شهر الله المحرم

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﴿وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ﴾ (ابراهيم:4)
’’یوں تو کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی ہے آسمان زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ وہ شمس وقمر ہوں یا نباتات، حیوانات اور جمادات ہوں، وہ جن وانس ہوں یا ملائکہ وارواح ہوں سب کچھ اللہ کا ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ یہ ارشاد موجود ہے۔
﴿وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ﴾ [النساء: 131)
آیت الکرسی میں بھی ہے۔
﴿وَلَهُ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ (البقرة:255)
ایک مقام پر تو بیک وقت تین بار اللہ رب العزت نے یہ بات دہرائی ہے۔ سورۃ النساء پڑھیے صرف دو آیتوں میں تین بار یہ اعلان دہرایا گیا ہے:
﴿وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ؕ وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا۝۱۳۱وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ؕ وَ كَفٰی بِاللّٰهِ وَكِیْلًا﴾ (النساء: 131،132)
یعنی کائنات کی ہر چیز اللہ کی ہے اور اس کی ملکیت میں ہے۔ حتی کہ سال، مہینے، دن، لحظے، لمحے اور گھڑیاں بھی اللہ تعالی کے لیے ہیں۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزوں کی نسبت بطور خاص اپنی طرف کی ہے۔ اور اس نسبت کا مقصد ان چیزوں کی عزت و عظمت بیان کرتا ہے۔ اس لیے اس نسبت کو تعظیمی و تشریفی نسبت کہتے ہیں:
1۔ نَاقَةُ الله: حضرت صالح علیہ السلام کو بطور معجزہ ملنے والی اونٹنی کو اللہ عزوجل نے ناقتہ اللہ (اللہ کی اونٹنی) کہا ہے۔
2۔ بَيْتُ الله: کعبہ جو امت مسلمہ کا قبلہ ہے اسے رب کائنات نے بیت اللہ (اللہ کا گھر) کہا ہے۔
3۔ بَقِيَّةُ الله: جائز اور حلال ذریعے سے حاصل ہونے والی کمائی اور بچت کو اللہ تعالی نے (اللہ کا بقیہ) کہا ہے۔
4۔ عِبَادُ الله: اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کو رب الناس نے ’’عباد الله‘‘ (اللہ کے بندے) کہا ہے۔
اسی طرح بعض مہینوں اور دنوں کو بھی اللہ رب العزت نے اپنی طرف منسوب کیا ہے فرمایا:
﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللهِ﴾ [إبراهيم: (4)
’’انہیں اللہ کے دنوں کے ذریعے نصیحت کرو۔‘‘
دن تو سارے اللہ کے ہیں تو پھر بایام اللہ (اللہ کے دنوں) سے کیا مراد ہے۔
ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔ جن میں اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں پہ خصوصی انعامات کیے اور مجرموں، نافرمانوں کو سزائیں دیں۔
یعنی جن دنوں میں حضرت نوح،ھود، صالح، موسیٰ علیہ السلام کو مجرموں سے بچایا گیا اور محرم تباہ و برباد کیے گئے وہ دن ایام اللہ ہیں۔
اسی مناسبت سے اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کو ’’شهر اللہ المحرم‘‘(اللہ کا مہینہ محرم ) کہا گیا ہے۔[صحیح مسلم، كتاب الصيام، باب فضل صوم المحرم (1163) و ابوداود (2429) والترمذي (740)]
یہ اس کی عظمت و فضیلت کی دلیل ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالی نے اپنے مختلف بندوں پر بہت سارے انعامات فرمائے۔ اس لیے یہ مہینہ فضیلتوں والا مہینہ ہے۔
پہلی فضیلت:
یہ روز اوّل سے حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ التوبہ میں ان چار مہینوں کی حرمت بیان فرمائی ہے:
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ﴾ (التوبة:36)
’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
(عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَ: (إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثٌ مُّتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحَجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبَ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادٰى وَشَعْبَانَ)[صحيح البخاري، كتاب التفسير، باب قوله، (إن عدة الشهور) الآية (4662)]
حضرت ابوبکره رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ دس ذو الحجہ کے دن نبی ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’بلاشبہ زمانہ گھوم کر اس حالت میں آگیا ہے جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ سال بارہ مہینوں پر مشتمل ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین مہینے ایک دوسرے کے بعد ہیں۔ ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم ہیں اور چوتھا مہینہ مضر (قبیلہ کا) رجب ہے جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘
دراصل دور جاہلیت میں لوگوں نے قمری سال کے اندر بڑی خرابیاں پیدا کر رکھی تھیں، بعض قبائل نے مہینوں کی تعداد میں اپنی طرف سے اضافہ کر رکھا تھا اور بعض قبائل نے حرمت والے مہینوں کی ترتیب خراب کر رکھی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے یہ ساری خرابیاں دور فرما دیں۔
بہرحال ماه محرم ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کا ادب و احترام کرنا (یعنی ان مہینوں میں گناہ فسق و فجور اور لڑائی جھگڑے سے خصوصی پرہیز کرنا) ہم سب پر فرض ہے۔
دوسری فضیلت:
یہ شکرانے کا مہینہ ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکرانہ روزہ رکھا آپﷺ نے بھی رکھا، کیونکہ اس مہینے کی دس تاریخ کو اللہ رب العزت نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعونیوں سے نجات دلائی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس نعمت عظمی کا شکریہ بجا لاتے ہوئے روزہ رکھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الصيام، باب فضل صوم المحرم (1163)]
تیسری فضیلت:
یہ ہجرت کی ابتداء ہے اسی لئے اسلامی سال کو ہجری سال کہا جاتا ہے ذوالحجہ میں ہجرت کے اسباب بنے اور محرم میں ہجرت کا آغاز ہوا۔ مہاجروں کے دستوں کی روانگی شروع ہوئی۔ بہرحال قرآن وسنت کی رو سے یہ مہینہ عظمت و فضیلت والا اور شکریہ والا مہینہ ہے اور اگر پیروں فقیروں کی بات کرو تو پیر عبد القادر جیلانی کی غنیۃ الطالبین پڑھئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دس محرم کو عاشوراء اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالی نے دس انعامات فرمائے۔ مثلا: کشتی نوح جودی پہاڑ ٹھہری، یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکلنے، ابراہیم علیہ السلام آگ سے بچائے گئے، موسی علیہ السلام کو فرعونیوں سے نجات ملی، عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گے…. تو کسی رو سے اس مہینے میں رونا پیٹنا جائز نہیں یہ تو شکریے کے روزے رکھنے کا مہینہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اہل کفر کی سازش ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے سال کی ابتداء کو ماتمی شکل دے دی ہے۔
کافروں کے سال کی ابتداء ہوتی ہے پوری دنیا میں مبارکباد کے سلسلے، مسلمان بھی نیا سال مبارک (ہیپی نیو ایئر) کے کارڈ اور بینر شائع کرتے ہیں، قومی اخبارات پر دسمبر کے آخری ڈوبتے سورج اور جنوری کے چڑھتے سورج کی تصویریں تک شائع کی جاتی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے سال کی ابتداء نوحہ و ماتم سے کی جاتی ہے یہ یہودی سازش ہے۔
جس واقعہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے وہ واقعہ تاریخی اعتبار سے کمزور ہے اور اس کی اکثر تفصیلات بے سند اور ناقابل اعتماد ہیں۔ تاریخ طبری کے ایک ہی صفحہ پر دو روایتیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس واقعہ کی تاریخ اور جگہ بھی صحیح ثابت نہیں۔ ایک روایت میں تاریخ دس محرم ہے دوسری میں تاریخ ماہ صفر ہے۔ ایک روایت میں علاقہ کربلا لکھا ہے۔ دوسری روایت میں نینوٰی لکھا ہے۔ معلوم ہوا اس واقعہ کا ماہ محرم میں ہونا ہی معتبر نہیں۔ اور اگر ہو بھی تو یہ واقعہ شہادتوں پر مشتمل ہے۔ اگر شہادت پر ماتم درست ہو تو اسلامی تاریخ بڑی بڑی عظیم شہادتوں سے پُر ہے۔ پھر تو ہر روز ماتم کرنا پڑے گا۔
1۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت جن کی فضیلت و منقبت صحیح البخاری میں اس طرح درج ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایک طرف موجود تھے۔ رسول اللہﷺ دوران خطبہ کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف دیکھتے پھر آپﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
(إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ) [صحيح البخاري، كتاب الصلح، باب قول النبي ﷺ للحسن بن علي الخ رقم: 2704]
’’میرا یہ بیٹا (نواسہ) سردار ہے۔‘‘
اس کے ذریعے اللہ مسلمانوں کے دولڑنے والے گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔ یہ حضرت حسن م رضی اللہ تعالی عنہ بھی تو شہید ہوئے تھے۔ ان کی شہادت پر یہ سب کچھ مرثیہ خوانیھ نوحہ و ماتم، تعزیہ ٔعلم وغیرہ) کیوں نہیں ہوتا؟
2۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے باپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت:
کیا آپ کے فضائل و مناقب تھوڑے ہیں۔ آپ حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما کے بابا، فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہل کے شوہر، تاجدار اور امام کائنات کے داماد با سعادت ہیں۔ ان کی شہادت پر یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا؟
3۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت: جن کی زبان پر اللہ نے حق رکھ دیا تھا جن سے ڈر کر شیطان راستہ بدل جاتا تھا، جن کی موافقت میں کئی دفعہ رب کا قرآن اترتا تھا۔ جنہیں پیغمبروں کے امام نے رب سے مانگ کر لیا تھا۔ آپ کی شہادت پر یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا؟
4۔ جناب عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت: جن سے آسمان کے فرشتے بھی حیاء کرتے تھے۔ جنہیں رسول اللہﷺ کی دوہری دامادی کا شرف حاصل تھا۔ جنہوں نے اپنی ذات کی خاطر مدینہ منورہ کی گلیوں میں خون بہانا پسند نہیں کیا تھا۔ جن کی غزوہ بدر میں عدم شرکت کے باوجود دنیاوی اجر (مال غنیمت) اور اخروی اجر (ثواب و جنت) دونوں سے نوازا گیا۔ ان کی شہادت پر یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا؟
5۔ جعفر طیاررضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت: (جس کے بدن پر نوے سے زائد زخم لگے اور سب سامنے ایک بھی پیچھے نہیں اور دونوں بازوں کٹ گئے۔ اللہ نے پر لگا دیئے اس لیے انہیں طیار کہا جاتا ہے)۔
6۔ پھر سیدالشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت: جن کا پور پور کاٹا گیا۔ انگ انگ چیرا گیا۔ اگر شہادتوں پر ماتم جائز ہوتا تو پھر ہر کسی پر ماتم کرو حتی کہ سینہ چاک کر کے دانتوں تلے چبایا گیا اور مثلہ کیا گیا۔ اس قدر غمناک منظر تھا کہ رسول اللہﷺ نعش پر کھڑے تھے۔ دور سے دیکھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن، رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا آ رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’صفیہ کو آگے آنے سے روکو! یہ بھائی کی اس حالت کو دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے گی۔‘‘ لیکن جب حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو روکا گیا تو وہ عرض کرنے لگیں، مجھے اجازت دی جائے میں اپنے بھائی پر نوحہ و ماتم کرنے نہیں آرہی۔ میں تو اپنے بھائی کو شہادت کی مبارک باد دینے آئی ہوں (کہ کل قیامت کے دن بہنیں اپنے بھائیوں کے کٹے ہوئے سر لے کر آئیں گئیں اور میں اپنے بھائی کا کٹا ہوا انگ انگ لے کر آؤں گی)۔
پھر یہ چیخنا، نوحہ و ماتم کرنا، قرآن، حدیث اور فقہ جعفریہ کی رو سے بھی درست نہیں۔ قرآن تو ہر تکلیف پر صبر کی تلقین کرتا ہے:
﴿إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّبِرِيْنَ﴾ [البقرة:153)
﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِيْنَ) [البقرة:155)
﴿اصْبِرُوْا وَصَابِرُوا﴾ (آل عمران: 200)
﴿اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ (الزمر:10)
حدیث میں صبر کا حکم ہے اور نوحہ و ماتم کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
(لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُيُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ) [صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب تحريم ضرب الخدود وشق الجيوب (153) والترمذي (999)
’’جو (مصیبت پہ) رخسار پیٹے، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی پکار پکارے (میں لٹا گیا، میری کمر ٹوٹ گئی۔ میرا کچھ نہ رہا …) وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
(وَخَرَقَ وَصَلَقَ) [صحيح البخاري، الجنائز، باب ما ينهى عن الحلق عند المصيبة (1296)]
(جو صدمے کی بناہ پر) سرمنڈھوائے گریبان پھاڑے اور چیخ وپکار کرے میں (محمد ﷺ) اس سے بری اور بیزار ہوں (میرا اس سے کوئی تعلق نہیں)۔
آخری بات:
عقلی اعتبار سے بھی یہ نوحہ و ماتم غلط ہے کہ عموماً نوحہ کرنے والے وفات کے بعد نوحہ و ماتم کرتے ہیں، لیکن یہاں یکم محرم کو رونے دھونے اور بین ڈالنے کی ابتداء کر دی جاتی ہے اور جب دس محرم کو شہادت ہو جاتی ہے تو حلوہ منڈہ کھا کر گھر گھر چلے جاتے ہیں۔
يَالِلْعَجب……
زنے را دیدم، بصورت سگ، و ملائکہ بکرزہائے آہنی سرو گردنش رامی زدند و آتش دردهنش داخل میکردند واز ذبرش بیروں می آوردند فاطمه پرسید – مراخبربکن سیرت آن زے چہ بود پدر گفت: نوجه کنندہ وجسود بود.
’’ ایک عورت کو میں نے دیکھا اس کی شکل کتے جیسی اور فرشتے لوہے کے ہتھوڑوں سے اس کے سر اور اس کی گردن پر ضربیں لگا رہے ہیں اور آگ اس کے منہ کے راستے داخل کر کے پشت کے راستے باہر نکال رہے ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا: مجھے بتلاؤ اس عورت کا کردار کیسا تھا: باپ نے جواب دیا: ” وہ عورت نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی‘‘[حياة القلوب]
اللہ اکبر! یہ حدیث بخاری و مسلم کی نہیں۔ بلکہ حیاة القلوب کی ہے۔ اور اس کے راوی حضرت ابوہریرہ و حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہما یا حضرت عائشہ و حفصہ رضی اللہ تعالی عنہما نہیں بلکہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا ہیں اور اس حدیث میں نوحہ و ماتم کی کیسی خطرناک سزا بیان کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔