راست گوئی کی ترغیب

الحمد لله رب العالمين، أثنى على عباده الصادقين، وأعد لهم بإيمانهم وصدقهم الفوز العظيم، أحمده سبحانه حمد من خافه ورجاه، وأشكره شكر معترف له بنعماء، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الصادق الأمين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد، وعلى آله وصحبه الذين أثنى الله عليهم بالصدق ووصفهم به، والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين:
تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ جس نے اپنے سچے بندوں کی تعریف فرمائی ہے۔ اور ان کے ایمان وراست بازی کے بدلہ ان کے لئے عظیم انعام تیار کر رکھا ہے۔ میں اللہ سبحانہ کی تعریف اس بندے مومن کی حیثیت سے کرتا ہوں جو اس سے ڈرتا اور اس کی رحمتوں کی امید رکھتا ہو اور اس بند و جیسا شکر ادا کرتا ہوں جو اس کی نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوا سجدہ شکر ادا کرتا ہو اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحد ولا شریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے نہایت ہی سچے اور امانت دار بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو درود و سلام نازل فرما اپنے رسول حبیب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کے سچے آل و اصحاب پر اور ان کی کچی پیروی کرنے والے مومنین صادقین پر۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ﴾ (التوبۃ:119)
’’اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور راستبازوں کے ساتھ رہو۔‘‘
اس آیت کے اندر اللہ تعالی ایک حکم دے رہا ہے، لیکن اپنے ان بندوں کو جن پر پندو موعظمت اثر کرتی اور جن کو نصیحت فائدہ پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالی انہیں تقوی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ جو اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچانے والا ہے۔ مگر یہ تقوی اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے۔ جب اس کے احکام و اوامر کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب کیا جائے۔
تقوی در حقیقت اللہ کے عذاب سے بچانے والی ایک ڈھال ہے۔ ابدی سعادت ہے۔ دنیاو آخرت کی بھلائی و کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿اتَّقُوا اللهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ﴾ کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور راستبازوں کے ساتھ رہو۔ یعنی ایمان میں، ہجرت و جہاد میں، قول و فعل میں عہد و پیمان میں زندگی کے معاملات میں اور ظاہر و پوشیدہ تمام حالات میں راستبازوں کے ساتھ رہو اور انہیں کے اخلاق و آداب اپناؤ۔
اللہ کے بندو! سچائی وراستبازی ایک ایسا وصف ہے۔ جو فرد و جماعت کی خیر اور بھلائی سے تمام اخلاق میں سب سے زیادہ ہم آہنگ سماج کی اصلاح میں سب سے موثر اور معاشرہ کے نظام کو برقرار رکھنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ راستبازی ایک نفس کے لئے بہت بڑی فضیلت اور اس سے تہی دامنی بڑی رزالت کی بات ہے۔ راستبازی ایمان کی نشانی پاکیزگی نفس کی علامت اور صفائی دل کی دلیل ہے۔ راستبازی عمدہ صفات اور بلند اخلاق کا طغرائے امتیاز ہے۔ راستباز سے اللہ بھی محبت رکھتا ہے۔ اور اللہ کے مومن بندے بھی خوش رہتے ہیں۔
جو راستباز ہوتا ہے۔ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔ اگر وہ عالم ہے۔ تو اس کے علم سے فائدہ اٹھاتے اور اس کی عزت کرتے ہیں، اگر تاجر ہے۔ تو اس پر اعتماد رکھتے اور اس کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ اور اگر طبیب ہے۔ تو اس کی جانب رجوع کرتے اور اس سے صلاح و مشورہ لیتے ہیں۔ غرضیکہ سچائی در استبازی میں ہر طرح کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ اس میں ایک عالم کی فلاح بھی ہے۔ اور کار دیگر کی کامیابی بھی ایک تاجر کا فائدہ بھی ہے۔ اور لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ بھی اور اس کے ذریعہ معاشرہ میں باہم الفت و محبت کا رشتہ بھی مضبوط ہو سکتا ہے۔ لیکن انسان کے اندر سے جب راستبازی کی یہی خوبی ختم ہو جاتی ہے۔ اور جھوٹ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ تو اس کے نتیجہ میں نفاق، دھوکہ، فریب ریاکاری، غداری، وعدہ خلافی اور اسی قسم کی دوسری برائیاں جہنم لیتی ہیں۔ اور پورا معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جھوٹ کے انجام بد سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
﴿مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۝۱۸﴾ (ق:18)
’’کوئی بات انسان کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔‘‘
اسی طرح بغیر علم کے کوئی بات کہنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا﴾ (الاسراء: 36)
’’جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (اعضاء و جوارح) سے ضرور باز پرس ہو گی۔‘‘
ساتھ ہی اللہ تعالی نے یہ بھی بیان کر دیا ہے۔ کہ جھوٹ بولنا منافقوں کی خصلت ہے۔ فرمایا:
﴿وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَكَاذِبُوْنَ﴾ (المنافقون:1)
’’اللہ شہادت دیتا ہے۔ کہ بیشک منافقین جھوتے ہیں۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اوتمن خان)[صیح بخاری: کتاب الایمان، باب علامة المنافق (33) و صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب بیان خصال المنافق(59)
’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے اور جب امانت سونپی جائے تو خیانت کرے۔‘‘
مسلمان بھائیو! جھوٹ جس کے بارے میں گھڑا جاتا ہے۔ اس کی عظمت کی اعتبار سے جھوٹ اور اس کا گناہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ اگر اللہ تعالی پر کسی قسم کا جھوٹ باندھا گیا تو یہ سب سے عظیم گناہ اور سب سے بڑا ظلم ہے۔ جسے اللہ تعالی نے شرک کے ساتھ بیان کیا ہے۔ فرمایا!
﴿وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۳۳﴾ (الاعراف: 33)
’’اس کو بھی اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللهِ كَذِبًا﴾ (العنكبوت: 68)
’’اس سے بڑا ظالم کون ہے۔ جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے۔‘‘
اللہ پر جھوٹ باندھنے کے بعد انجام بد کے اعتبار سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ باندھنے کا نمبر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار) [صحیح بخاری: کتاب العلم، باب اثم من كذب علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم (110) صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب التثبت في الحديث (2493)]
’’جس نے بالقصد مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘
نیز ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ بولنے کی ترغیب دیتے ہوئے اور جھوٹ کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
(عليكم بالصدق، فإن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وما يزال الرجل يصدق، ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا، وإياكم والكذب، فإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وما يزال العبد يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذاباً) [صحیح مسلم: کتاب البر والصلة، باب قبح الكذب و حسن الصدق (2607) و مسند احمد: 384/1 (3638)]
’’سچ کو لازم پکڑو کیونکہ سچ بھلائی کی راہ دکھاتا ہے۔ اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی ہمیشہ سچ بولتا اور سچ کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق (سچ بولنے والا) لکھ دیا جاتا ہے۔ اور دیکھو جھوٹ بولنے سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہ کی جانب لے جاتا ہے۔ اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ بندے برابر جھوٹ بولتا اور جھوٹ کے پیچھے لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب (بہت جھوٹ بولنے والا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(إذا كذب العبد تباعد عنه الملك ميلاً من نتن ماجاء به) [جامع ترمذی: ابواب البر، باب ما جاء في الصدق والكذب (1972)]
’’بندہ جب جھوٹ بولتا ہے۔ تو اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتے میل بھر اس سے دور چلے جاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح حضرت بنر بن حکیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
(ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك به القوم، ويل له، ويل له) [مسند احمد:5/5 (20075) و جامع ترمذی: ابواب الزهد، باب فی من تكلم بكلمة يضحك بها الناس (2315)]
’’تباہی ہے۔ اس شخص کے لئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے کوئی بات کے تو جھوٹ بولے۔ تباہی ہے۔ ایسے شخص کے لئے تباہی ہے۔ ایسے شخص کے لئے۔‘‘
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو سچ کو لازم پکڑو یہیں ہر خیر کا ذریعہ اور اللہ کی رضا و خوشنودی کا راستہ ہے، جھوٹ بولنے سے بچھو کیونکہ جھوٹ ہر برائی کی جڑ اور اللہ کے غیظ و غضب اور جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَی اللّٰهِ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ ؕ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًی لِّلْكٰفِرِیْنَ۝۳۲ وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۳۳ لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ؕ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِیْنَۚۖ۝۳۴ لِیُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۳۵﴾ (الزمر: 32تا 35)
’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے۔ جو اللہ پر جھوٹ بولے اور بچی بات جب اس کے پاس پہنچ جائے تو اسے جھٹلائے کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں۔ اور جو شخص کچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں۔ وہ جو چاہیں گے ان کے پروردگار کے پاس موجود ہے۔ نیکو کاروں کا کہیں بدلہ ہے۔ تاکہ اللہ ان سے برائیوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے اور نیک کاموں کا جو وہ کرتے رہے ان کو نہایت اچھا بدلہ دے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم.
خطبه ثانیه
الحمد لله الذي أوضح لعباده طريق الأبرار، وحذرهم سلوك طريق الفجار، أحمده سبحانه على كل حال، وأعوذ به من أحوال أهل النار. وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، إمام الصادقين وقدوة المتقين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه أهل الصدق والوفاء. والتابعين لهم بإحسان إلى يوم الدين.
ہر قسم کی حمد وثنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ جس نے اپنے بندوں کو نکو کاروں کی راہ دکھائی اور بدکاروں کے راستہ پر چلنے سے ڈرایا میں ہر حال میں اس اللہ سبحانہ کی تعریف کرتا اور اس کی ذات کے ذریعہ اہل جہنم کے احوال سے پناہ مانگتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جو راستبازوں کے امام اور متقیوں کے پیشوا ہیں۔ اللہ کا بے شمار درود و سلام نازل ہو اس کے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کے سچے اور وفاشعار آل واصحاب پر اور ان کے نقش قدم کی سچی پیروی کرنے والے مومنین پر۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس کے احکام و اوامر کی تعمیل کرو، منہیات سے بچو اور یہ جان لو کہ سچ بولنا اسلام کی تکمیل ہے۔ راستبازی ایمان کی نشانی، شجاعت نفس کی علامت اور عزم کی بلندی کی دلیل ہے۔ اس کے بر خلاف جھوٹ ضعف اسلام کی علامت، نفس کی ذلت و بزدلی کی نشانی اور ایمان و استقامت کی کمزوری کی دلیل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب)[مسند احمد: 252/5 (22232)]
’’مومن کے اندر ہر عادت پیدا ہو سکتی ہے۔ سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔‘‘
نیز امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی موطا کے اندر مرسلا روایت کیا ہے:
(قیل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أيكون المؤمن جباناً؟ فقال: نعم، فقيل له: أيكون المؤمن بخيلاً؟ فقال: نعم، فقيل له أيكون المؤمن كذاباً؟ فقال: لا) [موطا امام مالک: کتاب الکلام، باب ما جاء في الصدق والکذب (19)]
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں پوچھا گیا کہ مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر پوچھا گیا کہ مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔