سحری کھانے کی فضیلت

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ : تَسَحْرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ بَرَكَةٌ (متفق عليه)
(صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب بركة السحور، صحيح مسلم: كتاب الصيام، باب فضل السحور)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سحری کھایا کرو اس لئے کہ سحری کھانے میں یقینًا برکت ہے۔
عَنْ زِيدِ بنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ : تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ قُمْنُا إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ قَدرُ مَا بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: خَمْسِينَ آيَةً (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الصوم، باب قدر كم بين السحور وصلاة الفجر؟ صحيح مسلم: كتاب الصيام باب فضل السحور وتأكيد)
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم اے کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، میں نے کہا کہ سحری سے ختم ہونے اور نماز پڑھنے کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟ انہوں نے بیان فرمایا: پچاس آیات پڑھنے کی مقدار-
وَعَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُؤَذَّنَانِ: بِلَالٌ، وَاْبنُ أُمِّ مَكْتُوْمِ الأَعْمٰى فقال رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ بِلًالاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَدِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْنُومٍ، قَالَ: وَلَمْ يَكُنُ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَّنْزِلَ هٰذَا وَيَرْقَى هذَا . (متفق عليه).
(صحيح بخاري: كتاب الأذان، باب أذان الأعمى صحيح مسلم: كتاب الصيام، باب بيان أن الدخول في الصوم يحصل بطلوع الفجر)
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس دو مؤذن تھے۔ ایک کا نام بلال اور دوسرے کا نام ابن ام مکتوم تھا (ابن ام مکتوم نابینا تھے) پس رسول اللہ نے فرمایا، کہ بلال (رضی اللہ عنہ) رات باقی رہتی ہے تو اذان دیتے ہیں جب تک ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ) اذان نہ دیں تو تم کھاؤ پیو، ابن عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان دونوں اذانوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہوتا تھا کہ یہ (بلال رضی اللہ عنہ) اذان دے کر اترتے اور (اين ام مکتوم رضی اللہ عنہ) اذان دینے کے لئے چڑھتے۔
وَعَن عمرو بن العاص رضيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: فَصل ما بين صِيَامِنَا وَصِيام أهل الكتاب، أكلة السحر (رواه مسلم).
(صحيح مسلم: كتاب الصيام، باب فضل السحور)
عمر بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کا کھانا ہے۔
تشریح:
سحری کھانا سنت ہے اور اس میں برکت بھی ہے کیونکہ سحری کھانے سے انسان کو توانائی اور طاقت وقوت ملتی ہے اور اس کا بہترین وقت فجر کی اذان سے پندرہ یا بيسں منٹ قبل ہوتا ہے ۔ اور اس وقت سحری کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فجر کی نماز باجماعت ادا کر لیتا ہے۔ اور سحری کے لئے ضروری نہیں ہے کہ مختلف قسم کے پکوان ہوں یا بہت ساری چیزیں ہوں تبھی سحری مانی جائے گی بلکہ اگر آدمی کی طبیعت کچھ کھانے کی نہیں چاہتی ہے تو کم از کم کھجور یا چند گھونٹ پانی وغیرہ سحری کی نیت سے کھا پی لے تو سحری ہو جائے گی۔ بعض افراد سحری کھانے کو ضروری نہیں سمجھتے یا آدمی رات کو ہی جو کچھ کھايا ہوتا ہے کھا کر سو جاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں کیونکہ آپ ﷺ نے سحری کھانے ہی کو ہمارے اور اہل کتاب کے درمیان فرق بتلایا ہے وہ لوگ بغیر سحری کھائے ہوئے روزہ رکھتے تھے۔ دوسرے یہ کہ جب آدمی آدمی رات کو ہی سحری کھا کر سو جائے تو اس کی فجر کی نماز غائب ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو ادا نہیں ہوتی تھی اور آج بھی رمضان اور غیر رمضان دونوں صورتوں میں مسجد حرام (مکہ مکرمہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ) میں دو اذانیں ہوتی ہیں اور دونوں اذانیں دو الگ الگ مؤذن کہتے ہیں۔ پہلی اذان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ سحری کھانا چاہتے ہیں یا تہجد پڑھنا چاہتے ہیں انہیں پتہ چل جائے کہ فجر کا وقت قریب آنے والا ہے اس لئے جلدی سے وہ سحری وغیرہ سے فارغ ہو کر نماز فجر کے لئے تیاری کریں اور جب دوسری اذان شروع ہو جائے تو کھانے پینے سے رک جائیں۔ اس سنت کی جگہ آج ہمارے معاشرے میں لوگوں کو سحری کے لئے بیدار کرنے کے لئے دوسری چیزوں نے جنم لے لیا ہے جیسے سحری کی ابتداء کے لئے گولے داغنا مسجدوں اور گلی و کوچوں میں نعت گوئی اور اشعار پڑھنا یا بعض گاؤں اور دیہات میں کسی ایک شخص کو پورے گاؤں والوں کو بیدار کرنے پر مامور کرنا وغیرہ۔ آج ہمیں اس سنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس سنت کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ سحری کھانا سنت ہے اور اس میں برکت ہے۔
٭ ہمارے روزے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کا کھانا ہے۔
٭ ابتدائے سحری اور فجر کی نماز کے لئے دو الگ الگ مؤذن کا اذان دینا ثابت ہے۔
٭ فجر کی اذان سے پندر و یا میں منٹ قبل سحری کرنا افضل ہے۔
٭٭٭٭