سود کے بغیر کامیاب معیشت کی پانچ مثالیں اور سود کے متبادل دو راستے
سوداللہ تعالیٰ کے خلاف اعلان جنگ ہے اوراللہ کی عدالت ہر گھڑی ،ہر لمحہ سجی ہے فیصلے صادرکر رہی ہے ۔اگر ہم سودی سسٹم سے باز نہ آئے تواللہ تعالیٰ نے یہ جنگ میدان محشر میں نہیں بلکہ دنیامیں ہی لڑنی ہے اوردیکھناکہیں اس کامرکز پاکستان نہ بن جائے جس کسی نے اس جنگ کی دعوت کو قبول کرلیااسے اپنے انجام کی خیر مناناہوگی ، اللہ کے لیے کیادیر ہے کہ زمین کوہلکی سی جنبش دے یاسمندروں سے پانی اچھال دے ۔
کیاسود ی قرضہ جات کے علاوہ ترقی کاکوئی اورراستہ موجود نہیں ہے …؟
سادہ لوح عوام الناس کومعیشت دانوں کی طرف سے باربار یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگربینک ،سوداورعالمی سودی قرضہ جات کانظام ختم کردیاجائے توزندگی تباہ ہوجائے گی معیشت کاپہیہ رک جائے گا
معیشت دانوں کا یہی گورکھ دھنداہے جوشکنجے کی طرح ہر قوم کے گلے میں پڑاہے اوراس سے دنیابھر کی عوام کاخون چوس چوس کر سود خوروں کے پیٹ بھرے جارہے ہیں ۔اس سوال کے جواب کے لیے ہم مختلف تاریخی حقائق کامطالعہ قارئین کے پیش خدمت کرتے ہیں ۔
پہلی مثال
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں ہجرت کر کے گئے تووہاں اوس وخزرج یہودی تاجروں کے سودی جال میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے جورقم قرضے کی مد میں لی تھی اس سے کہیں زیادہ سوداداکر چکے تھے لیکن اصل رقم جوں کی توں واجب الاداء تھی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس وخزرج کو سودی جال سے نکالنے کے لیے سودی معیشت کابائیکاٹ کیااوران کوترقی کی نئی راہ پر گامزن کیا۔یہ بات یادرہے کہ مختلف ترقیاتی منصوبہ جات کی جتنی زیادہ ضرورت مدینہ میں تھی شاید ہی آج تک کسی جگہ اتنی ضرورت محسوس کی گئی ہو ۔اچانک سینکڑوں مکی مہاجرصحابہ کی آمد رومی ،یمنی ،شامی ،حبشی اورگردونواح کے ہزاروں نومسلموں کی مدینہ میں تشریف آوری اوران کے علاوہ کتنے ہی بوریانشین اجنبی اور پردیسی اصحاب صفہ ،ان سب کو چھت ،چادراورچاردیواری سے لے کر ذریعہ معاش اورکاروباری سہولیات باہم پہنچاناریاست کے لیے بہت بڑامسئلہ تھا
آج کا کوئی دانشور ہوتاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسودی قرضہ جات کا خوبصورت مشورہ ضروردیتالیکن آپ نے کمال حکمت ودانائی سے معاملات کوایسے احسن انداز سے حل کیاکہ دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ کی چھوٹی سی ریاست بڑے بڑے معیشت دانوں کے لیے رول ماڈل بن گئی ۔
جن کے پاس پہننے کے لیے ایک جوڑاتک نہیں ہوتاتھا چند سالوں کے بعدان میں سے ایک ایک کے پاس ہزاروں غلام تھے ۔جن کودربدرکی ٹھوکروں کے لیے گھروں سے بے گھرکردیاگیاتھا۔وہ صدقہ کرنے بیٹھتے تویک مشت چھے چھے کلو سونااور٢٩،٢٩ کلوچاندی اللہ کی راہ میں لٹادیتے ان کی معیشت ایسے ابھری کہ ترقی کی معراج کو چھونے لگی پھر وہ اینٹ بھی اٹھاتے توسونانکلتاجن کے پاس کل تک جنگ لڑنے کے لیے پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے صرف سات آٹھ سال کے مختصر عرصے کے بعدان کاایک ایک فرد نو ،نو سواونٹ اورسوسو گھوڑے اللہ کی راہ میں وقف کر رہاتھا۔
دوسری مثال
دوسری مثال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہے ۔
ہم توصرف چند گھروں کی تعمیر کے لیے سودی جواز کاخواب دیکھ رہے ہیں ادھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہاؤسنگ سکیمز کارول پلے مشاہدہ میں لائیے ۔چند ایک گھرتودورکی بات شہروں کے شہر آبادکررہے ہیں ۔کوفہ ،بصرہ ،جزیرہ فسطاۃ (قاہرہ ) جیسے نئے شہر اوردس ہزار نئی مساجد اس کے علاوہ ہیں۔ انہوں نے مہذب دنیا کے سامنے بہت سی مالی و ملکی ـ سیاسی وانتظامی معاشرتی وتمدنی باتیں تجویز وایجاد فرما ئیں ۔بیت المال یا خزانہ باقاعدہ طور پر قائم کیا،سن ہجری قائم کیا،فوج کے واسطے باقاعدہ دفترمقرر کیا،مالی دفتر الگ قائم کیا،رضاکاروں کی تنخواہیں مقررکیں ۔ملک کی پیمائش کاقاعدہ جاری کیا،مردم شماری کرائی ،نہریں کھدوائیں ،شہرآبادکیے ، مقبوضہ علاقوں کوباقاعدہ صوبوں میں تقسیم کیا،حربی تاجروں کوملک میں آنے اورتجارت کرنے کی اجازت دی ،درہ کااستعمال کیا،جیل خانہ قائم کیا،پولیس کامحکمہ قائم کیا،راتوں کوگشت کر کے رعایاکے حال سے باخبر رہنے کاطریقہ نکالا،پرچہ نویس مقرر کیے ،مسافروں کے لیے کنویں اورمکانات بنوائے ،مفلوک الحال عیسائیوں اوریہودیوں کے روزینے مقرر کیے وغیرہ وغیرہ۔
[تاریخ اسلام ١/٤٤٢ (از اکبر شاہ خان نجیب آبادی)]
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں معیشت کاپہیہ اتنی تیزی سے گھوماکہ پیداہوتے ہی بچے کاوظیفہ مقررہونے لگا۔لیکن محال ہے کہ انہوں نے کبھی سودی قرضہ جات کے لین دین کاسوچابھی ہو۔
تیسری مثال
مندرجہ بالادونوں مثالوں کے علاوہ ایک تیسری مثال ؛
دراصل ٹیکنالوجی کے خمار میں ڈوبے اوربزعم خود ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے بہت سے لوگوں کو سناگیاہے جب ان کے سامنے مندرجہ بالادونوں تاریخی مثالوں کاتذکرہ کیاجائے تووہ کہتے ہیں اس وقت کون سے جہازاڑتے تھے ،ٹرینیں چلتی تھیں ،میٹروبس سہولیات تھیں، اورنج ٹرین کے ٹریک بنتے تھے، پل اورموٹرے بنائے جاتے تھے ،مشینری برآمد کرناپڑتی تھیں لیپ ٹاپ تقسیم کرناپڑتے تھے یا جدیدکمپیوٹرائز سسٹم لاگوکرناپڑتے تھے ،اب توترقی کرنے کی ضرورت ہی ایسی ہے کہ قرض کے بغیر بڑے بڑے پراجیکٹ بنائے ہی نہیں جاسکتے ۔
ایسے ماہرین معیشت کی خدمت میں گزارش ہے کہ ماضی قریب میں ہندوستان پر انگریز تسلط کا مشاہدہ کریں ۔انگریز برصغیر کو لوٹنے اوریہاں سے کمانے آیاتھااس کو سنوارنے نہیں آیاتھا،اس کو کیامصیبت پڑی تھی کے اپنے پیسوں سے یہاں ترقیاتی کام کرے ۔
1860ء کے پہلے بجٹ سے لیکر 28فروری 1947ء کے بجٹ تک پورے ہندوستان کی ضروریات اسی ملک کے وسائل سے پوری ہوتی تھیں ۔ کلکتہ سے لیکر طورخم اورچمن تک ریلوے کامربوط نظام جس میں صرف سبی سے کوئٹہ تک 29سرنگیں آتی تھیں ۔صرف چمن کے خوجک پہاڑکی سرنگ ساڑھے تین میل لمبی تھی ۔ریلوے اسٹیشن کے پھاٹک ،کوارٹر،کالونیاں اوراعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں یہ سارانظام اس وقت کے لحاظ سے کسی میٹرو یااورنج ٹرین سے کم نہیں تھا ۔سب سے بڑانہری نظام قائم کیااس نہری نظام پر تین کروڑپچاس لاکھ پاؤنڈ لاگت آئی تھی ۔ہسپتال ،کالج ،سکولز، یونیورسٹیاں قائم کیں ،ٹیلی گرام سسٹم قائم کیا،1926ء میں کلکتہ ریڈیو کاآغازکیا،صرف لاہور ، راولپنڈی اورمری کے مال روڑ کی عمارات یادہلی اورکلکتہ کی خوبصورت تعمیرات کوگننا شروع کریں تووہ ہزاروں تک ہیں۔ (ان ساری تعمیرات کے پیچھے اس کے کیامقاصد تھے اورایک مسلمان کے لیے ان رفاحی کاموں کوکس نگاہ سے دیکھناچاہیے یہ ایک الگ بحث ہے)۔ اس کے علاوہ 2کروڑ بیس لاکھ پاؤنڈ سالانہ اپنی فوج پر خرچ کرتے تھے اورسالانہ تیس کروڑ پاؤنڈ برطانیہ بھیجتے تھے ۔کیا خیال ہے انگریز نے ہندوستان میں اتنے بڑے بڑے مالی پراجیکٹ اپنی جیب سے مکمل کیے یاکسی بیرونی ملک سے قرضہ لیکر تعمیراتی سکیموں کو مکمل کیا۔
اس کا دماغ خراب تو تھالیکن اتنابھی نہیں کہ ایک بیگانے ملک کی تعمیر وترقی کے لیے قرضوں کے بھاری بوجھ اٹھاتا پھرتا، یہ سارے کام اس نے اسی ملک کے وسائل اورسرمائے سے کیے تھے ۔
تو اگر کل یہی ہندوستان کسی بیرونی سودی قرض کے بغیر ترقی کرسکتا تھا تو آج کیوں نہیں
چوتھی مثال
ٹیوٹاکمپنی کی ہے یہ کمپنی جاپان کی ہے اس کا مالک اور بانی ”کی اچی رو”ہیں ۔اس نے اپنے سرمائے سے کمپنی کاآغازکیا تھا یہ کمپنی اپناساراکاروبار بغیر سودکے کرتی ہے ۔اس نے نام نہاد اسلامی بینکاری کی طرح سودحلال کرتے ہوئے اقساط والی گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ نہیں کیااوریہ کمپنی کسی بینک سے سودپر قرضہ بھی نہیں لیتی ۔انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔1950ء کی کسادبازاری نے ٹویوٹاکمپنی کو بینکوں سے قرض لینے پر مجبورکیااپریل 1950ء میں اسے قرض مل گیالیکن ادائیگی قرض کے وقت اوپر پڑنے والے بھاری سودنے کمپنی کونقصان پہنچایابینکوں نے شرائط عائد کردی کہ سولہ سومزدوروں کوفارغ کردے لیکن قرض لینے سے پہلے کمپنی کامالک یہ وعدہ کرچکاتھاکہ وہ کسی مزدورکوفارغ نہیں کرے گا۔اس کے بعدپھر انہوں نے سودکامکمل بائیکاٹ کردیالیکن اس کے باوجودبھی آج تک وہ کمپنی کارسازی میں دنیاکی سب سے بڑی کمپنی ہے
پانچویں مثال
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ہے ۔
یہ ایک رفاحی تنظیم ہے ْمخفف کے طور پر FIF کے نام سے مشہورہے اس تنظیم نے بطور FiFاپنے کام کاآغاز2007ء کے آخر میں کیا۔ اگرچہ یہ کاروباری تنظیم نہیں ہے لیکن زیربحث معاشی موضوع میں اس کاتذکرہ راہنمامستدل ضرورہوگا۔
دکھی انسانیت کی خدمت کرنا،بجھتے چراغوں کی روشنی بننا،زلزلہ زدگان ، سیلاب متأثرین اورجنگی آفات میں مبتلا انسانیت کی مرہم کرناان کاماٹوہے ۔ چند سالوں کے مختصر ترین عرصے میں اپنی خدمات کالوہامنوایاان کی حسن کارکردگی کے سامنے بڑی بڑی NGOS انگشت بدندان رہ جاتی ہیں ۔
ان کے پاس بھی ہاؤس بلڈنگ سکیمز کے شعبے موجودہیں یہ لوگوں کے گھربناکردیتے ہیں سیلاب کی وجہ سے بہہ جانے والے اورزلزلہ کی وجہ سے ڈیہہ جانے والے گھروں کی سکیمیں ۔لیکن ان کے ہاؤس بلڈنگ سکیمزکے اندازہی نرالے ہیں ۔گھروں کی تعمیر کے لیے سودی قرضے دیناتودورکی بات اصل مال بھی واپس نہیں لیتے بلکہ گھربھی خودبناکر دیتے ہیں اورجب تک اس گھروالے اپنے قدموں پرکھڑے نہیں ہوجاتے تب تک مصروف خدمت رہتے ہیں ۔یہ اللہ توکل لوگ ہیں کتنے ہی موقعے ایسے بھی انہوں نے دیکھے کہ اپنے رضاکاروں کے وظائف مہینہ مہینہ لیٹ ہیں لیکن فی سبیل اللہ جاری کی ہوئی سکیمز کوتعطل کاشکار نہیں ہونے دیتے ۔(وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃ)کی عملی تصویر ہیں ۔وطن عزیز میں آنے والی کسی بھی ہنگامی آفت میں بلاخوف وخطر کودپڑتے ہیں ۔پھر اللہ تعالیٰ بھی اپنے خزانوں اوراپنے بندوں کی تجوریوں کارخ ان کی طرف کردیتے ہیں ۔
( وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِب)دن دگنی رات چگنی ترقی کی منزل طے کرتے چلے جارہے ہیں ۔لیکن سودکے معاملے میں اتنے محتاط کہ اس کاسایہ بھی نہیں پڑنے دیتے ۔
سودی نظام کاایک متبادل راستہ:
سودی نظام کامتبادل راستہ اسلامی معاشی نظام ہے جس کاایک پہلوزکوٰۃ فی سبیل اللہ ہے ۔مثال کے طورپر اگرایک شخص کے پاس دس کروڑ روپے ہوں تواس کی سالانہ زکوٰۃ پچیس لاکھ بنتی ہے وطن عزیز پاکستان کے تقریباسبھی شہروں میں ایک کروڑ ،دوکروڑ پانچ دس کروڑ ملکیت کے کئی آدمی پائے جاتے ہیں اگر تمام صاحب نصاب حضرات زکوٰۃ اداکریں توچند سالوں میں بہت محتاجوں اورمسکینوں کے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی سالانہ زکوٰۃ 20 ارب روپے بنتی ہے صرف ایک سال کی زکوٰۃ سے اگراوسط درجے کے مکان تعمیر کیے جائیں تودولاکھ مکان بن سکتے ہیں جس سے زبردست ہاؤس بلڈنگ سکیم ترتیب دی جاسکتی ہے اوریہ صرف زکوٰۃ کی بات ہے ۔نفلی صدقات کی ترغیب وتحریض اس کے علاوہ ہے اگرزکوٰۃ کے ساتھ ان کو بھی کاؤنٹ کیاجائے توسالانہ آمدن جوزکوٰۃ وصدقات سے حاصل ہوگی وہ کھربوں روپے تک پہنچ سکتی ہے اوراتنی بڑی رقم سے ملک میں عظیم معاشی انقلاب بپاکیاجاسکتاہے اوریہ اربوں روپیہ سیٹھوں ،سرداروں اورتاجروں کی جیب سے نکل کر جب گردش میں آئے گا توکتنے کاریگر،مستری ،مزدوراوردوکانداروں کی شکل میں براہ راست عام آدمی کی خوشحالی کاسبب ہوگا۔پھر وہ وقت آئے گاکہ سودی قرضے دیناتو دور کی بات آپ زکوٰۃ دیں گے اورکوئی لینے والانہیں ہوگا۔
ایک اورمتبادل راستہ:
اسلامی معاشی نظام کاایک پہلوجہادفی سبیل اللہ بھی ہے یہ سودی نظام معیشت کا بہت ہی شاندار متبادل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((جعل رزقی تحت ظل رمحی ))
میرا رزق میرے نیزے کے سائے میں رکھا گیا ہے
جہاد فی سبیل اللہ کے صلے کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غلبہ،سطوت اورروئے زمین کی وراثت کاوعدہ ہے ۔(أنْتُم الأعلون)کاعہد ہے (وَ اَوْرَثَکُمْ اَرْضَھُمْ وَ دِیَارَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ وَ اَرْضًا لَّمْ تَطَئُوْھَا)کاشاندارعندیہ ہے ۔
افریقہ کے صحراؤں سے لیکر مصرکے دریاؤں تک، چین کے بادشاہوں سے لیکریورپ کے کلیساؤں تک ،ہند کے بت پرستوں سے لےکر ایران کے آتش پرستوں تک سب کے سب جزیہ وخراج لیکر دستہ بدستہ تمہارے سامنے کھڑے ہونگے یاپھر اسلام قبول کرلیں گے ۔پھر بادل جہاں بھی برسے گا نفع تم کوہی ہوگا۔کھیت تمہارے ہی لہلہائیں گے تمہارے بچوں کے بھی وظیفے مقرر ہونگے تم آگے آگے اوردنیاکامال تمہارے پیچھے پیچھے ہوگا۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ آج ہم نے زکوٰۃ اورجہاد دونوں کو چھوڑدیاتواللہ تعالیٰ نے عذاب کے طورپر سودجیسی لعنت میں پھنسادیاجوگلے کی ایسی ہڈی بنی کہ اگلنے سے اگلتی نہیں اورنگلنے سے نگلتی نہیں ۔
کبھی ہم نے سوچاکہ آخر کیاوجہ ہے اگرانگریز اسی ہندوستان میں صرف مقامی سرمائے سے نہروں ،ریلوے لائنوں ،مضبوط پلوں ،سکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں کے جال بچھانے کے ساتھ ساتھ اس سے کہیں زیادہ سرمایہ برطانیہ منتقل کر سکتاہے توہم اسی ہند (موجودہ پاکستان)کے مقامی سرمائے سے خودکفیل کیوں نہیں ہوسکتے ۔دراصل بات یہ ہے کہ اس وقت انگریزکے پاس ڈنڈاتھاپورے ہند کے وسائل کو بروئے کارلانے میں اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اس لیے وہ پورے ہند کے سفید وسیاہ کا اکیلا مالک تھااس کے برعکس آج ہمارے پاکستان میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں ہے کبھی چنیوٹ اوربلوچستان کے پہاڑوں سے سونے کی خبریں آتی ہیں توکبھی تھر، چولستان اورڈی جی خان میں زیر زمین پٹرولیم ذخائر کاانکشاف ہوتا ہے۔ لیکن کمی صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس جہادی ڈنڈانہیں ہے عالم کفر ہمیں ہمارے خزانوں سے مستفید نہیں ہونے دیتااس لیے کہ پھر IMF اور ورلڈ بنک کے قرضے کون لے گا۔لہذایہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہمارے آج کے تمام مسائل کاحل صرف اورصرف جہادفی سبیل اللہ میں ہے ۔