رمضان المبارک اور قربت الہی کے ذرائع

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقره:183)
اللہ تعالی نے اپنے مؤمن بندوں کے لیے اپنی بے شمار نعمتوں میں سے رمضان المبارک کی صورت میں جو ایک عظیم نعمت مقرر فرما رکھی ہے دنیا بھر میں آج کل مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس کی برکتوں سے مستفید ہونے اور اس کی سعادتوں کو سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
اس جذبے اور شوق کو برقرار رکھنے بلکہ دوبالا کرنے کے لیے ہمیں قرآن وحدیث کے چند و نصائح اور مواعظہ حسنہ کو پھر سے ذہن میں تازہ کرنا اور سلف صالحین کی پاکیزہ زندگیوں کے ایمان افروز واقعات کو سننا اور سنانا ہوگا۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کے روزوں کی قبولیت کی بلکہ کسی بھی عمل کی قبولیت کی بنیادی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہو۔
متعدد آیات واحادیث میں نیت کی درستی اور اس کے شرط لازم ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے، جیسا کہ آپ نے بار با سن رکھا ہوگا۔
رمضان المبارک کی برکتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کے لیے نیت کی درستی کے ذکر کرنے کے بعد چند اعمال صالحہ کا ذکر کرتے ہیں کہ جو اللہ کے فضل و کرم سے تقوی اور قرب الہی کے حصول اور مغفرت ذنوب اور جہنم سے خلاصی کا اک ذریعہ اور سبب بن جاتے ہیں۔ تو سب سے پہلا عمل نماز با جماعت کی پابندی اور اہتمام ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۝﴾ (النساء:103)
’’ یقینًا نماز اہل ایمان پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔‘‘
نمازوں میں سستی تو عام دنوں میں بھی قابل قبول نہیں ہے کہ نمازوں میں سستی کرنے والوں کا قرآن وحدیث میں بڑا خوفناک اور بھیانک انجام بتلایا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ﴾ ( الماعون:4)
’’ویل اور تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے ۔‘‘
﴿اَلَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ﴾ (الماعون:5)
’’جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔‘‘
یعنی نماز پڑھتے تو ہیں مگر اس کا اہتمام نہیں کرتے، اگر کسی کام میں مصروف ہوں یا گپ شپ میں مصروف ہوں تو نماز کے وقت کو ٹالتے رہتے ہیں، پھر جب وقت بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتے ہیں اور وہ بھی جب نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو بے ولی کے ساتھ اٹھتے ہیں اور اس طرز عمل کو قرآن پاک میں منافقین کی صفت بتلایا میں منافقین کی گیا ہے۔
﴿ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰی ۙ﴾ (النساء:142)
’’وہ جب نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے ، بے دلی کے ساتھ اٹھتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح نمازوں میں سستی کے مفہوم میں نماز کے رکوع و سجود اور قیام وقعود کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا نہ کرنا بھی شامل ہے۔
تو نمازوں میں سستی کر کے رمضان المبارک سے مستفید ہونے کا خیال محض خام خیالی ہے اور جو لوگ سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں ، صرف صبح سے شام تک کھانے پینے سے باز رہنے کو روزہ سمجھتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ وہ اپنےعمل سے اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
تو رمضان المبارک سے بھی صحیح معنوں میں مستفید ہونے کے لیے خلوص نیت کے بعد سب سے پہلا اور بنیادی کام نماز با جماعت کی پابندی کرنا ہے اور نماز با جماعت کے ضمنی فوائد میں سے ایک بات ذکر کرتے چلیں حدیث میں ہے کہ:
((مَنْ صَلَّى لِلهِ أَرْبَعِينَ يَوْماً يُدْرِكُ التَّكْبِيرَة الأُولَى كُتِبَ بَرَأَتَانِ ، بَرَاءةٌ مِنَ النَّارِ وَ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ)) (ترمذي:241)
’’ جس نے چالیس دن خالص اللہ تعالی کے لیے تکبیر اولی کے ساتھ نماز پڑھی ، اس کے لیے دو براء میں لکھ دی جاتی ہیں: آگ سے براءت اور نفاق سے براءت ‘‘
اسی طرح رمضان المبارک میں خصوصی توجہ کے حامل اعمال صالحہ میں سے ایک عمل قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ رمضان المبارک اور قرآن پاک کا آپس میں اک خاص تعلق ہے اور وہ یہ کہ اس مبارک مہینے میں قرآن پاک کا نزول ہوا ہے اور رمضان المبارک میں آپ ﷺکثرت سے تلاوت قرآن پاک اور انفاق فی سبیل اللہ فرماتے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((كَانَ رَسُولُ اللهِ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي شَهْرٍ رَمَضَانَ))
’’آپ ﷺلوگوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے میں عام لوگوں سے زیادہ تھی تھے لیکن رمضان میں اور بھی زیادہ تھی ہو جاتے ۔‘‘
((إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ سَنَةٍ فِي رَمَضَانَ حَتَّى يَنسَلِخَ ، فَيَعْرِضُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ القُرآنَ))
’’جبریل علیہ السلام ہر سال ، رمضان میں آپ علیم سے ملاقات کرتے رمضان ختم ہونے تک اور آپ ﷺانہیں قرآن مجید سناتے ۔‘‘
((فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ أَجُودَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ)) (مسلم:2308)
’’جب جبریل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لاتے تو آپ ﷺ کی سخاوت تیز ہواؤں سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ
((كَانَ يَعْرِضُ عَلَى النَّبِيِّ الْقُرْآنَ كُلَّ عَامِ مَرَّةً فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ)) (بخاري: 4998)
’’جبریل علیہ السلام آپﷺ کے سامنے ہر سال ایک بار قرآن پیش کرتے، جس سال آپ ﷺ نے وفات پائی اس سال آپ کے سامنے دو بار قرآن پاک ختم کیا گیا۔‘‘
اور قرآن پاک کا رمضان المبارک کے ساتھ تعلق یوں بھی ہے کہ ایک حدیث میں ان دونوں کی فضیلت کا یوں ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانَ لِلْعَبْدِ يَومَ القِيامَةِ))
’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے ۔‘‘
((يَقُولُ الصِّيَامُ رَبِّ إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ))
’’روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔‘‘
((وَيَقُولُ الْقُرآنُ: رَبِّ مَنعَتُهُ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ))
’’اور قرآن کہے گا: اے میرے رب ! میں نے اس بندے کو رات سونے سے روکے رکھا، یعنی راتوں کو جاگ کر میری تلاوت کرتا ، لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما‘‘
((قَالَ فَيُشَفَّعَان)) (صحيح الترغيب:1429)
’’فرمایا: پس دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی ۔‘‘
اور عام راتوں میں تہجد کی نماز میں آپ سکیم کو قرآن پاک کی تلاوت کا خصوصی حکم ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۝ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۝ نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًاۙ۝اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ۝﴾ (المزمل (1 تا 4)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ پڑھ لو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘
تو جب عام راتوں میں قرآن پاک کی تلاوت کا یہ حکم ہے تو رمضان المبارک میں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
چنانچه صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور محدثین و فقہاء یہ رمضان المبارک میں تلاوت قرآن پاک کو خاص اہمیت دیتے اور بعض تو اس حد تک قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے کہ وہ رمضان المبارک میں ساتھ بار قرآن پاک ختم کرتے ۔ ( تاریخ دمشق ، ج 51، ص392)
تو رمضان المبارک کی برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے خلوص نیت ، نماز با جماعت کی پابندی اور تلاوت قرآن پاک کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات کا بھی خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ صدقہ و خیرات کی فضیلت اور اس کے اجر و ثواب کے بارے میں آپ نے بہت کچھ سن رکھا ہوگا، آئے ایک بار پھر وہ فضیلتیں ذہنوں میں تازہ کر لیں، ایک حدیث ہم نے ابھی سنی کہ آپﷺ رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ سخاوت فرمایا کرتے تھے۔
ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
(كُلُّ امْرِيءٍ فِي ظَلِّ صَدَقَتِهِ حَتّٰى يُفْصَلَ بَيْنَ النَّاسِ))(ابن حبان:3310)
’’قیامت کے دن ہر آدمی اپنے صدقے کے سایہ میں ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان معاملات نمٹا دیئے جائیں، فیصلے کر دیئے جائیں ۔‘‘
ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا))
’’جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کے باہر کا منظر اندر سے اور اندر کا منظر باہر سے دیکھا جا سکے گا ۔‘‘
((فَقَامَ أَعرابيٌّ فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟))
’’ایک بدو کھڑا ہوا اور عرض کیا وہ بالا خانے کن لوگوں کے لیے ہوں گے اے اللہ کے رسول ﷺ !
((قَالَ لِمَنْ أَطَابَ الكَلامَ ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ ، وَأَدَامَ الصَّيَامَ ، وَصَلَّى بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ)) (ترمذی: 1984)
’’فرمایا: اس شخص کے لیے جس نے اچھی گفتگو کی ، لوگوں کو کھانا کھلایا، روزوں پر ہمیشگی کی اور راتوں میں نماز پڑھی جب کہ لوگ سورہے ہوتے ہیں ۔‘‘
اور ایسے ہی ایک حدیث میں ہے کہ:
(وَالصَّدَقَةُ تطفيء الخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِي الْمَاءُ النَّارَ)) (ترمذي:2616)
’’صدقہ گناہ کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔‘‘
اور صدقے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ ہے کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلایا جائے، اس کا اجر و ثواب آپ کو معلوم ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ فَطَرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَثَلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنقُصُ مِنْ أَجْرٍ الصَّائِمِ شيئًا)) (ترمذي:807)
’’جس نے کسی روزے دار کا روزہ افطار کروایا اسے اس روزہ دار جیسا اجر ملے گا ، اس کے بغیر کہ روزہ دار کے اجر سے کوئی چیز کم ہو ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ، تَكْشِفُ عَنْهُ كُربةً ، أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَيْنَا، أَوْ تَطْرُدَ عَنْهُ جُوْعًا)) (صحيح الترغيب:2623)
’’اور اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ اعمال: خوشی جو تم کسی مسلمان کے دل میں ڈالو ، اس سے کوئی تنگی تکلیف دور کر دو، اس کی طرف سے قرض ادا کر دو ، یا اس کی بھوک مٹادو ۔‘‘
اور اس نیکی کی بالخصوص آج کل ضرورت بھی ہے، ہم اپنے گردو پیش پر نظر ڈالیں تو ہر شخص کو اپنے اپنے خاندان کے ایسے بہت سے ضرورت مند، مجبور و بے بس اور مقروض افراد نظر آئیں گے کہ جنہیں ان کے تعاون کی ضرورت ہے، اور وہ ان اصحاب حیثیت کی طرف سے خوشی اور مسرت کی خبر سننے کے منتظر ہیں۔
ان کا وقت تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائے گا مگر آپ ایک سنہری موقع ضرور ضائع کر دیں گے، اس لیے کھلے دل سے نیک نیتی کے ساتھ ان کا تعاون کریں اور صدقہ کرتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور ان پر احسان جتلا کر اپنا اجر ضائع نہ کر لینا۔
اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ آپ ان کا تعاون کر کے ان پر کوئی احسان نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ حدیث میں ہے، آپ کا اقدام نے فرمایا: ((إِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ)) (النسائي:3179)
’’تمہیں صرف تمہارے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا اور مدد کی جاتی ہے۔‘‘
تو جن کی وجہ سے رزق ملے، انہی کو نظر انداز کر دیں، بہت بڑا امتحان ہے اور نا انصافی ہے، اس لیے صدقہ کرتے وقت اللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ اس نے صدقہ دینے والا بنایا ہے، ہاتھ پھیلانے والا نہیں ، صدقہ و خیرات کے اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ اس کے حسی فوائد بھی ہیں، صدقہ و خیرات کرنے سے مصیبتیں ملتی ہیں، پریشانیاں دور ہوتی ہیں، بیماریاں ختم ہوتی ہیں۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((دَاوُوْا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ)) (صحيح الترغيب:833)
’’اپنے مریضوں کا صدقے سے علاج کرو۔‘‘
یعنی صدقہ کرنے سے بیماریاں دور ہوتی ہیں ہیں۔
ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جن میں صدقہ کرنے سے صدقہ کرنے والوں کی بیماریاں اور پریشانیاں دور ہوئیں۔
اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((فَإِنَّ لِلصَّدَقَةِ تَأْثِيرًا عَجِيبًا فِي دَفْعِ أَنْوَاعِ البَلَاءِ))
’’طرح طرح کی آزمائیں اور مصیبتیں دور کرنے میں صدقہ اک بہت ہی عجیب اثر رکھتا ہے۔‘‘
((وَلَوْ كَانَتْ مِنْ فَاجِرٍ أَوْ ظَالِمٍ بَلْ مِنْ كَافِرٍ)) (الوابل الصيب من الكلم الطيب ، ص:31)
’’اور صدقہ چاہے کسی فاجر ظالم بلکہ کسی کافر کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
اور فرمایا:

((وَإِذَا كَانَ اللهُ تَعَالَى قَدْ غَفَرَ لِمَنْ سَقَى كَلْبَاً عَلَى شِدَّةٍ ظَمَئِهِ فَكَيْفَ بِمَنْ سَقَى الْعُطَاشِ وَكَمَا الْعُرَاةَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (عمدة الصابرين وذخيرة الشاكرين ، ص:253)
’’جب اللہ تعالی نے ایک شدید پیاسے کتے کو پانی پلانے والے کو بخش دیا تو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلانے اور کسی بے لباس مسلمان کو لباس پہنانے والے کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔‘‘
چنانچہ صدقے کی بہت ترغیب دی گئی ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی ہے ، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((يَا ابْنَ آدَمَ أَنْفِقْ أُنْفِقُ عَلَيْكَ)) (مسلم:993)
’’اے ابن آدم (اللہ تعالی کی راہ میں) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا ۔‘‘
صدقہ کی ترغیب و تاکید، فضیلت اور اجر و ثواب میں سننے سنانے کو تو بہت کچھ ہے، مگر یہاں صرف اک اشارہ کرنا ہی مقصود تھا کہ صدقہ کرنے سے دنیا و آخرت کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
رمضان المبارک سے مستفید ہونے کے لیے کرنے کے کام تو بہت ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے، اس لیے چند خاص خاص اعمال کا ذکر کیا کہ اگر ان پر توجہ دی جائے اور خلوص نیت سے عمل کیا جائے تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کے اہل ہو جائیں اور جن خوش نصیبوں کو اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک میں جہنم سے آزاد کرنے کا فیصلہ فرما رکھا ہے، اس میں ہمارا نام بھی شامل ہو جائے۔
چنانچہ اس سلسلے کی آخری بات عرض کرتا ہوں اور وہ ہے دعاء۔
دعاء کی ضرورت، اس کی فضیلت ، اس کی اہمیت اور اس کے فوائد کے بارے میں بیان کرنے کے لیے تو اک وقت درکار ہوگا، بس اتنا ذہن میں رکھیں کہ دعا کی اہمیت کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا ہے کہ:
((الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ)) (ابو داود:1479)
’’آپ ﷺنے فرمایا: دعاء ہی عبادت ہے۔‘‘
دعاء سے زیادہ عظمت والا کوئی عمل نہیں ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((ليس شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللهِ مِنَ الدُّعَاءِ)) (صحيح الترغيب:1629)
’’اللہ تعالی کے ہاں دعاء سے زیادہ قابل تکریم کوئی عمل نہیں ہے ۔‘‘
اور قرآن پاک میں دعاء کی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
﴿ قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ﴾ (الفرقان:77)
’’کہہ دیجیے کہ اگر تمہاری دعاء نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری ہرگز پرواہ نہ کرتا ۔‘‘
دعاء مانگتے وقت ایک بات ضرور یاد رہے کہ اپنے فوت شدگان کو نہ بھولیں، بالخصوص والدین کو اور والدین زندہ بھی ہوں تو بھی ان کے لیے ضرور دعاء کریں۔ فوت شدہ والدین کے لیے اگر دعاء نہ کی تو بہت احسان فراموشی ہوگی کہ ہمارا وجود جن کے مرہون منت ہے، جن کے سبب ہم دنیا میں آئے ہیں، جنہوں نے دن رات ایک کر کے، مشقت اور محبت سے ہمیں پالا اور پوسا، آج دنیا کی رونقوں میں کھو کر ہم انہیں نظر انداز کر دیں بہت خود غرضی اور احسان فراموشی ہوگی۔
اور آخر میں ہم سب کے لیے دعوت غور و فکر ہے کہ اگر اس مبارک مہینے میں بھی ان نیکیوں کی توفیق نہیں ہوتی تو پھر مقام غور ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ بات بہت واضح ہے کہ یہ قسوت قلبی کی علامت ہے، دل سخت ہونے کی اور بدبختی کی علامت ہے۔ اللہ تعالی ہمیں رمضان المبارک سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ، اور بدبختی سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……….