رسالت
الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا ِ۟الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۱۵۸﴾ (اعراف: ١٥٨)
حمد و صلوۃ کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے محمد (ﷺ) آپ کہہ دیجئے، کہ اے لوگو! تحقیق میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کے پاس بھیجا گیا ہوں، وہ اللہ جو زمینوں اور آسمانوں کا بادشاہ ہے، اور جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے، اور وہی مارتا ہے، تو تم تصدیق کرو، اللہ کی، اور اس کے رسول کی، جو اُمِّی نبی ہیں، وہ اللہ اور اس کی تمام باتوں کی تصدیق کرتے ہیں، تم اس نبی کی سنت کے موافق عمل کرو، تاکہ تم راہ پاؤ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں حکم ہے، کہ محمد رسول اللہﷺ کی تصدیق کرو، اور آپ کی تابعداری کرو کلمہ طیبہ کے پہلے حصہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ میں توحید کا ذکر تھا، جس کا مختصر بیان ہو چکا ہے۔
توحید کے بعد اسلام کی دوسری بنیاد محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی تصدیق کرنا، اور شھادت دینا ہے، رسول اس نیک انسان کو کہتے ہیں، جس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب دے کر اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے، دنیا میں بھیجا تھا، ان ہی کو نبی اور پیغمبر کہتے ہیں۔ رسول و پیغمبر اللہ تعالی کے برگزیدہ اور نیک بندے گناہوں سے بالکل پاک وصاف ہوتے تھے، اور ہر قسم کی خوبیاں اور بھلائیاں ان میں ہوتی تھیں، ان کے پاس اللہ تعالی اپنا حکم دے کر فرشتوں کو بھیجتا تھا، وہ لوگ فرشتوں سے اللہ تعالی کا حکم سن کر اور پڑھ کر مخلوق کو سناتے، اچھی باتوں کا حکم کرتے، اور بری باتوں سے روکتے تھے، جنت کی خوشخبری دے کر دوزخ سے ڈراتے تھے، اپنی قوم کی خیر خواہی اور ہمدردی میں دن رات مشغول رہتے کسی مخلوق سے نہیں ڈرتے تھے، اور نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم چھپاتے تھے، بلکہ تمام حکموں کو نڈر اور بے خوف ہو کر پہنچا دیتے، اور ماں باپ سے زیادہ مہربان ہوتے تھے، اس لیے ہم سب پر فرض ہے کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں، جس کے کرنے کو کہا ہے، اس کام کو بجا لائیں اور جس سے منع کیا ہے اس سے باز رہیں، ان کی نافرمانی سے اللہ تعالیٰ ناخوش اور فرمانبرداروں سے خوش ہوتا ہے، بلکہ ان کی فرمانبرداری اللہ ہی کی فرمانبرداری ہے، اور ان کی نافرمانی اللہ ہی کی فرمانی ہے، جو اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا، اور جوان کی فرمانبرداری کرے گا وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا، ہم سب اللہ تعالی کے تمام نبیوں اور رسولوں پر ایمان ویقین کرتے ہیں، کہ وہ اللہ تعالی کے بچے اور نیک بندے تھے، نبی اور رسول بہت ہوئے ہیں، ان کی صحیح تعداد اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، ان میں سے بعض نبیوں اور رسولوں کا بیان قرآن مجید میں آیا ہے، اور بعض کا نہیں آیا، سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ رسول برحق ہیں اور سب نبیوں کے امام اور پیشوا ہیں۔
ہمارے نبی محمد ﷺ قدیم قریش کے ایک معزز خاندان بنو ہاشم میں پیدا ہوئے، آپ ﷺ کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ محترمہ کا نام آمنہ تھا، آپ ﷺر بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے، دادا عبد المطلب اور تایا ابو طالب نے آپ ﷺ کی پرورش کی، چالیس برس کے بعد آپ ﷺ کو نبوت ملی، آپ ﷺ پر جب آسمان سے قرآن شریف اترنے لگا، اور حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لانے لگے، اور آپﷺ مشرکین عرب و کفار مکہ کو قرآن شریف پڑھ کر سناتے اور سمجھاتے، بری باتوں سے روکتے اور اچھی باتوں کے کرنے کا حکم فرماتے تھے، مگر مکہ والوں نے آپﷺ کو بہت دق کیا تو آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے، مدینہ والوں نے آپ ﷺ کی بڑی عزت کی، بہت سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، باقی جو رہ گئے تھے، وہ بھی مسلمان ہو گئے اور جان و مال سے خدمت کرنے لگے، دس برس مدینہ منورہ میں قیام رہا، اور وہیں تریسٹھ برس کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے، آپ ﷺ تمام نبیوں اور رسولوں کو ختم کرنے والے ہیں، آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا، آپ ﷺ کے بعد جو نبوت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے، دجال ہے، آپ ﷺ تمام انسانوں بلکہ فرشتوں سے بھی افضل اور سب کے سردار ہیں، قیامت کے دن سب سے پہلے انھیں گے اور سب سے پہلے گناہ گاروں کی شفاعت کریں گے، آپ ﷺ کی شفاعت قبول ہو گی، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت تمام ایمان والوں پر فرض ہے، بغیر آپﷺ کی اطاعت کے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا، ذیل کی آیتوں اس کا بیان ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠۵۹
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۶۰
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًاۚ۶۱
فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا۶۲
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ ۗ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا۶۳ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۶۴ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۶۵ وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ۶۶ وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّاۤ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ۶۷ وَّ لَهَدَیْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا۶۸ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًاؕ۶۹ ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ ؕ وَ كَفٰی بِاللّٰهِ عَلِیْمًا۠۷۰﴾ (سورة النساء: 59 تا 70)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اور رسول کی فرمانبرداری کرو، اور تم میں سے جو صاحبان حکومت ہیں، ان کا بھی کہا مانو، اگر کسی معاملہ میں باہم اختلاف ہو جائے، تو اس میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو، اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہی بہتر ہے، اور اس کا انجام اچھا ہے، کیا آپﷺ نے ان لوگوں پر غور نہیں کیا، جن کا دعوی تو یہ ہے کہ ہم اس کلام پر یقین رکھتے ہیں جو آپﷺ پر نازل ہوا ہے، اور اس کلام بھی مانتے ہیں جو آپ کسی کلام سے پہلے اتارا گیا ہے۔ حالانکہ یہ غیر اللہ کے پاس مقدمہ لے جانا چاہتے ہیں، باوجود یکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ ان سے قطع تعلق کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کو راہ سے بہکا کر دور کر دے، اور جب ان سے کہا جائے کہ اس فیصلہ کی طرف آؤ، جو اللہ نے نازل فرمایا ہے، اور اس کے رسول کے پاس آؤ تو منافقین کو دیکھو گے کہ وہ آپ علی پیر کے پاس آنے سے اعراض کرتے اور ٹھٹھکتے ہیں، اس وقت ان کا کیا حال ہوگا، جب ان کی حرکات کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آن پڑے، پھر خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس آئیں کہ ہماری غرض تو میل ملاپ اور بھلائی ہی کی تھی، ان لوگوں کے دلوں کی باتوں کو خدا ہی خوب جانتا ہے، تو آپ ﷺ ان سے اغماض ہی کیجئے، ان کو نصیحت فرمائیے اور ان سے ایسی بلیغ بات کہیے جو ان کے دلوں میں اثر کرے، ہم نے اپنے ہر رسول کو اسی لیے بھیجا ہے، کہ اللہ کے حکم سے ان کا کہنا مانا جائے، اور اگر یہ ان حرکات ناشائستہ کرنے کے بعد، آپ ﷺ کے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی چاہتے اور ہمارے رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے، تو اللہ کو ضرور بالضرور تو یہ قبول کرنے والا مہربان پاتے، آپﷺ کے رب کی قسم! یہ لوگ مؤمن نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ اپنے تمام جھگڑوں میں آپ ﷺ کو حاکم اور حج نہ بنا لیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ سے اپنے دلوں میں کبیدگی اور تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کو بسر و چشم قبول کر لیں، اور اگر ہم ان کو یہ حکم دیتے کہ وہ خود اپنے آپ کو ہلاک کر دیں یا اپنی بستیاں چھوڑ کر چلے جائیں، تو اس حکم کی تعمیل تھوڑے آدمیوں کے سوا اور لوگ کبھی نہ کرتے۔ لیکن جس بات کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے، اگر وہ ایسا کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، اور مضبوطی کے ساتھ دین پر قائم رکھنے والا ہوتا، اور اس صورت میں ہم ان کو بڑا اجر اپنی طرف سے عطا کرتے، اور ان کو سیدھے راستہ پر چلاتے اور جو اللہ اور رسول کا کہنا مانتے ہیں، وہ ان نبیوں، صدیقوں، شھیدوں اور نیکوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا ہے، اور وہ اچھے رفیق ہیں، یہ اللہ ہی کا فضل ہے، اور اللہ کا جاننا ہی کافی ہے۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ و رسول کی فرمانبرداری اور تابعداری کی بڑی اہمیت بتلائی گئی ہے، رسول اللہ ﷺ کے رسول ماننے کا مطلب ہے، کہ ہر کام میں اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل کی عملی حیثیت سے پیروی کی جائے، دین و دنیا کے مقدمات کا فیصلہ اللہ اور پیغمبر ہی سے کرایا جائے، اور بلا چون و چرا اسے تسلیم کر لیا جائے، جو لوگ زبانی کلمہ طیبہ کا دوسرا جز محمد رسول اللہ کہتے ہیں، اور اپنے مقدمات کو طاغوت اور مخالفین کے سامنے پیش کرتے ہیں، ان کے فیصلہ کو مان کر عمل کرتے ہیں، وہ صحیح معنوں میں اللہ کے رسولﷺ کورسول ہی تسلیم نہیں کرتے۔ جو لوگ صحیح معنوں میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں وہ قیامت کے روز اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ ہوں گے،
نیز قرآن مجید میں جگہ جگہ ﴿اطیعوا الله واطيعوا الرسول﴾ آیا ہے، یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، اللہ کی اطاعت کیسے کی جائے، اور وہ کس کس کام سے خوش اور کس سے ناخوش ہے، اس کی دوہی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بلا واسطہ کسی کو خود اللہ ہی بتا دے، کہ تم اس طرح ہماری اطاعت و عبادت کرو، ایسا ہی شخص نبی اور رسول ہوگا، دوسری صورت یہ ہے کہ نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کی اطاعت کی جائے، اب چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے، اور کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آ سکتا، تو پہلے رسول کی تابعداری سے خدا کی اطاعت ہو سکتی ہے، بغیر رسول کی تابعداری کے اللہ کی فرمانبرداری ہو ہی نہیں سکتی، اللہ کے رسول کی تابعداری اللہ ہی کی فرمانبرداری ہے، اس لیے اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَ أَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا﴾ (سورة النساء:79،80)
’’ہم نے آپ (ﷺ) کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے، جو رسول کا کہا مانے گا، وہ در اصل خدا کا حکم مانے گا، اور جو رخ پھیرے گا، تو ہم آپﷺ کو اس پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ہم نے آپﷺ کو تمام انسانوں کے لیے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، جو اللہ کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اللہ کی فرمانبرداری کرے گا، اور جو اللہ کے رسول سے محبت کرے گا، و واللہ سے محبت کرے گا، اسی طرح جس نے رسول کی نافرمانی کی، گویا اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اپنے رسول کی نافرمانی سے خدا ناخوش ہوتا ہے، جس طرح اپنے نافرمانوں سے ناخوش ہوتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠۱﴾ (سورة النساء: 115)
’’اور جو شخص راہ هدایت کھل چکنے کے بعد اللہ کی مخالفت کرے گا اور مسلمانوں کے راستہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلے گا، ہم اس کو اسی راہ پر چلائیں گے جس پر وہ چلے گا، اور اس کو دوزخ میں داخل کر دیں گے، اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ جو شخص باوجود ظہور ہدایت اور نزول قرآن اور حقانیت سام کے رسول اللہﷺ کی مخالت کرے گا اور ہمارے نبی اور اسلام کے طریقے کو چھوڑ کر غیروں کے طریقوں کو اختیار کرے گا اور گمراہی کو پسند کرے گا تو ہم بھی اس کو اسی گمراہی میں چھوڑ دیں گے جو اس نے اپنے لئے پسند کی ہے اور آخرت میں اس کو جہنم میں داخل کر دیں گئے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام انسانوں کے لئے نمونہ بنایا ہے آپ کے اقوال افعال احوال کی پیروی میں نجات ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ﴾ (سورة الاحزاب: 21)
’’یقینًا تمہارے لیے رسول خدا ﷺ میں بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے نمونہ ہے جو اللہ کی اور قیامت کے آخری دن کی امید رکھتا ہے اور خدا کو بہت یاد کرتا ہے۔‘‘
جو لوگ زبان سے تو رسالت محمدی ﷺ کا اقرار کرتے ہیں، مگر آپ ﷺ کے فیصلے کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کو منافق کہا جاتا ہے۔
چنانچه قرآن مجید میں اللہ کا تعالی ارشاد ہے:
﴿وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۴۷
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ۴۸ وَ اِنْ یَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْۤا اِلَیْهِ مُذْعِنِیْنَؕ۴۹ اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗ ؕ بَلْ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠۵۰ اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵۱ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۵﴾ (سورة النور:47 تا 52)
’’وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور فرمانبردار ہوئے، پھر ان سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھر جاتا ہے، یہ ایمان والے نہیں، جب وہ لوگ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں، کہ خدا اور اس کا رسول ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کر دیں، تو بھی ان کی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے، ہاں اگر ان ہی کو حق پہنچتا ہے تو مطیع وفرمانبردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں، کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے، یا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، یا انہیں اس بات کا ڈر ہے، کہ کہیں خدا اور اس کا رسولﷺ ان کی حق تلفی نہ کریں، بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ خود بھی بڑے بے انصاف ہیں، ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ، خدا اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے، تو وہ کہتے ہیں، کہ ہم نے سنا اور مان لیا، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، جو بھی خدا کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں، اور خدا کا خوف رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں۔‘‘
ان آیتوں میں منافقین کی حالت، کیفیت اور علامت بتلائی گئی ہے، کہ یہ لوگ زبان سے ایمان اور اطاعت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن دل اور عمل اس کے خلاف ہیں، اور جب شرعی فیصلہ کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے، اگر اس میں ان کو اپنا دنیاوی فائدہ نظر آتا ہے، تو خوشی سے قبول کر لیتے ہیں، اور اگر اس میں دنیاوی نقصان نظر آتا ہے، تو حق کی طرف دیکھتے بھی نہیں، حالانکہ مومن کی یہی نشانی ہے کہ وہ خدا و رسول کی تابعداری کرتے ہیں، اور ان کا یہی قول و عمل ہے، اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔
رسول پر ایمان لانے کا مطلب
یہی ہے کہ اللہ کا رسول جو کچھ بتائے، وہ حق ہے، جو کچھ کہے وہ سچ ہے، اور جو عمل کرے وہ قابل اتباع ہے، ان کی تمام بتائی ہوئی باتوں کا ماننا، اور اس کے مطابق عمل کرنا فرض ہے، خواہ عبادات کے بارے میں ہو، یا معاملات اور اخلاق کے متعلق ہو، یا تمدن اور معاشرے کے بارے میں ہو، غرض زندگی کے کسی بھی شعبہ کے متعلق ہو، جب اپنی زندگی کو رسول کی زندگی کے سانچے میں ڈھال لے گا، تو وہ اللہ کے رسول کو رسول مان لے گا، اور اس کا ایمان بالرسالت صحیح ہو گا ورنہ نہیں۔
اور جو آپ ﷺ کا تابعدار نہیں، وہ مومن نہیں، آپﷺ نے فرمایا:
(كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أبِي، قِيلَ وَمَنْ أَبِي قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ آبَي).[1]
’’میری کل امت جنت میں داخل ہو گی مگر جو انکار کرے، عرض کیا گیا، کہ کون انکار کرے گا؟ فرمایا، جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جو نافرمانی کرے گا وہ انکار کرے گا (یعنی نافرمانی اور انکار کرنا گویا نہ ماننے کی دلیل ہے)‘‘
محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جب رسول کا مطلب سمجھ میں آگیا تو اس کے لوازمات سے یہ بھی ہے، کہ اللہ کے رسول کی محبت تمام چیزوں سے زیادہ ہو اور یہ ظاہر بات ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے، وہ اس کی ہر بات اور ہر ادا کو پسند کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]صحیح بخاری: 1081/2 کتاب الاعتصام بالكتاب و السنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله صلي الله عليه وسلم رقم الحديث:8280)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے، اور اس کے کہنے پر چلتا ہے، اور اس کی ہر ادا کو اختیار کرتا ہے، وہ اس کے رنگ میں رنگ جانے کی بڑی خواہش کرتا ہے، گو یا ایمان بالرسول محبت رسول، اور اطاعت رسول ایک چیز ہے۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا يُؤْمِنْ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ)[1]
’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے ماں باپ اور اولاد اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا ہے۔
(الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ)[2]
’’ہر شخص کا حشر اپنے دوست کے ساتھ ہو گا۔‘‘
اللہ کے رسول کی محبت ایمان کا جزو ہے، محبت کے تعین اسباب ہیں، جمال، کمال، جود، یہ تینوں اوصاف رسول اللہﷺ کی ذات مقدسہ میں موجود تھے۔
محبت کی دو قسمیں ہیں طبعی اور عقلی، محبت عقلی سے اطاعت و فرمانبرداری مراد ہے، یعنی رسول الله ﷺ کی محبت تمام عزیزوں اور خویش اقارب، ماں باپ، بیٹے، بیوی، اور اپنی جان سے بھی زیادہ ہو، یعنی اگر کسی قع پر رسول اللہﷺ کی فرمانبرداری کے مقابلے میں عزیزوں کو چھوڑنا پڑ جائے، یا اپنی جان دینی پڑ جائے، تو سب کو چھوڑ دے یا اپنی جان دے، مگر اللہ کے رسول کی نافرمانی نہ ہونے پائے جب یہ کیفیت پیدا ہو جائے گی تب ایمان کامل ہوگا، اس کی تائید حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے واقعہ سے ہوتی ہے، کہ حضرت عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں، کہ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ اپنے دست مبارک سے پکڑے ہوئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا:
لَأَنتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْ وَ إِلَّا مِنْ نَفْسِي (
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاری: 7/1 کتاب الایمان، باب حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الايمان، رقم الحديث 15، وصحیح مسلم: 49/1 كتاب الايمان، باب وجوب محبة رسول الله صلى الله عليه وسلم …. رقم الحديث:168)
[2] صحیح بخاری: 91/2، کتاب الادب، باب علامة الحب ….. رقم الحديث 6168،6169، و صحيح مسلم: كتاب البر و الصلة، باب المرء مع من أحب، رقم الحديث:6818)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یارسول اللہﷺ! آپﷺ مجھے اپنی جان کے علاوہ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، خدا کی قسم! جب تک میں تم کو اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں، تب تک تم سچے مؤمن نہیں ہو سکتے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا، اب مجھے آپ ﷺ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو گئے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا، اب تم کامل مؤمن ہو گئے ہو۔[1]
قرآن مجید سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠۲۴﴾ (توبه:23، 24)
’’اے مومنو! اگر تمہارے باپ، بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیز رکھتے ہوں، تو انہیں اپنا دوست نہ بناؤ، اور جو ایسا کرے گا، تو یہی لوگ ظالم ہوں گے، اے ہمارے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے، کہ اگر تمہارے باپ، اولاد، بھائی، بیبیاں، کنبہ، تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے، اور تمہاری تجارت جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے، اور تمہارے رہنے کے مکان جو تم ہمیں بہت پسند ہیں، یہ سب چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری ہوں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ جو خدا کو کرنا ہے، تمہارے سامنے آجائے گا، خدا فاسقوں پر ہدایت کی راہیں نہیں کھولتا۔‘‘
اس آیت کریمہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا اور رسول کی محبت سب سے زیادہ ہونی چاہئے، اور اپنے اور غیروں کے مقابلہ میں خدا اور رسول ہی کو ترجیح دینا چاہئے، اور ان دونوں کی محبت سب محبتوں پر غالب ہونی چاہیے، انصار اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو آپﷺ سے اس طرح کی محبت تھی۔
قاضی عیاض نقل کرتے ہیں، کہ ایک شخص نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، کہ آپ ﷺ مجھے اہل و مال میں سب سے زیادہ محبوب ہیں، مجھے آپ ﷺ کی صورت یاد آتی ہے تو صبر نہیں آتا، جب تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاری: 981؍2، کتاب الایمان و الندور، باب كيف كانت يمين النبي صلى الله عليه وسلم…. رقم الحدیث: 6632)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ﷺ کو یہاں آ کر دیکھ نہیں لیتا، اب غم یہ ہے، کہ وفات کے بعد آپ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوں گے، تو میں آپ ﷺ کو وہاں کیسے دیکھا کروں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيفِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ (النساء:69)
’’اور جو لوگ اللہ اور رسول کا کہنا مانتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا کا انعام ہے یعنی نبی، صدیق، شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی صحبت بڑی نعمت ہے۔‘‘
آپﷺ نے اسے یہ آیت سنا دی۔[1]
اللہ تعالی کی محبت اطاعت رسول پر موقوف ہے، جو اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کرے وہ خدا کا دوست ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۳۱ قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ ﴾ (آل عمران : 31،32)
’’(یعنی اے ہمارے رسول! سب لوگوں سےِ) کہہ دیجئے، کہ اگر تم اللہ کو چاہتے ہو، تو میری تابعداری کرو، اللہ تم کو چاہے گا، اور تمہارے گناہ بخشی ے گناہ بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے، (اے ہمارے رسول) کہہ دیجئے، کہ اللہ کی اور رسول اللہﷺ کی فرمانبرداری کرو، اور اگر وہ اس سے پھر جائیں تو بات یہ ہے، کہ وہ نا فرمان ہیں، اور اللہ تعالی نافرمانوں سے محبت نہیں رکھتا۔‘‘
اس آیت کے شان نزول کی بابت تفسیر جامع البیان وغیرہ میں لکھا ہے، کہ مشرک لوگ بتوں کو اور جنوں کو پوجتے تھے، اور دعوی ان کا یہ تھا کہ یہ کام ہم لوگ اللہ کی محبت میں کرتے ہیں، یعنی ہماری نیت یہ ہے، کہ ان کاموں سے اللہ راضی ہو جائے، اور یہود و نصاری کہتے تھے، کہ ہمارے بزرگ پیغمبر ہوئے ہیں، اور ہم لوگ پیغمبروں کی اولاد ہیں، لہٰذا اللہ کو ہم سے ضرور محبت ہو گی، ایسے ہی مکہ والے یوں سمجھتے تھے، کہ ہم لوگ بیت اللہ کے خادم اور مجاور ہیں، اور حاجیوں کی مہمانداری اور خبر گیری کرتے ہیں، ہم پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور محبت ضرور ہوگی، اور ان سب کی بات رد کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یعنی فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی، تو اس کے بھیجے ہوئے رسول کو مانتے، اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوی تو جب ہی سچا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طبراني الأوسط: 296؍1، رقم الحديث: 480 و ابن مردویه بحواله تفسير ابن كثير: 533؍1 و در منثور: 182؍2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کی رضا مندی جب ہی حاصل ہوگی، جب کہ رسول اللہ صل اعلام کی حکم برداری کرو گے، اگر اس کے رسول کی حکم برداری نہیں کرتے، تو سب خیال اور تمام دعوے غلط ہیں ۔
آج کل کے ہزاروں مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے کہ زبان سے تو یہ کہتے کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ پیارے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کے واسطے ہمارا مال اور جان قربان ہے، لیکن رسولﷺ کے حکم کی پیروی بالکل نہیں کرتے، جدھر دیکھو شکل و صورت، وضع قطع کھانا کھانا، شادی بیاہ، اور لینا دینا غرض سب کام اپنے ملک، برادری اور باپ دادا کی رسم پر کرتے ہیں، اور جب کوئی کہے کہ یہ کام اور سب رمیں چھوڑ دو، اور شریعت پر چلوں تو یہ جواب دیتے ہیں، کہ ہم لوگ دنیا دار ہیں، گناہ گار ہیں، بھلا ہم سے شریعت پر عمل کہاں سے ہو سکتا ہے دیکھا آپ نے کہ دو شریعت پر عمل کرنے سے صاف انکار کرتے ہیں، اور پھر اچھے خاصے مسلمان بنے پھرتے ہیں۔
تجھ میں کچھ بوئے وفا داری نہیں
یار ہو کہ شیوه یاری نہیں
رسول کی نافرمانی کرنے والا قیامت کے دن کفِ افسوس ملے گا
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ تَنْزِیْلًا۲۵
اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِ ِ۟الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ؕ وَ كَانَ یَوْمًا عَلَی الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا۲۶
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۲۷
یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۲۸
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۲۹﴾ (الفرقان:25 تا 29)
’’جس دن آسمان مع بادل کے پھٹ جائے اور فرشتے لگا تار اتریں گے، اس دن ملک صرف رحمان ہی کا ہوگا، اس دن ستم گر شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا، ہائے افسوس! کاش میں نے اللہ کے رسول کی راہ لی ہوتی، ہائے افسوس! کاش کہ میں نے فلاں فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا، اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آ پہنچی تھی، اور شیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی تابعداری فرض ہے، نافرمانی کرنے والا قیامت کے دن افسوس کرے گا۔
﴿فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا ؕؔ۴۱
یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِهِمُ الْاَرْضُ ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثً﴾ (سورة النساء: 41،42)
’’اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے، اور ان سب پر اے نبی ہم آپ ﷺ کو گواہ بنا کر پیش کریں گے، اس دن کفر کرنے والے اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے والے آرزو کریں گے، کہ کاش زمین ان کو اپنے سکما کر ہموار ہو جائے، اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔‘‘
رسول کی تابعداری میں لوگوں کا امتحان ہے
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:
﴿وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ هَدَی اللّٰهُ ؕ ﴾ (سورة البقرة: 143)
’’اور جس قبلہ پر آپ پہلے تھے، اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ اس رسول کا سچا تا بعد رکون ہے، اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے، گویا یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے، ان پر کوئی دشوار نہیں ہے۔‘‘
جو اس وقت اللہ کے رسول ﷺ کے عمل کی موافقت کرے گا، وہ آزمائش میں پورا اترے گا، اور جو تحویل قبلہ کے وقت نافرمانی کرے گا، وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوگا۔
اللہ کے رسول کی تابعداری بہترین کسوٹی ہے
بخاری شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے پاس چند فرشتے آئے، آپ ﷺ سوئے تھے، تو وہ فرشتے آپس میں کہنے لگے، کہ ان کے لیے ایک مثال ہے، وہ مثال ان کو سناؤ بعض فرشتے بولے، مثال کسی کو سنائیں، یہ تو سوتے ہیں، بعض فرشتوں نے جواب دیا، کہ ان کی آنکھ ہوتی ہے، اور دل جاگتا ہے، یعنی ان کا سونا ایسا نہیں ہے، جیسا کہ اور لوگوں کا سوتا ہوتا ہے، بلکہ ان کی آنکھیں ہوتی ہیں، اور دل خبر دار اور ہوشیار رہتا ہے، جو کچھ تم کہو گے وہ سنیں گے، تو ان فرشتوں نے کہا، کہ ان کی مثال ایسی ہے، کہ کسی شخص نے ایک مکان بنایا، اور اس میں ضیافت کا سامان تیار کیا، اور ایک بلانے والے کو بھیجا، کہ لوگوں کو اس ضیافت کے لیے بلا لائے، تو جو کوئی اس بلانے والے کے کہنے پر چلا آئے گا، وہ اس مکان میں بھی داخل ہو گا، اور ضیافت کا کھانا بھی کھائے گا، اور جو شخص اس بلانے والے کے کہنے پر نہ آئے گا، وہ اس مکان میں بھی داخل نہ ہوگا، اور ضیافت کا کھانا بھی اسے میسر نہ ہوگا، بعض فرشتوں نے کہا، کہ اس کا مطلب کھول دو، تا کہ وہ سمجھیں، اس پر بعض فرشتے بولے، کہ وہ تو سوتے ہیں، بعض فرشتوں نے کہا، کہ آنکھیں سوتی ہیں، اور دل جاگتا ہے، تو ان فرشتوں نے کہا، کہ وہ مکان جنت ہے، اور بلانے والے محمد ﷺ، جو شخص محمدﷺ کی نافرمانی کرے، وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے، ور محمد ﷺ لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں، یعنی کافر و مومن یا نیک و بد میں تمیز اور پہچان کا یہی طریقہ ہے، کہ جو کوئی حد سی ایم کا تابعدار ہے وہ محمد مومن اور نیک ہے، اور ان ہی کے واسطے جنت ہے، اور جو کوئی ان کی تابعداری نہ کرے، وہ کافر اور دوزخی ہے، اللہ تبارک تعالی فرماتا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ۲۰
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ۲۱﴾ (انفال: 20، 21)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی، اور اس کے رسول کی، اور مت پھرو اس سے اور تم سنتے ہو۔ ‘‘
اور مت ہو مانند ان لوگوں کے، کہ کہتے ہیں سنا ہم نے اور وہ نہیں سنتے یعنی یہود و نصاری کا یہ حال ہے، کہ زبان سے تو تورات و انجیل اور پہلے انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان احکام پر عمل نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا، کہ تم ایسے مت ہو جانا، جب تک احکام الہی اور احکام رسولﷺ کی تعمیل نہ کرو گے، اس وقت تک زبانی اقرار سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اطاعت رسول میں تعلیم کی توفیق مرحمت فرمائے، اور ہم سب مسلمانوں کا خاتمہ بالخیر ہو، آمین۔
(وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلُوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاری: 1081؍2 کتاب الاعتصام بالكتاب و السنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله صلى الله عليه وسلم رقم الحدیث: 7281۔