رمضان المبارک کے بعد یک بیک ہمارا رویہ کیوں تبدیل ہو گیا

﴿وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (البقره:185)
’’اور تاکہ تم گنتی پوری کراو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
اللہ تعالی کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ پانے اور اُس کے روزوں کی تعداد پوری کرنے کی توفیق اور مہات عطا فرمائی ، اس پر جتنا بھی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے کم ہے، یوں تو اللہ تعالی کی ہر نعمت پر اس کا شکر لازم ٹھہرتا ہے۔ مگر اللہ تعالی اس حوالے سے بالخصوص اہل ایمان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اُس کی دی ہوئی توفیق و ہدایت پر اس کی بزرگی ، عظمت اور کبریائی کا اظہار و اعتراف کریں اور اس کا شکر بجالائیں۔ نیک کاموں پر اللہ تعالی کی توفیق و ہدایت کتنی بڑی نعمت ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس پر اپنی عظمت و کبریائی کا اظہار و اعتراف کرنے اور ذکر کرنے کا حکم دیتے ہیں اور ایسا ہی حکم حج کے موقعے پر بھی دیا جبکہ فرمایا:
﴿فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا﴾(البقره:200)
’’پھر جب تم حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔‘‘
اسی طرح حج کے بعض ارکان کا مستقلا ذکر کر کے بھی اللہ تعالی نے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالٰی اہل ایمان سے جس نعمت پر جس توفیق و ہدایت پر اپنی کبریائی کا اظہار اعتراف اور شکر کرنے کا حکم دے رہا ہے، ظاہر ہے وہ اس توقع پر ہے کہ اہل ایمان اُس نعمت کو نعمت سمجھتے ہیں اور اس کی قدردانی کرتے ہیں، ورنہ جو آدمی کسی نعمت کو نعمت ہی نہیں سمجھتا وہ اس کی قدردانی کیا کرے گا اور اس پر شکر کیا ادا کرے گا، اور اس سے توقع کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اللہ تعالی کی خواہش اور توقع پر پورا اترتے ہوئے اس نعمت اور اس توفیق و ہدایت کو ایک نعمت سمجھتے ہیں اور اس کی قدردانی کرتے ہیں؟ اگر قدردانی کرتے ہیں تو پھر یقینًا ہم نے رمضان المبارک میں اس سے استفادہ بھی کیا ہوگا اور پھر اللہ تعالی کی دی ہوئی اس توفیق پر دل میں جذبہ شکر و احسان مندی بھی پیدا ہوا ہوگا تو پھر ہمیں اس کی کبریائی کا اظہار بھی کرنا چاہیے اور اس کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور اس سے اجر و ثواب کی امید بھی رکھنا چاہیے، اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر ہمیں تو بہ واستغفار کرنا چاہیے
اور تلافی مافات کی کوشش کرنی چاہیے۔
مگر یہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم نے رمضان المبارک کو ایک نعمت عظمی سمجھتے ہوئے اس سے استفادہ کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے، یا اسے نظر انداز کر کے اپنے دنیا کے کاموں میں مصروف رہے ہیں؟
یوں تو ہر شخص کو اپنے بارے میں ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙ۝۱۴
وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ۝۱۵﴾
(القيامة:14۔15)
’’انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذر تمیں پیش کرے۔‘‘
اپنے آپ کو جاننے کے لیے انسان اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے بتائے کہ وہ کیا ہے، آدمی اپنی اصلیت چھپانے کے لیے دنیا بھر کو دھوکہ دے سکتا ہے طرح طرح کے حیلے بہانے، حجتیں اور معذرتیں پیش کرتے ہوئے ، مگر خود کو تو اسے خوب خوب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔
تاہم پھر بھی اگر کوئی شخص اپنی مزید تسلی کے لیے کوئی دوسری رائے جاننا چاہے تو وہ اس اصول پر غور کر کے اپنی حقیقت معلوم کر سکتا ہے۔ کہ کسی نیکی کی توفیق اور نعمت کی قدردانی کرنے سے مزید نیکی کی توفیق نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:
((من جزاء الحسنة، الحسنة بعدها))
’’نیکی کا بدلہ، اس کے بعد مزید نیکی کی توفیق ہوتا ہے۔‘‘
اور اسی طرح ((من عقوبة السيئة، السيئة بعدها))
’’گناہ کی سزا، اس کے بعد ایک اور گناہ میں ملوث ہونا ہوتا ہے۔‘‘
اس قاعدے کی روشنی میں اگر ہم اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیں اور جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں حقیقت حال معلوم ہو سکتی ہے، کہ اگر تو ہم نے رمضان المبارک سے مستفید ہونے کی کوشش کی ہو تو رمضان کے بعد ہمیں مزید نیک کاموں کی توفیق نصیب ہوگی۔
لیکن اگر ہم نے رمضان المبارک کو اہمیت نہ دی ہو گی بلکہ دنیا داری میں مصروف رہے ہوں گے تو رمضان المبارک کے بعد بھی کوئی نیکی کی توفیق نہیں ملنے والی، کیونکہ اللہ تعالی کی پیشکش اور اس کی نعمت کو ٹھکرایا ہے۔ مجموعی طور پر تو ہمیں اس کا واضح منفی فرق نظر آ رہا ہے کہ مسجد میں جو رمضان المبارک میں نمازیوں سے بھری ہوتی تھیں وہ آج خالی نظر آتی ہیں۔
انفرادی طور پر ہر شخص اپنے بارے میں بہتر جان سکتا ہے کہ اس کی ایمانی حالت کیا ہے مگر کیوں ہے، اس کا جواب جاننے کے لیے اسے کسی اسپیشلسٹ کے پاس جانا ہوگا، جو اگردلوں کے روحانی امراض کے علاج کے ماہر ہوں۔ لیکن اگر وہ خود بھی سچے دل سے اس کا سبب جاننا چاہے تا کہ اپنی اصلاح کر سکے تو اسے اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی مدد حاصل ہو سکتی ہے کہ اس کے دل میں نیکی کی رغبت پیدا ہو جائے تاہم علما ء کرام نے قرآن وحدیث میں خوب غور و خوض کرنے کے بعد جو اصول و قواعد مرتب کیے ہیں، ان سے ہمارے لیے مزید آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ پورا رمضان مسجدوں میں ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن پاک میں گزارنے کے بعد رمضان ختم ہوتے ہی ہماری یہ حالت ہونا کہ ہم فرائض کی ادائیگی سے بھی محروم ہو گئے ، اس کا سبب یہ ہے رمضان المبارک میں ہم کچی تو بہ کے ساتھ داخل نہیں ہوئے تھے۔ سچی تو بہ کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ پر دل سے شرمندہ ہو، اور اگر توبہ دل کی یہ کیفیت نہ ہو تو وہ بچی تو بہ شمار نہ ہوگی۔ جیسا کہ تو بہ کے بعد اگر اس کی یہ کیفیت ہو کہ جب گناہ یاد آئے تو وہ اس کی لذت محسوس کرے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ محض زبان سے تو یہ کر رہا ہے ، دل سے نہیں ۔ لہذا ہم میں سے ہر شخص کے لیے با عموم اور ان لوگوں کے لیے بالخصوص یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جن کی ایمانی حالت رمضان المبارک کے بعد ایکا ایک گرگئی اور وہ ان تمام نیک کاموں سے دستبردار ہو گئے جو وہ رمضان المبارک میں کیا کرتے تھے۔
یہ ایک نہایت ہی خطرناک صورت حال ہے، یہ اللہ کی ناراضی اور اس کے مخضب اور تحصے کی علامت ہے اور ہماری عبادتیں ہمارے منہ پر مارے جانے کی علامت ہے کہ لے جاؤ اپنی عباد میں اپنے پاس ہی رکھو! مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت بشر الحافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
((بِئْسَ الْقَوْمُ قَوْمٌ لا يَعْرِفُونَ لِلَّهِ حَقًّا إِلَّا فِي رَمَضَانَ)) (للطائف المعارف لابن رجب:222)
’’وہ لوگ بہت برے لوگ ہیں جو صرف رمضان میں ہی اللہ کا حق جانتے ہیں ۔‘‘
رمضان المبارک جو کہ تزکیہ و تربیت کا مہینہ تھا، اس میں آدمی کی ایمانی حالت اگر بہتر نہیں ہوتی تو اگرچہ اس میں کمی نہ بھی ہوئی ہو تو کی ہی متصور ہوگی ، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ: ((من لم يكن في زيادة فهو في نقصان))
’’جس کے ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا اس میں کمی ہوتی ہے ۔‘‘
اس حقیقت کو لوگ مالی معاملات میں تو خوب سمجھتے ہیں کہ جس دن کا روبار میں منافع نہ ہوا ہو تو اس کو گھاٹا تصور کیا جاتا ہے ، مگر ایمان میں اضافے کو چونکہ سرے سے کوئی پونچھی اور سرمایہ سمجھا ہی نہیں جاتا ، اس لیے اس کے نقصان کا احساس بھی نہیں ہوتا ، جبکہ یہ کیفیت نہایت ہی خطرناک کیفیت ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالی سے اعراض کرتا ہے، اور اعراض خطر ناک اس لیے ہے کہ وہ حجت تمام ہونے کے بعد اور حقیقت حال معلوم ہو جانے کے بعد ہوتا ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ۝۴﴾(الانعام:4)
’’ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے پاس آئی ہو اور انہوں نے منہ نہ موڑا ہو۔‘
اور پھر اس اعراض کا انجام اور نقصان یہ بتلایا گیا ہے کہ:
﴿فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۝۴۹﴾(المائدة:49)
’’پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں، تو جان لو کہ اللہ تعالی نے ان کے بعض گنا ہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے ۔‘‘
لہذا ہمیں اپنی حالت پر بہت زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ موت ایک حقیقت ہے ، موت کا ایک وقت مقرر ہے اور اس کی ایک جگہ مقرر ہے۔
موت کب آئے گی اور کہاں آئے گی، یہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کو جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے، البتہ یاد رکھنے کی نہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے، لیکن موت کے بارے میں جو بات جاننے کی ہے وہ یہ ہے کہ کس حال میں آئے گی؟ یعنی فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔
اگر چہ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ کسی کو موت کسی حال میں آئے گی لیکن کچھ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے اور کوشش کی جاسکتی ہے کہ موت اس حال میں آئے جو انسان کی نجات کا باعث ہو۔ اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ آدمی کا خاتمہ کسی حالت پر ہوتا ہے، کیونکہ جس حالت پر آدمی کو موت آتی ہے قیامت کے دن اسی حالت پر اٹھایا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں ہے،
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((يُبْعَثُ كُلِّ عَبْدٍ عَلَى مَامَاتَ عَلَيْهِ)) (صحیح مسلم:2878)
’’جو آدمی جس حالت پر فوت ہوتا ہے اس حالت پر اٹھایا جائے گا ۔‘‘
اگر آدمی بے نمازی کی حیثیت سے فوت ہوگا، کہ نماز نہیں پڑھتا تھا، یا نمازوں کا اہتمام نہیں کرتا تھا، کہ جب وقت ملا پڑھ لی تو اسی حالت پر اٹھایا جائے گا۔ اگر آدمی حرام کا روبار کرتے ہوئے فوت ہوا، تو اسی حالت پر اٹھایا جائے گا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً آدمی کو اسی حالت پر موت آتی ہے جو اس کے روز مرہ کے معمولات ہوتے ہیں، بہت کم ایسے ہوتا ہے کہ آدمی روز مرہ کے معمولات کے مطابق تو نیک ہو مگر اچانک کسی گناہ کی حالت پر اسے موت آجائے۔ یا کوئی آدمی گناہ کے کاموں میں اور حرام کاروبار میں زندگی گزارے اور اسے کسی اچھی حالت پر اور تو بہ کی حالت پر موت آجائے۔ البتہ حسن خاتمہ کی کچھ ظاہری علامات ہیں، جنہیں اچھی علامات جان کر حسن ظن کیا جاسکتا ہے اور امید کی جاسکتی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔
((إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا اسْتَعْمَلَهُ))
’’جب اللہ تعالی (اپنے) کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کام لیتا ہے۔‘‘
((فَقِيلَ كَيْفَ يَسْتَعْمِلُه ؟))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: اس سے کیسے کام لیتا ہے ؟‘‘
قَالَ: ((يُوَفِّقُهُ لِعَمَلٍ صَالِحٍ قَبْلَ مَوْتِهِ)) (ترمذي ، كتاب القدر:2142)
’’آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی اسے موت سے پہلے نیک عمل (کرنے) کی توفیق دے دیتا ہے ۔‘‘
لہذا اگر حسن خاتمہ کی فکر ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ نیکی پر مداومت اور پیشگی ہو اور برائی سے اجتناب کیا جائے۔ اور کے خاتمے سے بچنے کی فکر ہونی چاہیے کہ ایسے بہت سے واقعات سننے، دیکھنے اور پڑھنے میں آئے ہیں کہ کسی کو وقت مرگ کلمہ طیبہ کی تلقین کی جاتی تو اس کی زبان پر صرف وہی بات آتی جو اس کا معمول ہوتا ، جیسے: شراب پینا ، گانا گانا، یا حرام کا روبار کرنا وغیرہ۔ موت کو یاد رکھیں اور حسن خاتمہ کی کوشش کرتے رہیں۔ اگر موت کا ذکر بھی کسی کو سیدھا نہیں کر سکتا، اس کا دل نرم نہیں کر سکتا، اسے راہ راست پر نہیں لاسکتا، تو پھر اس کے حسن خاتمہ کے امکانات بہت کم ہیں، ہاں اللہ اگر چاہے تو کسی وقت بھی ہدایت مل سکتی ہے، مگر عموما آدمی کو موت اسی حالت پر آتی ہے جس پر اس کے شب و روز گزرتے ہوں ۔ اور موت تو ایک پہلا مرحلہ ہے آخرت کے مراحل میں سے، اس کے بعد ایک سے ایک شدید اور خطر ناک مراحل پیش آئیں گے۔
قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر یہ ہے کہ ہر آدمی اللہ تعالی کے حضور اکیلا اور تن تنہا ہی پیش ہو گا
﴿وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵﴾ (مريم:95)
’’سب قیامت کے روز فردا فردا اس کے سامنے حاضر ہوں گئے‘‘
قبر میں بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ قبر کا خوفناک منظر آدمی کے دماغ میں جگہ نہیں پاتا، کیونکہ وہ اپنی زندگی میں اپنے دائیں ہا میں بہت رونق دیکھتا ہے، بہت چاہنے والے، خدمت کرنے والے نظر آتے ہیں تو وہ قبر کی تنہائی اور وحشت بھول جاتا ہے، حالانکہ یہ ساری رونق زیادہ سے زیادہ قبرستان تک ہی ہے، اس کے بعد سب سے قریبی رشتہ اولاد کا ہوتا ہے اور اولاد بھی آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی، بلکہ وہ آنسو بھی جدائی کے غم سے بہاتی ہے اور جدائی کا غم ایک حقیقت ہے، مگر یہ غم کسی کو لاحق نہیں ہوتا کہ وہ زندگی میں ہمارے لیے حرام کھاتا رہا ہے، اب وہ اکیلا ہی بھگت رہا ہے اس بات کی کسی کو فکر نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی کچھ کر سکتا ہے۔ لہذا اللہ تعالی ہمیں خبردار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس دن کے مناظر کو اپنی آنکھوں میں بنا کے رکھیں۔
﴿یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ۛۖۚ وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ ۛۚ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًا ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۠۝۳۰﴾(آل عمران:30)
’’وہ دن آنے والا ہے، جب ہر نفس اپنے کئے کا پھل حاضر پائے گا، خواہ اس نے بھلائی کی ہو، یا برائی، اُس روز آدمی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ابھی یہ دن اُس سے بہت دور ہوتا، اللہ ہمیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے، اور وہ اپنے بندوں کا نہایت خیر خواہ ہے۔‘‘ یعنی ڈرانا اور خبردار کرنا خیر خواہی ہے۔
بہر حال نیکیوں کا ایک موسم تو یقینًا ہم سے رخصت ہوا مگر نیکیوں کے دروازے قیامت تک کھلے رہیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں تلافی مافات کی توفیق بخشے اور نیکی اور توبہ و استغفار کے مواقع عطا فرمائے۔ آمین
…………….