رمضان المبارک کی تیاری، اسباب، طریقہ کار اور ثمرات

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقرة:183)
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، اگر چہ ابھی رمضان المبارک کی آمد میں تقریبًا تین ہفتے باقی ہیں مگر اس کی تیاری یقینًا ابھی سے کی جانی چاہیے، کیونکہ جو کام جس قدر بڑا اور اہم ہو اسی قدر اس کی تیاری میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے، عوام و خواص بھی اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، روزمرہ کی زندگی میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی منصوبے کی کامیابی کا ایک بہت بڑا حصہ اس کی تیاری میں ہوتا ہے، بلکہ تیاری اس کا اک لازمی جزو ہوتی ہے۔ اگر آدمی کسی کام کے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر اس کے لیے مناسب تیاری نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں مخلص نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں منافقین کی کہ جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے آپﷺ سے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کی رخصت مانگی، مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً ﴾ ( التوبه:46)
’’ا اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے ۔‘‘
یعنی یہ بہانے تو اب بتا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ شروع سے ہی ان کا جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ نہ تھا اگر ارادہ ہوتا تو کچھ نہ کچھ تیاری تو کی ہوتی۔
اس لیے جو کام آدمی واقعی کرنا چاہتا ہو، اس کے لیے تیاری ضرور کرتا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک کی تیاری کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں رمضان المبارک کی تیاری کیوں کرنی چاہیے، کیسے کرنی چاہیے اور اس کے فوائد کیا ہیں؟
آج کی گفتگو میں انہی باتوں کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے ان شاء اللہ ۔ رمضان المبارک کے لیے ہمیں تیاری اس لیے کرنی چاہیے کہ یہ ایک عظیم اور بابرکت مہینہ ہے، اس مبارک مہینے میں قرآن پاک کا نزول ہوا، اس مبارک مہینے میں ایک ایسی قدرو منزلت والی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، اس مبارک مہینے کی سعادت حاصل کرنے سے جو محروم رہا وہ ہر خیر سے محروم رہا۔ اور روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ تزکیۂ نفس کے لحاظ سے اس جیسی کوئی دوسری عبادت نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
((أَنْشَأَ رَسُولُ اللهِ ﷺ جيشاً، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْعُ الله لِي بِالشَّهَادَةِ، قَالَ: اللّٰهُمَّ سَلَّمْهُمْ وَعَنِّمْهُمْ فَغَزَوْنَا، فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا))
’’آپ ﷺنے ایک لشکر تشکیل فرمایا، میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ! میرے لیے شہادت کی دعا فرمائیے ، آپ ﷺنے فرمایا: اے اللہ انہیں سلامت رکھ اور انہیں مال نقیمت عطا فرما (یعنی غلبہ عطا فرما) پس ہم نے جہاد کیا اور سلامت رہے اور مال غنیمت بھی حال ہوا ۔‘‘
((حَتّٰى ذَكَرَ ذٰلِكَ ثَلَاثًا))
’’ حتی کہ تین بار مختلف مواقع پر انہوں نے دعا کی درخواست کی اور تینوں بار آپ ﷺنے یہی دعا فرمائی ۔‘‘
((قَالَ: ثُمَّ آتَيْتُهُ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ إِنِّي أَتيتك تَتْرَى ثلَاثَ مَرَّاتٍ أَسْأَلُكَ أَنْ تَدْعُو لِي بِالشَّهَادَةِ، فَقُلْتَ اللّٰهُم سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ ، فَسَلِمْنَا وَ غَنِمْنَا يَا رَسُولَ اللهِ))
’’ کہا: میں پھر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول علی ام! میں نے آپ کی خدمت میں متواتر تین بار حاضر ہو کر دعا کی درخواست کی کہ آپ میرے لیے شہادت کی دعا فرمائیے ، مگر آپ نے سلامتی کی اور مال غنیمت کی دعاء فرمائی، اور ہم سلامت بھی رہے اور مال غنیمت بھی حاصل ہوا ۔‘‘
((فَمُرْنِي بِعَمَل أَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ))
’’مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کے ذریعے میں جنت میں داخل ہو جاؤں ۔‘‘
((فَقَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهُ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: روزے رکھا کرو کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے، یعنی اس جیسی کوئی عبادت نہیں ہے ۔‘‘
اس حدیث میں جہاں ہمیں روزے کی فضیلت کا پتا چلتا ہے کہ نفلی روزے جیسی کوئی عبادت نہیں ہے، وہاں رمضان المبارک کے فرض روزوں کی اہمیت کا اندازہ کرج مشکل نہیں رہتا کہ جس کے لیے ہم تیاری کرنے جا رہے ہیں، اگر چہ رمضان المبارک کے فرض روزوں کی اہمیت اور فضیلت الگ سے بھی احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ دوسری چیز اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا نیکی کا جذبہ ہے، کہ ایک طرف وہ پہلے سے اپنی جان تھیلی پر لیے شہادت کی دعاء کی درخواست لے کر حاضر خدمت ہوتے ہیں، وہ عبادات کے جذبے سے بھی سرشار نظر آتے ہیں اور ان کا ذوق و شوق دیدنی ہے اور یہ صرف عبادات کی فضیلت اور اجر و ثواب معلوم کرنے تک محدود نہیں بلکہ عملی طور پر ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ:
((قَالَ فَكَانَ أَبُو أُمَامَةَ لَا يُرَى فِي بَيْتِهِ الدُّخَانُ نَهَارًا، إِلَّا إِذَا نَزَلَ بِهِمْ ضَيْفٌ))
’’اس کے بعد ابو امامہ بھی اللہ کے گھر کا یہ حال تھا کہ ان کے گھر میں دن کے وقت کبھی دھواں اٹھتا نظر نہیں آیا الا یہ کہ گھر میں کوئی مہمان آیا ہو۔‘‘
((فَإِذَا رَأَوُا الدُّخَانَ نَهَارًا عَرَفُوا أَنَّهُ قَدْ اعْتَرَاهُمْ ضَيْفٌ)) (ابن حبان:3425)
’’اور اگر کبھی دن کے وقت دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے گھر کوئی مہمان آیا ہے۔‘‘
تو رمضان المبارک کی تیاری ہمیں اس لیے کرنی چاہیے کہ رمضان المبارک کے روزے اک بہت عظیم اور فضیلت والا عمل ہے اور نیکی کا ایک سنہری موقع ہے۔ اور مواقع غنیمت جاننے کا ہمیں حکم بھی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے
((إِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ))
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو ۔‘‘
((شبابَكَ قَبلَ هَرَمِكَ))
’’اپنی جوانی کو نیمت جانو اپنے بڑھاپے سے پہلے ۔‘‘
(( وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ))
’’اور اپنی صحت و تندرستی کو اپنی بیماری سے پہلے ۔‘‘
((وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ))
’’اپنی تو نگری کو اپنے فقر سے پہلے ۔‘‘
((وَفَراغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ))
’’اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے ۔‘‘
((وَحيَاتكَ قَبْلَ مَوْتِكَ)) (صحيح الترغيب:3355)
’’اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ‘‘
اور یہی دانشمندی بھی ہے، آپ جانتے ہیں کہ جو شخص مواقع ضائع کر دیتا ہے، اس کو عقلمند نہیں کہتے اور مواقع انسان کی زندگی میں عموماً بہت تھوڑے وقت کے لیے آتے ہیں، جیسا کہ جوانی جو بھر پور قوت کا نام ہے، وہ دو کمزوریوں کے درمیان اک پیوند ہے، بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کا اک تھوڑا سا عرصہ ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہے، فرماتے ہیں:
((مَا شَبَّهْتُ الشَّبَابَ إِلَّا بِشَيْءٍ كَانَ فِي كُمِّي فَسَقَطَ)) (قيمة الزمن عند العلماء ، ص:115)
’’میں جوانی کو صرف اس چیز سے تشبیہ دیتا ہوں کہ گویا میرے آستین میں کوئی چیز تھی اور وہ گر گئی۔‘‘
اب آستین پورے لباس میں سے اک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، اس میں یقینًا کوئی چھوٹی اور مختصری چیز ہی سما سکتی ہے۔
تو رمضان المبارک کی تیاری ہمیں اس لیے کرنی چاہیے کہ یہ اک موقع نقیمت ہے اور مواقع کو اپنی اولین فرصت میں نقیمت جاننا چاہیے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ، فَإِنَّهُ قَدْ يَمْرَضُ الْمَرِيضُ، وَتَضِلُّ الضَّالَةَ، وَتَعْرِضُ الحْاَجَةَ)) (ابن ماجة: 2883)
’’جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ جلدی کرے اس لیے کہ کبھی کوئی شخص بیمار بھی ہو سکتا ہے، کوئی چیز گم ہوسکتی ہے اور کوئی ضرورت پیش آسکتی ہے۔‘‘
اس لیے اگر کسی نیک کام کا ارادہ ہو تو اسے اپنی اولین فرصت میں کریں، تاخیر ہرگز نہ کریں، مگر افسوس کہ بہت سے لوگ دو چیزوں میں تو بالخصوص غفلت کا شکار نظر آتے ہیں.
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ )) (بخاری: ٦٤1٢)
’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ صحت اور فراغت‘‘
یہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ پہلے تو عموماً ایک ساتھ اکٹھی نہیں ہوتیں، کہ اگر صحت و تندرستی حاصل ہو تو ضروری نہیں کہ آدمی فارغ البال بھی ہو، کیوں کہ صحت و تندرستی کے زمانے میں آدمی عموماً تلاش معاش میں سرگرداں رہتا ہے، اور اگر فراغت حاصل ہو تو ضروری نہیں کہ وہ صحت مند بھی ہو، عموماً آدمی فارغ اس وقت ہوتا ہے جب وہ بوڑھا ہو گیا ہو، جب اس کے اعضاء و جوارح جواب دے گئے ہوں، یا دو بیماری کی وجہ سے فارغ ہو مگر جن لوگوں کو یہ دونوں نعمتیں بیک وقت حاصل ہوں وہ عموماً اس کی قدر نہیں کرتے، ان سے کام نہیں لیتے۔ انہیں ضائع کر دیتے ہیں، گپ شب میں اور فضولیات میں، کوئی نیکی کا کام کرنے کی انہیں توفیق نہیں ہوتی ۔
جبکہ یہ انسان کی زندگی کا سب سے سنہری موقع ہوتا ہے جب بیک وقت اسے صحت اور فراغت حاصل ہو جائیں ، ان قیمتی لمحات کا ضائع کرنا زندگی کا ضائع کرتا ہے، قیامت کے دن کا فرلوگ جو جہنم میں چیخ چیخ کر کہ رہے ہوں گے:
﴿ وَ هُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ﴾ (فاطر:37)
’’وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال لے تا کہ ہم نیک عمل کریں، ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے، ‘‘
تو انہیں جواب دیا جائے گا۔
﴿ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِیْرُ ؕ﴾ (فاطر:37)
’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا اور تمہارے پاس تنبیہ کرنے والا بھی آچکا تھا۔‘‘
اور دوسری طرف جنہوں نے زندگی کے ان قیمتی لمحات سے استفادہ کیا ہوگا ان سے کہا جائے گا کہ:
﴿ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓـًٔۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ۝﴾( الحاقه:24)
’’مزے سے کھاؤ اور ہیں، ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیسے ہیں ۔‘‘
تو بات ہو رہی تھی کہ ہمیں رمضان المبارک کی تیاری کیوں کرنی چاہیے تو اس کی متعدد وجوہات ہیں اور کئی ایک اسباب ہیں جن کی بناء پر ہمیں رمضان المبارک کی تیاری کرتی چاہیے، جن میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ تیاری کیسے کریں، ہمیں تیاری میں کیا کیا کام کرتے ہوں گے ! تو آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یوں تو رمضان المبارک کے لیے تقریبًا کبھی مسلمان تیاری کرتے ہیں، البتہ ہر ایک کے ہاں تیاری کا اپنا ہی ایک مفہوم ہے، اپنا ہی معیار اور اپنا ہی انداز ہے۔ زیادہ تر لوگ رمضان المبارک کے لیے جو تیاری کرتے ہیں، وہ عموماً کھانے پینے سے متعلق ہی ہوتی ہے کہ مہینے بھر کا راشن گھر میں جمع کر لیتے ہیں، جیسے کھجوریں ہیں، شربت ہے، چاٹ مصالحہ ہے، پکوڑے، سموسے اور دیگر چینی چیزوں کے مصالحہ جات ہیں، پر تکلف باشر کے لیے نئی نئی ریسیز میں (RECIPES) سحری میں پراٹھوں کا اہتمام ہے۔ اور کچھ روزہ کشائی کے نام سے دعوتوں کا اہتمام ہے، ایک دوسرے کو پہلے سے مدعو کر لیتے ہیں اور رمضان المبارک میں ایسی دعوتیں عموماً روحانیت سے خالی ہوتی ہیں، صرف گپ شپ ہوتی ہے اور ایسی دعوتوں میں عمومًا نماز با جماعت کی پرواہ نہیں کی جاتی ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی یہ تیاری اور یہ پروگرامز ہمارے مزاجوں میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ ان کے بغیر روزے پھیکے اور رمضان ادھورا نظر آتا ہے۔
تو حقیقت میں ہمیں رمضان المبارک کے لیے کس طرح تیاری کرنی چاہیے ؟ سب سے پہلے رمضان المبارک کے قیمتی لمحات سے مستفید ہونے کا پروگرام ترتیب دینا ہوگا، اور اس کے لیے ہمیں رمضان المبارک کے لیے ایک خاص وقت مختص کرنا ہوگا، یہ نہیں کہ ہم کام اپنی اسی روٹین کے ساتھ کرتے رہیں، دس سے بارہ گھنٹے روزانہ، اور پھر یہ سمجھیں کہ رمضان المبارک سے مستفید ہو رہے ہیں، یہ سراسر اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اس انداز سے روزے رکھیں گے تو اتنا ضرور ہے کہ فرض تو ادا ہو جاتا ہے مگر روزے فرض کیے جانے کا جو مقصد بتلایا گیا ہے وہ حاصل نہیں ہوتا، اور وہ ہے تقوی۔
﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقره:21)
رمضان المبارک میں سلف صالحین، محدثین و فقہاء ، صحابہ کرام اور خود رسول کریمﷺ کی کیفیت یہ ہوتی کہ ہر نیک عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
((كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُوْنُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ)) (بخاری:4997)
’’آپ ﷺ عام دنوں میں بھی خیر کے کاموں میں سب سے بھی تھے، مگر رمضان المبارک میں تو اور بھی زیادہ سخاوت فرماتے ۔حتی کہ‘‘
((كَانَ أَجُودَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَة)) (بخاري:4997)
’’امور خیر میں تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہوتے ۔
اور پھر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تو اور بھی زیادہ عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے۔
تو رمضان المبارک کے لیے خصوصی وقت نکالیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ رمضان المبارک کی برکتوں سے مستفید ہونے کی کوشش کی ہے، ور نہ رمضان المبارک کے لیے ہماری وہی تیاری متصور ہوگی ، جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ پکوڑا اور سموسہ۔ آخری بات کہ اس تیاری کا فائدہ کیا ہو گا!
تو یوں تیاری سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں، مگر اس وقت صرف ایک فائدے کا ذکر کروں گا اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص صدق دل سے کسی کام کا پختہ ارادہ کرلے اور پھر کسی وجہ سے، کسی مجبوری سے اسے اس کام کی ادائیگی کا موقع نہ ملے تو اس کام کا مکمل اجر اس کے لیے لکھ دیا جاتا ہے۔
غزوہ تبوک کے موقع پر کچھ غریب مسلمان جو اپنے خرچ پر غزوہ میں شریک نہ ہو سکتے تھے، انہوں نے آکر درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ!ہمارے لیے سواری کا انتظام فرمائیے ، تو آپ ﷺنے فرمایا: میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا۔
﴿ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ ۪﴾(التوبه:92)
’’جب انہوں نے آکر درخواست کی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں اور آپ نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا ۔‘‘
﴿ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ﴾ (التوبه:92)
’’اور وہ واپس لوٹ گئے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔‘‘
پھر اس واقعے کو حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ آپ کیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو بتایا کہ:
((إِنَّ بِالْمَدِينَةِ لَرِجَالًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيَا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ)) (مسلم)
’’مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی کوچ نہیں کیا اور کوئی وادی سے نہیں کی جس میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ ہوں۔‘‘
ایک روایت میں ہے، صحابہ نے عرض کیا:
(( وَكَيْفَ يَكُونُونَ مَعَنَا وَهُم بِالْمَدِينَةِ؟))
’’وہ مدینہ میں رہتے ہوئے کسی طرح ہمارے ساتھ ہیں ؟‘‘
((قال:))
’’تو فرمایا:‘‘
((حَبَسَهُمُ الْمَرَضُ))
’’انہیں کسی مجبوری نے روک لیا ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ
((إِلَّا شَرَكُوكُمْ فِي الْأَجْرِ)) (مسلم:1911)
’’وہ اجر میں تمہارے ساتھ شریک ہیں ۔‘‘
تو رمضان المبارک یا کسی بھی نیک عمل کے لیے پیشگی تیاری کے متعدد فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی تعمیل کے درمیان کسی مجبوری کے حائل ہو جانے کی صورت میں آدی پورے ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………..