شوقِ جنّت

اہم عناصر :
❄جنّت کا مختصر تعارف
❄ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شوقِ جنّت
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا اَبَدًا‌ لَـهُمۡ فِيۡهَا اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّنُدۡخِلُهُمۡ ظِلًّا ظَلِيۡلًا [النساء: 57]
ذی وقار سامعین!
دنیا داری کا ایک عام سا اصول ہے کہ اگر کسی کی زمین پر کسی نے قبضہ کر لیا ہو اور اسے زمین سے بے دخل کر دیا ہو تو اس کی اولاد کہتی ہے کہ ہم اپنے باپ کی زمین کو چھڑوائیں گے اور دوبارہ وہاں جا کر آباد ہوں گے۔ ہمارا اصل ٹھکانہ جنت ہے جس میں ہمارے والدین سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدہ حوا علیہا السلام رہتے تھے ، ان کو ایک غلطی کی وجہ سے سزا کے طور پر زمین پر اتارا گیا ۔ ہمارا یہ اصل ٹھکانہ نہیں ہے بلکہ ہم یہاں بطور امتحان اور بطور سزا آئے ہیں۔ ہمیں اس دنیا کو اپنا اصل ٹھکانہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ اور ابدی زندگی کی فکر کریں اور اس جنت کی فکر کریں جہاں جا کر سب دکھ ، تکلیفیں اور پریشانیاں ختم ہو جائیں گی. ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جنت کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں ، ہم نے جنت کو پڑھا ہی نہیں ، جنت کے بارے میں سنا ہی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کی کسی خوبصورت جگہ کو جنت سے تشبیہ دے دیتے ہیں اور اپنی محبوبہ کی تعریف کرتے ہوئے اسے حور سے ملا دیتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم قران مجید کا مطالعہ کریں اور قران مجید کی وہ سورتیں اور وہ مقامات جن میں اللہ تعالی نے جنت کا دل نشیں تذکرہ کیا ہے اس کا ترجمہ اور اس کی تفسیر پڑھیں تاکہ ہمارے دل میں جنت کا شوق پیدا ہو۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم آپ کے سامنے جنت کا مختصر تعارف پیش کریں گے اور اس کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جنت کے لیے شوق کتنا تھا ان کی جنت کے لیے تڑپ کتنی تھی یہ بیان کریں گے۔
جنّت کا مختصر تعارف
جنتی نعمتیں:
❄ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [البقرۃ: 25] ترجمہ: اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بے شک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
❄ إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ [الحج: 23]
ترجمہ: بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، انھیں اس میں کچھ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی بھی اور ان کا لباس اس میں ریشم ہوگا۔
❄ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا [النساء: 57]
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔
❄سَابِقُوۡۤا اِلٰى مَغۡفِرَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا كَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ
ترجمہ: اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے، وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے اس کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ [الحدید: 21]
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: قَالَ اللَّهُ «أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ» [بخاری: 3244]
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں ، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا ، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں“۔
جنتی درخت:
❄ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ فِي الجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لاَ يَقْطَعُهَا» [بخاری: 3251]
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک چل سکتا ہے اور پھر بھی اس کو طے نہ کرسکے گا۔
جنتی حُور: ❄ قَالَ: وَسَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَرَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ غَدْوَةٌ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ مِنَ الجَنَّةِ، أَوْ مَوْضِعُ قِيدٍ – يَعْنِي سَوْطَهُ – خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، وَلَمَلَأَتْهُ رِيحًا، وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» [بخاری: 2796]
ترجمہ : میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم ﷺ کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام بھی گزار دینا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ، سب سے بہتر ہے اور کسی کے لئے جنت میں ایک ہاتھ کے برابر جگہ بھی یا ایک قید جگہ ، قید سے مراد کوڑا ہے ، دنیا وما فیھا سے بہتر ہے اور اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں اور خوشبوسے معطر ہو جائیں ۔ اس کے سر کا دو پٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے۔
جنتی سُرور:
سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اہل دوزخ میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ آسودہ تر اور خوشحال تھا، پس دوزخ میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا ؛
يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ فَيَقُولُ لَا وَاللَّهِ
"کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے دنیا میں کبھی آرام دیکھا تھا؟ کیا تجھ پر کبھی چین بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! اے میرے رب! کبھی نہیں۔”
اور اہل جنت میں سے ایک ایسا شخص لایا جائے گا جو دنیا میں سب لوگوں سے سخت تر تکلیف میں رہا تھا، جنت میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا؛
يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ فَيَقُولُ لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا مَرَّ بِي بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَيْتُ شِدَّةً قَطُّ [مسلم: 70]
” کہ اے آدم کے بیٹے! تو نے کبھی تکلیف بھی دیکھی ہے؟ کیا تجھ پر شدت اور رنج بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھ پر تو کبھی تکلیف نہیں گزری اور میں نے تو کبھی شدت اور سختی نہیں دیکھی۔”
جنتی نُور:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا يَأْتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ فَتَهُبُّ رِيحُ الشَّمَالِ فَتَحْثُو فِي وُجُوهِهِمْ وَثِيَابِهِمْ فَيَزْدَادُونَ حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَرْجِعُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ وَقَدْ ازْدَادُوا حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا فَيَقُولُونَ وَأَنْتُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا [مسلم: 7146]
ترجمہ : حضرت انس بن مالک سے روايت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
” جنت ميں ايک بازار ہے جس ميں وہ(اہل جنت) ہر جمعہ کو آيا کريں گے تو(اس روز) شمال کی ايسی ہوا چلے گي جو ان سے چہروں پر اور ان کے کپڑوں پر پھيل جائےگي،وہ حسن اورزينت ميں اوربڑھ جائيں گے،وہ اپنے گھروالوں کے پاس واپس آئيں گے تو وہ(بھي) حسن وجمال ميں اور بڑھ گئے ہوں گے،ان کےگھر والے ان سے کہيں گے:اللہ کي قسم! ہمارے(ہاں سے جانے کے) بعد تمہارا حسن وجمال اور بڑھ گيا ہے۔وہ کہيں گے اور تم بھي ،اللہ کي قسم! ہمارے پیچھے تم لوگ بھي اور زيادہ خوبصورت اورحسين ہوگئے ہو”

جنت میں اللہ کا دیدار:
عَنْ صُهَيْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ” إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، قَالَ: يَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ، فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَ [مسلم: 449]
ترجمہ: حضرت صہیب سے روایت ہے ، نبی ﷺ فرمایا:’’جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، ( اس وقت) اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں؟ وہ جواب دیں گے:کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے! کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عز وجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘
آخری جنتی:
سیدنا عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اہل جہنم میں سے کون سب سے آخر میں وہاں سے نکلے گا اور اہل جنت میں کون سب سے آخر میں اس میں داخل ہوگا۔ ایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے نکلے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ، وہ جنت کے پاس آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہوگا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ واپس آئے گا اور عرض کرے گا، اے میرے رب! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا، اللہ تعالیٰ پھر اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ پھر آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہوگا کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ واپس لوٹے گا اور عرض کرے گا کہ اے رب! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا؛
اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا أَوْ إِنَّ لَكَ مِثْلَ عَشَرَةِ أَمْثَالِ الدُّنْيَا
” جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ تمہیں دنیا اور اس سے دس گنا دیا جاتا ہے یا ( اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ) تمہیں دنیا کے دس گنا دیا جاتا ہے۔”
وہ شخص کہے گا تو میرا مذاق بناتا ہے حالانکہ تو شہنشاہ ہے۔
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ وَكَانَ يَقُولُ ذَاكَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً [بخاری: 6571]
میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ ﷺ ہنس دےئے اور آپ کے آگے کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کا سب سے کم درجے والا شخص ہوگا۔
جنت میں اللہ کی رضا:
حضرت ابوسعید خدری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصلکرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیںگے اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیوں کہ اب تو تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق کے کسی آدمی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا؛
أَنَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالُوا يَا رَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا [بخاری: 6549]
” کہ میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کردوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔”
جنت کا سوال:
❄ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْجَنَّةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتْ الْجَنَّةُ اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَمَنْ اسْتَجَارَ مِنْ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتْ النَّارُ اللَّهُمَّ أَجِرْهُ مِنْ النَّارِ [ترمذی: 2572]
ترجمہ : انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ جواللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے توجنت کہتی ہے: اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کردے، اور جوتین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتاہے تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ اس کو جہنم سے نجات د ے’۔
صحابہ کرام رضی الله عنهم کا شوقِ جنّت
سیدنا عمیر بن حمام :
جنگ بدر میں جب مشرکین مکہ اسلام اور مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو رسول اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا؛
قوموا إلى جنة عرضها السماوات والأرض
"جنت کی طرف اُٹھ کھڑے ہوجس کی چوڑائی سارے آسمان اور زمین ہیں۔”
یہ سن کر حضرت عمیر بن حمام نے عرض کیا؛
يَا رَسُولَ اللهِ، جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ؟
اے اللہ کے رسول! کیا (شہادت کے عوض) آسمانوں اور زمین کی چوڑائی کے برابر جنت ہے؟
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: نعم "ہاں”۔
حضرت عمیر بن حمام کہنے لگے:بخ بخ۔ رسول اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا؛
ما يحملك على قولك بخ بخ
"بخ بخ کہنے پر تجھے کس نے ابھارا”؟
حضرت عمیر بن حمام نے عرض کیا ؛
لَا وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا
اے اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی میں نے یہ جنت کی اُمید میں کہا ہے۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: فإنك من أهلها "تم جنت والوں میں سے ہو”۔ اس کے بعد حضرت عمیر بن حمام اپنے ترکش سے کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔پھر شوق شہادت میں کہنے لگے:
لئن أنا حييت حتى آكل تمراتي هذه إنها لحياة طويلة
"اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہوں تو یہ بڑی ہی طویل زندگی ہو جائے گی”۔چنانچہ انہوں نے بقیہ ساری کھجوریں پھینک دیں اور آگے بڑھ کر مردانہ وار جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ [مسلم: 4915]
سیدنا عمرو بن جموح :
سیدنا ابوقتادہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمرو بن جموح نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا؛
أَرَأَیْتَ إِنْ قَاتَلْتُ فِی سَبِیلِ اللّٰهِ حَتّٰی أُقْتَلَ أَمْشِی بِرِجْلِی هذِہِ صَحِیحَة فِی الْجَنَّة وَكَانَتْ رِجْلُهُ عَرْجَائَ
” اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہو جاؤں تو کیا میں جنت میں اپنی اس ٹانگ سے صحیح طور پر چل سکوں گا؟ دراصل وہ ایک ٹانگ سے لنگڑے تھے۔ ”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی بالکل۔۔ پھر وہ،ان کا بھتیجا سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام اور ان کا ایک غلام یہ تینوں غروۂ احد میں شہید ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا؛
كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْکَ تَمْشِی بِرِجْلِکَ هٰذِہِ صَحِیحَةً فِی الْجَنَّة
میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنی اس ٹانگ سے صحیح طور پر جنت میں چل رہا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ان تینوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔ [مسند احمد:22553 حسن]
سیدہ امِ زفر اسدیہ رضی اللہ عنہا:
عَن عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ : أَلاَ أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ المَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺفَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قَالَ: «إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ» فَقَالَتْ: أَصْبِرُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ لاَ أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا
ترجمہ: عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ، تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں ؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں ، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کردوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کردیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ [بخاری: 5652]
سیدنا ابو دَحداح :
سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کا کھجور کا ایک درخت ہے، میں اس درخت کا ضرورت مند ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے باغ کی دیوار کو سیدھا کر سکوں، آپ اسے حکم دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دے اور میں اپنے باغ کی دیوار کو مضبوط کر لوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: تم یہ درخت اسے دے دو، اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک درخت لے دوں گا۔ اس نے اس بات سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو دحداح نے آکر اس آدمی سے کہا کہ میرے پورے باغ کے عوض تم یہ ایک کھجور مجھے فروخت کر دو، اس نے ایسے ہی کیا، پھر سیدنا ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ ایک کھجور اپنے پورے باغ کے عوض خریدلی ہے، آپ یہ کھجور اس ضرورت مند کو دے دیں، میں کھجور کا یہ درخت آپ کے حوالے کر چکا ہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَاحَ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّة
”جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کے لیے لٹک رہے ہیں۔ ”
آپ ﷺ نے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائی، ابو دحداح نے اپنی بیوی کے پاس آکر اس سے کہا:؛
یَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! اخْرُجِی مِنَ الْحَائِطِ فَإِنِّی قَدْ بِعْتُهُ بِنَخْلَة فِی الْجَنَّة فَقَالَتْ: رَبِحَ الْبَیْعُ أَوْ كَلِمَة تُشْبِهُهَا [مسند احمد: 11903صححہ الالبانی]
اے ام وحداح! باغ سے باہر نکل آؤ، میں نے یہ باغ جنت کی ایک کھجور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے تو بڑے فائدے والا سودا کیا۔
سیدناانس بن نضر :
سیدنا انس نے بیان کیا کہ میرے چچا انس بن نضر بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے‘ اس لئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیااورمسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا کہ اے اللہ ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اورجو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے ( مشرکین کی طرف ) تو سعد بن معاذ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر نے کہا اے سعد بن معاذ ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر ( ان کے باپ ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ ﷺ ! جو انہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ انس نے بیا ن کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضر کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے اورکوئی شخص انہیں پہنچان نہ سکا تھا‘ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہنچان سکی تھیں۔ انس نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں ( یاآپ نے بجائے نری کے نظن کہا ) مطلب ایک ہی ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ؛
مِنَ المُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ} [الأحزاب: 23] إِلَى آخِرِ الآيَةِ
” مومنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا “ آخر آیت تک۔ [بخاری: 2805]
سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی :
عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: «سَلْ» فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ: «أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ» قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ. قَالَ: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ [مسلم: 1094]
ترجمہ : حضرت ربیعہ بن کعب (بن مالک) اسلمی نے کہا: میں (خدمت کے لیے) رسول اللہﷺ کے ساتھ (صفہ میں آپ کے قریب) رات گزارا کرتا تھا، (جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو) میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ (ایک مرتبہ) آپ نے مجھے فرمایا: ’’ (کچھ) مانگو۔‘‘ تو میں نے عرض کی: میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی آپ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’یا اس کے سوا کچھ اور؟‘‘ میں نے عرض کی: بس یہی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔‘‘
اعرابی کا شوقِ جنت:
سیدنا شدّاد بن الھاد بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺکے پاس آیا ، آپ پر ایمان لایا اور آپ کے تابع ہو گیا. پھر کہنے لگا میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں. نبی کریم ﷺنے اس کے متعلق اپنے صحابہ کو تاکید فرمائی، جب ایک جنگ ہوئی تو نبی کریم ﷺ کو کچھ مال غنیمت حاصل ہوا، آپ نے اسے تقسیم کیا اور اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا. وہ اپنے ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا. جب آیا تو انہوں نے اس کا حصہ اسے دیا تو وہ پوچھنے لگا یہ کیا ہے؟ اس کے ساتھیوں نے کہا تمہارا حصہ ہے جو نبی ﷺ نے تمہارے لیے نکالا ہے. اس اعرابی نے اپنا حصہ لیا ، نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے مال غنیمت سے تمہارا حصہ نکالا ہے. کہنے لگا میں اس کے لیے آپ کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے آپ کے پیچھے لگا ہوں کہ مجھے (پھر اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہاں تیر لگے اور میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں. آپ نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ سے سچ کہو گے تو اللہ تعالی بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا. اس کے بعد تھوڑی دیر گزری پھر وہ دشمن سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا. شہادت کے بعد اس کو اٹھا کر نبی ﷺ کے پاس لایا گیا تو اس کو وہیں تیر لگا تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا. آپ ﷺ نے پوچھا کیا یہ وہی ہے؟ صحابہ نے کہا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا اس نے اللہ تعالی سے سچ کہا تو اللہ تعالی نے بھی اس سے سچ کا سلوک کیا. پھر آپ نے اسے خود اپنے پاس سے کفن دیا اور اسے اپنے سامنے رکھ کر جنازہ پڑھایا اپ کی دعا سے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند الفاظ یہ تھے:
"اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ، فَقُتِلَ شَهِيدًا، أَنَا شَهِيدٌ عَلَى ذَلِكَ”
"اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے ، تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا پھر شہید ہو گیا میں اس بات پر گواہ ہوں.”
(سنن النسائي: ١٩٥٣، شرح معاني الآثار للطحاوي: ١/ ٥٠٥، ٥٠٦، سنده صحيح)
❄❄❄❄❄