شرک سے بچنا باعث مغفرت ہے

165۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺکو اسراء  کروایا گیا تو آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا. پھر رسول اللہ ﷺکو تین چیزیں عطا کی گئیں:

پانچ نمازیں اور سورہ بقرہ کی آخری آیات عطا کی گئیں، نیز آپ کی امت کے (ایسے) لوگوں کے (جنھوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا) جہنم میں پہنچانے والے (بڑے بڑے) گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 173،279)

166۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الاثنينِ، وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكْ بالله شَيْئًا إِلَّا رَجُلٌ كَانت بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا  هٰذَيْنِ حَتّٰی يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا  هٰذَيْنِ حَتّٰی يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا  هٰذَيْنِ حَتّٰی يَصْطَلِحَا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2565)

’’پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے (کسی مسلمان) بھائی کے درمیان دشمنی ہو۔ کہا جاتا ہے: ان دونوں کو مہلت دوحتی کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو مہلت دوحتی کہ یہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو مہلت دوحتی کہ یہ صلح کر لیں۔‘‘ (اور صلح کے بعد ان کی بھی بخشش کر دی جائے)۔

167۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَا إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلٰى مَا  كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي، يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي، يَا ابْنَ آدَمَا إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَا بِهَا مَغْفِرَةٌ.)) (أَخْرَجَهُ الترمذي:3540)

’’اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: اے آدم کے بیٹے جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تو میرے پاس اس حال میں آئے کہ زمین کے بھراؤ کے برابر تیرے گناہ ہوں پھر تو مجھے اس حال میں ملے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں تیرے پاس زمین بھر کر مغفرت لے کر آؤں گا۔‘‘

168۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

((يَطَّلِعُ اللهُ إِلٰى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مَشَاحِنٍ)) (أخرجه ابن حبان: 5665، وابن أبي عاصم في السنة: 512، والطبراني في الكبير:215/20، وأبو نعيم في الحلية: 191/5)

’’نصف شعبان کی رات اللہ تعالی اپنی مخلوق کی طرف دیکھتا ہے، پھر مشرک اور کینہ رکھنے والے کے سوا تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘

169۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی سیدنا معاذ بن جبل ہی اللہ سے مروی گزشتہ حدیث جیسے الفاظ

مروی ہیں۔  (أخرجه ابن ماجه:  1390، وابن أبي عاصم في السنة: 510، واللالكائي: 763)

توضیح وفوائد:  اچھے کام کرنا اور برےکاموں سے  رکنا نیکی کی دو صورتیں ہیں۔ اس لیے نماز، روزے اور ادائے زکاۃ وغیرہ کی طرح شرک سے بچنا بھی نیکی ہے۔ جس طرح دیگر نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں، اسی طرح شرک سے بچاؤ کی کوشش بھی گناہوں کا کفارہ بنتی ہے، تاہم درجات کی بلندی کے لیے اس کے ساتھ ساتھ مزید اعمال خیر بھی کرنے چاہئیں۔

170۔سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ اللہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے کوئی بڑی اور چھوٹی حاجت نہیں چھوڑی مگر میں نے اسے پورا کیا ہے۔ آپ نے پوچھا:

(       (أَلَيْسَ تَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا الله، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ؟))

’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں؟

تین دفعہ آپ نے اس سے پوچھا۔ اس نے کہا:  جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ((ذٰلك يأتي على ذلك)) (أخرجه أبو يعلى: 3433، والطبراني في المعجم الصغير: 93/2)

 ’’وہ (تیرے نیک اعمال) اس (گواہی) پر (قائم) آتے ہیں۔‘‘

 توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ جب تم نے توحید کا اقرار اور شرک سے بچنے کا عہد کر لیا ہے تو یہ نیکی تمھارے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تمھارے لیے گناہ کرنے جائز ہیں۔

171۔سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ((منْ أَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَی الزَّكَاةَ، وَمَاتَ لَا يُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَّغْفِرَ لَهُ هَاجَرَ أَوْ مَاتَ فِي مَوْلِدِهِ))

’’جو شخص نماز قائم کرے، زکاۃ ادا کرے اور اس حال میں اسے موت آئے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو اللہ تعالی پر لازم ہے کہ اسے معاف فرما دے، خواہ وہ ہجرت کرے یا اپنے پیدائشی علاقے ہی میں فوت ہو جائے۔‘‘

 ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم یہ بات لوگوں کو نہ بتا دیں کہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ لِلْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَعَدَّهَا اللهُ لِلْمُجَاهِرِينَ فِي سَبِيلِهِ، وَلَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ، وَلَا تَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَّتَخَلَّفُوا بَعْدِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوْدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلَ ثُمَّ أَحْيَاثُمَّ أُقْتَلُ))

 ( أخرجه النساني:3134)

’’جنت میں سو درجے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان آسمان وزمین کے مابین کے برابر فاصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ درجے اس کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اور اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میں مسلمانوں پر مشقت ڈال بیٹھوں گا اور میں اتنی سواریاں (اور وسائل) نہیں پاتا کہ میں انھیں سواریاں مہیا کر سکوں اور انھیں یہ بات ہرگز گوارا نہ ہوگی کہ میرے پیچھے بیٹھے رہیں تو میں کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا۔ اور میری خواہش ہے کہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں۔‘‘

توضیح و فوائد:  شروع میں کافروں کے علاقے سے ہجرت کر کے مسلمانوں کے علاقے میں آباد ہونا ضروری تھا، اس لیے آپ نے یہ اشکال دور فرما دیا، یعنی اگر کوئی شخص توحید پر قائم ہے اور اس حالت میں اسے موت آجاتی ہے تو اس نے اگر ہجرت نہ بھی کی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا، نیز رسول اللہ ﷺنے عمل کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: میں بار بار شہید ہونا پسند کرتا ہوں، اس لیے تمھیں بھی عمل کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔

…………………