صدقہ کی فضیلت

ارشاد ربانی ہے: ﴿لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾
(سورة النساء آیت: 114)
ترجمہ: ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے۔
نیز ارشاد فرمایا: ﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ﴾ (سوره سبا آیت:39)
ترجمہ: تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلے دے گا۔
عَنْ مَطْرَفٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: أتَيْتُ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يَقْرَأُ ﴿الْهَاكُمُ التَّكَاثُر﴾ قال : يَقُولُ ابن آدم مالي مالي، قَالَ : وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مالك إلا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَاَبْلَيْتَ اَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ.(اخرجه مسلم).
(صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق، باب الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر.)
مطرف اپنے والد بزرگوار سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے سورہ تکاثر پڑھ رہے تھے پھر فرمایا : ابن آدم ہے گا کہ میں امال میرا مال تو اللہ تعالٰی کیسے گا: اے ابن آدم تیرا مال کہاں ہے سوائے اس کے جسے تو نے کھا لیا اور ختم کر دیا یا پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا یا صدقہ دیا اور پیچھے چھوڑ دیا۔
عَنْ عَدِي بْنِ حَاتِمٍ رضى اللهُ عَنهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيِّ ﷺ يَقُولُ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَو بِشِقِّ تَمْرَةٍ . (متفق عليه).
(صحیح بخاری: كتاب الزكاة، باب اتقوا النار ولو بشق تمرة والقليل من الصدقة، صحيح مسلم: كتاب الزكاة، باب البحث على الصدقة ولو بشق تمرة أو كلمة طيبة …….)
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جہنم سے بچو اگر چہ کهجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی (مگر ضرور صدقہ کر کے دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو)۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ من الأَرْضِ فَسَمع صوتًا فِي سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِيقَة فلان، فَتَنَحّٰى ذٰلِكَ السَّحابُ فَافْرَغَ مَاءَهُ فِي حَرَّةٍ، فَإِذَا شَرْجَةٌ مِن تِلْكَ الشَّرَاجِ، قَدْ اسْتَوْعَبَتْ ذٰلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ، فَتَتَّبَعَ الْمَاءَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيقَتِهِ يُحَوِّلُ الماء بمسحَاتِهِ فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ؟ قَالَ : فُلانٌ لِلاسْمِ الَّذِي سمع في السَّحَابَةِ، فَقَالَ : لَهُ يَا عبد الله لم سَأَلْتَبَى عَنْ اسْمِي؟ قَالَ: إِنِّي سمعت صوتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هٰذَا مَاؤُهُ يَقُولُ اسْقِ حَدِيقَةً فُلان لاسمک، فَمَا تَصْنَعُ فِيْهَا؟ قال: أما إذْ قُلْتَ هٰذَا فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَا يَخْرُجُ منها فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ وَاٰكُلُ أنا وَعَيَالِي ثلثا وَأَرْدُّ فِيهَا ثلثه (أخرجه مسلم).
(صحيح مسلم: كتاب الزهد والرقائل، باب فضل الإنفاق على المساكين وابن السبيل.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی ایک چٹیل میدان میں چل رہا تھا کہ اس نے بادل سے ایک آواز سنی، کہ فلاں کے باغ کو سیراب کر، تو وہ بادل ایک پہاڑی پہ جا کر خوب برسا اور پانی ایک نالی میں جمع ہو کر ایک طرف بہنے لگا پس وہ آدمی بھی اس پانی کے ساتھ ہو لیا تو دیکھتا ہے کہ ایک آدمی اپنے باغیچے میں کھڑا ہو کر بیلچہ سے پانی ادھر ادھر کر رہا ہے۔ اس آدمی نے کہا اے اللہ کے بندے تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس نے بادل سے سنا تھا، اس بندے نے اس آدمی سے پوچھا تم میرے نام کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے بادل سے آواز سنی ہے کہ جاؤ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو اور یہی نام ہے تم اس باغ کی پیداوار کو کیسے تقسیم کرتے ہو؟ اس بندے نے جواب دیا کہ اس کے باغ کے تین حصے کرتا ہوں ایک حصہ صدقہ کرتا ہوں دوسرا کھاتا ہوں اور تیسرا حصہ اس میں پھر واپس کرتا ہوں یعنی باغ کے اوپر خرچ کرتا ہوں۔
تشریح:
اسلام میں صدقہ وخیرات کی بڑی اہمیت و فضیات ہے۔ صدقہ ہی مال میں زیادتی، کشادگی رزق، جہنم کی آگ سے دوری، قیامت کی ہولناکی سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے اور مرنے کے بعد مسلسل ثواب حاصل کرنے کا ایک سبب ہے۔ اور جو کچھ بھی انسان دنیا میں صدقہ کے طور پر خرچ کرتا ہے وہی اس کا حقیقی مال ہے چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ابن آدم نے اللہ کے راستے میں جو مال خرچ کیا اور کھایا پیا اور پہنا وہی اس کا مال ہے اور مرنے کے بعد جو مال چھوڑ گیا اس کا نہیں۔ لہذ ا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے نہ ڈریں بلکہ دل کھول کر خرچ کریں یقینا یہی مال انہیں کل قیامت کے دن فائدہ پہنچائے گا اور صدقہ جاریہ کے طور پر برابر اس کا فائد ہ ماتا ر ہے گا۔ اللہ تعالی ہمیں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ صدقہ کی بڑی اہمیت وفضیات ہے۔
٭ صدقہ مال کو بڑھانے اور کشادگئی روزی کا سبب ہے۔
٭ صدقہ ہی باقی رہنے والا حقیقی مال ہے۔
٭ مال کے تین حصہ کر کے ایک حصہ غرباء و فقراء میں تقسیم کرنا مشروع ہے۔
٭ صدقہ قیامت کی ہولنا کیوں اور جہنم کی آگ سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
٭ صدقہ کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
٭٭٭٭