شفاعت کی قبولیت کی شرائط
924۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي أَنْ أَسْتَغْفِرْ لِأُمِّي فَلَمْ يَأْذَنَ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُهُ أَنْ أَزُوَْرَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ لِي)) (أخرجه مسلم:976)
’’میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے لیے استغفار کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت نہیں دی اور میں نے اس سے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی۔‘‘
توضیح و فوائد: کوئی شخص حتی کہ انبیاء سے بھی اپنی مرضی سے کسی کی شفاعت نہیں کر سکیں گے۔ شفاعت کرنے کے لیے دو شرائط کی پابندی لازمی ہوگی:
(1) خالق کائنات اجازت دے۔
(2) جس کے بارے میں شفاعت کی جائے وہ شفاعت کا اہل ہو، یعنی مسلمان ہو۔ نبی ﷺ کے بارے میں جہاں مطلق شفاعت کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث: 925، 926 میں ہے تو یہ بھی ان دونوں شرائط سے مقید ہو گی جیسا کہ دیگر دلائل سے واضح ہے۔
925۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے شفاعت والی حدیث میں فرمایا:
((فياتُونِي، فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰى رَبِّى تعالى، فيُؤذَنُ لِي فَإِذَا أَنَا رَأَيْتُهُ وَوَقَعَتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِی ما شَاءَ اللهُ، فَيُقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَكَ، قُلْ تُسمَعْ، سَلْ تُعْطهْ، اِشْفَعْ تُشَفَّعْ)) (أخرجه البخاري:7510، ومسلم:193)
’’پھر لوگ میرے پاس آئیں گے، میں اپنے رب سے اجازت لوں گا، مجھے اجازت ملے گی تو اچانک میں اللہ رب العزت کو دیکھوں گا اور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر جتنی دیر اللہ چاہے گا وہ مجھے سجدے میں رہتے دے گا، پھر کہا جائے گا: محمد اپنا سر اٹھائیے، اور کہیے، آپ کی بات سنی جائے گی، سوال کیجیے، وہ چیز آپ کو عطا کی جائے گی۔ سفارش کیجیے، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘
926۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي، كَانَ كُلُّ نبیٌ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةٍ ويُعثْتُ إلى كُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ وَلَمْ تُحَلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَجُعِلَتْ ليَ الْأَرْضُ طَيِّبَةً طَهُورًا وَمَسْجِدًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ أَدْرَكْتُهُ الصَّلَاةُ صَلّٰى حَيْثُ كَانَ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ بَيْنَ يَدَىْ مسيرَةٍ شَهْرٍ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ))(أخرجه البخاري: 335، 438، و مسلم: 521)
’’مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں: ہر نبی خاص اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا، میرے لیے اموال عظیمت حلال قرار دیا گئے، مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے حلال نہیں کیے گئے۔ میرے لیے زمین کو پاک کرنے والی اور سجدہ گاہ بنایا گیا، لہٰذا جس شخص کے لیے نماز کا وقت ہو جائے وہ جہاں بھی ہو وہیں نماز پڑھ لے اور مہینہ بھر کی مسافت سے دشمنوں پر طاری ہو جانے والے رحب سے میری نصرت کی گئی اور مجھے شفاعت ( کا منصب) عطا كيا گیا۔‘‘
927۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:
(( يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِي، فَيَقُولُ أَبُوهُ: فَاليَوْمَ لاَ أَعْصِيكَ، فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ: يَا رَبِّ إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لاَ تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ، فَأَيُّ خِزْيٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الأَبْعَدِ؟ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّي حَرَّمْتُ الجَنَّةَ عَلَى الكَافِرِينَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا إِبْرَاهِيمُ، مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ؟ فَيَنْظُرُ، فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ، فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ))(أخرجه البخاري: 3350، 4768، 4769)
’’قیامت کے دن جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آزر سے ملیں گے تو آزر کے چہرے پر سیاہی اور گردو و غبار پڑی ہوگی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس سے کہیں گے: میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ ان کا باپ جواب دے گا۔ اب میں تمھاری نافرمانی نہیں کروں گا، پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے: اے میرے رب! تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن مجھے ذلیل نہیں کروں گا اور اب رحمت سے انتہائی دور میرے باپ کی ذلت سے زیادہ اور کون کی رسوائی ہوگی؟ اللہ تعالی فرمائے گا: میں نے کافروں پر جنت حرام کر دی ہے، پھر ان سے کیا جائے گا: اے ابراہیم!تمھارے پاؤں کے نیچے کیا چیز ہے