شیطانی وسوسے اور دجالی فتنے
﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
شیطان کی چالوں اور اس کے وسوسوں سے آگاہی کا سلسلہ جاری ہے، یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ایک سلسلہ زیادہ دیر تک جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ایک تو فطرنا لوگ جلد اکتا جاتے ہیں اور پھر ایک ایسا موضوع کہ جس میں شیطان کی چالوں سے خبردار رہنے کی بات ہو، شیطان کو بھی تو برداشت نہیں ہے، وہ اس موضوع کو بدلنے کا وسوسہ بھی پیدا کر سکتا ہے، اگر چہ وہ اس موضوع کو زیادہ خطرے والی بات نہیں سمجھتا، کیونکہ اسے اپنی قوتوں پر مان ہے، اپنی صلاحیتوں پر ناز ہے، اور اسے انسان کی کمزوریوں کا بھی علم ہے، وہ سمجھتا ہے کہ ان نصیحتوں کا اثر زیادہ سے زیادہ مسجد کی چار دیواری تک ہی محدود ہے، جونہی مسجد سے باہر نکلیں گے میں انہیں سنبھال لوں گا۔
اس سے یاد آیا کہ قریب ہی میں ایک گراسری سٹور ہے، جس میں انہوں نے لاٹو بھی رکھی ہوئی ہوتی ہے، میں نے ایک بار انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ مسلمان ہیں اور لاٹو کی حرمت سے بھی آپ واقف ہیں اور اگر اسے اللہ تعالی کی رضا کے لیے ختم کر دیں گے تو اللہ تعالی آپ کو اس سے بہتر رزق عطا فرمائے گا، جیسا کہ حدیث میں ہے:
آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا لِلهِ إِلَّا أَبْدَلَكَ اللهُ بِهِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ مِنْهُ))
(مسند احمد ، ج:38 ، ص:170)
’’جو گناہ کا کام آپ اللہ تعالی کی رضا کے لیے چھوڑتے ہیں، اللہ تعالی آپ کو اس کا نعم البدل عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
تو جواب میں کہنے لگے کہ جاؤ اپنے نمازیوں کو سمجھاؤ ۔ وہ مسجد سے نکل کر سیدھا ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی کہ شیطان انسان کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اور اسے اپنی گمراہ کن چالوں کی شدت کا بھی اندازہ ہے۔ اب غور کریں کہ اللہ تعالی نے جب شیطان ابلیس کو اس کے تکبر کے باعث جنت سے نکال باہر کیا تو اس سے پہلے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ:
﴿ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا ۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (البقرة:35)
’’کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو، اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘
﴿فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ﴾ (البقرة:36)
اس کے باوجود کہ اللہ تعالی نے پہلے سے شیطان کی سازشوں اور وسوسوں سے آگاہ کر رکھا تھا، مگر شیطان نے پھر بھی آدم اور حواء علیہما ا لسلام کو پھسلا دیا۔
تو شیطان ہمارے اس سلسلے سے اتنا بھی پریشان نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارے کمزور پہلوؤں سے کافی حد تک واقف ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم شیطان کی چالوں سے غافل ہو جا ئیں اور جاننے کی کوشش نہ کریں۔
قرآن وحدیث میں شیطان کی چالوں سے بچنے کی جابجا تاکید کی گئی ہے اور ان سے خبر دار کیا گیا ہے اور اس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔
اللہ تعالی نے آدم وحواء علیہما السلام اور شیطان ابلیس کو زمین پر بھیجتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ﴾ (البقره:36)
’’اور ہم نے انہیں حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں زمین میں ایک خاص وقت تک ٹھہرنا اور فائدے اٹھانا ہے۔‘‘
شیطان انسان کا دشمن ہے، یہ بات تو واضح ہے کیونکہ وہ انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر انسان شیطان کا دشمن کسی طرح ہے؟ ایک تو یوں کہ شیطان سمجھتا ہے کہ وہ انسان کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اپنے تکبر کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا ہے اور دوسرے یہ کہ قرآن وسنت پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ شیطان کا دشمن ہے اور شیطان کے دوست وہ ہیں جو قرآن وحدیث سے دور بھاگتے ہیں۔
تو اللہ تعالی نے آدم و حواء علیہما السلام اور شیطان ابلیس کو جنت سے نکال کر زمین میں بھیجتے ہوئے ایک تو یہ بات ارشاد فرمائی کہ ایک تو یہ بات یاد رکھنا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور یہ کہ تمہیں ایک وقت مقررہ تک یہاں ٹھہرنا اور دنیا کی نعمتوں سے محظوظ ہونا ہے۔
اور دوسرے یہ کہ:
﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (البقره:38)
’’پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے خوف اور رنج کی کوئی بات نہیں ہوگی ۔‘‘
﴿وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠﴾ (البقرة:39)
’’اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلا ئیں گے تو وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اور تیسری بات اولاد آدم کو شیطان کی چالوں سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمائی کہ
﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا ؕ اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ؕ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف:27)
’’اے بنی آدم ! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگا میں ایک دوسرے کے سامنے کھولے اور وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ، ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں کا دوست اور سر پرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ‘‘
اب اللہ تعالی نے اولاد آدم کو زمین پر بھیجتے ہوئے جو خصوصی نصیحتیں فرمائیں تو کیا وہ محض قرآن پاک کے اوراق کی زینت بنانے کے لیے فرمائیں، کیا وہ صرف تلاوت کرنے کے لیے فرمائیں کہ انسان کی عملی زندگی میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے؟ یقینًا وہ انسان کو زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور آزمائشوں میں رہنمائی دینے کے لیے فرمائیں۔
شیطان کے فتنے یقینًا کوئی معمولی بات نہیں ہیں تبھی تو اس قدر اہتمام کے ساتھ انسان کو ان سے آگاہ کیا گیا ہے، اور پھر شیطان کے فتنوں کی سنگینی کا اک نمونہ بھی پیش کیا گیا کہ وہ کسی طرح میٹھی میٹھی اور پرکشش باتیں کر کے اور قسمیں کھا کھا کر اپنی سچائی اور خلوص کا یقین دلاتا ہے، لہٰذا اس سے خبردار رہو۔ اور فتنہ کسی ایک آزمائش اور معصیت کا نام نہیں، اس کی ان گشت شکلیں اور صورتیں ہیں، فتنہ جب آتا ہے تو بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں، عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، دماغ ماؤف ہو جاتے ہیں، کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ آدمی کیا کرے اور کدھر جائے ۔ فتنوں سے یوں ہی خبر دار نہیں کیا گیا، فتنوں سے پناہ مانگنے کی دعا میں یونہی نہیں سکھلائی گئیں۔ ان کا ایک اثر ہوتا ہے وہ بڑے بڑے دانشوروں کا لٹو گھما دیتے ہیں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کہ فرماتے ہیں:
((مَا الْخَمْرُ صَرْفًا بِأَذْهَبَ بِعُقُولِ الرِّجَالِ مِنَ الْفِتْنَةِ)) (حليةالأولياء وطبقات الاصفياء ، ج:1، ص:274)
’’شراب لوگوں کی عقلیں ماؤف کرنے میں کوئی فتنوں سے زیادہ کارگر نہیں ہے۔‘‘
اور ان سے جب پوچھا گیا کہ:
((أَيُّ الْفِتْنَةِ أَشَدُّ؟))
’’سب سے سخت ترین فتنہ کون سا ہے؟‘‘
((أَنْ يُعْرَضَ عَلَيْكَ الْخَيْرُ وَالشَّرُّ فَلَا تَدْرِي أَيُّهُمَا تَتَّبِعُ))
(مصنف ابن ابي شيبة ، ج:7، ص:503 ، رقم: 37569)
’’یہ کہ تمہارے سامنے خیر اور شر پیش ہو اور تمہیں تمیز کرنا مشکل ہو جائے کہ خیر کیا ہے اور شرکیا ہے اور کسی کو اپنا ؤ ؟‘‘
اس حدیث میں سند کے لحاظ سے اگر چہ کلام ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ فتنہ انسان کی مت مار دیتا ہے۔
فتنوں کی اس شدت اور سنگینی کے باعث آپ سن ٹیم نے ان سے پناہ مانگنے کی دعاء سکھلائی ، فرمایا:
((تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ))(مسلم: 2867)
’’ہر قسم کے ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو۔‘‘
اور یہ فتنوں کی شدت ہی ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ:
((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي مَکَانَهُ)) (بخاری: 7115)
’’اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک ایسا وقت نہ آجائے کہ کوئی شخص کسی آدمی کی قبر کے پاس سے گزرے گا تو حسرت سے کہے گا کہ (يَا لَيْتَنِي مَکَانَهُ) اے کاش اس کی جگہ میں ہوتا ۔‘‘
اور سب سے شدید فتنہ جو کوئی ہو سکتا ہے وہ دجال کا فتنہ قراردیا، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْأَ عَنْهُ))
’’جس کسی کو دجال کے ظہور کی خبر ملے تو وہ اس سے دور رہے۔‘‘
((فَوَ اللهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ فَيَتَّبِعُهُ ، مِمَّا يُبْعَثُ بِهِ مِنَ الشَّبُهَاتِ)) (ابو داود: 4319)
’’اللہ کی قسم ! آدمی اس کے پاس اس حال میں آئے گا کہ وہ سمجھ رہا ہوگا کہ وہ اپکا مؤمن ہے مگر وہ اس کی اتباع کرنے لگ جانے گا، ان شہبات کی وجہ سے جو اس کے سامنے پیش ہوں گے۔‘‘
یعنی آدمی اپنے آپ پر حسن ظن رکھتے ہوئے دجال کا سامنا کرنے کی جرات نہ کرے کہ میں بڑا پکا مسلمان ہوں وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مگر دجال اسے ایسی ایسی باتوں میں اور شبہات میں ڈال دے گا کہ وہ بالآخر اسے ماننے لگے گا۔
فتنوں کی کثرت و بہتات کے بارے میں پہلے بھی کئی بار بیان کیا گیا ہے کہ وہ اس قدر زیادہ ہوں گے کہ بارش کے قطروں کی طرح پے در پے ظاہر ہوں گے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک بار آپﷺ مدینہ منورہ کے اونچے مکانوں میں سے ایک مکان پر چڑھے اور صحابہ کرام سے دریافت فرمایا کہ:
((هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى))
’’کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں ، کیا تم بھی دو کچھ دیکھ رہے ہو‘‘
((قَالُوا:لَا)
’’کہا نہیں‘‘
(( قَالَ: فَإِنِّي لَارَى الْفِتَن تَقعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقعِ الْقَطْرِ))(بخاری:7060)
’’فرمایا تو پھر میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتا دیکھ رہا ہوں ۔‘‘
فتنوں کا خوفناک ترین پہلو یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کی سمجھ ہی نہیں پڑتی۔
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((اَلْفِتْنَةُ إِذَا أَقْبَلَتْ عَرَفَهَا كُلِّ عَالِمٍ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ عَرَفَهَا كُلُّ جَاهِلٍ)) (حلية الأولياء وطبقات الاصفياء ، ج:9، ص:24)
’’ فتنہ جب آتا ہے تو ہر عالم اسے بھانپ لیتا ہے اور فتنہ جب ختم ہو جاتا ہے تو ہر جاہل کو بھی معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ ایک عالم فتنے کو کیسے بھانپ لیتا ہے اور کسی عامی کو فتنے کا کیوں پتا نہیں چلتا ؟
بظاہر یہ سوال بے معنی معلوم ہوتا ہوگا کیونکہ عالم اپنے علم سے جان لیتا ہے اور عالمی اپنی لاعلمی کی وجہ سے جان نہیں سکتا۔
مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ عالم جو خالصتاً قرآن و سنت کو تمام تر مسائل کا اصل حمل سمجھتا ہے، وہ اس کے واضح دلائل کی روشنی میں فتنے کو سمجھ لیتا ہے، ورنہ علماء سوء بھی موجود ہوتے ہیں جو فتنوں کو اور خوشنما بنا کے پیش کرتے ہیں۔
مگر ایک عامی اپنی لاعلمی اور لاعلمی سے زیادہ فتنوں سے محبت اور دیپسی اور شوق و رغبت کی وجہ سے وہ فتنے کو فتنہ نہیں سمجھتا، بلکہ ان علماء کو ہدف تنقید بناتا ہے جو اسے فتنہ قرار دیتے ہیں۔ آج اگر غور کریں تو انسانی معاشرہ پوری طرح شیطانی فتنوں میں گھرا ہوا ہے، مجموعی طور پر شیطان کا غلبہ ہے، انسان کا کوئی معاملہ، اس کی زندگی کا کوئی پہلو اور شعبہ شیطانی تسلط سے محفوظ نظر نہیں آتا۔
آج ہم موجودہ سیاست اور میڈیا کے رول پر نظر ڈالیں تو مکمل طور پر یہ دونوں شعبے شیطان کے قبضے میں ہیں، مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو موجودہ طرز سیاست کو غلط اور اسلام سے متصادم سمجھتے ہیں بالخصوص سیاست میں اصلاح کے نام پر مظاہرے کرنا، دھرنے دینا، زبردستی دکانیں بند کروانا ، روڈ بلاک کرنا اور پھر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنا۔ عوام کی ہمدردی اور خیر خواہی کے نام پر حکومتیں گرانا اور پورا نظام درہم برہم کر دینا، یہ قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں ناجائز اور خلاف شریعت ہے اور بہت بڑا فتنہ ہے۔ اندازہ کریں کہ پانی بجلی اور گیس کی قلت اور مہنگائی کے لیے وہ کیسے فکر مند ہیں اور لوگوں پر اپنی ہمدردی جتاتے ہوئے حکومتوں کے گرانے میں پورا زور صرف کر دیتے ہیں، مگر اس ملک میں غیر اللہ کی پوجا ہوتی ہے، نام لے لے کر غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے، قبروں پر سجدے ہوتے ہیں، سر عام بدعتیں ہوتی ہیں، روشن خیالی کے نام پر اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مگر کسی کی غیرت ایمانی بیدار نہیں ہوتی ، اللہ کے وقار کی معاذ اللہ تو ہین کی جاتی ہے، مگر کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
﴿ مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا﴾ (نوح:13، 14)
’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے لیے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے بنایا ہے۔‘‘
یعنی تم کسی رئیس، کسی وزیر اور مشیر کے لیے تو سمجھتے ہو کہ ان کے وقار کے خلاف کوئی بات نہ ہو مگر اللہ تعالی کے لیے توقع نہیں رکھتے ، یہ کیسی بے حسی ہے؟
اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا کتنا سنگین جرم ہے کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّاۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًاۚ﴾ (مريم:90، 91)
’’قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جا ئیں کہ وہ اللہ تعالی کے لیے اولاد قرار دینے کا دعوی کرتے ہیں۔ ‘‘
عوام کی ہمدردی اور خیر خواہی صرف گیس اور بیکلی میں نظر آتی ہے، ان کے ایمان کی کوئی فکر نہیں!۔
ابراہیم علیہ السلام کے بتوں کو پاش پاش کرنے کا عمل تمہارے لیے مشعل راہ نہ ہو، رسول کریم ﷺ کے فتح مکہ کے موقع پر بتوں کو توڑنے سے تمہیں رہنمائی نہ ملے۔
اور آپ ﷺکے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دے کر بھیجنے میں کہ جاؤ اور جو قبر تقریبًا ایک بالشت اونچی دیکھو مسمار کر دو تمہارے لیے نمونہ نہ بنے یہ کیسی ہمدردی، کیسا خلوص اور کیسی خیر خواہی ہے۔
موجود و طرز سیاست اور میڈیا کے فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو فروغ دینے اور لوگوں کو آپس میں لڑانے کام کام معاشرے میں صرف یہی دو فتنے نہیں ہیں، بلکہ بے شمار فتنے ہیں۔ ان فتنوں سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے صرف علماء کی طرف ہی رجوع کیا جا سکتا ہے، مگر افسوس کہ علماء کی جو معاشرے میں قدر کی جاتی ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے!
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………