روزہ کی حقیقت واہمیت
﴿وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ﴾ (ال عمران:133)
رمضان کا مہینہ یقینًا با برکت مہینہ ہے، اس کے ساعات ولحات نہایت ہی قابل قدر بلند مرتبہ اور قیمتی لمحات ہیں، اس کے شب و روز گنتی کے چند ایام ہیں، یہ مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے، یہ مہینہ اللہ تعالی کی طرف سے بخشش اور مغفرت حاصل کرنے کا ایک خصوصی پیکج ہے، اور نیکیوں کی سیل کا مہینہ ہے۔
اس مہینے سے مستفید ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالی نے اس کی فضیلت بیان کی اس مہینے میں کیے جانے والے اعمال کا اجر و ثواب بتلایا اور اس پورے مہینے کو ایسا ما معدودات گنتی کے چند دن کہا، جو اس چیز کی طرف واضح اشارہ اور ترغیب ہے کہ یہ ایک نہایت ہی قیمتی اور سنہری موقع ہے، اسے ضائع نہ جانے دیں، اسے سستی اور کاہلی کی نظر نہ ہونے دیں، اسے غنیمت جانیں اور اس سے بھر پور استفادہ کریں، کہ شاید یہ موقع دوبارو یہ میسر نہ آئے۔ وقت جو کہ بغیر کسی وقفے اور انقطاع کے مسلسل گزرتا چلا جا رہا ہے اور انسان کی عمر بھی وقت ہی سے عبارت ہے، اس کی قسمیں کھا کر اس کی اہمیت کا یقین دلایا جا رہا ہے۔
﴿وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشٰى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلّٰى ) (الليل:1۔2)
’’اور رات کی قسم جب وہ چھا جاتی ہے۔ اور دن کی جب وہ روشن ہوتا ہے ۔‘‘
﴿وَ الضُّحٰیۙ۱
وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰیۙ﴾ (الضحى:1۔2)
’’اور دھوپ چڑھنے کے وقت کی قسم ! اور رات کی جب وہ چھا جائے۔‘‘
﴿وَ الْعَصْرِۙ۱
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ﴾ (العصر:1۔2)
’’قسم ہے زمانے کی! کہ بے شک ہر انسان یقینًا گھاٹے میں ہے۔‘‘
کہہ کر وقت کی اہمیت ، اس کی قدرو قیمت اور اس کا مختصر ہوتا بیان کیا جا رہا ہے۔
﴿وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ﴾ (ال عمران:133)
’’کہ دوڑ کر چلو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے حصول کی طرف کہ جس کی وسعت زمین و آسمان ہے اور جو صرف متقین کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
﴿مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌ ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۲۰
سَابِقُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ۙ﴾ (الحديد:21)
’’اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں دوڑ و۔ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین و آسمان ہے۔‘‘
اور پھر مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے رمضان المبارک کی صورت میں ایک خصوصی پیکیج دے کر فرمایا:
﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ (البقرة:185)
’’جو شخص یہ مہینہ پائے وہ اس کے روزے رکھے ۔‘‘
کہ اس کا مقصد ہے۔
﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
’’تا کہ تم تقوی اختیار کرو۔‘‘
اور تقوٰی وہ خوبی اور صفت ہے جو انسان کو مغفرت اور جنت کا مستحق بناتی ہے۔
سابقوا اور سارعوا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وقت بہت کم ہے، جلدی کر لو، کہیں موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
اندازہ کریں! اللہ تعالی اہل ایمان کو کس طرح زور دار طریقے سے نیکی کی ترغیب دلا رہے ہیں ۔ (سارعوا) جلدی کرو، دوڑ کر چلو، اور (سابقوا) ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں دوڑو۔
یہ جلدی، یہ دوڑ اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کس سلسلے میں ہے؟
((إِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالْأَرْضَ﴾
’’ اللہ تعالی کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے۔‘‘
اور سارعوا اور سابقوا کے الفاظ عام دنوں کے لیے ہیں، کسی مہینے، کسی ہفتے اور کسی دن کے ساتھ خاص نہیں، مگر ان الفاظ کی اہمیت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب رمضان المبارک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں: ایا ما معدودات ، گنتی کے چند دن ہی تو ہیں۔
مگر تعجب ہے اسے بد قسمتی کہیے، دل کی سختی کیسے یا کیا کہیے! ہم میں سے اکثر لوگ پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے، اپنا وہی معمول، وہی روٹین برقرار، بلکہ وہ اس مبارک مہینے میں دنیا کی دلدل میں اور زیادہ پھنس گئے۔
نہ جانے کیوں اللہ تعالی کی اس عنایت پر، اس کی اس پیش کش پر دل مطمئن نہیں ہوتا، اس کا قائل نہیں ہوتا، اس کی طرف مائل نہیں ہوتا ، اس کے برعکس دنیا کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔ دنیا کے معاملے میں آکر کہیں سے ایسی پیش کش آئے تو ہمارا حال کیا ہوتا ہے۔
آپ سب نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کسی سٹور میں لمٹد ٹائم کے لیے سیل لگے تو دنیا کسی طرح اس پر ٹوٹ پڑتی ہے، اور اگر کسی سٹور کی طرف سے کوئی چیز فری دینے کا اعلان کیا گیا ہو تو پھر تو لوگوں کی حالت زار دیدنی ہوتی ہے، سٹور کھلنے کے انتظار میں رات بھر بخت سردی میں لائن میں کھڑے ہو کر گزار دیتے ہیں اور اس سے بھی بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں بہت سے لوگ صاحب حیثیت ہوتے ہیں۔ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں، ڈاکٹر صاحب ہیں اور ان کی سیلری سالانہ پونے تین لاکھ ڈالر ہے، وہ ایک سٹور سے فری لیپ ٹاپ حاصل کرنے کے لیے رات بھر سخت سردی میں لائن میں کھڑے رہے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے نزدیک اللہ تعالی کی مغفرت اور جنت کی ویلیو ایک لیپ ٹاپ کے برابر بھی نہیں ہے؟
ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ دین کی باتیں سمجھ نہیں آتیں، دل ان کی طرف مائل نہیں ہوتا اور دنیا کی باتیں ہوں تو ہماری رالیں ٹپکنے لگتی ہیں، اور مسلمانوں کی پستی، ذلت و رسوائی اور زوال و انحطاط کی بات ہو تو ہم حکمرانوں کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں اور انہیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اللہ تعالی نے اس مبارک مہینے کے تیسں دنوں کو ’’ایاما معدودات‘‘ گنتی کے چند دن کہہ کر نیکیوں کی سیل لگائی ایک رات کو لیلتہ القدر کی عبادت کو ہزار مہینے سے بہتر فرمایا، اپنی مغفرت سے نواز نے اور جنت کا مستحق قرار دینے کا وعدہ فرمایا۔
کیا اس میں بھی کوئی دلچپسی نہیں، کیا دل پھر بھی اس کی طرف مائل نہیں ہوتا ؟
﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ (الحدید:16)
’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وو ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے ۔‘‘
جان لیجیے کہ دلوں کی سختی کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑی سزا ہے، کہ دل سخت ہونے کا مطلب ہدایت کے دروازے اس کے لیے بند ہوتا ہے، اور یہ سب سے خطرناک سزا اس لیے بھی ہے کہ اس سزا کا انسان کو احساس نہیں ہوتا، کیونکہ اسے نعمتیں مل رہی ہوتی ہیں، خوشیاں دی جاتی ہیں، دولت کی فراوانی اس پر کر دی جاتی ہے اور انسان چاپلوسوں اور خوشامدیوں کے جھرمٹ میں گھرا ہوا ہوتا ہے پھر اسے اس نعمت سے محرومی اور دل کی سختی کا احساس بھلا کیونکر ہو سکتا ہے۔
اور ابھی یہ تو رمضان المبارک کی برکتوں سے محروم رہنے والے ان افراد کی بات ہو رہی ہے جو کم از کم روزہ تو رکھتے ہیں، جبکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو سرے سے روزو رکھتے ہی نہیں، ریسٹورانوں میں جا کر دیکھ لیجیے، رونقیں برقرار ہیں، خوب گہما گھی ہے، ایسے لوگوں کی محرومی اور بدنصیبی پر کیا تبصرہ کریں، صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔ کسی مسلمان کا روزہ نہ رکھنا، دین سے دوری اور بے عملی کی انتہاء ہے، اس حوالے سے بلا تبصرہ ایک واقعے کا ذکر کرتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ ایک مسلمان رمضان کے مہینے میں دن کے وقت کھانا کھا رہا تھا اور ایک یہودی بھی اس کے ساتھ شریک تھا، مسلمان نے اس یہودی سے کہا کہ یہودی تو ہم مسلمانوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے، پھر تم یہ کیسے کھا رہے ہو؟
اس نے کہا:
((أَنَا فِي الْيَهُودِ مِثْلُكَ فِي الْمُسْلِمِينَ))
’’اس نے کہا میں یہودیوں میں اس طرح کا یہودی ہوں جس طرح مسلمانوں میں تم مسلمان ہو ۔‘‘
تو جو لوگ سرے سے روزہ رکھتے ہی نہیں، اللہ تعالی انہیں ہدایت دے اور راہ راست پر لائے۔ آمین
اور جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ تین قسم کے ہیں۔
(1) ایک وہ جو عام روزہ رکھتے ہیں، اور وہ ہے پیٹ اور شرمگاہ کا روزہ۔
(2) دوسرے وہ ہیں جو خاص روزہ رکھتے ہیں، اور وہ ہے تمام اعضاء و جوارح کا روز و جس میں آنکھ، کان، زبان، ہاتھ پاؤں اور دیگر تمام اعضاء و جوارح کو گناہ اور معصیت سے بچاتا ہوتا ہے۔
(3) اور تیسرا ہے خاص الخاص روزہ اور وہ ہے دل کا روزہ، اور وہ آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ پاؤں کو ہی برائی سے روکنے تک محدود نہیں، بلکہ وہ دین کے تمام تقاضوں کے مطابق روزہ ہوتا ہے اور ﴿ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪﴾کی روح کے مطابق روزہ ہوتا ہے۔ اور﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۱۶۲﴾کی حقیقت کے مطابق روزہ ہوتا ہے اور یہ روزہ صلحاء و متقین کا روز و ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اس مقام پر پہنچتا ہے تو پھر اللہ تعالی کی طرف سے اسے یہ اعزاز بخشا جاتا ہے کہ اللہ تعالی اپنی نسبت اس کے ساتھ یوں جوڑتے ہیں کہ
((كُنتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ))
’’میں اس کا کان بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ سنتا ہے۔‘‘
((وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِه))
’’اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے ۔‘‘
((وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا))
’’اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ پکڑتا ہے۔‘‘
((وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا))(بخاری:6502)
’’اور اس کی ٹانگ بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے۔‘‘
یعنی پھر اس کے تمام اعضاء اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ تو اس تیسری قسم کے روزے دار اگر نہ بن پائیں تو چنداں پریشانی والی بات نہیں کہ وہ آج کے دور میں ہر ایک کے بس کی بات نہیں ، مگر کم از کم جو روزہ مطلوب ہے وہ یہ کہ تمام اعضاء کا روز و ہو، صرف پیٹ اور شرمگاہ کا روزہ کافی نہیں، کیونکہ حدیث میں ہے،آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَّدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ))(بخاری:1903)
’’جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھورے، اللہ تعالی کو ایسے شخص کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
تو تمام اعضاء کا روزہ رکھنے سے روزے کی شرائطا تو پوری ہو جاتی ہیں مگر روزے کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا، اور وہ ہے تقویٰ پیدا کرتا، اور وہ فرائض کے بعد کثرت نوافل سے حاصل ہوتا ہے، وہ نوافل نماز کی صورت میں ہوں ، صدقہ وخیرات کی شکل میں ہوں، تلاوت قرآن پاک کی صورت میں ہوں یا تو بہ واستغفار کی صورت میں ہوں۔ اور اگر روزوں کا مطلوب و مقصود حاصل کرنے کا ارادہ ہو، جو کہ ہونا چاہیے تو پھر اس کے لیے اضافی محنت کرنا ہوگی، اور وقت دینا ہوگا۔
اس مبارک مہینے کے شب و روز اور ساعات ولمحات سے استفادہ کرنا کیوں ضروری ہے، اور کس طرح کیا جا سکتا ہے، یہ ہم نے گزشتہ خطبات میں جان لیا اور ہمیں اس کا علم حاصل ہو گیا۔ اب کوئی شخص اس سے استفادہ کرنا چاہے نہ چاہے اس کی مرضی ہے۔
بس اتنی بات یاد رہیں ، جیسا کہ امام سفیان ابن عیینہ ہے فرماتے ہیں:
((الْعِلْمُ إِنْ لَمْ يَنفَعُكَ ضَرَّكَ)) (تهذيب الكمال، ج:11، ص:192)
’’علم اگر تمہیں فائدہ نہ پہنچائے تو نقصان ضرور کرتا ہے۔‘‘
یعنی علم کے مطابق اگر عمل کیا تو فائدہ ہوگا، اور اگر عمل نہ کیا تو تم پر حجت قائم ہوگی، جس طرح حدیث میں ہے:
((اَلْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ))(مسلم:223)
’’قرآن پاک تمہارے لیے حجت اور دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف ‘‘
اسی طرح وہ جو حدیث میں آتا ہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکے گا جب تک وہ چار باتوں کا جواب نہ دے لے اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ ((مَاذَا عَمِلَ فِيْمَا عَلِمَ))(ترمذی:2416)
’’جو کچھ جاتا اس کے مطابق عمل کیا کیا ؟‘‘
یعنی ہر حال میں اس سوال کا جواب دیتا ہوگا، تو کیا ہم اس سوال کے جواب کے لیے تیار ہیں؟ ہر آدمی اپنے اپنے گریبان میں جھانکے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام یوم الحسر ۃ بھی ہے، حسرت کا دن۔ اور یہ حسرت ہر شخص کرے گا، جو برائیوں میں ملوث رہا، وہ اس بات پر حسرت کرے گا کہ اس نے گناہوں کا ارتکاب کیوں کیا، اور جو نیکی کی راہ پر چلتا رہا وہ اس بات پر حسرت کرے گا کہ اس نے مزید نیکیاں کیوں نہ کیں۔ مگر اس وقت حسرت و ندامت کسی کام نہ آئے گی ، چنانچہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ﴾ ’’ انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیے۔‘‘
یوں تو اس روز ہر شخص حسرت کرے گا مگر کچھ لوگ نسبتا زیادہ حسرت کریں گے، مثلاً جو
شخص کسی مصروفیت کی وجہ سے نیکیاں کرنے سے محروم رہا، وہ تو حسرت کرے گا ہی، مگر جو شخص فارغ البال تھا، جو ملازمت اور کاروبار کے جھنجٹ اور جھمیلوں سے فارغ تھا اور پھر بھی نیکیاں نہ کما سکا وہ یقینًا زیادہ سخت حسرت کرے گا۔
امام سفیان ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((أَشَدُّ النَّاسِ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلاثَةٌ))
’’قیامت کے دن سب سے سخت حسرت و افسوس تین قسم کے لوگ کریں گے۔‘‘
1۔ ((رَجُلٌ كَانَ لَهُ عَبْدٌ فَجَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَفضَلَ عَمَلًا مِّنْه))
’’ ایک وہ شخص کہ جس کے پاس غلام تھا، اور وہ غلام اس سے بہتر عمل لے کر آیا۔‘‘
2۔ ((وَرَجُلٌ لَهُ مَالٌ، فَلَمْ يَتَصَدَّقُ مِنْهُ، فَمَاتَ فَوَرِثَهُ غَيْرُهُ فَتَصَدَّقَ بِهِ))
’’ایک وہ شخص جس کے پاس مال تھا مگر اس نے اس میں سے صدقہ نہ کیا پھر جب وہ قوت ہوا تو اس کے وارث نے اس میں سے صدقہ کیا۔‘‘
3۔ ((وَرَجُلٌ عَالِمٌ لَمْ يَنْتَفِعُ بِعِلمِهِ ، فَعَلَّمَ غَيْرَهُ فَانْتَفَعَ بِه))(حلية الأولياء: 288/7)
’’ایک وہ شخص جو عالم تھا مگر اس نے اپنے علم سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا، وہ علم اس نے کسی دوسرے کو سکھایا تو وہ اس سے مستفید ہوا۔‘‘
اس لیے اس دن کے حسرت وافسوس سے بچنا چاہتے ہیں تو آج وقت ہے، مگر یہ وقت اور یہ مہلت عمر کب ختم ہو جائے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہےکہ آج تک کسی سے اس کا انکار بن پایا نہ بن پائے گا، اتنی بڑی حقیقت کو فراموش کر دینا، یا نظر انداز کرنایقینًا دانشمندی نہیں۔ کوئی عقلمند اس سے کسی طرح بے فکر ہو سکتا ہے، یقین نہیں آتا، دنیا میں ہر روز تقریبا ڈیڑھ لاکھ افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ آئندہ چوبیں گھنٹوں میں مرنے والوں کی فہرست میں کس کس کا نام شامل ہے، کسی کو اس کی فکر نہیں اور نہ ہی کوئی اس نہج پہ سوچنے کو تیار ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس فہرست میں اس کا نام بھی شامل ہو۔ تا ہم رمضان المبارک تزکیہ و تربیت کا اور ضبط نفس کا مہینہ ہے اس سے مستفید ہونے کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔
……………..