صبر کا مفہوم اور اس کی اہمیت

صبر کا مفہوم اور اس کی اہمیت

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ ) (البقره:45)
گذشتہ خطبات میں صبر کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے، صبر یقینًا ایک بہت برای حقیقت ہے، زندگی میں ہر انسان کو، ہر روز اور تقریبا ہر شعبے اور ہر معاملے میں صبر کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے، وہ صبر سے گزرنا شعوری ہو یا غیر شعوری مگر ہر حال میں اسے ہر روز بہت سی باتوں میں صبر سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
انسان جب صبح نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کی تکلیفوں ، مصیبتوں، پریشانیوں اور آزمائشوں کا آغاز ہو جاتا ہے اور اگلے روز نیند سے بیدار ہونے تک وقفے وقفے سے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ انسان کسی عمرہ کسی طبقے اور کسی حیثیت سے بھی تعلق رکھتا ہو، اسے ہر حال میں کسی نہ کسی پریشانی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے، وہ بچہ ہوں، تو جوان ہو، بوڑھا ہو، مرد ہو، عورت ہو، امیر ہو، غریب ہو، عالم ہو یا جاہل جو کسی بھی صورت میں پریشانیوں سے بچنا ممکن نہیں ہے اور یہ کسی ایک مخصوص وقت کی بات نہیں بلکہ زندگی بھر کا معمول اور دستور ہے۔
موٹی موٹی پریشانیوں سے تو سبھی لوگ واقف ہوتے ہیں کہ جن پر صبر کی ضرورت پیش آتی ہے، جیسے کاروبار کے دوران میں کبھی اختلاف ہو جائے تو اکثر تو شکار ہونے لگتی ہے اور کبھی نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے، ملازمت میں بھی اکثر سیٹھ اور افسر کی تلخ اور ترش باتیں سننے کو ملتی ہیں جو طبیعت پر ناگوار گزرتی ہیں ۔ کبھی پڑوسیوں کی طرف سے زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوست و احباب اور رشتہ داروں کی طرف سے ظفر وطعن کا نشانہ بننا پڑتا ہے ، اسی طرح کام کی مشقت اور بیماریوں کی تکلیف سے دو چار ہونا پڑتا ہے ، بھوک اور پیاس کی شدت سے گزرنا پڑتا ہے، اور تو اور اپنے گھر کے اندر بھی بہت سی ناگوار باتوں کو سہنا پڑتا ہے حتی کہ انسان کو دکھ، تکلیف ، آزمائش اور پریشانی اس طرف سے آتی ہے جہاں سے انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ، اور وہ ہے اس کی اولاد ۔
اولاد کہ جس کے لئے انسان اپنا تن من دھن قربان کر دینے کو تیار ہوتا ہے، جس کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں اور ساری توانائیاں صرف کر دیتا ہے، اس کی طرف سے جب تکلیف آتی ہے تو بہت گراں گزرتی ہے۔ تو ایک طرف جسمانی تکلیفیں اور اذیتیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف ذہنی اور نفسیاتی تکلیفیں بھی ہوتی ہیں ، اور ذہنی اور نفسیاتی تکلیف عموما جسمانی تکلیف سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے حتی کہ زیادہ تر واقعات میں خود کشی کا باعث بھی ذہنی تکلیف ہی ہوتی ہے۔
ذہنی اور نفسیاتی اذیت ایک بہت بڑی حقیقت ہے، قرآن پاک میں اس کا جا بجاؤ کر کیا گیا ہے، اور اس کا اثر تسلیم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ۝﴾ (الانعام:33)
’’ہمیں بخوبی علم ہے کہ ان کی باتیں آپ ﷺ کو رنجیدہ کرتی ہیں۔ لیکن یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿ وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ۝۹۷
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ۝﴾ (الحجر:97۔98)
’’ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ دل میں تنگی اور انقباض محسوس کرتے ہیں آپ لئے کہ تم اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں، اور سجدہ کرنے والوں میں رہیں‘‘
گویا کہ لوگوں کی باتوں پر آپ لے کر ہم کو جو کوفت پہنچتی تھی اس پر تسلی بھی دی اور اس کا حل اور علاج بھی بتلا دیا۔
نفسیاتی تکلیف ایک ایسی حقیقت ہے کہ زبان سے کچھ کہنے کی بجائے محض اشاروں کنایوں سے بھی تکلیف پہنچتی ہے، اور بعض صورتوں میں تو غیر ارادی اشاروں اور حرکت سے بھی تکلیف پہنچتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً فَلَا يَتَنَاجَي اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ)) (صحیح البخاری:6288)
’’اگر تین آدمی ہوں تو ان میں سے دولوگ تیسرے سے الگ ہو کر آپس میں سر گوشیاں نہ کریں۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:
((فَإِنَّ ذٰلِكَ يُحْزِنُهُ)) (سنن ابی داؤد:4851)
’’ کہ یہ بات اسے رنجیدہ اور غمگین کر دیتی ہے۔‘‘
کیونکہ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات گزرنے لگتے ہیں وہ سوچنے لگتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ میرے خلاف ہی کوئی بات کر رہے ہوں۔ یا یہ خیال آسکتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ بات جو وہ آپس میں سرگوشی کر رہے ہیں مجھے بھی اس میں شریک کریں، تو اس طرح کے اور بھی خیالات آتے ہونگے جو کہ اسے رنجیدہ کر دیتے ہیں، چنانچہ اسلام نے اس سے منع کر دیا ہے، کیونکہ اصل میں یہ ایک شیطانی کام ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔
﴿ اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیْسَ بِضَآرِّهِمْ شَیْـًٔا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ وَ عَلَی اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝﴾(المجادلة:10)
’’کا نا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے اور وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان والے رنجیدہ ہوں۔‘‘
در اصل یہ یہودیوں کی ایک بد خصلتی تھی کہ جب وہ کسی مسلمان کو پاس سے گزرتے ہوئے دیکھتے تو چپکے چپکے ، اشاروں کنایوں سے آپس میں سرگوشیاں کرنے لگتے جس سے اس اکیلے مسلمان کو لگتا کہ جیسے وہ اس کے قتل کی سازش کر رہے ہیں اور ترکیب سوچ رہے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام سے روک دیا مگر وہ پھر بھی باز نہ آئے ۔
تو بات یہ ہو رہی تھی کہ زندگی میں ہر انسان کو ہر روز بہت سے ایسے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے جن پر صبر کی ضرورت پیش آتی ہے مگر چونکہ اکثر لوگ ان سے آگاہ نہیں ہوتے کیا موقعے پر ان کی طرف دھیان نہیں جاتا کہ یہ بھی کوئی صبر کا مقام ہے، لہذا صبر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔
تو ان بہت سے مسائل میں سے یہ چند موٹی موٹی اور آسان کی با تیں بطور نمونہ ذکر کی گئی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو ہر قدم پر صبر کی ضرورت پڑتی ہے مگر افسوس کہ اس پہلو سے سوچنا اور خبر دار ربنا ہماری عادات میں شامل نہیں ہے۔
تو ہم صبر کی حقیقت ، اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ، کیونکہ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جب تک صبر کی ضرورت واہمیت سمجھ نہیں آئے گی اس کی کوشش نہیں کی جاسکتی۔
صبر زندگی گزارنے کے آداب میں سے سب سے بنیا دی اور سب سے اہم ادب اور سلیقہ ہے جو دنیوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور یہ ادب اسلامی نظام کا خاصہ ہے جو دنیا کے کسی اور نظام اور دین و مذہب میں نہیں ملے گا۔
دنیا کے بڑے بڑے دانشور اس ادب کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے اور اس کی گہرائی تک پہنچنے میں ناکام رہے، کیونکہ عقیدے اور ایمان کی آمیزش کے بغیر صبر اور برداشت کی حقیقت سمجھ میں آسکتی ہے اور نہ اس سے مطلوبہ نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔
صبر ایک حقیقت ہے اور اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنے کے لئے بہت سی آیات و احادیث موجود ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍؕ۝۴﴾(البلد:4)
’’در حقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘
اور یہ کتنی اہم بات ہے اندازہ کیجئے کہ اللہ تعالی نے چند قسمیں کھانے کے بعد یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔ فرمایا:
﴿ لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ۝﴾(البلد:1)
’’میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔‘‘
﴿ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ۝﴾(البلد:2)
’’ اور حال یہ ہے کہ آپ اس شہر میں مقیم ہیں۔‘‘
﴿ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَۙ۝۳﴾ (البلد:3)
’’اور قسم کھاتا ہوں باپ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی ۔‘‘
اور انسان کے مشقت میں پیدا کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کے لئے آرام کی جگہ نہیں ہے اور نہ اسے دنیا میں مزے کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، بلکہ یہ دنیا اس کے لئے محنت و مشقت اور سعی و جہد کی جگہ ہے۔ اور دنیا میں زندگی گزارنے کے حوالے سے ایک جگہ فرمایا:
﴿ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۝﴾ (البقرة:155)
’’ اور ہم ضرور تمہیں خوف، بھوک ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے کھانے میں جتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے اور ان حالات میں جو لوگ صبر کریں انہیں خوش خبری دے دو۔‘‘
اور ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ۝﴾(البقرة:214)
’’ کیا تم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تم جنت میں داخل ہو جائے حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں آیا جو تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر آچکا ہے: ان پر سختیاں آئیں مصیبتیں آئیں پہلا کر اور جھنجھوڑ کر رکھ دیئے گئے حتی کہ وقت کا رسول (علیہ السلام) اور اس کے ساتھی ایمان لانے والے پکارا ٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی اور اس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ جان لو اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
اسی طرح حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ((حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالمَكَارِهِ، وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ)) (صحیح مسلم:2822)
’’جنت کو نا پسندیدہ چیزوں کے ساتھ گھیر دیا گیا ہے اور جہنم کو خواہشات کے ساتھ گھیر دیا گیا ہے۔‘‘
یعنی جنت میں جانے کے جتنے راستے ہیں سب خاردار اور دشوار گزار ہیں ، جنت میں لے جانے والا ہر کام با مشقت ہے، اس میں بخشتی ہے جنگی ہے، تکلیف ہے، آزمائش ہے۔ ابتلاء اور امتحان ہے، اور انسان کے مزاج پر فطرنا ناگوار گزرنے والا ہے، الا یہ کہ ایمان کی طاقت اسے محبت، شفقت، رغبت اور لذت میں تبدیل کر دے ۔ عبادات کی بات کیجئے تو وہ انسان پر فطر نا گراں گزرتی ہے جیسا کہ نماز کے بارے میں فرمایا!
﴿ وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَۙ۝﴾(البقرة:45)
’’ صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر ڈر رکھنے والوں پر مشکل نہیں ہے۔ ‘‘
اور وضو کے بارے میں حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلٰى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ))
’’کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں کہ جس کے ذریعے اللہ تعا لی گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کر دیتا ہے؟‘‘
((قَالُوا بَلٰى يَا رَسُولَ اللَّهِ))
’’صحابہ نے عرض کیا ہاں کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ‘‘
((قَالَ إِسْبَاعُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ وَكَثْرَةُ الْخُطَایَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَذَلِكُمُ الرِّباط)) (صحیح مسلم ، كتاب الطهارة:251)
’’فرمایا: نا پسندیدہ حالتوں میں ٹھیک ٹھیک اور پوری طرح وضو کرنا اور مسجدوں کی طرف زیادہ قدم چل کر جانا اور نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور یہی رباط ہے۔‘‘
اور رباط کا معنی ہے کسی کام کے لئے اپنے آپ کو روکے رکھنا اور اس کا شرعی مطلب ہے سرحدوں کی حفاظت کے لئے پہرہ دینا۔ اور اس کی احادیث میں بہت بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:
((رباطُ يَوْمٍ ولَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامٍ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ)) (صحیح مسلم:1913)
’’ایک دن اور رات کا رباط اور پہرہ ایک مہینے کے روزوں اور ان میں کئے گئے قیام اللیل سے بہتر ہے۔‘‘
تو وضو کی بات ہو رہی تھی کہ وضو عام حالات میں بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے چہ جائیکہ مشکل حالتوں میں وضو کرنا، جیسا کہ سخت سردی کے موسم میں جب کہ گرم پانی کی سہولت موجود نہ ہو یا بیماری اور معذوری کی حالت میں وضو کرتا اور وہ بھی سرسری سا نہیں بلکہ ٹھیک ٹھیک اور مکمل طور پر وضو کرنا ، یعنی افضل طریقے سے وضو کرنا ۔
اسی طرح دوسرے جنت میں لے جانے والے کام بھی فطرتًا انسان کی طبعیت پر گراں گز رتے ہیں، جیسے صدقہ کرنا ، نوافل پڑھنا، روزے رکھنا ، حج اور عمرہ کرنا اور دیگر نیک کام کرنا۔ اور ایسے ہی جہنم میں لے جانے والے کام انسان کو مرغوب اور من پسند ہیں، نفس کی فطری خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں انسان ان کی طرف طبعی میلان اور رجحان رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث ہم نے سنی کہ:
(حُفَّتِ النَّارُ بالشَّهَوَاتِ)
’’کہ جہنم کو خواہشات کے ساتھ گھیر دیا گیا ہے ‘‘
یعنی انسان کی خواہشات اسے جہنم میں لے جاتی ہیں حالانکہ خواہشات تو نیک بھی ہوتی ہیں مگر عمومی طور پر خواہشات کا ذکر فرمایا یعنی ایسی خواہشات جو دین سے متصادم ہوں، جو دین کے تابع نہ ہوں ، ایسی خواہشات کو دین کے مقابل قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ﴾ (القصص:50)
’’ اب اگر وہ لوگ آپ ﷺکی آواز پر لبیک نہیں کہتے تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں ۔‘‘
تو جو خواہش نیک اور دین کے تابع ہوا سے اتباع کا نام دیا گیا ہے اور جو دین کے تابع نہ ہو اسے خواہشات نفس کی پیروی کہا گیا ہے۔ تو صبر کی ضرورت واہمیت کو سمجھ رہے تھے کہ جب صورت حال یہ ہو کہ انسان سرتا پا پریشانیوں ، مصیبتوں ، اور آزمائشوں میں گھرا ہوا ہو اور قدم قدم پر اسے تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو تو ضروری ہو جاتا ہے کہ صبر سے مدد لی جائے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۝﴾(البقرة:153)
’’ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘
یعنی اپنے مسائل کے لئے صبر اور نماز کے ذریعے حل تلاش کرو اور ان سے مدد لو۔ لیکن جب انسان کا فطری مزاج یہ ہو کہ:
﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًاۙ۝۱۹
اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًاۙ۝۲۰
وَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًاۙ۝۲۱﴾(المعارج:19۔21)
’’ انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے ، جب اس پر مصیبت آئے تو گھبرا اٹھتا ہے ، اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔‘‘
تو صبر یقینًا مشکل ہو جاتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ قرب قیامت جب ایسی شدید آزمائشیں ہوں گی کہ ان پر صبر کرنا مٹھی میں انگارہ لینے کے مترادف ہوگا تو اس وقت صبر کرنا کس قدر مشکل ہو گا آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس دور کا نام ہی ایام الصبر قرار دے دیا گیا ہے کہ صبر کے ایام والا دور ، اور پھر ان دنوں میں صبر کی شدت کے حساب سے اس کا اجر بھی بڑھا دیا گیا ہے ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامَ الصَّبْرِ ، الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَى الجَمْرِ لِلْعَامِلِ فِيهِمْ مِثْلُ أَجْرٍ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عمَلِهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْهُمْ قَالَ أَجْرُ خمسين مِنكُمْ))
’’کہ تمہارے بعد کچھ صبر کے ایام آئیں گے ان ایام میں صبر کرنا انگارے کو شھی میں لینا ہے اس زمانے میں عمل کرنے والے کو اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس جیسے عمل کرنے والے پچاس لوگوں کو ملتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: پچاس ان میں کے، یا ہم میں سے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر؟ فرمایا: تم میں سے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر‘‘۔ (سنن ابن ماجه: 4014، تخریج ابو داود شعيب الأرناؤوط:4341)
صبر کا موضوع ایک بہت طویل موضوع ہے جس کے لیے ایک لمبا وقت درکار ہوگا، تا ہم اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی فہم دین ہمارے لیے آسان بنا دے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………..