سلام کا طریقہ
عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ الله عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عليه السلام قَالَ: اِذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلٰى أُولٰئِكَ النَّفَر- وَهُمْ- نَفَرٌ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ بِهِ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَ تَحِيَّةُ ذُريَّتِكَ قَالَ : فَذَهَبَ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةٌ اللَّهِ قَالَ: فَزَادُوهُ: وَرَحْمَةُ اللهِ. (متفق عليه)
(صحيح بخاري: كلام أحاديث الانبياء، باب خلق أدم صلوات الله عليه وذريته، صحيح مسلم: كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب یدخل الجنة أقوام أفئدتهم مثل أفئدة الطير)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی نے آدم (علیہ السلام ) کو پیدا کیا تو ان سے کہا، جاؤ ان لوگوں (فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت ) کو سلام کرو اور وہ جو جواب دیں گے اسے غور سے سن، کیونکہ وہی تیرا اور تیری اولاد کا سلام ہوگا ۔ نبی آدم (علیہ السلام) نے جا کر کہا ’’السلام علیکم‘‘ تو انہوں نے کہا:
’’السلام عليك ورحمة الله‘‘ – پھر انہوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کر دیا۔
وعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلى النبي الله فَقَالَ: اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ النَّبِي ﷺ عشر، ثُمَّ جَاءَ آخر فَقَالَ : السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرحمة الله، فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ، فَقَالَ: عِشْرُونَ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ : السَّلام عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ، فَقَالَ: ثَلَاثُونَ. (رواه أبو داود والترمذي).
(سنن ابو داؤد: کتاب الأدب باب كيف السلام، سنن ترمذی، أبواب الاستيدان، باب ما ذكر في الفضل السلام، وقال: حسن صحیح غريب، وصححه الألباني في صحيح سنن الترمذي: (2689)، وفي التعليق الرغيب (268؍3)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریمﷺ نے کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: السلام علیکم ، آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ شخص بیٹھ گیا۔ پس نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( اس کے لئے ) دس نیکیاں ہیں۔ پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے ’’السلام علیكُم وَرَحْمَةُ اللہ‘‘ کہا، آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا پھر وہ بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ( اس کے لئے ) بیس نیکیاں ہیں۔ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا ’’السلام عليكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ‘‘ آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا پس وہ بیٹھ گیا تو آپﷺ نے فرمایا ( اس کے لئے ) تیس نیکیاں ہیں۔
تشریح:
شریعت اسلامیہ نے آپس میں تحیہ و سلام کے خاص الفاظ متعین کر رکھے ہیں اور وہ یہ ہیں ’’السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکاته‘‘ سلام کے ہر کلمہ پر دس نیکیاں ملتی ہیں یعنی جو صرف ’’السلام عليكم‘‘ کہے اسے دس، جو اس پر ’’وَرَحْمَةُ الله‘‘ کا اضافہ کرے اسے دس، اور جو ’’وبر کاتہ‘‘ کا کلمہ اضافہ کرے اسے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ ان کلمات کے علاوہ بہت سے کلمات ہمارے معاشرے میں سلام کی جگہ پر رائج ہیں جیسے خوش آمدید یا نمستے یا گڈ مار رنگ یا بائے بائے وغیرہ۔ ان سارے الفاظ سے ہمیں بچنا چاہئے کیونکہ اسلام نے ہمیں اس سے منع کیا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ سلام کرتے وقت سلام کے مسنون الفاظ کا استعمال کریں تاکہ مکمل نیکیاں دستیاب ہوں اللہ تعالی ہمیں یہ نیکی کمانے کی توفیق بخشے۔
فوائد:
٭ سلام کے مسنون الفاظ ’’السلام عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ‘‘ ہیں۔
٭ سلام کا جواب اس کے مثل دینا واجب ہے اس سے زیادہ دینا مستحب ہے۔
٭ سلام کے لئے خوش آمدید یا نمستے یا گڈ مارننگ یا بائے بائے“ وغیرہ کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔