صبر کی فضیلت

الحمد لله مثيب الطائعين، ومجزل العطاء للصابرين، له الخلق والأمر، وبيده النفع والضر، ﴿لَا یَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَ لَاۤ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرُ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍۗۙ۝۳﴾ وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، يفعل ما يشاء، ويحكم ما يريد، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، أفضل المرسلين وسيد الصابرين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه:
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو اطاعت گزاروں کو ثواب سے نوازتا اور صبر کرنے والوں کو اجر جزیل عطا کرتا ہے۔ ساری مخلوق اس کی ہے، حکم بھی اس کا ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں نفع و نقصان بھی ہے۔ ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور کوئی چیز ذرے سے چھوٹی یا بڑی ایسی نہیں جو کتاب مبین میں لکھی ہوئی نہ ہو۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اس کی جو مشیت ہوتی ہے۔ کرتا ہے۔ اور جو چاہتا ہے۔ فیصلہ فرماتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ سید نا محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جو تمام رسولوں میں سب سے افضل اور صبر کرنے والوں میں سب سے اعلیٰ اور سب کے امام ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر بہت بہت درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور کامل طور پر اس کی عبادت کرو آلام و مصائب میں صبر سے کام لو اور رب العالمین سے اجر و ثواب کے طالب رہو۔ یہ دنیا مصیبت و پریشانی کا گھر ہے۔ مکدر اس کی طبیعت میں داخل ہے۔ اور اسی سے انسان کی تخلیق بھی مشقت میں ہوئی۔
یہ دنیا کسی نیک بخت کے لئے خوشگوار ہو سکتی ہے۔ نہ بد بخت کے لئے کسی جاہل کو راس آسکتی ہے۔ نہ عالم کو اس کے شر سے چھوٹا محفوظ رو سکتا ہے۔ نہ بڑا کوئی انسان اس سے بچ سکتا ہے۔ نہ حیوان۔
دنیا ایک آزمائش گاہ ہے۔ رنج وغم کی جگہ ہے۔ مشقت و پریشانی اور بیماری کا گھر ہے۔ اس نے اب تک کتنے دوستوں کو جدا کیا۔ کتنے یار ایک دوسرے سے بچھڑے۔ باپ بیٹے جدا ہوئے اور دوست سے دوست محروم ہوئے۔ سچ فرمایا اللہ تعالی نے:
﴿ولَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ﴾ (البلد:4)
’’ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے۔‘‘
لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا آخرت کی کھیتی بھی ہے۔ جس میں مومن اعمال صالحہ کے بیج ڈالتے ہیں۔ رب العالمین کی اطاعت اور اس کی جناب میں قربانیاں پیش کر کے اس سے تقرب حاصل کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبرداروں کے لئے جنات نعیم میں جو انعامات تیار کر رکھے ہیں اس کی امید رکھتے ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تذکرہ کیا ہے:
﴿جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا ۚ وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ۝۳۳ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙ۝۳۴ ِ۟الَّذِیْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا نَصَبٌ وَّ لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا لُغُوْبٌ۝۳۵﴾ (الفاطر:33،35)
’’بهشت جاودانی میں وہ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کی پوشاک ریشمی ہو گی وہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے۔ جس نے ہم سے غم دور کیا بیشک ہمار ا رب بخشنے والا اور قدر دان ہے، جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا، یہاں نہ تو ہم کو رنج پہنچے گا اور نہ ہمیں تلکان ہی ہو گی۔‘‘
یہی وہ فضل عظیم اور دائمی نعمت ہے۔ جو صرف اور صرف اس بندے مومن کو حاصل ہو گی جو اللہ تعالی سے ملنے کی امید رکھتا ہو، جو شدت و پریشانی اور ناموافق حالات میں صبر کرتا ہو جو یہ ایمان رکھتا ہو کہ اس کا ایک پروردگار ہے۔ جو شکستہ امور کو جوڑتا اور صبر و شکر کرنے پر اجر عظیم سے نوازتا ہے، جس کا یہ اعتقاد ہو کہ اسے جو مصیبت پہنچی وہ اس سے ٹلنے والی نہ تھی اور جس سے وہ محفوظ رہا وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ وہ مومن جو اللہ کے ان نیک بندوں کی صفات سے متصف ہو جن کی خود اللہ نے یوں تعریف فرمائی ہے:
﴿الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۝۱۵6 اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ ۫ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ۝۱۵7﴾ (البقره: 156،157)
’’ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے۔ تو کہتے ہیں۔ کہ ہم اللہ ہی کے ہیں۔ اور اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ میں لوگ ہیں۔ جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے۔ اور یہی سیدھے رستے پر ہیں۔ ‘‘
ان آیات کے اندر اللہ نے اپنے جن نیک بندوں کا ذکر کیا ہے۔ میں وہ مومن بندے ہیں۔ جن کے تقدیر الہی سے خوش رہنے کے صلے میں رب العزت ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتا اور مہربانی فرماتا ہے۔ انہیں ہدایت کی راہ پر لگاتا اور ان کے دلوں کو اطمینان و رضا سے معمور کرتا ہے۔ تاکہ دنیا میں انہیں جو کلفت و مشقت پہنچی ہے۔ اس کا صلہ مل جائے۔ آخرت کی فلاح و کامیابی کے علاوہ دنیا میں بھی انہیں طرح طرح کے انعامات سے نوازتا ہے، لغزشوں سے درگذر کرتا اور نیکیوں میں اضافہ فرماتا ہے۔
مومن کو دنیا میں جو مصیبت لاحق ہوتی ہے۔ وہ کبھی تو اس کے لئے رب العالمین سے قربت کا سبب بن جاتی ہے، کبھی اسے اس مرتبہ پر پہنچا دیتی ہے۔ جو بغیر اس طرح کی قربانیوں کے حاصل نہیں ہوتے اور کبھی بندے کو غافلوں کی صف سے نکال کر صبر و شکر کرنے والوں کا مقام دلاتی اور نکوکاروں کے زمرہ میں شامل کر دیتی ہے۔ چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا:
(أي الناس أشدُّ بلاءً؟ قال: الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل. فيبتلى الرجل على حسب دينه، فإن كان دينه صلبًا اشتد بلاؤه. وإن كان في دينه رقة ابتلي على حسب دينه، فما يبرح البلاء بالعبد حتى يتركه يمشي على الأرض وما عليه خطيئة) [جامع ترندی: ابواب الزھد، باب ما جاء في الصبر على البلاء (2398) و سنن ابن ماجه: کتاب الفتن، باب الصبر على البلاء (4023) و مسند احمد: 172/1 (1481) 173/1 (1494)]
’’اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا: انبیاء کی ان کے بعد علی الترتیب افضل لوگوں کی آدمی اپنے دین و ایمان کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر اس کے دین میں پختگی ہے۔ تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے۔ اور اگر اس کے دین میں لوچ اور نرمی ہے۔ تو اسی اعتبار سے آزمائش بھی کم ہوتی ہے۔ چنانچہ آزمائش مومن بندے کے ساتھ برابر لگی رہتی ہے، یہاں تک کہ اسے اس حالت میں چھوڑتی ہے۔ کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ اور اس کے اوپر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔‘‘
برادران اسلام! انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کے ابتلاء و محن کے واقعات ہمارے لئے درس عبرت ہیں۔ انبیاء و رسل کے علاوہ اللہ کے دیگر مومن بندوں کو جو صبر آزما مصیبتیں پہنچیں اور جن آزمائشوں میں وہ مبتلا کئے گئے وہ بھی سبق آموز ہیں، خاص طور سے حضرت ایوب علیہ الصلوة والسلام کا واقعہ مومنین کے لئے بہت بڑی عبرت اور مصیبت زدوں کے لئے باعث تسلی ہے۔ ان کے مال اولاد اور جسم پر جو آفتیں آئیں اس کی مثال نہیں ملتی ان کے پاس اتنے چوپائے اونٹ کھیتیاں اولاد اور ایسے عالیشان مکانات تھے جو کسی اور کو میسر نہ تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ ہر ایک میں ان کی آزمائش ہوئی، سارا مال ختم ہو گیا اولاد رخصت ہو گئی، پھر جسم کی باری آئی اور بدن کا کوئی عضو صحیح سالم نہیں بچا سوائے زبان اور دل کے، جس کے ذریعہ اللہ عز و جل کا ذکر و تسبیح بیان کرتے، جسم کی وہ حالت ہو گئی کہ دوستوں نے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیا غمگساروں نے کنارہ کشی اختیار کر لی اور شہر کے ایک کنارے آپ کو الگ کر دیا گیا۔ آپ کے ساتھ صرف آپ کی بیوی تھیں جو آپ کی دیکھ بھال کرتیں حالات سے مجبور ہو کر آپ کی خاطر انہوں نے لوگوں کے یہاں مزدوری بھی کرنی شروع کر دی تھی۔ لیکن ایسے صبر آزما حالات میں بھی حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے اور کہتے کہ اے اللہ! تو نے مجھ پر جو احسان کیا ہے۔ اس پر میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں- تو نے مجھے مال و اولاد کی نعمت سے نوازا تو میرے دل کے رگ وریشہ میں اس کی محبت سرایت کر گئی، پھر تو نے اپنا دیا ہو ا سب کچھ مجھ سے لے لیا اور میرے دل کو اپنے ذکر و فکر کے لئے خالی کر دیا- اب میرے اور تیرے درمیان کوئی چیز بھی حائل نہیں ہوتی مجھ سے سب کچھ واپس لے کر تو نے میرے اوپر جو احسان کیا ہے۔ اگر میرا دشمن ابلیس اسے جان لے تو مجھ سے حسد کرنے لگے۔ پھر ایک وقت آیا کہ اللہ عزو جل نے ان کی دعا اور گریہ وزاری کو قبول کیا ان کی مصیبتیں دور فرمائیں اور ان کے صبر و ایمان کے نتیجہ میں نہ صرف ان کے مال و اولاد کو واپس کیا بلکہ مزید خیر عظیم سے نوازا اور اتنا نوازا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا دنیا میں بھی بے پایاں انعام و اکرام کئے اور آخرت کی دائمی نعمتوں کی بشارت بھی سنائی۔ چنانچہ اللہ عزوجل اپنے نبی ایوب علیہ الصلوۃ والسلام کی بابت قرآن کریم میں فرماتا ہے:
﴿وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ۝۸۳ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ۝۸﴾ (الانبیاء: 83،84)
’’ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے۔ اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کو جو تکلیف تھی وہ دور کر دی اور ان کو بال بچے بھی عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بخشے۔ یہ ہماری مہربانی تھی اور عبادت کرنے والوں کے لئے نصیحت۔‘‘
یہ ایمان و صبر کا انجام تھا اور انجام کار متقیوں ہی کے لئے ہے۔
اللہ کے بندو! انسان پر جو مصیبتیں آتی ہیں۔ وہ بے شمار ہیں۔ لیکن یہ ساری مصیبتیں اس مصیبت سے کمتر ہیں۔ جو اس کے دین میں پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دیگر مصیبتوں پر جب آدمی صبر کرتا اور رب العالمین سے ثواب کی امید رکھتا ہے۔ تو یہ اس کے لئے باعث اجر و ثواب ہوتی ہیں۔ لیکن دین کے اندر جب مصیبت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو اس کا کوئی حل نہیں ہوتا اللہ ہم سب کو ایسی مصیبت سے محفوظ رکھے آمین۔
اسی طرح موت کی تکلیف بھی مرنے والے کے حق میں بہتر ہوتی ہے، بالخصوص اس صورت میں جب اس کو شہادت کا درجہ مل جائے مثلاً اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائے یا ڈوب کر یا جل کر فوت ہو جائے یا اس کے علاوہ حدیث رسول میں مذکور شہادت کے اقسام میں سے صورت بن جائے جیسا کہ حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(الشهادة سبع، سوى القتل في سبيل الله، المطعون شهيد. والغريق شهيد، وصاحب ذات الجنب شهيد، والمبطون شهيد، وصاحب الحرق شهيد، والذي يموت تحت القدم شهيد، والمرأة تموت بجمع – أي يسبب حملها – شهيدة)
[مسند احمد: 446/5 (23814) اس کے علاوہ ابو داود، نسائی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے۔]
’’قتل فی سبیل اللہ کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں: چنانچہ حالت طاعون میں مرنے والا شہید ہے۔ ڈوب کر مرنے والا شہید ہے۔ ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے۔ پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے، آگ میں جل کر مرنے والا شہید ہے۔ دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے۔ اور وہ عورت جو حالت زچگی میں مر جائے شہید ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے شہداء کے لئے وہ عظیم انعامات تیار کر رکھے ہیں۔ جنہیں نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ نہ کسی کان نے سنا ہے۔ اور نہ ہی کسی انسان کا دل اس کا تصور کر سکتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(يغفر للشهيد كل ذنب إلا الدين) [مسند احمد: 220/2 (7071) نیز دیکھئے: صحیح مسلم، کتاب الامارة باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطاياه الا الدین (1886،1885)]
’’اللہ تعالیٰ شہید کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ سوائے قرض کے۔‘‘
نیز حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(رأيت الليلة رجلين أتياني فصعدا بي الشجرة، فادخلاني دارا هي أحسن وأفضل، لم أر قط أحسن منها، قالا: أما هذه الدار فدار الشهداء) [صحیح بخاری: کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ (2721)]
’’میں نے رات میں دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے لے کر درخت پر چڑھ گئے وہاں انہوں نے مجھے ایک ایسے خوبصورت اور بہترین گھر میں داخل کیا کہ اس سے بہتر گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں شہیدوں کا گھر ہے۔‘‘
اسلامی بھائیو! آلام و مصائب پر صبر کرنا اللہ کے نیک بندوں کا شیوہ ہے۔ اور صبر پر اجر و ثواب سے نوازنا اللہ کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ اس کا اعلان ہے:
﴿وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۝۱۵۵ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۝۱۵6 اُولٰٓىِٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ ۫ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ۝۱۵7﴾ (البقره:155،157)
’’ہم کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے ضرور تمہاری آزمائش کریں گے اور صبر کرنے والوں کو (رضائے الہی کی) بشارت سنا دوں کہ ان پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے۔ تو کہتے ہیں۔ کہ ہم اللہ ہی کے ہیں۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ میں لوگ ہیں۔ جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے اور میں سیدھے رستے پر ہیں۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبه ثانیه
الحمد لله الدائم بلا زوال، المتصرف في عباده باختلاف الأحوال. يثيب عباده الطائعين، ويجزل العطاء للصابرين، إنما يوفى الصابرون أجرهم بغير حساب، أحمده سبحانه وأشكره على نعمه الظاهرة والباطنة، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
ہر قسم کی حمد وثنا اللہ کے لئے ہے۔ جو ہمیشہ سے ہے۔ اور ہمیشہ رہے گا مختلف حالات کے ساتھ اپنے بندوں کے امور میں تصرف کرتا ہے۔ اطاعت گزار بندوں کو ثواب سے نوازتا اور صبر کرنے والوں کو اجر جزیل عطا کرتا ہے۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے۔ کہ صبر کرنے والوں کو ان کے رب کی جانب سے بے شمار اجر عطا کیا جائے گا۔ میں اس کی ظاہر و پوشیدہ تمام نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا کرتا ہوں اور اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک و سیم نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کا ورود و سلام ہو آپ پر اور آپ کے جملہ آل و اصحاب پر۔ اما بعد!
لوگو! اللہ سے ڈرو اور یہ یقین رکھو کہ جس دن کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ وہ آ کر رہے گا ہم جس دنیا میں زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ آفت و مصیبت اور عبرت کی جگہ ہے۔ یہ دنیا در حقیقت دار آخرت کی جانب ایک سفر ہے۔
لہذا اس سفر میں آخرت کے لئے کچھ تو شہ تیار کر لو اور موت سے پہلے توبہ و استغفار کے ذریعہ لغزشوں اور کوتاہیوں کا تدارک کر لو۔ دنیا کے اندر کثرت مصیبت اور پے در پے حادثات عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے در حقیقت بہت بڑی عبرت اور غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کے لئے تنبیہ و موعظت ہیں، خوش نصیب وہی ہے جو دوسروں سے عبرت پذیر ہو نصیحت حاصل کرے ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہے دنیا کی گردش و احوال پر نظر رکھے اور ان سے عبرت نے نہ اپنے مال و اولاد سے دھو کہ کھائے اور نہ اپنی صحت و جوانی کے غرور میں رہے۔
لہٰذا! ایک عقلمند اور اپنے نفس کا بھلا چاہنے والے کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ اپنے رب سے ڈرتا ر ہے۔ آنے والے دن کے لئے تیاری کرے گناہوں سے بچے لوگوں پر ظلم کرنے سے اجتناب کرے اور قبل اس کے کہ توبہ کا دروازہ بند ہو خالص توبہ کر کے رب کریم سے اپنے گناہوں کی بخشش کرائے تاکہ آخرت کے دن پچھتانا نہ پڑے ارشاد ہے:
﴿اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ۝۵6 اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝ اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ۝۵۸﴾ (الزمر: 56،58)
’’اپنے اعمال درست کر لو قبل اس کے کہ وہ دن آئے کہ کوئی متنفس کہنے لگے کہ ہائے افسوس اس تقصیر پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو اسی ہی کرتا رہا یا یہ کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھ کو ہدایت دیتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں ہوتا یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے کہ اگر مجھے پھر ایک دفعہ دنیا میں جانا ہو تو میں نیکو کاروں میں سے ہو جاؤں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔