صحابہ اللہ سے راضی کیسے ہوئے۔۔۔؟

اہم عناصر :
❄اللہ کی رضا کی اہمیت ❄اللہ سے راضی ہونے کی اہمیت و فضیلت
❄صحابہ اللہ سے راضی کیسے ہوئے۔۔؟
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [المجادلہ: 22]

ذی وقار سامعین!
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام ، مرتبہ اور شرف بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
"اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔” [التوبہ: 100]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صحابہ مجھ سے راضی ہو گئے اور میں صحابہ سے راضی ہو گیا۔
یہ بہت بڑا اعزاز ہے ، اسے پڑھ پڑھا لینا اور سُن سنُا لینا بڑا آسان ہے۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل سے یہ بات سمجھیں گے کہ اللہ کی رضا کی اہمیت کیا۔۔؟ اللہ پر راضی رہنے کی فضیلت کتنی ہے۔۔؟ اور یہ غور کرنا ہے کہ صحابہ کو یہ اعزاز کیسے ملا اور وہ عظیم لوگ اللہ سے راضی کیسے ہوئے۔۔۔۔؟
اللہ کی رضا کی اہمیت
یقیناً یہ بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہوتی ہے کہ اللہ بندے سے راضی ہوجائے ، یہ کتنی بڑی بات ہے اس کا اندازہ صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیں گے اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیوں کہ اب تو تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق کے کسی آدمی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا؛
أَنَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالُوا يَا رَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا ” کہ میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کردوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔” [بخاری: 6549]
پتہ چلا کہ عام مسلمانوں اور مومنوں سے اللہ تعالیٰ اپنی رضا کا اعلان اس وقت کریں گے جب وہ جنت میں چلے جائیں گے، اور صحابہ سے رضا کا اعلان اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہی کردیا ہے۔
اللہ سے راضی ہونے کی اہمیت و فضیلت
جو بندہ دنیا کی عارضی زندگی گزارتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر راضی ہوجاتا ہے کہ اللہ نے اسے جس حال میں رکھا ہے وہ اسی میں اللہ سے راضی ہے ، کوئی شکوہ نہیں کرتا ، کوئی شکایت نہیں کرتا بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے ایسے بندے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ نبیﷺنے سیدنا ابوہریرہ کو جو پانچ نصیحتیں کی ہیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ اللہ سے راضی رہنا ہے۔
وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ [ترمذی: 2305 حسنہ الالبانی]
” اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہوگے۔”
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپکی قسمت اور آپکے مقدر میں لکھ دیا ہے اس پر دل و جان سے راضی ہوجاؤ۔ اسکا فائدہ یہ ہو گا کہ تم سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز ہو جاؤگے۔
❄ حضرت انس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار کے ہاں گئے جو حضرت ابراہیم ؓ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کو لے کر بوسہ دیا اور اس کےاوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابو سیف کے ہاں گئے تو حضرت ابراہیم ؓ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ بھی روتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’اے ابن عوف ؓ !یہ تو ایک رحمت ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ [بخاری: 1303]
’’آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے، لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں۔‘‘
❄ قال رسول الله ﷺ أَنَّ اللهَ يَبْتَلِي عَبْدَهُ بِمَا أَعْطَاهُ، فَمَنْ رَضِيَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَهُ، بَارَكَ اللهُ لَهُ فِيهِ، وَوَسَّعَهُ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ لَمْ يُبَارِكْ لَهُ [مُسند احمد: 20279صحیح]
ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جو کچھ عطاء کرتا ہے اُس کے ذریعے اپنے بندے کو آزماتا ہے ، پس جو اُس پر راضی ہو جاتا ہے جو اللہ نے اُس کے لیے حصہ مقرر فرمایا تو اللہ اُس حصے میں اپنے اُس بندے کے لیے برکت دیتا ہے ، اور اُس میں وسعت دیتا ہے ، اور جو کوئی راضی نہیں ہوتا اُس کے لیے برکت نہیں دی جاتی.
❄ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ ، يَقُولُ: «ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا»] مسلم: 151[
ترجمہ : حضرت عباس بن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ، اسلام کو دین اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر (دل سے) راضی ہو گیا۔‘‘
❄ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ»]مسلم: 851[
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: أشہد أن لا إله إلا الله وحدہ لا شریک له وأن محمدا عبدہ ورسوله ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ رضیت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دینا ’’ میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
یہ بہت عظیم وظیفہ ہے۔ اس کے بہت سارے فائدے ہیں۔ چند ایک پیشِ خدمت ہیں:
❄ آپ ﷺ فرماتے ہیں جس نے صبح و شام (ایک روایت کے مطابق تین مرتبہ) کہا: رَضِيْتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَ بِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِيًّا "میں اللہ کو رب مان کر ، اسلام کو دین مان کر اور محمد ﷺ کو نبی مان کر راضی ہوں۔”
ایسے خوش نصیب کے متعلق آپ علیہ السلام نے انعام کا اعلان فرمایا ہے:
١۔ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ [صحیح الجامع الصغير: 2/1097]
ایسے خوش نصیب کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔
٣. فَأَنَا الرَّعِيمُ ، لَأَخُذَنَّ بِيَدِهِ حَتَّى أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ [سلسلة الاحاديث الصحيحة: 421 ]
میں ضامن ہوں البتہ ضرور ضرور اس کو ہاتھ سے پکڑوں گا حتی کہ اللہ کی جنت میں داخل کر دوں گا۔
❄ زمانہ قریب میں ایک بزرگ گزرے ہیں جن کا نام صوفی محمد باقر تھا۔ آپ حدرجہ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور درویش صفت آدمی تھے۔ آپ نے ساری زندگی تعلق باللہ کی دولت اکٹھی کی اور اسی کی سخاوت کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کو اللہ نے بیٹا عطا فرمایا تو آپ نے اس کا نام زکریا رکھا۔ نو عمری میں حفظ کروا کر درس نظامی مکمل کروایا جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی آپ کا شمار ممتاز علماء کرام میں ہونا شروع ہو گیا۔ حضرت صوفی صاحب صالحیت و صلاحیت کی بنا پر اپنے بیٹے حافظ محمد زکریا سے بہت محبت کرتے تھے ، حافظ محمد زکریا صاحب قرآن کے قاری ، حدیث رسول کے مدرس ، علوم وفنون کے ماہر اور فن تصنیف و تالیف سے آشنا ہی نہیں تھے بلکہ ہر شعبہ میں پوری دسترس رکھتے تھے ، اللہ کا کرنا عین عالم شباب میں جب آپ کی عمر 27 سال ہوئی تو آپ انتقال فرما گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون ) حضرت صوفی صاحب بڑے حزین خاطر ہوئے بلکہ آپ نے فرمایا: میرا سارا کنبہ چلا جاتا مجھے اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا دکھ مجھے زکریا کی وفات پر ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود آپ کمرے میں اکیلے بیٹھ گئے اور درمیانی آواز میں یہ کہنا شروع کر دیا : اے اللہ! میں راضی ، اے اللہ ! میں راضی ، اے اللہ! میں راضی اور تقریبا دو گھنٹے تک صرف یہی کہتے رہے : اے اللہ ! میں راضی اے اللہ ! میں راضی کبھی جھوم کر کبھی روکر بڑی موج میں یہ سلسلہ جاری تھا کہ باہر سے ایک طالب علم نے کہا حضرت دو گھنٹے ہونے کو ہیں آپ دو گھنٹے سے یہی جملہ بار بار دھرا رہے ہیں بس کریں۔ صوفی صاحب یہ فرمانے لگے :او کملیا مینوں تے دو گھنٹے ہوئے نے ناں اے کہندیاں "اے اللہ ! میں راضی اے اللہ ! میں راضی اے اللہ ! میں راضی”
جے او نہے اک واری وی کہہ دیتا ناں جا، باقر میں وی راضی تے بیڑے پار ہو جانے نیں۔“
صحابہ اللہ سے راضی کیسے ہوئے۔۔۔؟
اب ہم یہ سمجھیں گے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ تعالیٰ سے راضی کیسے ہوئے۔۔؟
صحابہ گھر بار چھوڑ کر بھی اللہ سے راضی رہے:
❄سیدنامصعب بن عمیر جو مکہ کے ایک امیر گھرانہ کے چشم و چراغ تھے۔ بڑے خوش شکل اور حسین نوجوان تھے اور قیمتی لباس پہنتے تھے۔ مگر جب اسلام قبول کیا تو ماں نے ان کا دانہ پانی بھی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ انہوں نے دینِ حق کی خاطر سب کو برداشت کیا اور امیری پر فقیری کو ترجیح دی۔ انہیں مدینہ میں اسلام کا پہلا داعی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ غزوہ بدر میں لشکر اسلام کی علمبرداری کے منصب پر فائز ہوئے اور غزوہ احد میں شہادت پائی تھی۔ ابراہیم بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں؛
أُتِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا بِطَعَامِهِ فَقَالَ قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ وَقُتِلَ حَمْزَةُ أَوْ رَجُلٌ آخَرُ خَيْرٌ مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَيِّبَاتُنَا فِي حَيَاتِنَا الدُّنْيَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي
"عبدالرحمن بن عوف کے سامنے ایک دن کھانا رکھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مصعب بن عمیر ( غزوئہ احد میں ) شہید ہوئے‘ وہ مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز مہیا نہ ہوسکی۔ اسی طرح جب حمزہ شہید ہوئے یا کسی دوسرے صحابی کا نام لیا‘ وہ بھی مجھ سے افضل تھے۔
لیکن ان کے کفن کے لیے بھی صرف ایک ہی چادر مل سکی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے چین اور آرام کے سامان ہم کو جلدی سے دنیا ہی میں دے دئیے گئے ہوں پھر وہ رونےلگے۔” [بخاری: 1274]
سیدنا مصعب بن عمیر نے امیری والی زندگی کو چھوڑ کر اسلام والی زندگی کو ترجیح دے کر بتلایا کہ اللہ سے راضی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ منہ سے کہتے بھی رہیں کہ اللہ میں راضی اوراسی منہ سے اللہ کے شکوے کرتے رہیں ، بلکہ اللہ سے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جس حال میں رکھے اسی حال میں راضی رہنا ہے۔
❄سیدنا سلمان فارسی نے اسلام اور حق کی خاطرگھر بار چھوڑا ، وطن چھوڑا اور والدین چھوڑے ، بے پناہ مصائب کا سامنا کیا لیکن اللہ پر راضی رہے ، کبھی بھی اللہ کا شکوہ نہیں کیا۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں سلسلہ صحیحہ: 3454
صحابہ مال لُٹا کر بھی اللہ سے راضی رہے:
❄ سیدنا عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں؛
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي فَقُلْتُ الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ قُلْتُ مِثْلَهُ قَالَ وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ قَالَ أَبْقَيْتُ لَهُمْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قُلْتُ لَا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا
"ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس موقع پر میرے پاس مال بھی تھا ۔ چنانچہ میں نے ( دل میں ) کہا : اگر میں ابوبکر سے سبقت لینا چاہوں تو آج لے سکتا ہوں ۔ چنانچہ میں اپنا آدھا مال ( آپ ﷺ کی خدمت میں ) لے آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ میں نے کہا : اسی قدر ( چھوڑ آیا ہوں ) اور پھر سیدنا ابوبکر اپنا کل مال ( آپ ﷺ کے پاس ) لے آئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ کہا : میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے ۔ تب مجھے کہنا پڑا ، میں کسی شے میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا ۔” [ابوداؤد: 1678 حسنہ الالبانی]
❄ سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کا کھجور کا ایک درخت ہے، میں اس درخت کا ضرورت مند ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے باغ کی دیوار کو سیدھا کر سکوں، آپ اسے حکم دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دے اور میں اپنے باغ کی دیوار کو مضبوط کر لوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: تم یہ درخت اسے دے دو، اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک درخت لے دوں گا۔ اس نے اس بات سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو دحداح نے آکر اس آدمی سے کہا کہ میرے پورے باغ کے عوض تم یہ ایک کھجور مجھے فروخت کر دو، اس نے ایسے ہی کیا، پھر سیدنا ابو دحداح نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ ایک کھجور اپنے پورے باغ کے عوض خریدلی ہے، آپ یہ کھجور اس ضرورت مند کو دے دیں، میں کھجور کا یہ درخت آپ کے حوالے کر چکا ہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَاحَ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّة
”جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کے لیے لٹک رہے ہیں۔ ”
آپ ﷺ نے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائی، ابو دحداح نے اپنی بیوی کے پاس آکر اس سے کہا:؛
یَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! اخْرُجِی مِنَ الْحَائِطِ فَإِنِّی قَدْ بِعْتُهُ بِنَخْلَة فِی الْجَنَّة فَقَالَتْ: رَبِحَ الْبَیْعُ أَوْ كَلِمَة تُشْبِهُهَا [مسند احمد: 11903صححہ الالبانی]
اے ام وحداح! باغ سے باہر نکل آؤ، میں نے یہ باغ جنت کی ایک کھجور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے تو بڑے فائدے والا سودا کیا۔
صحابہ جان لُٹا کر بھی اللہ سے راضی رہے:
❄ جنگ بدر میں جب مشرکین مکہ اسلام اور مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو رسول اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا؛
قوموا إلى جنة عرضها السماوات والأرض
"جنت کی طرف اُٹھ کھڑے ہوجس کی چوڑائی سارے آسمان اور زمین ہیں۔”
یہ سن کر حضرت عمیر بن حمام نے عرض کیا؛
يَا رَسُولَ اللهِ، جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ؟
اے اللہ کے رسول! کیا (شہادت کے عوض) آسمانوں اور زمین کی چوڑائی کے برابر جنت ہے؟
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: نعم "ہاں”۔
حضرت عمیر بن حمام کہنے لگے:بخ بخ۔ رسول اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا؛
ما يحملك على قولك بخ بخ
"بخ بخ کہنے پر تجھے کس نے ابھارا”؟
حضرت عمیر بن حمام نے عرض کیا ؛
لَا وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا
اے اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی میں نے یہ جنت کی اُمید میں کہا ہے۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: فإنك من أهلها "تم جنت والوں میں سے ہو”۔ اس کے بعد حضرت عمیر بن حمام اپنے ترکش سے کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔پھر شوق شہادت میں کہنے لگے:
لئن أنا حييت حتى آكل تمراتي هذه إنها لحياة طويلة
"اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہوں تو یہ بڑی ہی طویل زندگی ہو جائے گی”۔چنانچہ انہوں نے بقیہ ساری کھجوریں پھینک دیں اور آگے بڑھ کر مردانہ وار جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ [مسلم: 4915]
❄ سیدنا انس نے بیان کیا کہ میرے چچا انس بن نضر بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے‘ اس لئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیااورمسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا کہ اے اللہ ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اورجو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے ( مشرکین کی طرف ) تو سعد بن معاذ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر نے کہا اے سعد بن معاذ ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر ( ان کے باپ ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ ﷺ ! جو انہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ انس نے بیا ن کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضر کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے اورکوئی شخص انہیں پہنچان نہ سکا تھا‘ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہنچان سکی تھیں۔ انس نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں ( یاآپ نے بجائے نری کے نظن کہا ) مطلب ایک ہی ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ؛
مِنَ المُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ} [الأحزاب: 23] إِلَى آخِرِ الآيَةِ
” مومنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا “ آخر آیت تک۔ [بخاری: 2805]
❄ سیدنا شدّاد بن الھاد بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺکے پاس آیا ، آپ پر ایمان لایا اور آپ کے تابع ہو گیا. پھر کہنے لگا میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں. نبی کریم ﷺنے اس کے متعلق اپنے صحابہ کو تاکید فرمائی، جب ایک جنگ ہوئی تو نبی کریم ﷺ کو کچھ مال غنیمت حاصل ہوا، آپ نے اسے تقسیم کیا اور اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا. وہ اپنے ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا. جب آیا تو انہوں نے اس کا حصہ اسے دیا تو وہ پوچھنے لگا یہ کیا ہے؟ اس کے ساتھیوں نے کہا تمہارا حصہ ہے جو نبی ﷺ نے تمہارے لیے نکالا ہے. اس اعرابی نے اپنا حصہ لیا ، نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے مال غنیمت سے تمہارا حصہ نکالا ہے. کہنے لگا میں اس کے لیے آپ کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے آپ کے پیچھے لگا ہوں کہ مجھے (پھر اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہاں تیر لگے اور میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں. آپ نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ سے سچ کہو گے تو اللہ تعالی بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا. اس کے بعد تھوڑی دیر گزری پھر وہ دشمن سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا. شہادت کے بعد اس کو اٹھا کر نبی ﷺ کے پاس لایا گیا تو اس کو وہیں تیر لگا تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا. آپ ﷺ نے پوچھا کیا یہ وہی ہے؟ صحابہ نے کہا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا اس نے اللہ تعالی سے سچ کہا تو اللہ تعالی نے بھی اس سے سچ کا سلوک کیا. پھر آپ نے اسے خود اپنے پاس سے کفن دیا اور اسے اپنے سامنے رکھ کر جنازہ پڑھایا اپ کی دعا سے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند الفاظ یہ تھے:
"اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ، فَقُتِلَ شَهِيدًا، أَنَا شَهِيدٌ عَلَى ذَلِكَ”
"اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے ، تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا پھر شہید ہو گیا میں اس بات پر گواہ ہوں۔” (سنن النسائي: ١٩٥٣، شرح معاني الآثار للطحاوي: ١/ ٥٠٥، ٥٠٦، سنده صحيح)
❄ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَال سَمِعْتُ أَبِي بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ رَثُّ الْهَيْئَةِ أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهُ قَالَ نَعَمْ فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْكُمْ السَّلَامَ وَكَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ
ترجمہ : ابوبکربن ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں نے دشمنوں کی موجودگی میں اپنے باپ کو کہتے ہوے سنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ بے شک جنت کے دروازے تلواروں کی چھاؤں میں ہیں ، قوم میں سے ایک پراگندہ ہیئت والے شخص نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، چنانچہ وہ آدمی لوٹ کراپنے ساتھیوں کے پاس گیااوربولا: میں تم سب کو سلام کرتاہوں ، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑدیااور اس سے لڑائی کرتارہا یہاں تک کہ وہ شہیدہوگیا’۔ [ترمذی: 1659 صححہ الالبانی]
دوسرا خطبہ
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے یہ بات سمجھی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے جورضا کا سرٹیفکیٹ دیا ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ، کیونکہ جنتی جب جنت میں چلے جائیں گےتو اس وقت اللہ تعالیٰ ان جنتیوں کے لئے اپنی رضا کا اعلان کریں گے ، تصور کیجئے کہ جو مقام اور مرتبہ عام مسلمانوں اور مومنوں کو آخرت میں ملنا ہے وہ مقام اور مرتبہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو دنیا میں ہی دے دیا ہے۔
اس کے بعد ہم نے یہ بات سمجھی ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ پر حقیقی معنوں میں راضی ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور کل قیامت والے دن اسے جنتوں کا وارث بنادیں گے۔
آخر میں ہم نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ کہنا کہ صحابہ کرام اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ تعالیٰ صحابہ سے راضی ہوگیا ، بڑا آسان ہے ، اصل غور کرنے کی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام اللہ سے راضی کیسے ہوئے۔۔۔؟
ہم چھوٹی چھوٹی بات پر گھبرا جاتے ہیں ، اللہ کے شکوے کرنے لگ جاتے ہیں، پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اللہ سے راضی ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں راضی ہونا نہیں ہے ، بلکہ راضی ویسے ہونا چاہئے جیسے صحابہ کرام راضی ہوئے،
وہ کوئلوں پہ لیٹ کے بھی اللہ سے راضی رہے۔
وہ گھر بار چھوڑ کر بھی اللہ سے راضی رہے۔
وہ مال لُٹا کر بھی اللہ سے راضی رہے۔
وہ جان لُٹا کر بھی اللہ سے راضی رہے۔
الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر حال میں اللہ سے راضی رہے۔