شان عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا﴾ [الفتح:18]

امت محمدیہﷺ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے بعد جس شخصیت گرامی کو سب سے نمایاں ممتاز اور ارفع مقام حاصل ہے وہ داماد رسول، مجسمہ شرم و حیاء، پیکر علم و سخاء جناب ذی النورین عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خلفاء اربعہ میں تیسرا نمبر، عشرہ مبشرہ میں تیسرا درجہ اور السابقون الاولون کی لڑی میں سے ایک موتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اور آپ وہ سعادت مند ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کی دہری دامادی کا اعزاز حاصل ہے اور دو ہجرتوں کی فضیلت حاصل ہے۔ ایک ہجرت حبشہ اور دوسری ہجرت مدینہ

دو عظیم الشان کاموں میں خصوصی اور انوکھی شرکت:

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو غزوہ بدر اور بیعت الرضوان میں انوکھی اور اعزازی شرکت کا شرف حاصل ہے۔ اور یہ دونوں موقعے اسلامی تاریخ میں بڑا بلند مقام رکھتے ہیں۔

غزوة بدر:

وہ تاریخی معرکہ ہے جس کی شان میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (إِنَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلٰى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ) [صحيح البخاري، كتاب المغازی، باب فضل من شهد بدرا (3983)]

’’اللہ نے بدر والوں کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: (اے بدر کے غازیو!) آج کے بعد جو مرضی عمل کرو تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔‘‘

 اس عظیم معرکہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ عملاً شریک نہ ہو سکے۔ (یوں آپ شرکت کے شدید خواہشمند تھے) لیکن آپ کی رفیقہ حیات رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا ان دنوں شدید بیمار تھیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ میری لخت جگر اپنی زوجہ محترمہ جناب رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی دیکھ بھال، عیادت و تیمارداری کریں، جو دنیاوی اجر (مال غیمت) اور اُخروی ثواب (نعیم جنت) بدر کے غازیوں کو ملے گا وہ آپ کو گھر بیٹھے ملے گا۔[صحيح البخاري، كتاب فرض الخمس، باب اذا بعث الإمام رجلا… الخ، رقم: 3130]

سبحان اللہ! کیسی شان ہے؟ کہ بدر میں حاضری کے بغیر ہی دنیاوی و اخروی اجر وثواب کا پورا حصول اور برابر کا اجر وثواب میں کمی بیشی بھی نہیں ہوئی۔

آج مختلف ادارے بعض عظیم لوگوں کو اعزازی سندیں دیتے ہیں، جو کہ محض رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ لیکن امام الانبیاءﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو غزوہ بدر میں شرکت کی ایسی سند عطاء فرمائی جو حقیقت پر مبنی تھی۔ اور واقعہ آپ ﷺ نے جناب عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بدر کے غازیوں کے برابر مال غنیمت میں حصہ دیا اور ان شاء اللہ کل آخرت میں اللہ رب العزت بھی برابر کا انعام ضرور دیں گے۔

بیعت رضوان:

حدیبیہ کے مقام پر جب کفار مکہ کی طرف سے لڑائی کے حالات بن گئے

اس وقت رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بیعت لی۔ اور آخر میں آپ نے فرمایا: ’’یہ (دایاں) ہاتھ (میرے) عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ ہے۔

غور کیجئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے تعبیر فرمایا اور فرمایا میرا عثمان بھی اس بیعت میں شریک ہے۔ جبکہ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہﷺ کے معزز سفیر کی حیثیت سے سرداران قریش سے بات چیت کرنے کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بیعت رضوان میں برابر کا شریک قرار دیا۔ اور یہ وہ بیعت ہے جس کے بارے رب کا قرآن اعلان کرتا ہے۔

﴿لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ)

’’اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا۔‘‘

قرآن صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو مومنین کا لقب دے رہا ہے:

﴿ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾

’’جب وہ ایک درخت کے نیچے آپ (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔‘‘

﴿ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ﴾

’’پس اللہ نے ان کے دلوں (کے اخلاص و تقوی) کو جان لیا۔‘‘

﴿فَانزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ﴾

’’تو اس نے ان پر (خصوصی) سکینت نازل فرمائی۔‘‘

﴿وَآثَابَهُمْ فَتَحًا قَرِيْبًا﴾ [الفتح: 18)

’’اور انہیں قریب کی فتح عطاء فرمائی۔‘‘

یہ بیعت رضوان میں شرکت کرنے والے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی شان اور عظمت کا اعلان ہے جس میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خصوصی شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔

اب میں جناب عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے مزید فضائل و مناقب زبان نبوت ور سالت سے بیان کرتا ہوں:

1۔ جنت کی بشارت:

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی معیت میں مدینہ منورہ کے باغات میں سے ایک باغ میں تھا کہ ایک شخص آیا۔ اس نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری دو (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) میں نے اس کے لیے دروازہ کھولا تو وہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تھے میں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق انہیں خوشخبری سنائی تو انہوں نے اللہ تعالی کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعد ایک اور شخص آیا اس نے بھی دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ نبی ﷺنے فرمایا: ’’اس کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری دو‘‘ (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) میں نے اس کے لیے دروازہ کھولا تو وہ عمر  رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ میں نے انہیں نبیﷺ کے فرمان سے مطلع کیا تو انہوں نے بھی اللہ کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعد ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ آپﷺ نے مجھے فرمایا: اس کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور اسے بھی جنت کی خوشخبری دو البتہ اسے عظیم مصیبت پہنچے گی۔ (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دروازہ کھولا) تو وہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تھے میں نے انہیں نبی ﷺ کے ارشاد سے مطلع کیا انہوں نے اللہ تعالی کی تعریف بیان کی اور کہا کہ اللہ تعالی سے تمام مصائب میں مدد طلب کی جاتی ہے۔[صحيح البخاري (3695) جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب حدیث تبشیره عثمان بالجنۃ على بلوی نصیبہ (3710)]

یعنی میں ان آزمائشوں اور مصیبتوں میں اللہ تعالی کی ہی مدد کا طلبگار ہوں۔

یہ حدیث جہاں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں جنت کی بشارت ہے وہاں اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت بڑی مظلومانہ شہادت تھی۔ جس طرح آخر میں وضاحت آ رہی ہے۔

1۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ، ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہم احد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ لرزنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مارتے ہوئے فرمایا: ’’ٹھہر جا اس لیے کہ تجھ پر ایک پیغمبر ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب ابي بكر (3675).]

آج لوگ ہر ایرے غیرے کو شہید کا لقب دیتے ہیں لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سعادت مند شہداء میں سے ہیں جن کے شہید ہونے کی گواہی زبان نبوت اور لسان رسالت نے دی ہے۔

2۔ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپﷺ نے تبوک کے لشکر کی تیاری فرمائی تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اپنی جیب میں ایک ہزار دینار ڈال کر نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور یہ دینار آپ کی گود میں بکھیر دیئے۔ (عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) کہ میں نے نبیﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنی گود میں انہیں الٹ پلٹ کر رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ:

(مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب في عهد عثمان تسميته شهیدا… (3700)]

’’آج کے دن کے عمل کے بعد عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جو بھی کریں وہ انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘

آپ ﷺ نے دو مرتبہ یہ الفاظ دوہرائے۔

 یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی بے دریغ سخاوت اور فیاضی ہے جس پر خوش ہو کر ناطق وحی النبی الامی نے اتنی بڑی ضمانت دی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ آج کے بعد جو بھی عمل کریں وہ انہیں نقصان نہیں دے گا اور یہ بات بھی آپ کے جنتی ہونے کی دلیل ہے۔

3۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا:

(ابُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَاصٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ) [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب مناقب عبد الرحمن بن عوف رقم:3747]

’’ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے۔ سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہے اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ بھی جنتی ہے۔‘‘

 اس حدیث میں رسول اللہﷺ  دس خوش بختوں میں تیسرے نمبر پر آپ کا نام لے کر آپ کو جنتی ہونے کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔

4۔ آپ پر رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہ آخری دم تک راضی رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے زیادہ کوئی دوسرا خلافت کا حقدار نہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو آپ ﷺ ان سے خوش تھے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہم کا نام لیا۔[ صحيح البخاري، كتاب الجنائز ما جاء في قبر النبي مكان، رقم: 1392]

یاد رکھیے! جس پر امام الانبیاء تادم حیات خوش رہے ہوں اگر ساری دنیا بھی اس سے ناراض ہو جائے تو اسے کوئی نقصان نہیں۔

2۔ فتنوں کے دور میں حق پر قائم رہنے کی گواہی:

حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فتنوں کا ذکر کیا اور انہیں قریب بتایا چنانچہ (اسی دوران وہاں سے) ایک شخص گزرا جو چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ (آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ یہ شخص (ان فتنوں میں) ہدایت پر ہوگا۔ (مرہ بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں) پس میں اٹھا اور اس کی طرف گیا تو وہ شخص عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ مرہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے کو نبیﷺ کی جانب کیا اور کہا: کہ یہ شخص ہے جو ہدایت پر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نعم (ہاں)۔‘‘ [جامع الترمذي، مكتاب المناقب، باب مناقب عثمان (3709)]

غور فرمائیے! جس کو رسول اللہﷺ فتنوں میں بھی حق اور ہدایت پر رہنے کی سند عطاء فرمائیں اس کی فضیلت و منقبت کسی قدر زیادہ ہوگئی اور اس کا ایمان کسی قدر عمدہ معیاری اور مضبوط ہوگا؟

آپ کی فضیلت پر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا اجماع:

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے زمانے میں ہم کسی شخص کو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور پھر عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا درجہ تھا۔[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عثمان بن عفان في عمرو القرشی (3698)]

جامع القرآن:

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خدمت قرآن کی بہت بڑی سعادت بھی حاصل ہے کہ آپ نے لوگوں کو مختلف قراء توں سے ایک قراءت پر جمع کیا تا کہ لوگ اختلاف سے بچ جائیں اور آپ نے ایک قراءت والے سرکاری نسخے تیار کروا کر تمام بلاد اسلامیہ میں روانہ کئے۔ اسی مناسبت سے آپ کو جامع القرآن کا لقب دیا جاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور دفاع عثمان رضی اللہ تعالی عنہ:

حضرت عثمان بن موجب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مصر کے باشندوں میں سے ایک شخص آیا وہ بیت اللہ کے حج کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ قریش کے اکابرین ہیں۔ اس نے در یافت کیا، ان میں کون بڑا عالم ہے؟ انہوں نے بتایا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ اس نے کہا: اے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما! میں آپ سے ایک بات دریافت کرتا ہوں آپ مجھے اس بات کا جواب دیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ احد کی جنگ میں بھاگ گئے تھے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا درست ہے۔ اس نے پوچھا:  کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے غائب تھے اور (وہاں) حاضر نہ ہوئے تھے؟ عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا درست ہے۔ اس نے کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعت رضوان کے موقعہ پر بھی موجود نہ تھے۔ اور وہاں بھی حاضر نہ ہوئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے (تعجب سے) اللہ اکبر کہا (اور ساتھ ہی) عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: آئیں میں آپ کے سامنے حقیقت حال واضح کرتا ہوں۔ جہاں تک احد کی جنگ میں سے ان کے فرار ہونے کا واقعہ ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی نے ان کے اس گناہ کو معاف کر دیا ہے اور جہاں تک جنگ بدر میں سے عثمانرضی اللہ تعالی عنہ کا غائب ہونا ہے وہ اس لیے تھا کہ ان کے نکاح میں رسول اللہﷺ کی بیٹی رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ رسول اللہﷺ  نے ان سے فرمایا تھا کہ آپ کو جنگ بدر میں (عدم شرکت کے باوجود) وہاں حاضر شخص کے برابر ثواب ملے گا اور (مال غنیمت میں سے) حصہ بھی ملے گا۔ اور جہاں تک ان کا بیعت رضوان سے پیچھے رہنے کا واقعہ ہے وہ اس سبب سے تھا کہ اگر مکہ مکرمہ میں کوئی شخص عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ عزت والا ہوتا تو آپﷺ اسے بھیجتے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے مکہ مکرمہ جانے کے بعد بیعت رضوان ہوئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے دائیں ہاتھ کو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے اسے اپنے ہاتھ پر مارا اور فرمایا کہ یہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت ہے۔ بعد ازاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اب ان سوالوں کے جواب اپنے ساتھ لے جا۔[صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب مناقب عثمان بن عفان أبي عمرو القرشی (3699)]

معلوم ہوا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے متبع سنت محبت رسول ﷺ صحابی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے سچی محبت رکھنے والے اور آپ کا دفاع کرنے والے تھے جبکہ منافق قسم کے سبائی لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے بغض رکھتے تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی شرم و حیاء:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں لیٹے  ہوئے تھے آپ کی دونوں پنڈلیوں پر کپڑا نہ تھا۔ جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی ان کو اجازت دی گئی۔ آپ ﷺ اسی حالت میں رہے اور باتیں کرتے رہے۔ پھر جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت طلب کی انہیں اجازت دی گئی۔ آپ اسی حالت میں رہے اور باتیں کرتے رہے۔ پھر جناب عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور اپنا کپڑا درست کیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہک باہر چلے گئے تو جناب عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اندر آئے ان کے لیے بھی آپ ﷺ نے جنبش نہ کی اور نہ ہی آپﷺ  نے کچھ خیال کیا۔ پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ اندر آئے ان کے لیے بھی آپ ﷺ نے جنبش نہ کی اور نہ ہی ان کی کوئی پرواہ کی۔ پھر جناب عثمان رضی اللہ تعالی عنہ داخل ہوئے تو آپﷺ  درست ہو کر بیٹھ گئے اور آپ ﷺ  نے اپنے کپڑوں کو بھی درست کر لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (أَلَا اسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ) [صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان، رقم: 6209.]

’’میں اس شخص سے کیوں نہ حیا کروں جس سے فرشتے بھی دیا کرتے ہیں۔‘‘

 سبحان اللہ! حضرت عثمان  رضی اللہ تعالی عنہ کیسے حیاء دار شرمیلے اور باحیاء انسان تھے کہ آسمان کے فرشتے بھی ان سے حیاء کرتے تھے اور رسول عربی ﷺ بھی آپ کی اس عظیم خصلت کو ملحوظ رکھتے تھے۔ لیکن آج منافق قسم کے بدطینت لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا حیاء نہیں کرتے اور ان کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔

حدود اللہ کے نفاذ کی پابندی:

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور خلافت میں حدود اللہ کے نفاذ کے اس قدر پابند تھے کہ ایک دفعہ آپ کے بھائی ولید نے شراب پیا لی جب گواہی ثابت ہو گئی تو آپ نے اپنے بھائی کو شراب نوشی پر چالیس کوڑے لگوائے جس طرح تفصیل صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔[صحیح مسلم، كتاب الحدود، باب حد الخمر، رقم: 4457]

شہادت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ:

اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعہ شہادت کی تفصیلات کتب حدیث میں نہیں ملتیں (صرف تاریخی روایات ملتی ہیں) لیکن چند احادیث صحیحہ سے اتنا ضرور واضح ہوتا ہے کہ آپ نے بڑی مظلومانہ شہادت پائی ہے:

حضرت ابو سہلہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے گھر کے محاصرے کے روز مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک وصیت فرمائی تھی اور میں اس کے مطابق صبر کر رہا ہوں۔ [جامع الترمذي، كتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، رقم: 3711]

یہ حدیث بھی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ  پر بلوائیوں نے بہت ظلم کیا تھا۔

حضرت عثمان  رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام ابوسہلہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ سرگوشی کر رہے تھے جبکہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا رنگ متغیر ہو رہا تھا۔ جب محاصرے کا دن ہوا تو ہم نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ کیا ہم (ان سے) لڑائی نہ کریں؟ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نہ لڑو۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک وعدہ لیا تھا میں خود کو اس کا پابند بنا رہا ہوں۔[بيهقى دلائل النبوة، 391/9]

یہ حدیث بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومیت پر شاہد ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومانہ شہادت پر جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے تاثرات:

جب آپ کو شہادت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر ملی تو فرمایا: (اے منافقو!) تم نے جناب عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اگر اس پر احد پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائے تو یہ اس کے لیے بجا ہے۔[صحيح البخاری، کتاب المناقب، باب اسلام سعيد بن زيد، رقم: 3862]

معلوم ہوا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر بہت ظلم کیا گیا۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے سب کچھ برداشت کر لیا۔ (حتی کہ شہید ہو گئے) لیکن اپنی ذات کی خاطر مدینہ الرسول کی گلیوں میں خونریزی گوارا نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔