رمضان میں خوب قرآن پڑھیں

 

رمضان،شهرِ قرآن

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة : 185)

رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی ہررات جبریل علیہ السلام سے مل کر قرآن پڑھا کرتے تھے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے اور رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔

وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ (صحيح البخاري،06)

جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے

رمضان میں قرآن ختم نہ کرنے کی شامت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل امین کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمیں بھی بڑھ چڑھ کر قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے

امام ابن الجوزی رحمه الله فرماتے ہیں :

"اگر کوئی مسلمان رمضان المبارک میں قرآن مجید کو تلاوت کے ساتھ مکمل نہیں کرتا؛ تو وہ پورا سال اِس کو مکمل نہیں کر پائے گا، جب تک کہ اللہ نہ چاہے!”

(صفة الصفوة : 473/2)

روزہ اور قرآن سفارش کریں گے

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ : أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ "، قَالَ : ” فَيُشَفَّعَانِ (مسند أحمد،6626)

روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے

روزہ کہے گا:

اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے اوقات میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا تھا، لہٰذا تو اب اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما

اور قرآن کہے گا:

میں نے رات کے وقت اس کو سونے سے روکے رکھا تھا، لہٰذا اب تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما

نتیجتاً دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔

رمضان میں حالت قیام میں تلاوت قرآن کا فائدہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. (بخاری، الصحيح، کتاب الايمان : 37)

’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ (سنن الترمذي،806)

جس نے امام کے ساتھ اس کے سلام پھیرنے تک باجماعت قیام کیا اس کے لیے ساری رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے قدم مبارک سوجھ جایا کرتے

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُومُ لِيُصَلِّيَ حَتَّى تَرِمَ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ

کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا پنڈلیوں پر ورم آجاتا

جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے :

” أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ". (صحيح البخاري، بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ،1130)

کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لمبا قیام اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی کیفیت

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:

صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات نماز ادا کی اور آپ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میں نے ایک غلط کام کا اراد کیا۔

ہم نے کہا :

وَمَا هَمَمْتَ ؟

آپ نے کیا ارادہ کیا ؟

تو عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:

هَمَمْتُ أَنْ أَقْعُدَ وَأَذَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحيح البخاري ١١٣٥)

میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور (قیام میں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو چھوڑ دوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی رکعت میں تین بڑی سورتیں پڑھیں

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا تو آپ نے ایک رکعت میں "سورة البقرة” "سورة النساء” اور "سورة آل عمران” کی تلاوت کی۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع اور سجدہ بھی تقریبًا اتنا ہی لمبا تھا جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تھا۔

(صحيح مسلم ٧٧٢)

پہلی رکعت میں سورہ بقرہ اور دوسری میں سورہ آل عمران

عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رکعت میں "سورة البقرة” کی تلاوت کی ۔۔۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع اور سجدہ بھی اتنا ہی لمبا کیا جتنا قیام کیا تھا۔

پھر دوسری رکعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "سورة آل عمران” کی تلاوت کی۔(صحیح۔سنن أبي داؤد ٨٧٣)

جتنی زیادہ آیات کے ساتھ قیام کروگے اتنا بڑا مقام پاؤ گے

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنْ الْغَافِلِينَ وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنْ الْقَانِتِينَ وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنْ الْمُقَنْطِرِينَ (ابوداؤد ،1398 صحیح)

” جس شخص نے دس آیتوں سے قیام کیا وہ غافلوں میں شمار نہیں ہوتا ۔ اور جو سو آیتوں سے قیام کرے وہ « قانتين » ( عابدین ) میں لکھا جاتا ہے ۔ اور جو ہزار آیتوں سے قیام کرے وہ « لمقنطرين » ( بےانتہا ثواب جمع کرنے والوں ) میں لکھا جاتا ہے ۔

قیام رمضان میں تلاوت قرآن اور صحابہ کرام

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں

فرماتے ہیں :

وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ . (موطأ مالك | كِتَابٌ : الصَّلَاةُ |302، إسناده صحيح)

اور قاری صاحب سو سو آیات پڑھا کرتے تھے حتی کہ لمبے قیام کی وجہ سے ہم لوگ اپنی لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ فجر تک چلتا تھا

رمضان میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا تلاوتِ قرآن کا معمول

كانت تقرأ في المصحف أوّل النهار في شهر رمضانَ، فإذا طلعت الشمس نامتْ. (لطائف المعارف لابن رجب وإسناده صحيح )

آپ رمضان کے مہینے میں دن کے شروع حصہ میں قرآن پڑھتی تھیں اور جب سورج طلوع ہوتا تو سو جایا کرتی تھیں

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھنے کی اجازت مانگنا

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

مجھے بتایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ(ہرروز) روزہ رکھتے ہو اور ہر رات(پورا) قرآن پڑھتے ہو؟”

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! جی ہاں (یہ بات درست ہے) اور ایسا کرنے میں میرے پیش نظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

"تمھارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو۔”

میں نے عرض کی :

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے،تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے،اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے،”

(آخر میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزوں کی طرح روزے رکھو وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے”

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !داود علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔”

فرمایا:

"قرآن کی قراءت ایک ماہ میں (مکمل کیا) کرو۔”

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

اسے ہر بیس دن میں پڑھ لیاکرو۔

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

اسے ہر دس دن میں پڑھ لیاکرو۔

میں نے عرض کی:

اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

اسے ہر سات دن میں پڑھ لیاکرو۔اس سے زیادہ نہ کرو تم پر تمھاری بیوی کا حق ہے،تم پر تمھارے مہمانوں کاحق ہے،اور تم پر تمھارے جسم کاحق ہے

مسلم، كِتَابُ الصِّيَامِ،2730

اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنا چاہتے ہو تو لازماً قرآن پڑھو

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

من سرَّه أن يحبَّ اللهَ و رسولَه ، فلْيقرأْ في المصحفِ.

صحيح الجامع الرقم: 6289: حسن

جو یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو اس پر لازم ہے کہ قرآن پڑھے

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أديموا النظر في المصحف

مصنف ابن ابي شيبة: 8558

مصحف پر ہمیشہ نظر ڈالتے رہو۔

اسکی سند کو امام ابن حجر نے سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

فتح الباري ( 8 / 696 )

مصحف سے دیکھ دیکھ کر اتنی زیادہ تلاوت کرتے کہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ نظر ختم ہو جائے گی

الإمام القارئ حمزة بن حبيب الزيّات رحمه الله(ت156هـ) فرماتے ہیں :

"نظرت في المصحف حتى خشيت أن يذهب بصري”.!!

[معرفة القراء الكبار للذهبي (253/1)].

میں نے مصحف شریف میں اتنا زیادہ دیکھا کہ گویا نظر ضائع ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا

قرآن روح اور جسم کی غذا

شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں:

ما رأيتُ شيئاً يغذي العقل و الروح ، و يحفظ الجسم ، و يضمن السعادة أكثر من إدامة النظر في كتاب الله تعالى (مجموع الفتاوى 493/7)

میں نے کتاب اللہ کو باقاعدگی کے ساتھ اوپر دیکھ کر پڑھنے سے بڑھ کر کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو عقل اور روح کو غذا دیتی ہو جسم کی حفاظت کرتی ہو اور خوشبختی کی ضامن ہو

اے اللہ قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار بنا دے

{ اللَّهُمَّ إنِّي عَبْدُك ابْنُ عَبْدِك ابْنُ أَمَتِك نَاصِيَتِي بِيَدِك

أَسْأَلُك بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك

سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَك

أَوْ أَنْزَلْتَه فِي كِتَابِك

أَوْ عَلَّمْتَه أَحَدًا مِنْ خَلْقِك

أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَك

أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ

رَبِيعَ قَلْبِي

وَنُورَ صَدْرِي

وَجَلَاءَ حُزْنِي

وَذَهَابَ هَمِّي وَغَمِّي}

یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو توں نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ توں قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعث کشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔

قرآن پڑھیں اور شیطان کو گھر سے بھگائیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنْ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ (مسلم 1824)

"اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا ؤ شیطان اس گھر سے بھا گتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔”

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

((إِنَّ البَيْتَ لَيَتَّسِعُ عَلَى أَهْلِهِ وَتَحْضُرُهُ الْمَلائِكَةُ وَتَهْجُرُهُ الشَّيَاطِينُ وَيَكْثُرُ خَيْرُهُ أَنْ يُقْرَأَ فِيهِ الْقُرْآنُ وَإِنَّ البَيْتَ لَيَضِيقُ عَلَى أَهْلِهِ وَتَهْجُرُهُ الْمَلَائِكَةُ وَتَحْضُرُهُ الشَّيَاطِينُ وَيَقِلُّ خَيْرُهُ أَنْ لَا يُقْرَأَ فِيهِ الْقُرْآنُ)) (سنن دارمی، رقم: 3352)

”بلاشبہ جس گھر میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، وہ اپنے اہل خانہ کے لیے وسیع ہو جاتا ہے، اس کی خیر بڑھ جاتی ہے، رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، شیاطین اس سے بھاگ جاتے ہیں۔

اور جس گھر میں قرآن نہ پڑھا جائے، وہ وسعت کے باوجو د تنگ ہو جاتا ہے، اس میں خیر کم ہونے لگتی ہے، رحمت کے فرشتے نکل جاتے ، اور شیاطین اسے اپنا ٹھکانا بنا لیتے ہیں۔“

قرآن پڑھا تو گھر سے سرکش شیطان اور جن بھاگ گیے

میاں امجد صاحب وحدت روڈ گوجرانوالہ میں رہتے ہیں ہمارے اچھے دوست ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ وحدت روڈ پر ہم نے ایک مکان خریدا ہے (جہاں آجکل وہ رہائش پذیر ہیں) اس مکان کے متعلق علاقے میں مشہور تھا کہ یہاں جن بھوت رہتے ہیں اس کے مالک اسے بیچنا چاہتے تھے لیکن کوئی اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں تھا پانچ مرلے سے زائد جگہ پر بہترین تین منزلہ عمارت خوبصورت گھر بنا ہوا ہے ہم نے اللہ کا نام لیا اور وہ مکان خرید لیا جب ہم ادھر شفٹ ہوئے سامان منتقل کرلیا رہائش اختیار کی تو ہمیں کئی ایک بار ایسا محسوس ہوا لائٹوں کا خود ہی آن ہو جانا پانی کی ٹؤٹی کا خود ہی کھل جانا وغیرہ

تو میں نے اپنے بیوی بچوں کو نماز پنجگانہ اور تلاوت قرآن پاک کی باقاعدگی پر توجہ دلائی اور گھر میں موبائل-فون پر چوبیس گھنٹے تلاوت قرآن کی آواز گونجتی رہی اس کے بعد عرصہ گزر گیا ہم نے کبھی ایسی کوئی شکایت محسوس نہیں کی

والحمد للہ علی ذلک

فالج زدہ پر قرآن پڑھا تو وہ ٹھیک ہو گئے

صالح المرِّي رحمه الله فرماتے ہیں :

"أصاب أهلي ريح الفالج فقرأت عليها القرآن ففاقت "

میرے گھر والوں کو فالج ہوگیا میں نے ان پر قرآن پڑھا تو وہ ٹھیک ہو گئے

میں نے یہ بات فقیہ محدث ابوسلمہ القطان کو بتائی تو وہ کہنے لگے :

: وما تعجب من ذلك .!؟

والله لو أنك حدثتني أن ميتا قُرِئ عليه القرآن فحييَ ما كان ذلك عندي عجيبا”.!” (حلية الاولياء لابي نُعيم /6/170).

تو اس بات سے تعجب کیوں کررہا ہے

اللہ کی قسم! اگر تو مجھے یہ بتاتا کہ ایک مردہ شخص پر قرآن پڑھا گیا اور وہ زندہ ہوگیا ہے تو یہ بات میرے نزدیک کوئی عجیب نہ ہوتی

(انہوں نے یہ بات قرآن کے انتہائی شفاء ہونے پر یقین میں مبالغہ کے طور پر کہی ہے)

قرآن شفاء ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (الإسراء : 82)

اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔

ہر روز تلاوت کریں

امام ابن كثير رحمه الله فرماتے ہیں :

كرهوا أن يمضي على الرجل يوم لا ينظر في مصحفه (تفسیر ابن کثیر : 68/1)

"سلف صالحین ناپسند کرتے تھے؛ کہ کِسی بندے پر مکمل دن جائے، اور وہ قرآن مجید نہ کھولے!”

عثمان رضی اللہ عنہ روزانہ تلاوت کیا کرتے تھے

سیدنا عثمان بن عفان بھی اللہ کا تلاوت قرآن کے حوالے سے یہ روٹین تھی کہ آپ فرماتے ہیں:

(وَمَا أُحِبُّ أَنْ يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمٌ وَلَا لَيْلَةٌ إِلَّا أَنْظُرُ فِي اللَّهِ) (الزهد لابن المبارك ، 1 / 106 ، رقم: 681)

میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی دن اور رات مجھ پر ایسی آئے جس میں نے قرآن کی تلاوت نہ کی ہو۔

علامہ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے ہیں :

”ينبغي للإنسان أن يجعل له في كل يوم حزبا معينا من القرآن يحافظ عليه.“ (نور على الدرب، شريط : ٢٢٧)

"انسان کو چاہیے کہ اپنے لیے قرآن مجید ( کی قراءت کے لیے ) یومیہ مقدار مقرر کرے اور اس پہ ہمیشگی کرے۔”

سونے سے پہلے کچھ نہ کچھ قرآن ضرور پڑھیں

عبد الله بن عباس – رضي الله عنهما – فرماتے ہیں :

”ما يمنع أحدكم إذا رجع من سوقه أو من حاجته، فاتكأ على فراشه، أن يقرأ ثلاث آيات من القرآن؟!“ – (سنن الدارمي : ٣٣٧٩، سنده صحيح)

”تمہیں کون سی چیز روکتی ہے کہ تم بازار یا دیگر کام کاج سے گھر لوٹو، تو بستر پر آرام کرتے وقت قرآن مجید کی تین آیات ہی تلاوت کر لو!”

رمضان میں امام مالک رحمہ اللہ کا تلاوت قرآن کا شیڈول

"امام مالک بن انس رحمہ اللہ جب رمضان کا چاند طلوع ہوتا اپنی کتابیں بند کر دیتے اور قرآن مجید پکڑ لیتے اور مسجد میں آکر بیٹھ جاتے ہر وقت باوضو رہتے اور فرمایا کرتے "ھذا ھـو شھر القرآن” یہ قرآن کا مہینہ ہے آپ شب و روز یہی رہتے یہاں تک کہ رمضان گذر نہیں جاتا”

 -[ دروس المسجد فی رمضان : ١٦٤ ]

امام مالک رحمہ اللہ کی بہن سے پوچھا گیا :

” ما كان شغل مالك في بيته ؟

امام مالک رحمہ اللہ کی گھر میں کیا مصروفیت ہوتی تھی

فرمانے لگی:

المصحف والتلاوة. [ تاريخ الإسلام للذهبي ٩١٧|٤ ]

قرآن کریم کا نسخہ اور تلاوت

امام احمد اور رمضان میں تلاوت کا شیڈول

"امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ جب رمضان شروع ہوتا تو فتویٰ دینا بند کر دیتے اور بیٹھ کر ذکرِ الـٰہی کرتے : "لا اله الا الله، الله اكبر” اور قرآن کی تلاوت میں مصروف ہو جاتے.”

-[ رمضان ماہِ غفران اردو : ١٤٦ ]

ایک ثقیل کے ذریعے دوسرے ثقیل سے جان چھڑائیں

قرآن میں لفظ (ثقیلا) دو مرتبہ آیا ہے، جس کا معنی ہے”بھاری”

ایک سورہ دھر میں ہے

فرمایا :

إِنَّ هَؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا (الإنسان : 27)

یقینا یہ لوگ جلد ملنے والی چیز سے محبت کرتے ہیں اور ایک بھاری دن کو اپنے پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔

اور یہاں اس سے مراد قیامت کا دن ہے

اور دوسرا سورہ مزمل میں ہے

فرمایا :

إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (المزمل : 5)

یقینا ہم ضرور تجھ پر ایک بھاری کلام نازل کریں گے۔

اور یہاں اس سے مراد قرآن مجید ہے

لھذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ یوم ثقیل (قیامت) میں نجات حاصل کرے تو وہ قول ثقیل (قرآن) کو لازم پکڑ لے

سورہ اخلاص ثلث قرآن کے برابر

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک آدمی کو ( قیام اللیل میں) ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ بار بار پڑھتے ہوئے سنا ( اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں پڑھ رہا تھا)۔ صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے کم سمجھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ] [ بخاري : ۵۰۱۳، ۵۰۱۴ ]

’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ سورت قرآن کے ایک تہائی حصے کے برابر ہے۔‘‘

سورہ اخلاص سے محبت کرنے والے کو بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، وہ نماز میں اپنی قراء ت کو ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ کے ساتھ ختم کرتا تھا۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[سَلُوْهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذٰلِكَ؟ ]

’’اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟‘‘

لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا :

[لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمٰنِ وَ أَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا ]

’’اس لیے کہ یہ رحمان کی صفت ہے اور مجھے اس کے پڑھنے سے محبت ہے۔‘‘

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَخْبِرُوْهُ أَنَّ اللّٰهَ يُحِبُّهُ ] [ بخاري، التوحید: ۷۳۷۵]

’’اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے۔‘‘

سورہ اخلاص پڑھنے والے پر جنت واجب ہوگئی

ابوہریرہ کو کہتے ہیں کہ

میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ایک آدمی کو

قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ . اللَّهُ الصَّمَدُ

پڑھتے ہوئے سنا، تو رسول اللہ صلی الم نے فرمایا:

”واجب ہو گئی“۔

میں نے کہا:

کیا چیز واجب ہو گئی ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الجَنَّةُ "جنت واجب ہو گئی)”۔

(جامع ترمذي : 2897)

بچوں کو سورہ فاتحہ سکھانے کی بدولت میری مغفرت کردی گئی ہے

” ابو منصور البغدادی ایک عرصہ تک لوگوں کو قرآن سکھاتے رہے ۔ وہ مسجد ابن جردہ کے امام تھے اور نابیناؤں کو قرآن سکھایا کرتے تھے ۔ وہ ان کے لیے لوگوں سے چندہ مانگ کر ان کے اخراجات کا بندوبست کیا کرتے تھے ۔ انھوں نے ستر نابیناؤں کو قرآن سکھایا ۔ وفات کے بعد کسی نے خواب میں ان کو دیکھا ۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کو سورۂ فاتحہ سکھانے کی بدولت میری مغفرت کر دی گئی ہے ” [ سیر اعلام النبلاء 222\19 ]

سورہ کہف کی برکت کا ایک عجیب واقعہ

امام ابن دقيق العيد رحمه الله فرماتے ہیں میرا ایک دوست فوت ہو گیا میں نے اسےخواب میں دیکھا اس نے کہا میرے پاس درندہ شکل ایک کتا آیا وہ مجھے ڈرانے لگا میں خوف زدہ ہو گیا

فجاء شخص في هيئة حسنة فطرده وجلس يؤنسني.

ایک شخص اچھی شکل میں آیا اس نے اسے بھگا دیا اور بیٹھ کر میرا خوف دور کرنے لگا

میں نے کہا :

من أنت؟

آپ کون ہیں؟

کہنے لگا :

أنا ثواب قراءتك سورة الكهف يوم الجمعة”. (الدرر الكامنة للحافظ ابن حجر ج٥ ص٣٥٢)

میں آپکی جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کا ثواب ہوں

تلاوت قرآن کرنے والا گمراہ ہوگا نہ ہی بدبخت

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کے لیے ذمہ لیا ہے کہ وہ دنیا میں گمراہ اور آخرت میں بدبخت نہیں ہوگا. (ابن ابی شیبہ 30575)

قرآن کو تھام لو کیونکہ یہ اللہ کی رسی ہے

حضرت عبد الله بن مسعود رَضَ اللَّهُ عَنْهُ فرماتے ہیں :

عليكم بالقرآن فإنه حبل الله (فضائل القرآن لأبي عبيد القاسم (٣٥)

قرآن کو تھام لو کیونکہ یہ اللہ کی رسی ہے

قرآن یاد کرنے والے دل کو عذاب نہیں ہوگا

ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اﻗﺮءﻭا اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﻻ ﺗﻐﺮﻧﻜﻢ ﻫﺬﻩ اﻟﻤﺼﺎﺣﻒ اﻟﻤﻌﻠﻘﺔ، ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﻟﻦ ﻳﻌﺬﺏ ﻗﻠﺒﺎ ﻭﻋﻰ اﻟﻘﺮﺁﻥ (سنن دارمی :(3362) کی یہ موقوفا روایت صحیح ہے جو حکما مرفوع ہے )

قرآن پڑھا کرو، اور یہ معلق پڑے ہوئے صحیفے کہیں تمہیں دھوکے میں نہ مبتلا کر دیں( یعنی اپنے تئیں تم بس اسی پر خوش رہو کہ ہمارے پاس قرآن کے نسخے پڑے ہوئے ہیں اور ان کی تلاوت نہ کرو)

پس بے شک اللہ ہرگز ایسے دل کو عذاب نہیں دے گا جس نے قرآن حفظ کیا

حفظ، ترجمۃ اور تفسیرالقرآن کی کلاسیں اللہ کی خاص رحمت کی لپیٹ میں ہوتی ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِبَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ6853)

اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔”

کائنات کی سب سے بہترین کلام قرآن ہے

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ (مسلم، كِتَابُ الْجُمُعَةِ، بَابُ تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ2005)

بلا شبہ بہترین حدیث (کلام )اللہ کی کتاب ہے اور زندگی کا بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ زندگی ہے

صاحب قرآن قابلِ رشک ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ فَقَالَ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُهْلِكُهُ فِي الْحَقِّ فَقَالَ رَجُلٌ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ (بخاری، كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ اغْتِبَاطِ صَاحِبِ القُرْآنِ5026)

رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے ایک اس پر جسے اللہ تعالی نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لئے لٹا رہا ہے ( اس کو دیکھ کر ) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتااور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا ۔

قرآن پڑھنے والوں کو اللہ کےخاص بندے ہونے کا شرف حاصل ہے

سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ»

قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟

قَالَ: «هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ، أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ» (ابن ماجہ، كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ215)

’’ لوگوں میں سے کچھ افراد اللہ والے ہوتے ہیں۔‘‘

صحابہ کرام نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟

فرمایا:

’’ قرآن والے ،وہی اللہ والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔‘‘

قرآن کے ایک قاری کو رب تعالیٰ کا خصوصی پیغام

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُقْرِئَكَ الْقُرْآنَ قَالَ آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَقَدْ ذُكِرْتُ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ نَعَمْ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ [بخاري، التفسیر، سورۃ : «لم یکن» : 4677 ]

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ’’قرآن ‘‘ پڑھ کر سناؤں۔‘‘

اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا :

’’ کیا اللہ نے میرا نام بھی لیا ہے؟‘‘

آپ نے فرمایا : ’’ہاں!‘‘

انہوں نے کہا :کیا واقعی اللہ رب العالمین کے ہاں میرا تذکرہ کیا گیا

آپ نے فرمایا :’’ہاں!‘‘

تو اُبی رضی اللہ عنہ (یہ سن کر خوشی سے) رونے لگے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حافظ شہید کو غیر حافظ شہید سے مقدم کرتے

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِمْ (بخاری، كِتَابُ الجَنَائِزِ،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ1343)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو ملا کر ایک ہی کپڑے کا کفن دیا۔ آپ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کسے زیادہ یاد ہے۔ کسی ایک کی طرف اشارہ سے بتایا جاتا تو آپ بغلی قبر میں اسی کو آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت میں ان کے حق میں شہادت دوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا۔ نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔

قرآن کے ماہر اور اٹک اٹک کر پڑھنے والے کی فضیلت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ (بخاری، كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ سُورَةُ عبس4937)

اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے ، مکرم اور نیک لکھنے والے ( فرشتوں ) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے ۔ پھر بھی وہ اس کے لئے دشوار ہے تو اسے دو گنا ثواب ملے گا ۔

قرآن پڑھنے اور نہ پڑھنے والے کی مثال

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالْأُتْرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَالَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ، وَلَا رِيحَ لَهَا ". (صحيح البخاري ،5020)

قرآن پڑھنے والا مومن سنگترے جیسا ہے جسکا ذائقہ بھی مزیدار اور خوشبو بھی عمدہ ہے ۔

قرآن نہ پڑھنے والا مومن کھجور جیسا ہے جس کا ذائقہ عمدہ ہوتا ہے مگر خوشبو نہیں ہوتی ۔

قرآن پڑھنے والا فاجر شخص گل ریحان ( نیاز بو جیسا ہے )جس کی خوشبو اچھی لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے ۔

قرآن نہ پڑھنے والا فاجر شخص کڑوے تمے جیسا ہے جس کا ذائقہ بھی نہایت کڑوا ہے اور خوشبو بھی نہیں