صلیب لٹکانا حرام اور اسے توڑنا ضروری ہے

418۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں:

((أَنَّ النَّبِيَّ لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا فِيهِ تَصَالِيبُ إِلَّا نَقَضَهُ)) (أخرجه البخاري: 5952)

’’نبیﷺ کو اپنے گھر میں جب بھی کوئی ایسی چیز ملتی جس میں صلیب کی تصویر ہوتی تو آپ اسے توڑ ڈالتے تھے۔

419۔ دِقرہ ام عبد الرحمن بن اذینہ کہتی ہیں کہ ہم ام المومنین کے ہمراہ بیت اللہ کا طواف کر رہی تھیں، انھوں نے دیکھا کہ ایک عورت نے ایک ایسی چادر پہنی ہوئی ہے جس میں صلیب کا نشان ہے، انھوں نے کہا: ((اطْرَحِيْهِ اطْرَحِيهِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ إِذَا رَأَى نَحْوَ هٰذَا قَضَبَهُ)) ( أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:25091، 25881 والنسائي في الكبرى:9792)

’’اسے اتار پھینک دو، اسے اتار پھینک دو، اس لیے کہ رسول اللہ اللہ جب اس طرح کی چیز دیکھ لیتے تو اسے کاٹ ڈالتے تھے۔‘‘

سیدنا  عدی بن حاتم رضی  اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوا کہ میری گردن میں سونے کی صلیب تھی تو آپ ﷺنے فرمایا:

((يَا عَدِى! اِطْرَحْ هٰذَا الْوَثَنَ مِنْ عُنُقِاكَ)) (أَخْرَجَهُ الترمذي:  3095، والطبراني في المعجم الكبير: 13673)

’’اے عدی! اپنی گردن سے اس بت کو اتار پھینکو‘‘

 سیدنا عدی کہتے ہیں کہ میں نے اسے پھینک دیا۔

421۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰى يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتّٰى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ). (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِي:2222، 2476، 3449، 3448، ومسلم:155)

’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم میں ابن مریم ایک منصف حاکم بن کر نمودار ہو جائیں۔ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، نیز جز یہ ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہو گا۔‘‘

توضیح وفوائد:  صلیب یا کافروں کے کسی بھی مذہبی شعار کا استعمال مسلمانوں کے لیے جائز نہیں، نہ ایسا لباس پہننا جائز ہے جن پر یہ تصاویر بنی ہوں بلکہ اگر ایسی کوئی چیز گھر میں موجود ہو یا کسی مسلمان دوست کے پاس ہو تو اسے توڑنا ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی علاقے میں عیسائی رہتے ہوں تو انھیں مستحسن اسلوب میں دعوت اسلام دینی چاہیے۔ ان کے گرجوں یا گھروں میں رکھی ہوئی صلیب کو توڑنا جائز نہیں۔ رسول اکرم سلام کی سیرت مقدسہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے، تاہم یہ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ صلیب کی عام نمائش پر پابندی عائد کرے۔

422۔ نجاشی کے بھتیجے ذو مخبر رضی  اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((تُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا حَتّٰى تَغْزُوا أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِهِمْ فَتُنصَرُونَ وَتَغْنَمُونَ، وتَنْصَرِفُونَ حَتّٰى تَنْزِلُوا بِمَوْجٍ ذِي تُلُولٍ، فَيَقُولُ قَائِلٌ مِنَ الرُّومِ:  غَلَبَ الصَّلِيْبُ، وَيَقُولُ قَائِلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ: بَلِ اللهُ غَلَبَ، فَيَثُورُ الْمُسْلِمُ إِلَى صَلِيْبِهِمْ وَهُوَ مِنْهُ غَيْرُ بَعِيْدٍ فَيَدُقُّهُ، وَتَثُورُ الرُّومُ إِلى كَاسِرِ صَلِيبِهِمْ، فَيَضْرِبُونَ عُنُقَهُ. وَيَثُورُ الْمُسْلِمُونَ إِلٰى أَسْلِحَتِهِمْ فَيَقْتَتِلُونَ، فَيُكْرِمُ الله تِلْكَ الْعِصَابَةَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِالشَّهَادَةِ، فَتَقُولُ الرُّومُ لِصَاحِبِ الرُّومِ:  كَفَيْنَاكَ الْعَرَب، فَيَجْتَمِعُونَ لِلْمَلْحَمَةِ. فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا)) (أخرجه أبو داود: 2767 و 4292، وابن ماجه: 4089، وابن حبان: 6708،6709، وأحمد:16826، وابن أبي شيبة:325،326/5، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني: 2659، 2660، والطبراني في الكبير:  4230، والبيهقي في السنن: 223/9، والحاكم:  421/4)

’’تم لوگ رومیوں سے ایک پر امن مصالحت کرو گے، پھر وہ اور تم مل کر اپنے سے علاوہ ایک دشمن سے جنگ کرو گے، تم غالب آجاؤ گے، قیمت پاؤ گے اور واپس آجاؤ گے، یہاں تک کہ ٹیلوں والے میدان میں پڑاؤ ڈالو گے تو رومیوں میں سے ایک کہنے والا کہے گا: صلیب غالب آگئی۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص کہے گا: نہیں، بلکہ اللہ غالب آگیا۔ تو ایک مسلمان جو قریب ہی ہو گا، ان کی صلیب کی طرف اٹھے گا اور اسے توڑ ڈالے گا، رومی صلیب توڑنے والے مسلمان کی طرف انھیں گے اور اسے قتل کر دیں گے، مسلمان اپنے اسلحہ کی طرف اٹھیں گے تو مسلمان اور رومی آپس میں لڑ پڑیں گے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کے اس گروہ کو شہادت سے نوازے گا۔ روی اپنے بادشاہ سے کہیں گے: ہم تیرے لیے ان عربوں سے کافی ہیں تو یہ لوگ ایک بڑی جنگ کے لیے جمع ہوں گے، اسی (80) جھنڈوں کے تحت آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوجی ہوں گے۔‘‘

 توضیح و فوائد:  یہ قیامت کے قریب ہو گا۔ اسے سابقہ یا موجودہ کسی جنگی صورت حال پر منطبق کرنا درست نہیں۔

………………………..