سفر کے آداب و سنن

عَن كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ رَضِىَ الله عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ : وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَا بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيْهِ رَكْعَتَيْنِ، (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب المغازی، باب حديث كعب بن مالك، صحيح مسلم: كتاب التوبة، باب حديث توبة كعب بن مالك وصاحبيه)
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور اس میں دو رکعت نماز ادا فرماتے۔
وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبي الله خَرَجَ يَوْمَ الْخَمِيْسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْكَ، وَكَانَ يُحِبُّ أَن يَخْرُجَ يَوْمَ الْخَمِيْسِ (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاري: كتاب الجهاد والسير، باب من أراد غزوة فوري بغيرها ومن أحب الخروج يوم الخميس)
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم کے غزوہ تبوک کے لئے جمعرات کے دن نکلے تھے۔ آپ نے جمعرات کے دن سفر کرنا پسند فرماتے تھے۔
وَعَنِ بْن عُمَرَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي الْوَحْدَةِ مَا أَعْلَمُ مَا سَارَ رَاكِبٌ بِلَيْلٍ وَحْدَهُ (أخرجه البخاري)
(صحيح بخاري: كتاب الجهاد والسير، باب السير وحده)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جتنا میں جانتا ہوں، اگر لوگوں کو بھی اکیلے سفر (کی برائیوں) کے متعلق اتنا علم ہوتا تو کوئی سوار رات میں اکیلا سفر نہ کرتا۔
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَان، وَالثَّلَاثَةُ رَكْبٌ (اخرجه ابو داود والترمذي)
(سنن ابو داود: کتاب الجهاد، باب في الرجل يسافر وحده، سنن ترمذی: ابواب الجهاد، باب ما جاء في كراهية ان يسافر الرجل وحده، وقال حسن وحسنه الألباني في صحيح سنن أبی داؤد (2607)
عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اکیلا سفر کرنے والا شیطان ہے، دو سفر کرنے والے دو شیطان ہیں اور تین مسافر قافلہ ہیں۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا خَرَجَ ثلاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوْا أَحَدَهُم. (اخرجه ابوداود)
(سنن أبو داود: كتاب الجهاد، باب في القوم يسافرون يؤمرون أحدهم، وقال الألباني حسن صحيح في صحيح سنن ابی داود: (2608)
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تین آدمی کسی سفر میں نکلیں تو وہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لیں۔
تشریح:
نبی کریم ﷺ نے سفر کے کچھ آداب و سنن بتائے ہیں۔ انہیں آداب وسنن میں سے یہ ہے کہ سفر شروع کرنے سے قبل اچھے ساتھیوں کا انتخاب کرتا اور ان میں سے کسی ایک کو امیر منتخب کرنا اور جمعرات کے دن سفر کرنا نیز سفر کے لئے تین افراد کا ہونا مستحب ہے اگر اس سے کم ہیں تو وہ شیطان ہیں۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر ایک آدمی کسی ضرورت سے کہیں چلا جائے تو دو آدمی آپس میں ایک دوسرے سے مل جل کر باتیں کر سکتے ہیں۔ انہیں کسی طرح کی اکتاہٹ نہیں ہوگی لیکن اگر ایک آدمی یا دو آدمی ہیں تو ایک کے جانے کی صورت میں دوسرے کو اکتاہٹ اور پریشانی ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
سفر کے سنن میں سے یہ بھی ہے کہ جب مسافر سفر سے گھر واپس آئے تو سب سے پہلے مسجد میں جائے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھے اور لوگوں سے ملاقات کرے جیسا کہ آپ ﷺ کرتے تھے۔ اس کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگر گھر میں بیوی و بچوں کو مہمان کے آنے کی اطلاع نہیں ہوئی ہے تو اس درمیان میں انہیں اطلاع مل جائے گی اور وہ اپنی تیاری کرلیں گے۔ آج کے دور میں اتصالات اور مواصلات کے ذرائع بہت ہی آسان ہو گئے ہیں اس لئے مسافر کو چاہئے کہ گھر آنے سے قبل اپنے اہل و عیال کو اپنے آنے کی اطلاع دیدے تاکہ گھر پہنچنے کے بعد اسے بیوی و بچوں کو دیکھ کر کسی ناگواری کا احساس نہ ہونے پائے بلکہ خوشی ہی خوشی ملے۔ اللہ تعالی ہمیں ان سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ جمعرات کو سفر کے لئے نکلنا مستحب ہے۔
٭ تین آدمیوں کا ایک ساتھ سفر کرنا بہترین سفر ہے۔
٭ سفر میں ساتھیوں میں سے کسی ایک کو امیر بنانے کا حکم ہے۔
٭ مسلمان کے لئے سفر سے واپسی پر سب سے پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔
٭٭٭٭