا قسم کھانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچا ہو۔ جھوٹ پر اللہ کو گواہ بنانا اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے جس سے وقتی فائدہ تو ہو جاتا ہے لیکن انسان ہمیشہ کے لیے اللہ کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ مذکورہ احادیث میں یہی بتایا گیا ہے اور قسم کی حفاظت نہیں ہے کہ آدمی کیا ہوئے۔

715۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ حَلْفَ بِاللَّهِ فَلْيَصْدُقْ، وَمَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللهِ فَلْيَرْضَ بِاللهِ، وَمَنْ لَّمْ يَرْضَ.  فَلَيْسَ مِنَ اللهِ)) (أخرجه ابن ماجه: 2101)

’’جو شخص اللہ کی قسم کھائے تو اسے چاہیے کہ وہ سچ بولے۔ اور جس کے لیے (اس کے مطالبے پر ) اللہ کی قسم کھائی جائے تو اسے چاہیے کہ (اس قسم پر راضی ہو جائے۔ اور جو اللہ سے راضی نہیں ہوتا۔ اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

توضیح و قوائد: جب کوئی آدمی کسی سے قسم اٹھانا چاہے تو اگر وہ سچا ہے تو قسم دے دے، پھر جس نے قسم کی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قسم کا اعتبار کرے۔ قسم لینے کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کر دے، یہی قسم کی حفاظت ہے۔

716۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اَلْيَمِينُ عَلَى نِيةِ الْمُسْتَحْلِفِ)) (أخرجه مسلم:1653)

((قسم، حلف لینے والے کی نیت کے مطابق ہوگی۔‘‘

توضیح و فوائد: اگر کوئی شخص کسی معاملے پر دوسرے شخص سے قسم اٹھواتا ہے، مثلا: یہ کہ تم قسم کھاؤ کہ تم نے میرا قلم نہیں اٹھایا اور اس کا مقصد یہ جانتا ہے کہ قلم تمھارے پاس نہیں ہے تو قسم دینے والا قسم دے دے اور اس کی نیت میں کوئی دوسرا قلم ہو تو اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔

717۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((وَاللهِ لَأَنْ يَّلَجَّ أَحَدُكُمْ بِيَمِينِهِ فِي أَهْلِهِ، آثَمُ لَهُ عِنْدَ اللهِ مِنْ أَنْ يُّعْطِيَ كَفَّارَتَهُ الَّتِي فَرَضَ الله)) (أخرجه البخاري:6625، ومُسْلِمٌ1655)

’’اللہ کی قسم! اپنے اہل خانہ کے معاملے میں تمھارا اپنی قسموں پر آنے اور جھے رہنا (حالانکہ تمھیں معلوم ہے کہ قسم توڑنا اور کفارہ دینا بہتر ہے) اللہ کے ہاں اس سے زیادہ گناہ کی بات ہوتی ہے کہ وہ قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کر دے جو اللہ رب العزت نے اس پر فرض کیا ہے۔‘‘

718۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((إِذَا خَلْفَ أَحَدُكُمْ عَلَى الْيَمِينِ، فَرَأَى خَيْرًا مِّنْهَا، فَلْيُكْفِّرْهَا، وَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خير) (أخرجه مسلم:1651)

’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کی قسم کھائے، پھر اس سے بہتر (کام) دیکھے تو وہ اس (قسم) کا کفارہ ادا کر دے اور وہی کرے جو بہتر ہے۔‘‘

توضیح و قوائد: قسم کی حفاظت تین طریقوں سے کی جاسکتی ہے:

(1) قسمیں بہت زیادہ نہ اٹھائے۔

(2) کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائی ہو تو اسے پورا کرے بشرطیکہ وہ کام جائز ہے۔

(3) اگر کسی جائز کام کی قسم کھائی ہو اور اسے توڑنا ضروری ہو تو قسم کا کفارہ ادا کرے۔