شکر ادا کریں

سورہ ابراهيم میں ہے :
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
إبراهيم : 7

ہم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ ہم شمار نہیں کرسکتے

سورہ نحل میں فرمایا :
وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ
اور تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے
النحل : 53

اور سورہ ابراهيم میں فرمایا :
وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
اور تمھیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پائو گے۔ بلاشبہ انسان یقینا بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے۔
إبراهيم : 34

اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمان میں 31 مرتبہ فرمایا :
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟
الرحمن : 21

مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا :
یہ ایک ہی آیت (فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ) کو 31 مرتبہ دھرانا، ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے کسی پر احسان کیے ہوں اور وہ ان احسانوں کو نہ مانتا ہو تو اسے کہتا ہے، کیا تو فقیر نہیں تھا؟ میں نے تجھے مال دیا، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے؟ کیا تو ننگا نہیں تھا؟ میں نے تمھیں لباس پہنایا، کیا تو اس کا انکار کرتا ہے…؟
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ تعالیٰ

آنکھوں والی نعمت ہی دیکھ لیں

اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنکھیں دی ہیں سبحان اللہ کتنی عظیم نعمت ہے ہم روزانہ ان کے ذریعے کتنے حسین اور دلکش مناظر دیکھتے ہیں اور لطف کی بات ہے کہ یہ ہمیں مفت میں ملی ہیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ
کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔
البلد : 8

اگر اللہ تعالیٰ یہ نعمت ہمیں نہ دیتا یا دے کر چھین لے تو ہم کیا کر سکتے ہیں
جیسا کہ فرمایا :
وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ
اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی آنکھیں مٹا دیں، پھر وہ راستے کی طرف بڑھیں تو کیسے دیکھیں گے؟
يس : 66

ایک نابینے کی خواہش

کسی نابینے سے پوچھا گیا کہ تیری خواہش کیا ہے؟
تو کہنے لگا :
سورج کو مشرق سے نکلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں
جبکہ
ہمارے لیے تو یہ ایک معمولی چیز ہے ناں

ایک اور سے پوچھا گیا کہ تیری اہم خواہش کیا ہے؟
تو کہنے لگا :
اپنی آنکھوں سے قرآن دیکھنا چاہتا ہوں
سبحان اللہ! اگر آپ بینے ہیں اور ظاہری آنکھ سے دیکھ لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا کروڑہا مرتبہ شکر ادا کریں

آکسیجن کی فراہمی

کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے کسی جاننے والے کا واقعہ لکھا ہے وہ کہتا ہے :
میں بیس دن اسپتال رہا‘ اللہ نے رحم کیا‘ موت کی سرحد چھو کر واپس آیا ڈس چارج ہوتے وقت بل دیکھا تو پتا چلا کہ ٹوٹل بل 31 لاکھ روپے ہے جس میں سے 9 لاکھ روپے کی صرف آکسیجن لگی تھی بس یہ دیکھنے کی دیر تھی میں نے وضو کیا دو نفل پڑھے اور اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا کہ میرا رب تو روز مجھے 550 لیٹر آکسیجن بھی دیتا ہے اور اس آکسیجن کو پھیپھڑوں تک پہنچانے اور واپس نکالنے کا بندوبست بھی کرتا ہے اوراس کے بعد مجھے کوئی بل بھی نہیں بھجواتا ہم پر اس کا کتنا کرم کتنی مہربانی ہے؟‘‘

حقیقت ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہر دم ہر آن رب تعالیٰ کی کسقدر نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں۔ اس لئے ہمیشہ رب کا شکر ادا کرتے رہیں۔

مگر لوگ پھر بھی ناشکرے ہیں

اتنی زیادہ نعمتوں کے باوجود اکثریت کی یہ حالت ہے کہ بس وہ ہر وقت ناشکری اور بے صبری ہی کرتے رہتے ہیں

فرمایا :
قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ
بہت کم تم شکر کرتے ہو۔
الأعراف : 10

اور فرمایا :
وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔
سبا : 13

اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور لوگ ناشکری کرتے ہیں

فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ
بے شک اللہ تو لوگوں پر بڑے فضل والا ہے اور لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔
يونس : 60

اور سورہ نمل میں فرمایا :
وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ
النمل : 73

سلیمان علیہ السلام شکر گزار بننے کی دعا کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ کے سبھی انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کرنے والے تھے
سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
تو وہ اس کی بات سے ہنستا ہوا مسکرایا اور اس نے کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں، جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی ہے اور یہ کہ میں نیک عمل کروں، جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔
النمل : 19

موسیٰ علیہ السلام کو شکر گزار بننے کا حکم دیا

سورہ أعراف میں ہے :
قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ
فرمایا اے موسیٰ ! بے شک میں نے تجھے اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ساتھ لوگوں پر چن لیا ہے، پس لے لے جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا۔
الأعراف : 144

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شکر گزار بننے کا حکم

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ
بلکہ اللہ ہی کی پھر عبادت کر اور شکر کرنے والوں سے ہو جا۔
الزمر : 66

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی پسندیدہ چیز دیکھتے تو کہتے :
"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ ”
تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کی ہیں جس کی نعمت سے نیک کام پورے ہوتے ہیں
اور جب کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو کہتے :
” الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ ”
سنن ابن ماجه | 3803، حسن

قناعت پسند شخص کامیاب ہوگیا

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ
(مسلم : 2426)
"وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی تو فیق بخشی”

اگر آپ رات کو اپنے بستر پر آرام سے سو جاتے ہیں تو ارب پتی سے بہتر ہیں

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"میرے والد صاحب رحمہ اللہ
(يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ)
کی ایک مثال بیان کرتے تھے کہ ایک آدمی کہنے لگا کبھی میرا یہ پورا کمرہ نوٹوں سے بھر جائے تو کیا بات ہے دوسرے بھائی نے کہا اور اگر دو کمروں کے برابر نوٹوں کی چٹی پڑ جائے تو کیا کرو گے، ایک کم مال والا مزدور اور تاجر جو شام کو تھکا ہارا گھر آ کر آرام سے سو جاتا ہے اس ارب پتی سے کہیں زیادہ خوش ہے اور غم سے آزاد ہے جسے ایئر کنڈیشن میں نرم بستر پر نیند کی گولی کے بغیر نیند نہیں آتی اور جسے بے شمار دولت کے باوجود غموں اور فکروں نے گھیر رکھا ہے
فتح السلام ج 3

شکر گزار کو اچھا بدلہ ملتا ہے

فرمایا :
وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ
اور ہم شکر کرنے والوں کو جلد جزا دیں گے۔
آل عمران : 145

اور فرمایا :
نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا كَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ شَكَرَ
اپنی طرف سے انعام کرتے ہوئے، اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں اسے جو شکر کرے۔
القمر : 35

ایمان اور شکر کرنے سے عذاب ٹل جاتا ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا
اللہ تمھیں عذاب دینے سے کیا کرے گا، اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آئو۔ اور اللہ ہمیشہ سے قدر کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
النساء : 147

شکر گزار کو اور ملتا ہے جبکہ ناشکرے کا نقصان ہوتا ہے

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
إبراهيم : 7

شکر کرنے والے کا اپنا ہی فائدہ ہے اور ناشکرے سے اللہ کا کوئی نقصان نہیں

فرمایا :
وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
اور جس نے شکر کیا تو وہ اپنے ہی لیے شکرکرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو یقینا میرا رب بہت بے پروا، بہت کرم والا ہے۔

یعنی جو شکر کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کرتا، اس کا فائدہ خود اسی کو ہے
اور جو اللہ کی نعمتوں کی بے قدری اور ان کا انکار کرتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑتا۔

ساری دنیا بھی ناشکری پہ اتر آئے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں

سورہ ابراهيم کی 8 نمبر آیت میں ہے :
«وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ»
[إبراھیم : ۸ ]
’’اور موسیٰ نے کہا : اگر تم اور وہ لوگ جو زمین میں ہیں، سب کے سب کفر کرو تو بے شک اللہ یقینا بڑا بے پروا، بے حد تعریف والا ہے۔‘‘

ناشکرا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں

فرمایا :
وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اور اللہ کسی ایسے شخص سے محبت نہیں رکھتا جو سخت نا شکرا، سخت گناہ گار ہو۔
البقرة : 276

اور فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ہو، بہت ناشکرا ہو۔
زمر : 3

ناشکری کی وجہ سے عورتوں کی کثیر تعداد جہنم میں چلی گئی

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ”
مجھے آگ دکھائی گئی تو اس میں اکثریت ناشکری عورتوں کی تھی
پھر فرمایا :
"يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ ؛ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ : مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ”.
صحيح البخاري | 29
وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کا خاوند ساری زندگی ان پر احسان کرتا رہے لیکن اگر کبھی کوئی فرمائش پوری نہ کر سکے تو کہہ دیتی ہیں میں نے تو تجھ سے کوئی خیر نہیں دیکھی

زبان سے بول کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں

ہمارے معاشرے میں یہ چلن بہت عام ہوگیا ہے اگر کسی سے پوچھ لیں کہ ہاں بھی کام کاج، کاروبار کی سناؤ تو اکثر آگے سے سننے کو ملتا ہے
"بس جی حالات بہت خراب ہیں”
"آج کل تو بہت مندا ہے”
"بس کچھ نہ پوچھیں جی”
"کیا بتائیں جی”
وغيرہ وغیرہ

اللہ تعالیٰ نے سورہ الضحیٰ میں اپنے نبی کو ان پر اپنی تین نعمتیں گنوائیں :
کیا آپ یتیم نہیں تھے کہ ہم نے جگہ دی۔؟
کیا آپ راستے سے ناواقف نہیں تھے کہ ہم نے راستہ دکھا دیا۔؟
کیا آپ تنگدست نہیں تھے کہ ہم نے غنی کر دیا۔؟
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى
وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى
الضحى :6 تا 8

یہ تینوں نعمتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا :
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ
الضحى : 11
اب اپنے رب کی ان نعمتوں کو بیان بھی کرو

یہی بات میں اور آپ اپنے آپ کے ساتھ دہرائیں
اپنے آپ کو بار بار کہیں
کیا تو بےروزگار نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے روزگار دیا؟
کیا تو فارغ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مصروفیت عطا کردی؟
کیا تو کنگال نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کاروبار کھڑا کردیا؟

تو
پھر جب کبھی کوئی پوچھتا ہے کہ ہاں بھی کام کاج، کاروبار کی سناؤ تو آگے سے "بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ” پر عمل کرتے ہوئے تحدیثِ نعمت، تشہیرِ نعمت، اظہارِ نعمت اور بیانِ نعمت کی بجائے یہ کیوں کہتا ہے
"بس جی حالات بہت خراب ہیں”
"آج کل تو بہت مندا ہے”
"بس کچھ نہ پوچھیں جی”
"کیا بتائیں جی”

کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا :
لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
إبراهيم : 7

عملی شکر ادا کریں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا
اے داؤد کے گھر والو! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔
سبا : 13

عملی شکر اور اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
جب پیدا ہوئے تو باپ فوت ہو چکا تھا
کچھ وقت گزرا تو ماں بھی دنیا سے چلی گئی
تھوڑی ہی مدت گزری کہ دادا بھی فوت ہو گیا
کچھ عرصہ بعد چچا بھی وفات پا گئے
اس کے ساتھ ہی وفادار بیوی داغ مفارقت دے گئی
پھر ایک وقت آیا کہ قوم نے تنگ کرنا شروع کر دیا نوبت یہاں تک پہنچی کہ بائیکاٹ کر دیا گیا
کچھ امید لے کر طائف میں تشریف لے گئے لیکن وہاں بھی لوگوں نے پتھر مارے
پھر واپس آئے تو اپنی ہی قوم قتل کے منصوبے بنا رہی تھی
مجبور ہو کر آبائی شہر چھوڑ دیا
دیار غیر میں پناہ گزیں ہوئے لیکن دشمن نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا
الغرض اتنی ساری تکالیف کے باوجود اپنے رب کی بہت عبادت کیا کرتے تھے ایک دن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھ ہی لیا کہ اتنی عبادت؟
تو فرمانے لگے :
[ أَفَلَا أَكُوْنُ عَبْدًا شَكُوْرًا؟ ]
[ بخاري : 1130 ]
’’تو کیا میں پورا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘

شکرانے کے طور پر غلام آزاد کردیا

سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مجلس میں ایک شخص نے بات شروع کی تو بہت غلط سلط بولنے لگا اور اثنائے گفتگو بڑی غلطیاں کرنے لگا۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی گفتگو سنی تو اپنے ایک غلام کی طرف دیکھا اور فرمایا: جاؤ! تم آزاد ہو۔
وہ شخص بڑا حیران ہوا اور پوچھتا ہے:
حضرت! آپ نے یہ غلام کیوں آزاد کیا ہے؟
فرمایا :بطور شکرانہ کہ اللہ نے مجھے تم جیسا نہیں بنایا۔۔۔
اخبار الحمقى والمغفلين لابن الجوزی رحمہ الله :14

شکر پیدا کرنے کے طریقے

1 دعا کریں

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا
صحيح مسلم | 2722
اے اللہ! میں تجھ سے ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو کوئی فائدہ نہ دے اور ایسے دل سے جو (تیرے آگے) جھک کر مطمئن نہ ہوتا ہو اور ایسے من سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جسے شرف قبولیت نصیب نہ ہو

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی مجلس سے اپنے صحابہ کے لیے یہ دعا کیے بغیر اٹھے ہوں :
اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ وَمِنْ الْيَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا وَاجْعَلْهُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا وَلَا تَجْعَلْ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا
(ترمذی : 3502)
یعنی اے اللہ ہمیں اپنی ملاقات اور جنت کی ملاقات اور یوم آخرت کی ملاقات کا ایسا پختہ یقین عطا فرما دے کہ دنیا کی مصیبتیں ہمیں بالکل ہلکی محسوس ہونا شروع ہو جائیں

2 اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں گنیں

ناشکری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ یہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتنی نعمتیں ہیں

آپ گھر میں داخل ہوں اور گھر کے تمام افراد صحتمند اور سلامت ہوں تو آپ خوش قسمت ہیں
اور اڑوس پڑوس میں کوئی ایسا گھر دیکھیں کہ جس میں کوئی مستقل مریض پڑا ہوا ہے اور پھر ان سے پوچھیں کہ ان پر کیا مصیبت بیت رہی ہے؟

آپ کے بچوں میں کوئی نابینا، لنگڑا،گونگا، دماغی مریض نہیں ہے تو آپ خوش قسمت ہیں
کسی ایسے گھر والوں سے پوچھ کر دیکھیں جن کا کوئی بچہ نارمل ہے

آپ پیدل چل لیتے ہیں، نظام انہظام، نظام اخراج، نظام تنفس درست ہے تو آپ خوش قسمت ہیں
ورنہ کسی لولے لنگڑے سے پوچھ لیں

آپ شوگر، بلڈ پریشر، گھنٹوں کے درد وغیرہ میں مبتلا نہیں ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں
نہیں یقین تو کسی شوگر والے سے مل کر حالات پوچھیں

آپ رات کو اپنی فیملی اور اپنے گھر میں سوتے ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں
ورنہ کسی اوور سیز پاکستانی سے رابطہ کریں

آپ کو گولی کھائے بغیر نیند آ جاتی ہے تو آپ خوش قسمت ہیں
نہیں یقین تو کسی ڈپریشن کے مریض سے ملاقات کریں

آپ ہر روز صحت و سلامتى کے ساتھ نیند سے اُٹھتے ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں

یہ بھی رزق ہے

رزق صرف مال کی شکل میں ہی نہیں ہوتا ۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو مال کی بجائے اچھا اخلاق یا پھر حسن و جمال دے دیا گیا ہو۔
کتنے مالدار ایسے ہیں جو شکل و صورت کے لحاظ سے انتہائی کوجے اور بد ہیں

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی (عورت) کو اعلٰی مزاج شوہر
یا (کسی مرد کو)اعلٰی مزاج بیوی مل جائے۔ یا کریم دوست یا رشتہ دار یا اولاد مل جائے
ورنہ کتنے مالدار ایسے ہیں کہ جو کروڑوں روپے ہونے کے باوجود ازدواجی زندگی کے سکون سے محروم ہیں

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی کو رزق کی صورت میں علم نافع دے دیا گیا ہو
ورنہ کتنے مالدار ایسے ہیں کہ جو علم کی لذت سے محروم ہیں

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت میں ذہنی سکون دے دیا گیا ہو۔
ورنہ کتنے مالدار ایسے ہیں کہ جو ٹینشن کا شکار ہیں اور گولی کھائے بغیر سو نہیں سکتے

لھذا رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں۔ پس جو بہت کچھ آپ کے پاس ہے اس پر مطمئن رہو اور الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو۔

3 مثبت سوچ پیدا کریں

آدھا گلاس پانی سے خالی ہو تو خالی کا رونا رونے کی بجائے آدھے بھرے ہوئے پر خوش کیوں نہیں ہوتے

مثبت سوچ کی ایک مثال

ہشام بن عروہ اپنے والد کے بارے بیان کرتے ہیں کہ گھٹنے میں پھوڑا نکلنے کی وجہ سے ان کی ٹانگ کٹ گئی تو وہ فرمایا کرتے تھے :
ﻣﺎ ﺃﺣﺴﻦ ﺻﻨﻊ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﺇﻟﻲ، ﺃﺧﺬ ﻣﻨﻲ ﻭاﺣﺪﺓ ﻭﺗﺮﻙ ﻟﻲ ﺛﻼﺛﺔ
اللہ تعالیٰ نے میرے اوپر کس قدر احسان کیا ہے مجھ سے ایک ٹانگ لے لی ہے اور تین (ایک ٹانگ اور دو ہاتھ) چھوڑ دی ہیں
اور فرماتے :
ﻭﺃﻳﻤﻨﻚ ﻟﺌﻦ ﻛﻨﺖ اﺑﺘﻠﻴﺖ ﻟﻘﺪ ﻋﺎﻓﻴﺖ، ﻭﻷﻥ ﺃﺧﺬﺕ ﻟﻘﺪ ﺃﺑﻘﻴﺖ۔
الزھد لأحمد بن حنبل:(2172) سندہ صحیح
اے اللہ مجھے تیری قسم اگر تو نے مجھے آزمایا ہے تو تو نے عافیت بھی دی ہے اور اگر تو نے کچھ لے لیا ہے تو تو نے بہت کچھ باقی بھی چھوڑا ہے

4 اپنے سے کمزور کو دیکھیں

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ،کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ
(كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،بَابٌ «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ»،7430)
"اس کی طرف دیکھو جو(مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے،اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ،یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے جو تم پر کی گئی۔”

پہننے کے لیے جوتا نہیں ہے تو شکوہ شکایت کی بجائے اسے دیکھیں جس کے پاؤں ہی نہیں ہیں

ایک شخص اللہ تعالیٰ سے جوتا مانگ رہا تھا اور کچھ شکوہ بھی کر رہا تھا کہ میں اتنا غریب ہوں کہ میرے پاس پہننے کے لئے جوتا بھی نہیں ہے دعا سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلا تو ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے فوراً کہنے لگا اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے جوتا نہیں دیا تو کوئی بات نہیں پاؤں تو دیئے ہیں ناں

5 دوسروں سے کیمپیریزن نہ کریں

عموماً ناشکری تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے آپ کو دوسروں سے کیمپیریزن کرتے ہیں اور اس تقابل میں اپنی نعمتوں کو حقیر اور چھوٹا سمجھنے لگتے ہیں

وائٹ بورڈ پہ لگی لائن کو چھوٹا کریں

کہتے ہیں ایک استاد نے وائٹ بورڈ پہ مارکر کے ساتھ ایک لکیر کھینچی اور کلاس میں موجود تمام شاگردوں سے کہا اس لکیر کو کسی طرف سے کاٹے بغیر چھوٹا کریں سب شاگرد حیران رہ گئے کہ کاٹنا بھی نہیں اور چھوٹا بھی کرنا ہے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے
جب جواب دینے میں ناکام ہوگئے تو استاد نے اسی کے ساتھ اس سے کچھ بڑی لکیر کھینچی
اور پوچھا بتاؤ کون سی لکیر چھوٹی ہے تو تمام شاگردوں نے کہا ہاں جو پہلے تھی وہ چھوٹی ہے
استاد صاحب نے کہا دیکھا ناں کیسے یہ لکیر بغیر کاٹے چھوٹی ہو گئی ہے
پھر انہوں نے کہا کہ جب یہ اکیلی تھی اس کا کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں تھا تو اس کو کوئی بھی چھوٹا نہیں کہتا تھا مگر جب اس کا اس سے بڑی کے ساتھ موازنہ ہوا تو یہ چھوٹی محسوس ہونے لگی کیوں کہ کیمپریزن میں بڑی چیز بھی چھوٹی بن جاتی ہے
یہی حالت ہماری زندگی کی سہولیات کی ہے جب ہم اپنے پاس موجود نعمتوں کو دوسروں کے پاس موجود نعمتوں سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنی نعمتیں چھوٹی محسوس ہونے لگتی ہیں

6آخرت پہ نظر رکھیں

امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَنْ لاح له جمالُ الآخرةِ هان عليه فراقُ الدنيا
[الخواتيم لابن الجوزي]
جس شخص کے سامنے آخرت کی خوبصورتی ظاہر ہو گئی اس پر دنیا سے جدا ہونا آسان ہو جاتا ہے

تکلفانہ زندگی کی خواہش کا بہترین تریاق آخرت کی یاد

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مضبوط بٹی ہوئی پٹّی کی چارپائی پر تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پہلوؤں اور (چارپائی کی سخت کھردری) پٹّی کے درمیان کوئی چیز (بچھی ہوئی) نہ تھی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم و نازک جلد والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلو بدلا تو (نظر آیا کہ اس سخت) پٹّی کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم و نازک جلد اور پہلوؤں میں دھنسنے کے نشانات تھے۔ پس (یہ دیکھ کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اے عمر! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
یا رسول اﷲ! بخدا میں نہ روتا اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اﷲ تعالیٰ کے ہاں قیصر و کسریٰ سے زیادہ مقام و مرتبہ ہے۔ بے شک وہ دنیا میں عیش و عشرت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اِس حالت میں ہیں جسے میں دیکھ رہا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
یَا عُمَرُ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَنَا الْآخِرَۃُ وَلَھُمُ الدُّنْیَا
اے عمر! کیا تو اِس بات پر راضی نہیں کہ ہمارے لیے آخرت اور اُن کے لئے دنیا ہو۔
اُنہوں نے عرض کیا :
(یا رسول اﷲ!) کیوں نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سو (اصل حقیقت) یہی ہے۔”

7 خواہشات کنٹرول رکھیں

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ میں گوشت لٹکا ہوا دیکھا تو کہا :
جابر! یہ کیا ہے؟
میں نے کہا :
گوشت کھانے کو دل کیا ہے تو خرید لیا
فرمایا :
أو كلما اشتهيتَ اشتريت يا جابر ؟، أما تخاف هذه الأية :
{ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا }
[ الزهد للإمام أحمد (153) ]
جس چیز کو بھی آپ کا دل کرے گا اسے خرید لیں گے آپ اس آیت سے ڈرتے نہیں ہیں (تم اپنی نیکیاں اپنی دنیا کی زندگی میں لے جا چکے)

8 دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں

دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر یا راستہ چلنے والا رہتا ہے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا
«كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ»
(بخاری : 6416)
” دنیا میں اس طرح ہوجاجیسے مسافر یا راستہ چلنے والا ہو “

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مِسْكِيْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاكِيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ إِنَّهُمْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِيْنَ خَرِيْفًا ]
’’اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! یہ کیوں؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (۴۰) سال پہلے جائیں گے۔‘‘
[ ترمذي : ۲۳۵۲ ]