سیدنا ابوبکر صدیق

❄سیرتِ صدیقی کے چند قابلِ عمل گوشے❄ سیدنا ابوبکر صدیق کی وفات
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم

إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا [التوبہ: 40]

ذی وقار سامعین!
اسلام اور مسلمانوں کی اب تک کی تاریخ میں دورِ نبوت کے بعد خلافت راشدہ کا دور ہر اعتبار سے سب سے ممتاز اور تابناک رہا ہے ، کیونکہ اس کی باگ ڈور ان ہستیوں کے ہاتھ میں تھی جو نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ تھے اور آپ ﷺ کی زبان مبارکہ سے انہیں جنت کی بشارت اور فضل و تقویٰ کا اعلیٰ مقام مل چکا تھا۔ جس طرح انہوں نے قرآن و سنت کے نقل کرنے میں غایت درجہ احتیاط و اتقان سے کام لیا تھا اسی طرح انہوں نے جہاں بینی اور جہاں بانی میں بھی شمع نبوت سے روشنی حاصل کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے فکری ، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اور جنگی و فتوحاتی ہر میدان میں انسانیت و روحانیت اور امن و آشتی کے لیے ایسے عدیم النظیر نقوش چھوڑے جن سے آج کی ترقی یافتہ کہی جانے والی دنیا بھی درست راہ لینے پر مجبور ہے۔
ان عظیم ہستیوں میں سے سب سے پہلے نمبر سیدنا ابوبکر صدیق کی ہستی ہے۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
سیدنا ابوبکر صدیق کا تعارف
نام ، نسب ، کنیت اور القاب:
آپ کا نام عبداللہ ہے، آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے:
عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب القرشی التیمی۔
آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں مرہ بن کعب پر رسول اللہ ﷺسے جا ملتا ہے ، آپ کی کنیت ابوبکر ہے ، عتیق ، صِدِّیق اور صاحب وغیرہ سیدنا ابوبکر صدیق کے القاب ہیں۔
ولادت:
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل کے بعد ہوئی البتہ اس میں اختلاف ہے کہ عام الفیل سے کتنے دنوں بعد ہوئی، بعض لوگوں نے کہا: آپ کی ولادت عام الفیل کے دو سال چھ ماہ بعد ہوئی اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دو سال چند ماہ بعد ہوئی، انہوں نے مہینوں کی تعیین نہیں کی ہے۔ [تاریخ الخلفاء: 56]
آپ کے والد کا نام عثمان بن عامر بن عمرو ہے، ان کی کنیت ابوقحافہ ہے۔ یہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ ابوبکر صدیق انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ان کو کیوں زحمت دی، میں خو دآجاتا، ابوبکر نے جواباً عرض کیا: ان کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ہی زیادہ اولیٰ ہے۔ ابوقحافہ نے اس موقع پر اسلام قبول کیا اور آپ ﷺ سے بیعت کی۔[الاصابہ: 4/375]
ازواج و اولاد:
سیدنا ابوبکر صدیق نے کل چار خواتین سے شادیاں کیں ، جو یہ ہیں:
1۔ قتیلہ بنت عبدالعزیٰ بن اسعد بن جابر بن مالک
ان کے بطن سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔
2۔ ام رومان بنت عامر بن عویمر رضی اللہ عنہا
ان کے بطن سے سیدہ عائشہ اور سیدنا عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
3۔ اسماء بنت عمیس بن معبد بن حارث رضی اللہ عنہا
ان کے بطن سے سیدنا محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
4۔ حبیبہ بنت خارجہ بن زید بن ابی زہیر رضی اللہ عنہا
ان کے بطن سے آپ کی صاحبزادی ام کلثوم آپ کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔
آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں:
1۔ عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما 2۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما
3. محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما 4۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما
5۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا 6۔ ام کلثوم بنت ابی بکر
قبولِ اسلام:
مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے سیدنا ابوبکر صدیق ہیں۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَلَسْتُ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ أَلَسْتُ صَاحِبَ كَذَا۔
ترجمہ: ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ ابوبکر نے کہا: کیا میں وہ شخص نہیں ہوں جوسب سے پہلے اسلام لایا؟ کیا میں ایسی ایسی خوبیوں کا مالک نہیں ہوں؟ [ترمذی: 3667 صححہ الالبانی]
سیدنا ابوبکر صدیق کے فضائل
سیدنا ابوبکر صدیق کے بہت سارے فضائل ہیں۔ چند ایک پیشِ خدمت ہیں:
سیدنا ابوبکر صدیق کا تذکرہ قرآن میں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
❄وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
"اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ بچنے والے ہیں۔” [الزمر 33]
اس آیت کے سب سے پہلے مصداق سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اور اس کے بعد وہ تمام لوگ جو نبیﷺپر ایمان لائے۔
❄إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ [التوبہ: 40]
تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ دوسرے ابوبکر تھے اور اکثر دینی منصبوں اور عہدوں پر رسول اللہ ﷺ کے بعد دوسرے نمبر پر وہی فائز رہے۔ سب سے پہلے مسلمان ہوئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، جس پر بہت سے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے، جنگوں میں آپ ﷺ سے الگ نہیں ہوئے۔ مرض الموت میں آپ ﷺ کے نہایت تاکیدی حکم کے ساتھ اور کسی بھی دوسرے کی امامت سے آپ ﷺ کے انکار کے بعد آپ کے قائم مقام کی حیثیت سے آپ ﷺ کے مصلے پر کھڑے ہوئے، پھر آپ کے پہلو میں دفن ہوئے، اس طرح اول و آخر صدیق اکبر کو دوسرا ہونے کا شرف حاصل رہا۔ [الشیخ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللّٰہ]
عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا فِي الْغَارِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ تَحْتَ قَدَمَيْهِ لَأَبْصَرَنَا فَقَالَ مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا
ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ ان سے حضرت ابوبکر نے بیان کیا کہ
” جب ہم غار ثور میں چھپے تھے تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر مشرکین کے کسی آدمی نے اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو وہ ضرور ہم کو دیکھ لے گا ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر ! ان دو کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔” [صحیح بخاری: 3653]
نبیﷺکے محبوب:
حضرت عمر و بن عاص نے بیان کیا کہ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ عَائِشَةُ فَقُلْتُ مِنْ الرِّجَالِ فَقَالَ أَبُوهَا قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَعَدَّ رِجَالًا
” نبی کریم ﷺ نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا ( عمر و نے بیان کیا کہ ) پھر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اورمیں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) سے میں نے پوچھا ، اور مردوں میں ؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے ، میں نے پوچھا ، اس کے بعد ؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب سے ۔ اس طرح آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے۔” [صحیح بخاری: 3662]
زبانِ نبوت سے صدیق کا لقب ملا:
❄حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن نبی ﷺاحد پہاڑ پر تھے،آپ کے ساتھ ابوبکر،عمر اور عثمان بھی تھے ،اتنے میں پہاڑ تھرتھرانے لگا۔نبی ﷺ نے فرمایا ؛
اسکن أحد، فلیس علیک إلا نبي وصدیق وشہیدان
” اے احد !ٹھہر جا،کیونکہ تیرے اوپر ایک نبی،ایک صدیق ،اور دو شہید موجود ہیں۔”[بخاری: 3699]
❄حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی اکرم ﷺ حراء پہاڑ پر تھے، آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے، اتنے میں چٹان حرکت کرنے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
اہدأ فما علیک إلا نبي أو صدیق أو شہید
"تھم جاؤ، کیونکہ تمہارے اوپرنبی، صدیق، اور شہید ہیں۔”[مسلم: 2417]
زبانِ نبوت سے بارہا جنت کی بشارت ملی:
❄ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے ایک باغ میں تھا، ایک شخص آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے لیے دروازہ کھول دو، اور انہیں جنت کی خوشخبری دے دو، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ابو بکر ہیں، میں نے فرمان نبوی کے مطابق انہیں خوشخبری سنائی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، پھر ایک شخص آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ان کے لیے بھی دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی بشارت دے دو، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھاکہ عمر ہیں، میں نے ان کو فرمان نبوی کی خبر دی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، پھر ایک تیسرے آدمی آئے اور دروازہ کھٹکھٹایاتو آپ نے مجھ سے کہا ؛
افتح لہ وبشرہ بالجنۃ علی بلوی تصیبہ
"ان کے لیے دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی خوشخبری دے دوایک مصیبت کے بعد جو ان پر آئے گی۔ "
دیکھا تو وہ عثمان تھے۔ میں نے انہیں اللہ کے رسول کی فرمائی ہوئی بات کی خبر دی، انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اللہ مدد فرمائے۔ [بخاری: 3693]
❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا قَالَ نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہوگا اسے ” باب ریان “ سے بلایا جائے گا اور جو زکوۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے زکوۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر نے پوچھا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ﷺ ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ [صحیح بخاری: 1897]
❄عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام-، فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ:عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ: وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ. وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ! قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ.
ترجمہ : جناب عبدالرحمٰن بن الاخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص نے سیدنا علی کا ذکر کیا تو سیدنا سعید بن زید کھڑے ہوئے اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” دس اشخاص جنت میں ہیں ۔ نبی ﷺ جنت میں ہیں ، ابوبکر جنت میں ہیں ، عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر بن عوام جنت میں ہیں ، سعد بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہیں ۔ “ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہے ؟ تو وہ خاموش ہو رہے ۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے تو انہوں نے کہا : وہ سعید بن زید ہے ۔ [ابوداؤد: 4649 صححہ الالبانی]
❄ایک مرتبہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں کوئی جنتی آدمی دکھلائیے۔ آپ نے فرمایا؛
النبي من أھل الجنۃ وابوبکر وعمر من أھل الجنۃ وعثمان من اہل الجنۃ
’’نبی جنتی ہیں، ابو بکر وعمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں‘‘[فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل: حدیث نمبر 557 بإسناد حسن]
❄سیدناعبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
القائِمُ بعدِي في الجنةِ ، والّذي يقومُ بعدَهُ في الجنةِ ، والثالثُ والرابِعُ في الجنةِ
‏‏‏‏ "میرے بعد شریعت پرعمل پیرا ہونے والا جنت میں جائے گا اور اس کے بعد شریعت کو اپنانے والا اور اس کے بعد تیسرے دور کا آدمی اور اسکے بعد چوتھے دور کا آدمی سب جنت میں داخل ہوں گے۔” [سلسلہ صحیحہ: 2319]
کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو نہیں چھوڑ سکتے ؟
حضرت ابودرداءرضی اللہ عنہ نے بیان کیا؛
كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ آخِذًا بِطَرَفِ ثَوْبِهِ حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ فَسَلَّمَ وَقَالَ إِنِّي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنِ الْخَطَّابِ شَيْءٌ فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ ثُمَّ نَدِمْتُ فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي فَأَبَى عَلَيَّ فَأَقْبَلْتُ إِلَيْكَ فَقَالَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلَاثًا ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ نَدِمَ فَأَتَى مَنْزِلَ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلَ أَثَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالُوا لَا فَأَتَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ فَجَعَلَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَعَّرُ حَتَّى أَشْفَقَ أَبُو بَكْرٍ فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ أَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ مَرَّتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقَ وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُوا لِي صَاحِبِي مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِيَ بَعْدَهَا
"میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضرت ابوبکر اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے ، گھٹنا کھولے ہوئے آئے ۔ آنحضرت ﷺ نے یہ حالت دیکھ کرفرمایا : معلوم ہوتا ہے تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں ۔ پھر حضرت ابوبکر نے حاضر ہوکر سلام کیا اور عرض کیا یار سول اللہ ! میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی تھی اور اس سلسلے میں میں نے جلدی میں ان کو سخت لفظ کہہ دیئے لیکن بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی تو میں نے ان سے معافی چاہی ، اب وہ مجھے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اسی لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : اے ابوبکر ! تمہیں اللہ معاف کرے ۔ تین مرتبہ آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا : حضرت عمر کو بھی ندامت ہوئی اور حضرت ابوبکر کے گھر پہنچے اور پوچھا کیا ابوبکر گھر پر موجود ہیں ؟ معلوم ہوا کہ نہیں تو آپ بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے سلام کیا ۔
آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک غصہ سے بدل گیا اور ابوبکر ڈرگئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے ، یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم زیادتی میری ہی طرف سے تھی ۔ دومرتبہ یہ جملہ کہا ۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بناکر بھیجا تھا ۔ اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان ومال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے لئے میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہویا نہیں؟ آپ نے دودفعہ یہی فرمایا : آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر کو کسی نے نہیں ستایا ۔” [صحیح بخاری: 4640]
میں ، ا بوبکر اور عمر اس پر ایمان رکھتے ہیں:
سیدنا ابوہریرہ سےکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ؛
” بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً لَهُ، قَدْ حَمَلَ عَلَيْهَا، الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ الْبَقَرَةُ فَقَالَتْ: إِنِّي لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا، وَلَكِنِّي إِنَّمَا خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ ” فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللهِ تَعَجُّبًا وَفَزَعًا، أَبَقَرَةٌ تَكَلَّمُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَإِنِّي أُومِنُ بِهِ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ»
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَيْنَا رَاعٍ فِي غَنَمِهِ، عَدَا عَلَيْهِ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً، فَطَلَبَهُ الرَّاعِي حَتَّى اسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ فَقَالَ لَهُ: مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، يَوْمَ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِي؟ ” فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِنِّي أُومِنُ بِذَلِكَ، أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ»
ترجمہ: ایک شخص اپنی گا ئے کو ہانک رہاتھا اس پر بو جھ لادا ہوا تھا ۔اس گائے نے منہ پیچھے کیا اور کہا: مجھے اس کا م کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔”لوگوں نے تعجب اور حیرت سے کہا: سبحان اللہ ! کیا گائے بولتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا:”(کسی اور کو یقین ہو نہ ہو )میرا ، ابو بکر کا اور عمر کا اس پر ایمان ہے۔”
حضرت ابو ہریرہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرما یا:” ایک چرواہااپنی بکریوں میں (موجود)تھا کہ بھیڑیے نے اس پر حملہ کیا اور ایک بکری پکڑلی،چرواہا اس کے پیچھے لگ گیا حتی کہ اس بکری کو بھیڑیے سے بچا لیا۔اس(بھیڑیے) نے کہا: اس دن اسے کون بچا ئے گا جب درندوں (کے حملے) کا دن آئے گا اور میرے سوا اس کا چرواہا (مالک) کو ئی نہ ہو گا ؟”لوگوں نے کہا : سبحان اللہ !تو رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :”میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں اور ابو بکر اور عمر (بھی یقین رکھتے ہیں) [صحیح مسلم: 6183]
اگر میں کسی کو خلیل بناتا۔۔۔:
❄عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ ذَلِكَ الْعَبْدُ مَا عِنْدَ اللَّهِ قَالَ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ فَعَجِبْنَا لِبُكَائِهِ أَنْ يُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خُيِّرَ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَيَّرَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا غَيْرَ رَبِّي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کودنیا میں اور جو کچھ اللہ کے پاس آخرت میں ہے ان دونوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے اختیار کرلیا جو اللہ کے پاس تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر ابوبکر رونے لگے ۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ ہم کو ان کے رونے پر حیرت ہوئی کہ آنحضرت ﷺ تو کسی بندے کے متعلق خبردے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا تھا ، لیکن بات یہ تھی کہ خود آنحضرت ﷺ ہی وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور (واقعتا) حضرت ابوبکر ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکر کا سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بناسکتاتو ابوبکر کو بناتا ۔ لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے ۔ دیکھو مسجد کی طرف تمام دروازے (جو صحابہ کے گھروں کی طرف کھلتے تھے) سب بند کردیئے جائیں ۔ صرف ابوبکر کا دروازہ رہنے دیاجائے۔ [صحیح بخاری: 3654]
❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لِأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلَّا وَقَدْ كَافَيْنَاهُ مَا خَلَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِيهِ اللَّهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا أَلَا وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ
ترجمہ : ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
‘ کسی کا ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جسے میں نے چکا نہ دیا ہو سوائے ابوبکر کے، کیوں کہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑااحسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیں اللہ ہی دے گا، کسی کے مال سے کبھی بھی مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے، اگر میں کسی کو خلیل(گہرادوست) بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کوخلیل بناتا ، سن لو تمہارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل ہے’۔ [ترمذی: 3661 صححہ الالبانی]
ابو بکر مصلیٰ امامت پر:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے مرض الموت میں جب نماز کا وقت آیا اور اذان دی گئی تو فرمایا؛
مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ
"ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔”
اس وقت آپ سے کہا گیا کہ ابوبکر بڑے نرم دل ہیں۔ اگر وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو نماز پڑھانا ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ آپ نے پھر وہی حکم فرمایا، اور آپ کے سامنے پھر وہی بات دہرا دی گئی۔ تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا کہ تم تو بالکل یوسف کی ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ( کہ دل میں کچھ ہے اور ظاہر کچھ اور کر رہی ہو )
مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ
‘ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔” [صحیح بخاری: 664]
سیدنا ابوبکر صدیق صحابہ کی نظر میں:
❄حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے افضل ابو بکر ہیں، پھرعمر، پھر عثمان، یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچتی تھی مگر آپ اس کا انکار نہیں کرتے۔[فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل: روایت نمبر 857 بإسناد صحیح لغیرہ]
❄ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ عُثْمَانُ قُلْتُ ثُمَّ أَنْتَ قَالَ مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ
ترجمہ: محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (علی ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا ، اس کے بعد عمر ہیں ۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟ تو) کہہ دیں گے کہ عثمان ، اس لیے میں نے خود کہا ، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔ [صحیح بخاری: 3671]
سیرتِ صدّیقی کے چند قابلِ عمل گوشے
سیدنا ابوبکر صدیق کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ، مثال اور ماڈل ہے ، اب ہم سیرتِ صدّیقی کی چند باتیں آپ کے سامنے رکھیں گے جن پر عمل کرکے زندگیاں سنواری جا سکتی ہیں۔
نیکیوں میں سبقت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مِسْكِينًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟”ابو بکر نے کہا :میں۔آپ نے فرمایا:”آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟”ابوبکر صدیق نے کہا:میں،آپ نے پوچھا:” آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟”ابو بکر نے جواب دیا:میں نے،آپ نے پوچھا:” تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟”ابو بکر نے کہا: میں نے۔رسول اللہ نے فرمایا:”کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتاہے۔” [مسلم: 2374]
انفاق فی سبیل اللہ:
سیدنا عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں؛
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي فَقُلْتُ الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ قُلْتُ مِثْلَهُ قَالَ وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ قَالَ أَبْقَيْتُ لَهُمْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قُلْتُ لَا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا
"ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس موقع پر میرے پاس مال بھی تھا ۔ چنانچہ میں نے ( دل میں ) کہا : اگر میں ابوبکر سے سبقت لینا چاہوں تو آج لے سکتا ہوں ۔ چنانچہ میں اپنا آدھا مال ( آپ ﷺ کی خدمت میں ) لے آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ میں نے کہا : اسی قدر ( چھوڑ آیا ہوں ) اور پھر سیدنا ابوبکر اپنا کل مال ( آپ ﷺ کے پاس ) لے آئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ کہا : میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے ۔ تب مجھے کہنا پڑا ، میں کسی شے میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا ۔” [ابوداؤد: 1678 حسنہ الالبانی]
مہمانوں کی تکریم:
عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: اصحاب صفہ فقراء تھے۔ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں کو لے جائے۔ ابوبکر تین آدمیوں کو لے آئے اور خود ابوبکر نے رسول اللہ ﷺ کے پاس شام کا کھانا تناول کیا اور کچھ رات گذرنے کے بعد گھر تشریف لائے۔
بیوی نے عرض کیا: کس وجہ سے آپ نے مہمانوں سے تاخیر کی؟
فرمایا: کیا ابھی تک انہیں کھانا نہیں دیا؟
بیوی نے کہا: انہوں نے آپ کے آئے بغیر کھانے سے انکار کیا، پیشکش کی گئی لیکن وہ نہ مانے۔
میں (عبدالرحمن) ڈر کر چھپ گیا۔
والد صاحب نے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا: اے جاہل! اور سخت وسست کہا اور مہمانوں سے کہا: آپ لوگ تناول فرمائیں، واللہ میں نہیں کھاؤں گا۔
مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ ہم اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک ابوبکر نہیں کھاتے۔
ابوبکر نے کہا: یہ شیطان کی طرف سے ہے، پھر کھانا منگوایا اور تناول فرمایا۔
عبدالرحمن کہتے ہیں: اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے تھے اس کے نیچے اس سے زیادہ ہو جاتا تھا۔ مہمانوں نے آسودہ ہو کر کھانا تناول فرمایا اور کھانا پہلے سے زیادہ ہو گیا، آپ نے دیکھا تو پہلے سے زیادہ تھا۔
بیوی سے کہا: اے بنو فراس کی بہن یہ کیا ماجرا ہے؟
اس نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک! یہ پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔
پھر ابوبکر نے کھایا اور فرمایا: یہ قسم شیطان کی طرف سے تھی۔
پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے اور وہ صبح تک آپ کے پاس رہا۔ ہمارے اور مشرکین کے درمیان معاہدہ تھا جس کی مدت ختم ہو چکی تھی، رسول اللہ ﷺ نے بارہ افراد کو عریف بنایا اور ہر ایک کے ساتھ ایک جماعت تھی اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ تمام لوگوں نے آسودہ ہو کر وہی کھانا کھایا۔ [صحیح بخاری: 3581]
مغفرتِ الٰہی کی طلب اور تڑپ:
جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تھی اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک مسطح تھے جو حضرت ابو بکر کے قریبی رشتہ دار تھے اور چونکہ یہ محتاج تھے اس لئے حضرت ابو بکر انہیں خرچہ وغیرہ دیا کرتے تھے لیکن جب یہ بھی تہمت لگانے والے لوگوں میں شامل ہو گئے توآسمان سے وحی کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر نے قسم اٹھائی کہ وہ اب مسطح کو کچھ نہیں دیں گے۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں عفو و درگذر کی تلقین کی گئی ۔
وَلَا یَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَة أَن یُؤْتُوا أُوْلِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاكِیْنَ وَالْمُهَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ [النور: 22]
’’اور تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاہئے بلکہ معاف کر دینا اور در گذر کر دینا چاہئے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ معاف فرمادے ؟ وہ معاف کرنے والا ، بڑامہربان ہے۔‘‘
تو حضرت ابو بکر نے کہا؛
بَلٰی وَاللّٰهِ یَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا
’’ کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم یقینا یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کردے ۔ ‘‘ اس کے بعد انہوں نے مسطح کا خرچہ پہلے کی طرح جاری کردیا ۔ [بخاری: 4757]
سیدنا ابوبکر صدیق کی وفات
آپ نے مدینہ منورہ میں 22! جمادی الاخری 13ھ میں وفات پائی، اُ س وقت آپ کی عمرتریسٹھ سال کی تھی ، سیدنا عمر فاروق نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ، آپ کو حجرهٴمبارک کے اندر حضرت رسول اللہ ﷺ کےپہلومیں دفن کیا گیا۔
دوسرا خطبہ
آج کے خطبہ میں ہم نے سیدنا أبو بکر صدیق کی سیرت کے حوالے سے چند باتیں سمجھی ہیں۔ آپ کا کا نام عبداللہ ہے ، کنیت أبو بکر ہے ، صدیق ، عتیق اورصاحب آپ کے القاب ہیں ، مردوں میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور بہت سی قربانیاں پیش کیں۔
آقا علیہ السلام نے آپ کو بے شمار فضائل اور خصائص سے نوازا ، اپنی زندگی میں اپنے مصلیٰ پر کھڑا کیا ، اپنے آخری خطبہ میں فرمایا کہ أبو بکر کے احسانات کا بدلہ اللہ تعالیٰ دیں گے۔
آخر میں ہم نے سیدنا أبو بکر صدیق کی سیرت سے حاصل ہونے والے چند اسباق سمجھے ہیں کہ أبو بکر نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ، مہمانوں کی تکریم و عزت کرنے والے ، اللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ کرنے والے اور ہر وقت اللہ کی مغفرت کے طالب تھے۔
سیدنا أبو بکر صدیق سے محبت کا تقاضا یہ ہے ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کریں تاکہ ان کے سچے اور سُچے محب بن سکیں۔
❄❄❄❄❄