صدقہ فطر

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعَا مِّنْ تَمَرٍ أَوْ صَاعًا مِّنْ شَعِيْرٍ، عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ والأنثى، وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيْرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَن تُوَدِّى قَبْلَ خُرُوْجِ
النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب الزكاة، باب فرض صدقة الفطرة، صحيح مسلم كتاب الزكاة، باب زكاة الفطر على المسلمين من التمر والشعير.)
ابن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے زکوۃ الفطر فرض قرار دی ہے اور وہ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہے، غلام اور آزاد پر، مرد اور عورت پر، چھوٹے اور بڑے پر اور آپ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اسے نماز عید کے لئے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے۔
عَنِ ابْن عَبَّاسٍ رَضِيَ الله عنهُ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكُوةَ الْفِطْرِ طهْرَةً لِّلصَّيَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفثِ وَطُعَمَةً لِّلْمَسَاكِينِ مَن أَداهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكٰوةً مَّقْبُوْلَةُ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِن
الصَّدَقَاتِ. (رواه ابوداود)
(سنن ابو داود: کتاب الزکاة، باب زكاة الفطر، و حسنه الألباني في صحيح سنن ابی داود: (1609)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے روزے دار پر روزے کو بے ہودہ گوئی اور بخش کلامی سے پاک کرنے اور غرباء ومساکین کی خوراک مہیا کرنے کے لئے زکوۃ الفطر فرض کی ہے، پس جس شخص نے نماز عید کے لئے جانے سے قبل قطرہ ادا کر دیا تو اس کی زکوۃ مقبول ہے اور جو شخص نماز کے بعد ادا کرے گا تو اس کی زکوۃ الفطر ادا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔
تشریح:
رمضان المبارک کے اختتام پر صدقہ فطر کی ادائیگی ضروری ہے اور یہ چیز ہر مسلمان پر واجب ہے چاہے وہ مالدار ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، بچا ہو یا بچی ہر ایک کی جانب سے زکوۃ الفطر ادا کی جائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ادائیگی کے دو مقصد بتائے ہیں ایک تو روزوں میں جو کمی یا نقص ہو گیا ہے اس سے اس کی تلافی ہوتی ہے اس میں امیر و غریب سب برابر ہیں البتہ اگر کوئی بہت ہی غریب ہے اس کے پاس ایک وقت کی بھی روزی نہیں ہے تو وہ اس سے خارج ہے، دوسرے نادار اور غریبوں کو کھانا مل جاتا ہے تاکہ وہ بھی عید کی خوشی میں برابر کے شریک ہو سکیں۔ صدقہ فطر ہر اس محلے سے دیا جا سکتا ہے جو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے جیسے چاول، چنا، گیہوں، جو، باجرہ، کھجور وغیرہ۔ اگر کسی کے پاس ناہ نہیں ہے اور سامنے والے کو روپیہ کی زیادہ ضرورت ہے تو ایسی صورت میں وہ غلہ کے بجائے روپیہ نکال سکتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جو چیز وہ کھانے میں استعمال کرتا ہے اس حساب سے اس کی قیمت لگا کر صدقہ فطر ادا کرے گا۔
صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع نبوی ہے جس کا وزن آج کل کے حساب سے ڈھائی کلو ہوتا ہے۔ صدقہ فطر کے نکالنے کا بہترین وقت عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے ہوتا ہے لیکن اگر ایک یا دو دن پہلے ادا کر دیا جائے تو بھی بہتر ہے تاکہ غریب و نادار لوگ اپنی ساری ضرورتیں پوری کر لیں اور ان کے بچے عید کی مسرتوں میں برابر کے شریک ہوسکیں۔ لیکن اگر کسی شخص نے عید کی نماز کے بعد صد قیر فطر ادا کیا تو اس کا عام صدقہ مانا جائے گا۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح طریقہ سے صدقہ فطر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے۔
٭ صدقہ فطر کی ادائیگی نماز عید سے قبل ہے۔
٭ صدقہ فطر سے روزوں کی کمی کی تلاقی ہوتی ہے۔
٭٭٭٭