ریا کاری سے ڈرنے اور اس کے شرک ہونے کی وضاحت

297۔ سیدنا  محمود بن لبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشَّرْكُ الْأَصْغَرُ))

’’مجھے تم پر جن گناہوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے، ان میں سے سب سے زیادہ خطرہ شرک اصغر میں مبتلا ہونے کا ہے۔‘‘

صحابہ نے پوچھا:  اللہ کے رسول! شرک اصغر کیا ہے؟ فرمایا:

((اَلرِيَاءُ، يَقُوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ:  اِذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا، فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 23630، 23631، والبيهقي:290، 291،2)

’’ریا کاری (شرک اصغر ہے) قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے دیا جائے گا تو اللہ عز وجل (ریا کاروں سے)  فرمائے گا: تم ان کے پاس جاؤ جن کے لیے تم ریا کاری کرتے تھے، جاؤ دیکھو! کیا تم ان کے ہاں سے کوئی بدلہ پاتے ہو؟“

توضیح و فوائد:  مقصد ریا کاروں کو ذلیل کرنا ہوگا کہ جاؤ جن کو دکھانے کے لیے تم نے یہ عمل کیے تھے بدلہ بھی انھی سے طلب کرو۔ میرے پاس تمھارے لیے کچھ نہیں ہے۔

298۔ سیدنا جندب بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((مَن سَمَّعَ سَمَّعَ اللهُ بِهِ، وَمَنْ يُّرَائِي يُرَائِي اللهُ بِهِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيَّ: 6499، و مُسْلِمٍ:2987)

’’جو انسان شہرت کا طالب ہو اللہ تعالی اس کی بندگی سب کو سنا دے گا، اسی طرح جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کی ریا کاری ظاہر کر دے گا۔‘‘

299۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((مَنْ سَمّعَ النَّاسَ بِعَمَلِهِ سَمَّعَ الله بِهِ سَامِعُ خَلْقِهِ وَصَغَّرَهُ وَحَقَّرَهُ))

’’جس شخص نے لوگوں میں شہرت پانے کے لیے کوئی عمل کیا، مخلوق کو سننے والا اللہ تعالیٰ اسے لوگوں میں ریا کار مشہور کر دے گا، اسے ذلیل کر دے گا اور اسے حقیر بنا دے گا۔‘‘

توضیح و فوائد:  جس مقصد کے لیے کوئی شخص نیکی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا مقصد پورا کر دیتا ہے جو تشہیر چاہتا ہے اس کی تشہیر ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی اس کے چرچے عام کر دیتا ہے لیکن وہ شخص اللہ کی نظر سے گر جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ عام لوگوں کے نزدیک بھی بے وقعت ہو کر ذلیل اور ریا کار کہلاتا ہے۔

(أخرجه احمد6509، 6839)

300۔سیدنا ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا:

((إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ: جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ، وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ، وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ: هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّار))

(أَخْرَجَهُ مُسْلِم: 1905)

’’بے شک قیامت والے دن جن لوگوں کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا، ان میں ایک وہ آدمی ہوگا جو شہید کیا گیا تھا، چنانچہ اسے (بارگاہ الہی میں) پیش کیا جائے گا ۔ اللہ تعالٰی اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان کی وجہ سے کیا عمل کیا ؟ وہ عرض کرے گا ۔ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا، یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کیا۔ تو تو اس لیے لڑا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے، چنانچہ تجھے  (دنیا میں) بہادر کہہ لیا گیا۔ پھر اس کی بابت حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور دوسرا دو شخص ہوگا جس نے (دین کا) علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھلایا اور قرآن پڑھا، چنانچہ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ تعالی پوچھے گا : تو نے ان کی وجہ سے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھلایا اور تیری رضا کے لیے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو نے جھوٹ کیا۔ تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ تجھے عالم کیا جائے اور قرآن اس لیے چڑھا تا کہ تجھے قاری کیا جائے۔ تحقیق تجھے (دنیا میں ایسا) کہہ لیا گیا، پھر ان کی بابت حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور (تیسرا) وہ شخص ہوگا جسے اللہ نے کشادگی عطا فرمائی تھی اور اسے مختلف قسم کے مال سے نوازا تھا، چنانچہ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد کروائے گا۔ دو انھیں پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان کی وجہ سے کیا عمل کیا ؟ وہ فرض کرے گا: میں نے کوئی ایسا راستہ جس میں خرچ کیے جانے کو تو پسند کرتا تھا، نہیں چھوڑ اگر اس میں تیری خاطر ضرور خرچ کیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا۔ تو نے تو یہ اس لیے کیا تھا کہ کہا جائے کہ وہ بڑا سخی ہے۔ تحقیق یہ کہہ لیا گیا۔ پھر اس کی بابت حکم دیا جائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘

301۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایک چیز وقف کرتا ہوں، اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ارادہ کرتا ہوں اور یہ بھی چاہتا ہوں کہ میرا مقام بھی ظاہر ہو۔ رسول اللہﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ (سورہ کہف کی) یہ آیت نازل ہوئی:

(أَخْرَجَهُ الحاكم:111/2)

﴿فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠۝﴾

’’جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ “ (الكهف 110: 18))

302۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((بَشِّرُ هَذِهِ الْأُمَّةَ بِالسَّنَاءِ، وَالرِّفْعَةِ وَالدِّينِ، وَالنَّصْرِ وَالتَّمْكِينِ فِي الْأَرْضِ، فَمَنْ عَمِلَ مِنْهُمْ عَمَلَ الْآخِرَةِ لِلدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الْآخِرَةِ نَصِيبٌ)) (أَخْرَجَهُ أَحمدُ:21220، 21222، 21223،21224 والحاكم:318/4)

’’اس امت کوعلو، بلندی، دین، نصرت اور زمین پر اقتدار کی خوشخبری سنا دو، پھر ان میں سے جو شخص آخرت کا عمل، دنیا کے لیے کرے، اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہو گا۔ ‘‘

توضیح وفوائد: اس باب میں ریا کاری اور دکھلاوے کے موذی مرض سے بچنے کی ترغیب ہے، یہ وہ شرک ہے جو انسان کے اعمال اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے۔ دین کا ظاہری ڈھانچا بڑا خوبصورت نظر آتا ہے لیکن اندر سے بالکل کھو کھلا ہوتا ہے۔ آج امت مسلمہ کی بڑی تعداد اس مرض کا شکار ہے، بہت سے لوگ ادنی سی نیکی کر کے بے تحاشا تشہیر کے آرزو مند رہتے ہیں۔ نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا شدید نقصان مال کی ہوس اور شہرت کی طلب انسان کے دین کو پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مخفی شرک سے محفوظ فرمائے۔ رسول اکرمﷺ نے اس سے بچنے کی ایک دعا بتائی ہے۔ ہمیں یہ دعا بکثرت مانگنی چاہیے: ((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا أَعْلَمُ))

’’اے اللہ بے شک میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ میں (کسی کو) تیرا شریک ٹھہراؤں جبکہ میں جانتا بھی ہوں۔ اور میں تجھ سے ان غلطیوں کی بخشش مانگتا ہوں جنھیں میں نہیں جانتا۔‘‘  (مسند احمد:  19606والأدب المفرد، حديث:716)

303۔ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ كَالْوِعَاءِ، إِذَا طَابَ أَسْفَلُهُ طَابَ أَعْلَاهُ، وَإِذَا فَسَدَ أَسْفَلَهُ فَسَدَ أَعْلَاهُ)) (أخرجه أحمد: 16853، وابن ماجه: 4199 والطبراني في الكبير:866/19)

’’انسان کے عملوں کی مثال برتن کی سی ہے۔ اگر اس میں نیچے کا حصہ (پانی وغیرہ) اچھا ہو گا تو اوپر والا حصہ بھی اچھا ہو گا۔ اگر نیچے والا خراب ہوگا تو اوپر والا بھی خراب ہو گا۔“

توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ اگر برتن اندر سے گندا ہو تو باہر کی صفائی کوئی حقیقت نہیں رکھتی، خوبصورت اور قیمتی برتن میں گندہ پانی بھرا ہوا ہو تو اسے پینا تو دور کی بات کوئی چھونے کا بھی روا دار نہیں ہوتا، ٹھیک یہی حال ریا کاری کا ہے، اگر نیت میں ریا کاری ہو تو ظاہری عمل چاہے کتنا ہی خوبصورت ہو، وہ اللہ تعالی کے نزدیک مردود اور ناقابل قبول ہے۔

…………………….