صله رحمی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ۝۲۶ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ ۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۲۷﴾(سورة البقرة : 26 – 27)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس سے وہ ان ہی کو گمراہ کرتا ہے، جو حکم نہیں مانتے جو خدا سے مضبوط عہد کر کے بھی توڑتے ہیں اور خدا نے جس کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو کاٹتے رہتے ہیں۔)
ماں باپ وغیرہ کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے اہل قرابت کا حق ہے عربی زبان میں قرابت والوں کا حق ادا کرنے کو صلہ رحمی کہتے ہیں، کیونکہ رحم مادر ہی تعلقات کی جڑ ہے کسی امر میں انسانوں کا اشتراک ہی ان کے باہمی تعلقات اور حقوق و محبت واعانت کی اصل گرہ ہے یہ اشتراک کہیں ہم عمری کہیں ہمدردی، کہیں ہمسائیگی، کہیں ہم مذاقی کہیں ہم پیشگی، کہیں ہم وطنی کہیں ہم قومی کی مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے اس اشتراک کے عقد محبت کو استوار اور مضبوط رکھنے کے لئے جانین پر حقوق کی نگہداشت اور فرائض محبت کی ادائیگی واجب ہے لیکن ان تمام اشتراکوں سے بڑھ کر دو اشتراک ہے جس کا سبب رحم مادر ہے یہ ہم رحمی خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے وہ متفرق انسانی ہستیوں کو خاص کر اپنے دست قدرت سے باندھ کر اس طرح ایک کر دیتا ہے کہ اس کا حق توڑنا انسان کی قدرت سے باہر ہوتا ہے اس لئے اس کے حقوق کی نگہداشت بھی سب انسانوں کو سب سے زیادہ ضروری ہے، اس فطری گرہ کے توڑنے والوں کو فاسق اور ضلالت کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے، حقوق العباد میں حقوق قرابت کی اہمیت بہت زیادہ ہے قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس کی صریح تاکید ہے اور اس کو احسان نہیں، بلکہ اس کا فرض اور حق بتاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
(1) ﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهُ﴾ (الروم: 38) ’’تو قرابت دار کو اس کا حق دے دے۔‘‘
(2) وَاٰتِ ذَ الْقُرْبٰى حَقَّهُ ﴾ (بنی اسرائیل: 26) ’’تم قرابت داری کے حق کو ادا کرو۔‘‘
دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی ہے کہ مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضرورت اور خواہش کے باوجود صرف اللہ کی مرضی کیلئے خود تکلیف اٹھا کر اپنے قرابت مندوں کی امداد اور حاجت روائی اصلی نیکی ہے جیسا کہ فرمایا:
(3) ﴿وَاتَى الْمَالَ عَلى حُبِّهٖ ذَوِى الْقُرْبٰى﴾ (سورة البقرة: 177) ’’اور اصل نیکی اس کی ہے جو باوجود ضرورت کے اور اس کی محبت کے قرابت داروں کو دے‘‘
والدین کے بعد اہل قرابت ہی سب سے پہلے ہماری مالی امداد کے مستحق ہیں:
(4) ﴿قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِيْنَ﴾ (سورة البقرة: 215)
’’فائدہ کی جو چیز بھی تم خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے ہے۔‘‘
ماں باپ کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک خدا تعالیٰ کے ان خاص احکام میں سے ہے جن کا انسان سے عہد لیا گیا:
(5) ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّ ذِي الْقُرْبٰي﴾ (البقرة: (83) ’’اور بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا کہ خدا ہی کو پوجنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنا۔‘‘
سورہ نحل میں اہل قرابت کی امداد کو عدل اور انسان کے بعد تیسرا حکم بتایا:
(6) ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى﴾ (النحل: 90)
’’بے شک اللہ تعالیٰ انصاف اور حسن سلوک اور قرابت داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے۔‘‘
اور ایک مسلمان کی دولت کے بہترین مستحق اس کے والدین کے بعد اس کے اقرباء ہی کو فرمایا:
(7) ﴿قُلْ مَا انْفَقْتُم مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِينِ﴾ (البقرة)
’’اے نبی! آپ فرمادیجئے کہ فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو تو وہ ماں باپ قرابت والے اور یتیموں اور غریبوں کو دو۔‘‘
اگر کسی قرابت دار سے کوئی قصور ہو جائے تو اہل دولت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کی سزا میں اپنی امداد اس سے روک لیں۔
(8) ﴿وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ أنْ يُّؤْتُوا أُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسَاكِينَ﴾ (النور: 22)
’’جو لوگ تم میں زیادہ کشائش والے ہیں، وہ قرابت مندوں اور محتاجوں کو نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔‘‘
خدا کی خالص عبادت اور توحید اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے بعد تیسری چیز اہل قرابت کے ساتھ نیکی کرنا ہے فرمایا:
(9) ﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبٰی﴾ (النساء: 36)
’’اللہ ہی کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں کے ساتھ نیکی کرنا۔‘‘
قرابت کو اسلام میں بہت اہمیت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی تمام محنتوں، زحمتوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کا جو تبلیغ اور دعوت حق میں آپ کو پیش آئیں اور آپ نے اس احسان و کرم کا جو ہدایت اور اصلاح کے ذریعہ ہم پر فرمایا بدل معاوضہ اور مزدوری امت سے یہ طلب فرماتے ہیں کہ میرے رشتہ داروں اور قرابت داروں کا حق ادا کرو اور ان سے لطف و محبت سے پیش آؤ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
(10) ﴿قُلْ لَّا أَسْئَلْكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰي﴾ (الشورى: 33)
’’اے نبی! آپ کہہ دیجئے کہ تم سے اس تبلیغ پر بجز اس کے کوئی مزدوری نہیں مانگتا کہ ناطے رشتے میں محبت اور پیار کرو۔‘‘
قرابت والوں کی محبت کی زیادہ تاکید و اہمیت حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے استعارہ کے لفظوں میں آپﷺ نے فرمایا:
(الرَّحِمُ شِجْنَّةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَقَالَ اللهُ مَنْ وَصَلَكِ وَ صَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُه)[1]
’’رحم و شکم مادری لفظ رحمن سے مشتق ہے اس لئے محبت والے خدا نے رحم کو مخاطب کر کے فرمایا: جو تجھ کو ملائے گا اس کو میں ملاؤں گا اور جو تجھ کو کاٹے گا میں بھی اس کو کاٹوں گا۔“
اس مفہوم کو آپ ﷺ یوں بھی ادا فرمایا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الادب باب من وصل وصل الله.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَقُولُ مَنْ وَصَلَنِى وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ)[1]
’’رحم انسانی نے عرش کو پکڑ کر کہا کہ جو مجھ سے ملائے اس کو خداتعالی ملائے گا اور جو مجھے کاٹے اس کو خدا تعالی کاٹے گا۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
(خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَتِ الرَّحِمُ فَأَخَذَتْ بِحَقْوَى الرَّحْمَنِ فَقَالَ مَهْ قَالَتُ هذَا مَقَامُ العَائِذِ بِكَ مِنَ الْقَطِيعَةِ قَالَ اَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَاقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ قَالَتْ بَلٰى يَارَبِّ قَالَ فَذَاكَ)[2]
’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کر لیا تو رحم انسانی نے رحمت والے خدا کی کسر کو پکڑ لیا اللہ تعالٰی نے فرمایا کیا ہے اس نے کہا کہ یہی جگہ قطع رحمی سے تیری پناہ لینے کی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تو اس بات سے خوش نہیں ہے کہ جو تجھے کو ملائے اس کو میں اپنے سے ملاؤں اور جو تجھے کالے اس کو میں اپنے سے کاٹوں، اس نے کہا مجھے یہ منظور ہے اللہ نے فرمایا کہ اب ایسا ہی ہوگا۔“
رحم اور رحمن کا اشتراک لفظی اشتراک معنوی رحمت و مودت پر دلالت کرتا ہے اس لئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿وَاتَّقُو اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامِ﴾ (سورة النساء: (1)
’’اور جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہواس کا اور رشتہ کا خیال رکھو۔‘‘
اس رشتہ کا توڑنے والا اور قرابت کے حق کو ادا نہ کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا،
رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِم)[3] ’’رشتہ کا کاٹنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔“
اور رشتہ کو جوڑنے والا اور قرابت مندوں کی خدمت کرنے والا جنت میں داخل ہوگا، چنانچہ ایک شخص نے آ کر آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلوةَ وَتُؤْتِي الزَّكوةَ وَ تَصِلُ الرَّحِمَ)[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب باب من وصل وصل الله [2] بخاري: كتاب الادب باب من وصل وصل الله. مسلم كتاب البر والصلة والاداب باب صلة الرحم و تحريم قطيعتها
[3] بخاري: کتاب الادب، باب من وصل وصل الله. . [4] بخاري: کتاب الادب باب فضل صلة الرحم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کی عبادت کیا کرو کسی کو ان کے ساتھ شریک نہ بناؤ اور نماز اچھی طرح ادا کرتے رہو اور زکوۃ دیتے رہو اور قرابت داروں کا حق ادا کرتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔“
جو قرابت داروں کا حق ادا کرتا ہے اور ان کی خدمت کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو کشادہ روزی دیتا ہے اس کی عمر بڑھاتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو اس کو چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔
چونکہ ان عملوں کا اثر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس سے مال و دولت میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے اس لئے کہ صلہ رحمی کی دوہی صورتیں ہیں ایک یہ کہ ضرورت مند رشتہ داروں کی مالی امداد کی جائے دوسری یہ کہ خدا کی دی ہوئی عمر کا کچھ حصہ ان کی خدمت میں صرف کیا جائے پہلے کا نتیجہ خدا کی طرف سے مالی وسعت اور کشادگی اور دوسرے کا نتیجہ عمر میں برکت اور زیادتی کی صورت میں ملتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ وَ مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ مَنْسَاةٌ فِي الْأَثَرِ)[2]
’’صلہ رحمی سے قرابت والوں میں محبت مال میں کثرت اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔“
اس صلہ رحمی سے سارے خاندان والے راضی ہوں گئے اور اس کے حق میں دعائیں کریں گے جس سے اس کے مال و دولت اور عمر میں برکت و کثرت ہوگئی، اگر کوئی عزیز رشتہ دار اپنے حق کو ادا نہیں کرتا تو اس کے دوسرے رشتہ دار کو یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ بھی اپنے حق کو ادا نہ کرے بلکہ دراصل صلہ رحمی اسی کا نام ہے کہ جو قرابت کے حق کو ادا نہ کرے اس کے حق کو ادا کیا جانے رسول اللہ صلی للہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
(لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِي وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا)[3]
’’جو بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے وہ در اصل صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے، بلکہ ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑنے والا در اصل صلہ رحمی کرنے والا ہے۔“
اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو نیک عموں کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی برائیوں سے بچائے رکھے آمین۔
أَقُولُ قوْلِى هَذَا وَاسْتَغْفِرُ اللهَ لِى وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِينَ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ – وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) (امِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الادب، باب من بسط له فى الرزق الصلة الرحم۔، مسلم كتاب البر والصلة باب صلة الرحم
[2] طبرانی 98؍18
[3] بخاری: کتاب الادب باب لیس الواصل بامکافی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔