قیامت سے پہلے واقع ہونے والی دس بڑی نشانیاں

 

سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے کمرے کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہم نے قیامت کا ذکر کیا اور ہماری آوازیں بلند ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ (بخاری ،كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي الْآيَاتِ الَّتِي تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ7285)

قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔

پھر ذکر کیا

دھوئیں کا

دجال کا

زمین کے جانور کا

سورج کے مغرب سے نکلنے کا

عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کا

یاجوج ماجوج کے نکلنے کا

تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں۔

اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے (میدان)محشر کی طرف لے جائے گی۔

دھنویں کی وضاحت

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ (الدخان : 10)

سو انتظار کر جس دن آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔

یہ قیامت کے قریب آسمان سے آنے والا ایک دھنواں ہوگا جو لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور جتنی دیر تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ لوگوں پر چھایا رہے گا

مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر تیسیر القرآن میں لکھتے ہیں :

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت میں مذکور دھوئیں سے مراد وہ دھواں لیتے ہیں جو قیامت کے قریب چھا جائے گا اور وہ قیامت کی ایک علامت ہوگا روایات کے مطابق یہ دھواں چالیس دن زمین کو محیط رہے گا۔ نیک آدمی پر اس کا اثر خفیف ہوگا جس سے انہیں زکام سا ہوجائے گا اور کافر و منافق کے لیے یہ دھواں سخت تکلیف دہ ثابت ہوگا۔ یہ دھواں شاید وہ ہی سماوات کا مادہ ہو جس کا ذکر ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ ﴾ میں ہوا ہے

دابۃ الأرض کی وضاحت

وہ ایک انوکھی قسم کا جانور ہوگا جو قیامت کے قریب کسی دن چاشت (دوپہر) کے وقت نکلے گا اور لوگوں سے بات کرے گا۔ اور وہ قیامت کی علامات میں سے ہو گا

اس کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، کیونکہ آخرت کی حقیقتوں سے حجاب اٹھنے کے بعد آزمائش کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِهَا، أَوِ الدُّخَانَ، أَوِ الدَّجَّالَ، أَوِ الدَّابَّةَ، أَوْ خَاصَّةَ أَحَدِكُمْ، أَوْ أَمْرَ الْعَامَّةِ ] [ مسلم، الفتن، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال : ۲۹۴۷ ]

’’چھ چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کر لو، ایک سورج کا مغرب سے نکلنا، دوسری دخان (دھواں)، تیسری دجّال، چوتھی زمین کا جانور، پانچویں موت اور چھٹی قیامت۔‘‘

وہ جانور لوگوں سے کس قسم کی گفتگو کرے گا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ (النمل : 82)

اور جب ان پر بات واقع ہو جائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ

یعنی وہ جانور لوگوں سے یہ کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ (النَّاسَ) ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے، یعنی وہ ایمان نہ لانے والوں کی نشان دہی کرے گا

وہ جانور لوگوں کی پیشانیوں پر نشان لگائے گا

ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ تَخْرُجُ الدَّابَّةُ فَتَسِمُ النَّاسَ عَلٰی خَرَاطِيْمِهِمْ، ثُمَّ يُغْمَرُوْنَ فِيْكُمْ حَتّٰی يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْبَعِيْرَ فَيَقُوْلَ مِمَّنِ اشْتَرَيْتَهُ؟ فَيَقُوْلُ اشْتَرَيْتُهُ مِنْ أَحَدِ الْمُخَطَّمِيْنَ ] [مسند أحمد : 268/5، ح :۲۲۳۷۱۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۳۲۲ ]

’’(زمین سے) ایک جانور نکلے گا، جو لوگوں کی پیشانیوں پر نشان لگائے گا اور وہ (نشان زدہ) لوگ بہت زیادہ ہو جائیں گے، حتیٰ کہ آدمی کسی سے اونٹ خریدے گا تو کوئی پوچھے گا کہ یہ تو نے کس سے خریدا ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے یہ کسی نشان زدہ سے خریدا ہے۔‘‘

قیامت کے قریب اس قسم کے عجیب و غریب واقعات کثرت سے ہوں گے کہ وہ چیزیں جو عام طور پر کلام نہیں کرتیں،کلام کریں گی۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ، وَ حَتّٰی يُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَتُخْبِرُهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ ] [ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ۲۱۸۱، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد : 84/3، ح : ۱۱۷۹۸ ]

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔‘‘

ماضی میں ایک گائے کے بولنے کا واقعہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نےصبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا :

ایک شخص ( بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لیے جارہا تھا کہ وہ ا س پر سوار ہوگیا اورپھر اسےمارا۔ اس گائے نے(بقدرت الہی )کہا کہ ہم جانور سواری کےلیے نہیں پیدا کیے کئے ۔ہماری پیدائش توکھیتی کےلیے ہوئی ہے۔لوگوں نےکہا سبحان اللہ ! گائے بات کرتی ہے۔پھر آنحضرت ﷺ نےفرمایا کہ میں اس بات پرایمان لاتاہوں اورابوبکراورعمر بھی۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے

(بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابٌ3471)

ماضی میں ایک بھیڑیئے کے بولنے کا واقعہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نےصبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا:

اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرارہاتھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکر ی اٹھا کر لے جانےلگا۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نےبکری کوبھڑیئے سے چھڑالیا۔ اس پر بھیڑیا (بقدرت الہی) بولا، آج توتم نےمجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں (قرب قیامت )اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اورکوئی اس کا چروہا نہ ہوگا؟لوگوں نےکہا سبحان اللہ ! بھڑیا باتیں کرتاہے۔

(بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابٌ3471)

کھانے کے لقمہ کا بولنا

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

[ وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ ] [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ۳۵۷۹ ]

’’ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) کھانے کی تسبیح سنتے تھے، جب کہ وہ کھایا جا رہا ہوتا تھا۔‘‘

آسمان ،زمین اور پرندوں کااللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنا

فرمایا

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (النور : 41)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ، اس کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے، ہر ایک نے یقینا اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے اور اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

درختوں اور پودوں کا سجدہ کرنا

فرمایا

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (الرحمن : 6)

اور بے تنے کے پودے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں ۔

اور فرمایا

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ (الحج : 18)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بے شک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

کھجور کے تنے کا رونا

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک انصاری عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز کیوں نہ بنوا دوں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے وقت بیٹھا کریں۔ کیونکہ میرے پاس ایک غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تمہاری مرضی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب منبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے تیار کیا۔ تو جمعہ کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر بیٹھے تو اس کھجور کی لکڑی سے رونے کی آواز آنے لگی۔ جس پر ٹیک دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ لپٹ جائے گی۔ یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اترے اور اسے پکڑ کر اپنے سینے سے سے لگا لیا۔ اس وقت بھی وہ لکڑی اس چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں بھر رہی تھی جسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ اس کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لکڑی خطبہ سنا کرتی تھی اس لیے روئی۔ (بخاری 2095)

زمین کا بولنا

اللہ تعالیٰ جب چاہے گا زمین بھی بولے گی اور زمین وہ سب کچھ بیان کرے گی جو اس پر کیا گیا اور بتائے گی کہ کس نے کس وقت کیا نیکی یا کیا بدی کی۔

جیسا کہ فرمایا

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا (الزلزلة : 1)

جب زمین سخت ہلا دی جائے گی، اس کا سخت ہلایا جانا۔

وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا (الزلزلة : 2)

اور زمین اپنے بوجھ نکال باہر کرے گی ۔

وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا (الزلزلة : 3)

اور انسان کہے گا اسے کیا ہے؟

يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (الزلزلة : 4)

اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔

بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا (الزلزلة : 5)

اس لیے کہ تیرے رب نے اسے وحی کی ہو گی۔

دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں

لوگوں میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اگر غور کیا جائے تو یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ دیواروں کے بھی واقعی کان ہوتے ہیں اور یہ اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات نوٹ کرتی ہیں اور یہ دیواریں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا بول اٹھیں گی

جیسا کہ حجر اسود کے متعلق آتا ہے کہ وہ لوگوں کے گناہوں کے اثرات سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنی اصل رنگت کھو بیٹھا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنْ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ (ترمذی ،أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ  بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ وَالرُّكْنِ وَالْمَقَامِ877)

حجر اسود جنت سے اترا ، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا ، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کردیا

پتھروں، ڈھیلوں اور درختوں کا تلبیہ پکارنا

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُلَبِّي إِلَّا لَبَّى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّى تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا (ترمذی ،أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّلْبِيَةِ وَالنَّحْرِ828)

"جو مسلمان بھی تلبیہ پکارتاہے اس کے دائیں یابائیں پائے جانے والے پتھر، درخت اور ڈھیلے سبھی تلبیہ پکارتے ہیں ، یہاں تک کہ دونوں طرف کی زمین کے آخری سرے تک کی چیزیں سبھی تلبیہ پکارتی ہیں” ۔

احد پہاڑ سے خطاب

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ، وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ، فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ، قَالَ : ” اثْبُتْ أُحُدُ ؛ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدَانِ ". (صحيح البخاري | كِتَابٌ : فَضَائِلُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ | بَابُ مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ3686)

کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے پھر پہاڑ ہلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پاؤں مارا اور فرمایا:”اے احد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں”

احد پہاڑ کے احساسات

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو احد پہاڑ نظر آیا تو آپ نے فرمایا:

” أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ” صحيح البخاري | كِتَابٌ : الزَّكَاةُ | بَابُ خَرْصِ الثَّمَرِ1482

” احد ایک ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتاہے اور ہم اس سے”

ہدہد پرندے کا ایک مشرک قوم کے شرکیہ اعمال نوٹ کرنا

سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا :میں فلاں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا، وہ کہاں غائب ہو گیا ہے

یقینا میں اسے ضرور بہت سخت سزا دوں گا،یا میں اسے ذبح کر دوں گا، یا وہ میرے پاس (اپنی غیر حاضری کی) کوئی واضح دلیل لے کر آئے گا۔

پس وہ کچھ دیر ہی ٹھہرے تھے کہ ہد ہد آگیا

اس نے کہا مجھے اس بات کا علم ہوا ہے جس کا آپ کو علم نہیں ہے اور میں تیرے پاس (قوم) سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔

بے شک میں نے ایک عورت کو پایا کہ ان پر حکومت کر رہی ہے اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے۔

میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال مزین کر دیے ہیں اور انھیں اصل راستے سے روک دیا ہے لھذا وہ ہدایت نہیں پاتے۔

تاکہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔

اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو عرش عظیم کا رب ہے۔

گناہوں کی وجہ سے گھونسلے میں پرندہ مرجاتا ہے

علامہ ابن القيم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بسااوقات لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے ایسی آفت آتی ہے کہ گھونسلے میں بیٹھے پرندے دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں

(معاشرے کی مہلک بیماریاں)

گناہ گار شخص سے زمین پر موجود ہر جاندار تنگ ہوتا ہے

ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ: «مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا المُسْتَرِيحُ وَالمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ: «العَبْدُ المُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالعَبْدُ الفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ العِبَادُ وَالبِلاَدُ، وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ» (بخاری، كِتَابُ الرِّقَاقِ، بَابُ سَكَرَاتِ المَوْتِ،6512)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” مستریح یامستراح “ ہے ۔ یعنی اسے آرام مل گیا ، یا اس سے آرام مل گیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ” المستریح او المستراح منہ “ کا کیا مطلب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پاجاتا ہے وہ مستریح ہے اورمستراح منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے ، شہر ، درخت اور چوپائے سب آرام پاجاتے ہیں۔

پتھر کہے گا: اے مسلمان! میرے پیچھے یہودی ہے

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمْ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوْ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ (مسلم ،كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ، فَيَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مَكَانَ الْمَيِّتِ مِنَ الْبَلَاءِ7339)

"قیامت قائم نہیں ہوگی،یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں کے خلاف جنگ لڑیں گے اور مسلمان ان کو قتل کریں گے حتیٰ کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے پیچھے کا اور پتھر یا درخت کہے گا:اے مسلمان!اے اللہ کے بندے!میرے پیچھے یہ ایک یہودی ہےآگے بڑھ،اس کوقتل کردے،سوائے غرقد کے درخت کے(وہ نہیں کہے گا) کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے۔”

ایک پتھر کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہنا

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’

” إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ، إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ ". (صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْفَضَائِلُ | بَابٌ : فَضْلُ نَسَبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَسْلِيمُ الْحَجَرِ عَلَيْهِ قَبْلَ النُّبُوَّةِ2277)

مکہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت سے پہلے سلام کیا کرتاتھا، اسے میں اب بھی پہچانتاہوں

پتھر کپڑے لے کر بھاگ گیا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے، بہت پردے والے تھے۔ شدید حیا کی وجہ سے ان کی جلد کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بنی اسرائیل کے ایذا دینے والوں میں سے بعض نے انھیں ایذا دی اور کہنے لگے :

’’موسیٰ اپنا جسم اتنا سخت چھپاتے ہیں تو ضرور اس میں کوئی عیب ہے، یا برص ہے، یا خصیہ پھولا ہوا ہے، یا کوئی اور بیماری ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ موسیٰ علیہ السلام کا ان چیزوں سے پاک ہونا ظاہر کرے، جو وہ ان کے متعلق کہتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اکیلے ہوئے تو اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کرنے لگے، جب فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لیے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ اٹھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی لی اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر! میرے کپڑے، اے پتھر! میرے کپڑے۔ یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک مجلس کے پاس جا پہنچا اور انھوں نے انھیں ننگا دیکھ لیا۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق میں سب سے خوب صورت اور ان عیبوں سے بالکل بری تھے جو وہ کہتے تھے۔ الغرض! پتھر رک گیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے اور پتھر کو اپنی لاٹھی سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم! پتھر پر ان کے مارنے کی وجہ سے لاٹھی کے تین یا چار یا پانچ نشان پڑ گئے۔ یہ مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی :

« يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًا »

[ الأحزاب : ۶۹ ] [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۴۰۴ ]

یہ تمام واقعات و مشاهدات اس بات کی دلیل ہیں کہ بے زبان جانوروں اور جمادات و نباتات کو زبان دینا اور ان سے گفتگو کروانا رب تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے

جیسا کہ قرآن کی اس آیت میں بھی یہی بات کہی گئی ہے

قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ (فصلت :21)

وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا

سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کی وضاحت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا:

"نمودار ہونے والی سب سے پہلی نشانی مغرب سے سورج کا طلوع ہونا اور دن چڑھے لوگوں کے سامنے زمین کے چوپائے کانکلنا ہے۔ان میں سے جو بھی نشانی دوسری سے پہلے ظاہر ہوگی،دوسری اس کے بعد جلد نمودار ہوجائے گی۔”

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَمُكْثِهِ فِي الْأَرْضِ، وَنُزُولِ عِيسَى وَقَتْلِهِ إِيَّاهُ، وَذَهَابِ أَهْلِ الْخَيْرِ وَالْإِيمَانِ، وَبَقَاءِ شِرَارِ النَّاسِ وَعِبَادَتِهِمُ الْأَوْثَانَ، وَالنَّفْخِ فِي الصُّورِ، وَبَعْثِ مَنْ فِي الْقُبُورِ7383)

مغرب سے طلوع ہونے کی کیفیت

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن پوچھا :

’’جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟‘‘

صحابہ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔

آپ نے فرمایا:

’’یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ جاتا ہے ، پھر سجدے میں چلا جاتا ہے ، وہ مسلسل اسی حالت میں رہتا ہے حتی کہ اسے کہا جاتا ہے :اٹھو! جہاں سے آئے تھے ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس لوٹتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے

پھر چلتا ہوا عرش کے نیچے اپنی جائے قرار پر پہنچ جاتا ہے ، پھر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے : بلند ہو جاؤ اور جہاں سے آئے تھے ، ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس جاتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے ، پھر ( ایک دن سورج ) چلےگا، لوگ اس میں معمول سے ہٹی ہوئی کوئی چیز نہیں پائیں گے حتی کہ ( جی) یہ عرش کے نیچے اپنے اسی مستقر پر پہنچے گا تو اسے کہا جائے گا :بلندہو اور اپنےمغرب (جس طرف غروب ہوتا تھا،اسی سمت) سے طلوع ہو تو وہ اپنے مغرب سے طلوع ہو گا۔

(مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ بَابُ بَيَانِ الزَّمَنِ الَّذِي لَا يُقْبَلُ فِيهِ الْإِيمَانُ399)

سورج کا مرکز عرش الہی ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (يس : 38)

اور سورج اپنے ایک ٹھکانے کے لیے چل رہا ہے، یہ اس سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے کا اندازہ ہے۔

ابوذر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس قول {’’ وَ الشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ‘‘} کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ ][بخاري، التفسیر، سورۃ یٰسٓ، باب قولہ : « و الشمس تجري… » : ۴۸۰۳ ]

’’اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔‘‘

کائنات کی ہر چیز کا مرکز عرش ہے

مفسر جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں : ’’فلکیات کے جدید ماہرین کی تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ عرش ایک حقیقی وجود ہے جس کا باقاعدہ جسم ہے، کائنات کے جتنے عالم ہیں وہ سب کا مرکز ہے، یعنی جذب، تاثیر، تدبیر اور نظام سب کا مرکز ہے (تمام کہکشائیں جن کا ایک ایک سیارہ سورج سے بھی ہزاروں گنا بڑا ہے، اسی کے گرد گردش کر رہی ہیں اور اس کے انکار یا تاویل کی گنجائش ہی نہیں)۔‘‘

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

سورج پرستوں کے لیے ایک سبق

سورج جسے اپنی گردش ہی سے فرصت نہیں، نہ اس نے کوئی چیز پیدا کی کہ وہ اسے چھپانے یا ظاہر کرنے کا علم یا اختیار رکھتا ہو، اور خود جب تک رب تعالیٰ کو سجدہ کرکے نئے دن کے لیے نکلنے کی اجازت حاصل نہ کر لے تب تک نکل نہیں سکتا تو وہ عبادت یا سجدے کے لائق کیسے ہو گیا

سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا ، اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی ۔ جب وہ مغرب سے طلوع ہوجائے گا تو سب کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے ، اس دن ’’کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا تھا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی ۔ ‘‘(عمل سے تصدیق نہ کی تھی ۔)

(مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ بَابُ بَيَانِ الزَّمَنِ الَّذِي لَا يُقْبَلُ فِيهِ الْإِيمَانُ396)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ تین چیزیں ہیں جب ان کا ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی شخص کو ، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان کے دوران میں کوئی نیکی نہ کی تھی ، اس کا ایمان لانافائدہ نہ دے گا :سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دجال اور دابۃ الارض ( زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا نکلنا ۔)‘‘

(مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ بَابُ بَيَانِ الزَّمَنِ الَّذِي لَا يُقْبَلُ فِيهِ الْإِيمَانُ398)

قیامت کے دن سورج لپیٹ دیا جائے گا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (التكوير : 1)

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ مُكَوَّرَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ] [ بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ الشمس والقمر : ۳۲۰۰ ]

’’قیامت کے دن سورج اور چاند لپیٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘

خسف کی وضاحت

خسف کا مطلب ہے زمین میں دھنسایا جانا

قرب قیامت خسف کے تین بڑے واقعات رونما ہوں گے

ایک دنیا کے مشرقی حصے میں

دوسرا دنیا کے مغربی حصے میں

اور تیسرا جزیرۃ العرب میں

اور ان میں سے کوئی بھی خسف جب ہوگا تو اس کی خبر بڑی تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل جائے گی کیونکہ ایسا ہوگا تو پھر ہی وہ علامت قیامت بنے گا ورنہ اگر لوگوں تک اس کی خبر پہنچے ہی نہ تو پھر علامت کیسے بنے گا

معلوم ہوتا ہے کہ شاید موجودہ دور میں پیدا ہونے والی ذرائع ابلاغ کی تیز رفتاری اسی کے لیے گراؤنڈ ہموار ہو رہی ہے

جزیرۃ العرب میں زمین میں دھنسائے جانے والے واقعہ کی تفصیلات

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

"ایک قوم اس گھر۔۔۔یعنی کعبہ۔۔۔میں پناہ لے گی(یہ امام مہدی اور ان کے ساتھی ہوں گے) ان کے پاس نہ اپنا دفاع کرنے کےلیے کوئی ذریعہ ہوگا،نہ عدوی قوت ہوگی اور نہ سامان جنگ ہی ہوگا ان کی طرف ایک لشکر حملہ آور ہوگا جب وہ لوگ زمین کے بنجر ہموارحصے میں ہوں گے تو ان کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔”

میں نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جو مجبور ان کے ساتھ(شامل) ہوگا اس کا کیا بنے گا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

"اسے بھی ان کے ساتھ دھنسا دیا جائے گاالبتہ قیامت کے دن اس کو اس کی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔”

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ الْخَسْفِ بِالْجَيْشِ الَّذِي يَؤُمُّ الْبَيْتَ7240)

ان میں سے ایک علیحدہ رہ جانے والے شخص کےسوا(باقی سب مر جائیں گے) جو ان کے بارے میں خبر دے گا اور کوئی(زندہ) باقی نہیں بچے گا۔”

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ الْخَسْفِ بِالْجَيْشِ الَّذِي يَؤُمُّ الْبَيْتَ7242)

آگ وضاحت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ

(مسلم، كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِي الْآيَاتِ الَّتِي تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ7285)

اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے (میدان)محشر کی طرف لے جائے گی۔

صحیح مسلم کی 7286 نمبر حدیث میں ہے

وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قُعْرَةِ عَدَنٍ

اورایک آگ جو عدن کے آخری کنارے سے نکلے

یہ عدن، یمن ہی کا ایک شہر ہے

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ( جو یہود کے بڑے عالم تھے ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( مدینہ ) تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے ۔ وہ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے ایسی تین چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں ، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔(ان تینوں میں سے پہلا سوال یہ تھا کہ)

فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ

بتلا ئیے ! قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی کیا ہے ؟

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا

أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنْ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ

(بخاری ،كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ}4480)

قیامت کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہوگی جوانسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کرلائے گی ۔