سیدنا عیسی اور ان کی والدہ محترمہ مریم علیہما السلام کی سیرت و کردار
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (المؤمنون : 50)
اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو عظیم نشانی بنایا اور دونوں کو ایک بلند زمین کی طرف جگہ دی، جو رہنے کے لائق اور بہتے پانی والی تھی۔
بنی اسرائیل میں پہلے پیغمبر یوسف علیہ السلام اور آخری پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
قرآن میں ایک سورۃ آپ کے نانا کے گھرانے کے نام پر ہے جس کا نام سورہ آل عمران ہے
ایک سورۃ آپ کی والدہ محترمہ کے نام پر ہے جس کا نام سورہ مریم ہے
ایک سورۃ آپ کے ایک معجزے کے نام پر ہے جس کا نام المائدہ ہے
ایک سورۃ آپ کی قوم کے نام پر ہے جس کا نام بنی اسرائیل ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ علیہ السلام سے اظہارِ محبت کرتے ہیں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےبیان کیا کہ میں نے سول کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرمارہے تھے
أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ وَالْأَنْبِيَاءُ أَوْلَادُ عَلَّاتٍ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ (بخاری ،كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،بَابُ قَوْلِ اللَّهِ {وَاذْكُرْ فِي الكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} [مريم: 16]، 3442)
میں ابن مریم ؑ سےدوسروں کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہوں، انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں اورمیرے اورعیسی ٰ ؑ کےدرمیان کوئی نبی نہیں ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے
معراج کے موقع پر عیسیٰ علیہ السلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کو محبت سے "نیک بھائی” کہہ کر مرحبا کہتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا يَحْيَى وَعِيسَى، وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ. قَالَ : هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا. فَسَلَّمْتُ، فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا : مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ” [بخاری، الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : « ذکر رحمۃ ربک…»: ۳۴۳۰ ]
پھر جب میں (دوسرے آسمان پر) پہنچا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیھما السلام تھے اور وہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے جبریل علیہ السلام نے بتایا یہ یحییٰ اور عیسی علیہما السلام ہیں جبریل نے انہیں سلام کہا اور میں نے بھی سلام کہا ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور کہنے لگے صالح بھائی اور صالح نبی کیلئے مرحبا
عیسی علیہ السلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوش خبری دیتے ہیں
قرآن میں ہے
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (الصف : 6)
اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں،جو میرے بعد آئے گا،اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کرآیا تو انھوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے لوگوں کو آپ کی طرف ریفر کریں گے
قیامت کے دن لوگ، اللہ کے ہاں اپنی سفارش کروانے کے لیے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے ہوتے ہوئے جناب عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے ( صرف ) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ (بخاری 4712)
عیسی علیہ السلام کے نام اور القاب
"عِيسَى” اور ’’الْمَسِيْحُ‘‘
یہ عیسی علیہ السلام کے معروف نام ہیں
اور یہ نام خود اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں
فرمایا
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (آل عمران : 45)
جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے، جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے، دنیا اور آخرت میں بہت مرتبے والا اور مقرب لوگوں سے ہوگا۔
’’الْمَسِيْحُ‘‘
یہ ’’ مَسَحَ ‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہاتھ پھیرنے یا زمین کی مساحت کے ہیں۔ لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح یا تو اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بیماروں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور وہ تندرست ہو جاتے تھے، یا اس بنا پر کہ آپ ہر وقت زمین میں سفر کرتے رہتے تھے۔
( ابن کثیر رحمہ اللہ بحوالہ تفسیرالقرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ بھٹوی حفظہ اللہ تعالیٰ )
ابن مریم
اسے آپ کی کنیت کہہ لیں
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (الزخرف : 57)
اور جب ابن مریم کو بطور مثال بیان کیا گیا، اچانک تیری قوم (کے لوگ) اس پر شور مچا رہے تھے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کا نام لینے کے بجائے ’’ابن مریم‘‘ فرمایا اس میں حکمت یہ ہے کہ انھیں خدا قرار دینے والوں کو توجہ دلائی جائے کہ وہ ایک خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، سو خدا کیسے ہو گئے؟ (تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
عبداللہ
یہ عیسی علیہ السلام کا لقب ہے اگرچہ ہر آدمی ہی اللہ کا بندہ ہے لیکن عیسی علیہ السلام کو اللہ نے اپنا بندہ کہہ کر خاص شرف و عزت سے نوازا ہے اسے اضافتِ تشریفی کہتے ہیں
فرمایا
إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ (الزخرف : 59)
نہیں ہے وہ مگر ایک بندہ جس پر ہم نے انعام کیا اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک مثال بنا دیا۔
جب آپ پیدا ہوئے تو دنیا میں آنے کے بعد بچپن ہی میں آپ کی زبان سے یہی نکلا :
«اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ» [ مریم : ۳۰ ]
’’یقینا میں ﷲ کا بندہ ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا لِلَّهِ (النساء. 172)
مسیح ہرگز اس سے عار نہ رکھے گا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو
کلمۃ اللہ
یہ عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا لقب ہے
فرمایا
إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ (النساء .171)
نہیں ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم مگر اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔
اگرچہ ہر شخص ہی اللہ تعالیٰ کے کلمۂ کن سے پیدا ہوا ہے، مگر عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے پر انھیں بطور شرف یہ لقب دیا گیا، جیسے بیت اللہ، ناقۃ اللہ، اگرچہ ہر مسجد اور ہر اونٹنی اللہ ہی کی ہے۔
روح اللہ
یہ عیسی علیہ السلام کا تیسرا لقب ہے
جیسا کہ فرمایا
وَرُوْحٌ مِّنْهُ
یعنی اس کی پیدا کردہ روح، اس اضافت سے عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کا اظہار مقصود ہے، ورنہ تمام روحیں ﷲ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں
وَرُوْحٌ مِنْهُ سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہی نکلا ہوا ایک جزء ہیں یہ ’’ مِنْ ‘‘ تبعیضیہ نہیں ہے بلکہ ابتدائے غایت کے لیے ہے۔
(ابن کثیر رحمہ اللہ بحوالہ شیخ بھٹوی حفظہ اللہ تعالیٰ)
رسول اللہ
یہ آپ کا چوتھا وصف اور لقب ہے
فرمایا
وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ
اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا
اور فرمایا
مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (المائدہ. 75)
نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، یقینا اس سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے
عیسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب کا نام انجیل تھا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ (الحدید :27)
پھر ہم نے ان کے نقش قدم پر پے درپے اپنے رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل دی
عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی اوصاف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسی علیہ السلام کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا
رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ يَعْنِي الْحَمَّامَ (بخاری ،كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،بَابُ قَوْلِ اللَّهِ {وَاذْكُرْ فِي الكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} [مريم: 16]، 3437)
درمیانہ قداورسرخ وسپید تھے،جیسے ابھی ابھی غسل خانے سے باہر آئےہوئے ہوں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
رَأَيْتُ عِيسَى ومُوسَى وَإِبْرَاهِيمَ فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ (بخاری ،كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،بَابُ قَوْلِ اللَّهِ {وَاذْكُرْ فِي الكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} [مريم: 16]، 3438)
میں نے عیسیٰ ،موسیٰ اورابراہیم ؑ کودیکھا ۔عیسی ؑ نہایت سرخ گھنگریالے بال والے اورچوڑے سینےوالے تھے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسَى، وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ (سنن ابی داؤد 4324، صحیح)
میرے اور ان یعنی عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، یقیناً وہ اتریں گے، جب تم انہیں دیکھنا تو پہچان لینا، وہ ایک درمیانی قد و قامت کے شخص ہوں گے، ان کا رنگ سرخ و سفید ہو گا، ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے، ایسا لگے گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے گو وہ تر نہ ہوں گے
عیسی علیہ السلام کے اوصاف حمیدہ
قرآن میں ہے
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (آل عمران : 45)
جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے، جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے، دنیا اور آخرت میں بہت مرتبے والا اور مقرب لوگوں سے ہوگا۔
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ (آل عمران : 46)
اور لوگوں سے گہوارے میں بات کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور نیک لوگوں سے ہوگا۔
ان آیات مبارکہ میں مسیح علیہ السلام کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں :
01.’’ وَجِيْهًا ‘‘ یعنی بہت وجاہت والا ہو گا۔ چہرہ آدمی کی ذات کا آئینہ ہوتا ہے، اس لیے اونچے مرتبے کو وجاہت کہتے ہیں۔
02.مقرب لوگوں میں سے ہو گا۔
03.گہوارے اور ادھیڑ عمر میں یکساں حکیمانہ کلام کرے گا۔ اور ادھیڑ عمر میں کلام کرنے میں ان کے دوبارہ اترنے کی طرف بھی اشارہ ہے۔
04.صالحین سے ہوگا۔ صالح وہ ہے جس کے سارے کام درست ہوں، اس لیے سلیمان علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے صالح بندوں میں داخل کیے جانے کی دعا کی
اور فرمایا
وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ (الأنعام : 85)
اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو، یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔
عیسیٰ علیہ السلام کا اعلٰی اخلاق
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلًا يَسْرِقُ فَقَالَ لَهُ أَسَرَقْتَ قَالَ كَلَّا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَقَالَ عِيسَى آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبْتُ عَيْنِي (بخاری ،كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،بَابُ قَوْلِ اللَّهِ {وَاذْكُرْ فِي الكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} [مريم: 16]، 3444)
عیسیٰ ابن مریم ؑ نےایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا پھر اس سے دریافت فرمایا تونے چوری کی ہے؟ اس نے کہا کہ ہرگز نہیں ، اس ذات کے قسم جس کے سوا اورکوئی معبود نہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا کہ میں اللہ پرایمان لایا اورمیری آنکھوں کودھوکا ہوا۔
عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم
وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ (آل عمران : 48)
اور وہ اسے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائے گا۔
عیسیٰ علیہ السلام کو تورات اور ہر کتاب بغیر پڑھے آتی تھی اور یہ سب معجزے تھے۔ (موضح)
بعض مفسرین نے ”الْكِتٰبَ“ کا معنی لکھنا کیا ہے۔
وَلَمَّا جَاءَ عِيسَى بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (الزخرف : 63)
اور جب عیسیٰ واضح دلیلیں لے کر آیا تو اس نے کہا بے شک میں تمھارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور تاکہ میں تمھارے لیے بعض وہ باتیں واضح کر دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو، سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔
إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (الزخرف : 64)
بے شک اللہ ہی میرا رب اور تمھارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔
عیسی علیہ السلام کی دعوت
قرآن میں آپ کی دعوتِ توحید کا تذکرہ ہے
وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (المائدة : 72)
اور مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو، جو میرا رب اور تمھارا رب ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک بنائے سو یقینا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔
اور فرمایا
إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (آل عمران : 51)
بے شک اللہ ہی میرا رب اور تمھارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں انجیل عطا فرمائی، جس میں تورات پر عمل کی تاکید تھی اور اس کے بعض سخت احکام میں نرمی کا اعلان تھا، جیسا کہ فرمایا :
« وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ » [ آل عمران : ۵۰ ]
’’اور تاکہ میں تمھارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں۔‘‘
عیسی علیہ السلام آخری نبی کی آمد کی خبر دیتے ہیں
قرآن میں ہے
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (الصف : 6)
اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں،جو میرے بعد آئے گا،اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کرآیا تو انھوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے۔
عیسی علیہ السلام کے معجزات
عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اور دعوت کو قبول کرنے سے جب لوگوں نے انکار کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے احقاق حق اور إبطال باطل کے لیے آپ کو کچھ معجزات عطا فرمائے
عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب اور علوم طبعیہ (سائنس) کا چرچا تھا، سو اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ معجزات عطا فرمائے جن کے سامنے تمام اطباء اور سائنسدان اپنے عاجز اور درماندہ ہونے کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران : 49)
کہ میں تمھارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتی ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص والے کو تندرست کرتا ہوں اور مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں اور تمھیں بتا دیتا ہوں جو کچھ تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور جو ذخیرہ کرتے ہو، بے شک اس میں تمھارے لیے ایک نشانی ہے، اگر تم مومن ہو۔
اس آیت مبارکہ میں ”بِاِذْنِ اللّٰهِ“ کا لفظ بار بار لانے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو عیسیٰ علیہ السلام یہ معجزات نہ دکھا سکتے اور یہی ہر نبی کے معجزات کا حال ہے کہ وہ اللہ ہی کے اختیار میں ہوتے ہیں۔
اور فرمایا
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (المائدة : 110)
جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ ابن مریم! اپنے اوپر اور اپنی والدہ پر میری نعمت یاد کر، جب میں نے روح پاک سے تیری مدد کی، تو گود میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا تھا اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تو مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند میرے حکم سے بناتا تھا، پھر تو اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے ایک پرندہ بن جاتی تھی اور تو پیدائشی اندھے اور برص والے کو میرے حکم سے تندرست کرتا تھا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا، جب تو ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو ان میں سے ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔
عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب
عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت، تعلیم اور معجزات، سن، پڑھ اور دیکھ کر کئی لوگ آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے جنہیں عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب ہونے کا شرف حاصل ہوا
اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کی ایمان کی طرف رہنمائی کرتے ہیں
فرمایا
وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ (المائدة : 111)
اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو، انھوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم فرماں بردار ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ علیہ السلام پر احسان تھا کہ حواریوں کو ان کا مخلص ساتھی اور مددگار بنا دیا۔ حواری کے قریب قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار کے ہیں۔
’’اَلْحَوَارِيُّ‘‘ کی وضاحت
’’حَارَ يَحُوْرُ حَوْرًا ‘‘( ن )’’ اَلثَّوْبَ‘‘ کپڑے کو دھونا اور خوب سفید کرنا۔ دھوبی کو اسی لیے حواری کہتے ہیں کہ وہ کپڑے کو دھو کر سفید کر دیتا ہے۔
’’ حُوَّارٰي‘‘ صاف سفید میدے کو کہتے ہیں جس سے چھان نکال دیا گیا ہو۔ خالص دوست اور بے غرض مددگار کو اسی لیے حواری کہتے ہیں کہ اس کا دل ہر قسم کے کھوٹ سے پاک صاف اور خیر خواہی اور محبت میں خالص ہوتا ہے۔
(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
أصحاب عیسیٰ علیہ السلام، نرم دل لوگ تھے
عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب یہود کے برعکس آپس میں نہایت نرم اور مہربان تھے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً (الحدید :27)
اور ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے اس کی پیروی کی نرمی اور مہربانی رکھ دی
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب انجیل عطا فرمائی تھی وہ بنیادی طور پر احکام کی نہیں بلکہ وعظ و تذکیر کی کتاب تھی، جس میں انھیں خاص طور پر نرمی اور رحم کے اخلاق اختیار کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں بھی یہ وصف بہت نمایاں تھا
جیسا کہ فرمایا :
«وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ » [ الفتح : ۲۹ ]
’’ اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔‘‘
اصحاب عیسیٰ علیہ السلام کو معیار بنایا گیا
عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے یہود نے انھیں پہچان لینے کے باوجود اتنا ستایا اور تنگ کیا کہ ان کے لیے دعوت دینا بھی مشکل ہوگیا۔ اس وقت انھوں نے یہ کہا کہ اللہ کی طرف دعوت دینے میں اور اس کے راستے پر چلنے میں میرے مددگار کون ہیں؟ تو حواریوں نے کہا، ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
بعد میں پھر ان حواریوں کی استقامت اور جان نثاری کو معیار بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے لوگوں کو بھی اپنے نبی کے ساتھ اسی طرح کی وفاداری کرنے کا حکم دیا
فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ (الصف : 14)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے مدد گار بن جاؤ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا اللہ کی طرف میرے مدد گار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے کفر کیا، پھر ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے تھے، ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب ہوگئے ۔
یہود ،عیسی علیہ السلام کے قتل کی سازش کرتے ہیں
جہاں ایک طرف عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت، تعلیم اور معجزات، سن، پڑھ اور دیکھ کر کئی لوگ آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے وہاں بعض شقی القلب لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ سب آیات و بینات دیکھنے کے باوجود آپ کی مخالفت پر ہی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اس حد تک نکل گئے کہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران : 54)
اور انھوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔
اس آیت مبارکہ میں یہود کی خفیہ تدبیر سے مراد عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش ہے
جیسا کہ فرمایا
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ [النساء : ۱۵۷ ]
اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے (کسی کو مسیح کا) شبیہ بنا دیا گیا
یہود عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے میں ناکام رہے
مزید اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ
نہ انھوں نے مسیح علیہ السلام کو قتل کیا اور نہ سولی دی، بلکہ ان کے لیے کسی اور آدمی کو مسیح علیہ السلام کی شبیہ (ان جیسا) بنا دیا گیا۔ وہ اسے سولی دے کر سمجھتے رہے کہ ہم نے مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا۔
عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ بن کر ان کی جگہ سولی چڑھنے والا آدمی کون تھا
یہ آدمی کون تھا اور کیسے شبیہ بنایا گیا، قرآن مجید یا حدیث رسول میں اس کی تفصیل بیان نہیں ہوئی
ہاں عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ بنائے جانے کی کیفیت کی ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ امام ابن کثیر اور ابن جریر نے بیان فرمائی ہے کہ جب یہودی مسیح علیہ السلام کو پکڑنے کے لیے گئے تو آپ نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ تم میں سے کون شخص اس بات پر راضی ہے کہ اسے میرا شبیہ بنا دیا جائے؟ ایک حواری اس پر راضی ہو گیا، چنانچہ مسیح علیہ السلام کو ﷲ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھا لیا اور اس نوجوان کو مسیح علیہ السلام کی شکل و صورت میں تبدیل کر دیا گیا، یہودی آئے اور اس نوجوان کو سولی دے دی۔
(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف زندہ اٹھائے گئے ہیں
اللہ تعالیٰ نے یہود کی خباثتوں سے بچانے کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اپنی طرف اٹھا لیا
فرمایا
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (آل عمران 55)
جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ! بے شک میں تجھے قبض کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اورتجھے ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا
«مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ » سے عیسیٰ علیہ السلام کا مع جسم آسمان کی طرف اٹھایا جانا مراد ہے
کیونکہ ”مُتَوَفِّيْكَ“ کا معنی ہے ’’میں تمھیں پورا لینے والا ہوں ‘‘ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو روح و بدن دونوں کے ساتھ اٹھا لیا جاتا۔
اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا
بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء : 158)
بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر غالب، کمال حکمت والاہے۔
اس آیت مبارکہ میں یہود کے اس دعویٰ کی نفی کی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے عیسی علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے
عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کرنے کی ممانعت
ایک طرف نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو ﷲ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، تو دوسری طرف یہود نے مسیح علیہ السلام سے متعلق یہاں تک تفریط برتی کہ ان کی رسالت کا بھی انکار کر دیا، قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں
اعتدال کی راہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نہ تو اﷲ کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنا لیا جائے اور نہ جھوٹے نبی ہیں، بلکہ وہ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لاَ تُطْرُوْنِيْ كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰي ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُوْلُهُ ] [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اﷲ تعالٰی: «واذكر في الكتاب مريم ……» : ۳۴۴۵ ]
’’مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے صرف اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو سے منع کیا
فرمایا
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ (النساء : 171)
اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ گزرو اور اللہ پر مت کہو مگر حق۔ نہیں ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم مگر اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو
اور فرمایا
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (المائدة : 77)
کہہ دے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق حد سے نہ بڑھو اور اس قوم کی خواہشوں کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہو چکے اور انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ عیسی و مریم علیھما السلام کو معبود بنانے سے منع کیا
فرمایا
وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (النساء : 171)
اور مت کہو کہ تین ہیں، باز آجائو، تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ اللہ تو صرف ایک ہی معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بطور وکیل کافی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کو خدا کہنے والوں کو کافر قرار دیا
فرمایا
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (المائدہ :72)
بلاشبہ یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے
اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کو تین میں سے ایک خدا کہنے والوں کے متعلق فرمایا
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ (المائدہ:73)
بلاشبہ یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ تین میں سے تیسرا ہے
اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کو اپنا بیٹا کہنے سے منع کیا ہے
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا (مريم : 88)
اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔
لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا (مريم : 89)
بلاشبہ یقینا تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو۔
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (مريم : 90)
آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں۔
أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا (مريم : 91)
کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا۔
وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا (مريم : 92)
حالانکہ رحمان کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔
إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا (مريم : 93)
آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔
عیسی علیہ السلام خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کا عاجز بندہ ہوں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں
جب آپ پیدا ہوئے تو دنیا میں آنے کے بعد بچپن ہی میں آپ کی زبان سے یہی نکلا :
«اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ» [ مریم : ۳۰ ]
’’یقینا میں ﷲ کا بندہ ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا لِلَّهِ (النساء. 172)
مسیح ہرگز اس سے عار نہ رکھے گا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو
اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق فرمایا
مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (المائدہ. 75)
نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، یقینا اس سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے
قرب قیامت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے
قرآن مجید میں اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں قیامت سے پہلے عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کے عادل و منصف امام بن کر نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (الزخرف : 61)
اور بلاشبہ وہ یقینا قیامت کی ایک نشانی ہے تو تم اس میں ہرگز شک نہ کرو اور میرے پیچھے چلو، یہ سیدھاراستہ ہے۔
اسی آیت کی دوسری قراءت ’’وَ إِنَّهُ لَعَلَمٌ لِلسَّاعَةِ ‘‘ ہے، یعنی وہ قیامت واقع ہونے کا ایک نشان اور دلیل ہے۔
’’ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ‘‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا وجود قیامت قائم ہونے کی نشانی اور دلیل ہے، کیونکہ وہ عام دستور کے خلاف باپ کے بغیر پیدا ہوئے، پھر وہ اللہ کے اذن سے مُردوں کو زندہ کرتے تھے۔ یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت کا نشان ہیں کہ وہ قیامت برپا کرنے پر بھی یقینا قادر ہے۔
(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)
آپ دمشق میں منارۂ شرقیہ کے پاس فجر کے وقت اتریں گے
آپ دمشق میں منارۂ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہو گی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہو جائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہو گا اور یا جوج ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہو گا، بالآخر آپ ہی کی بد دعا سے ان کی ہلاکت واقع ہو گی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ، لَيُوْشِكَنَّ أَنْ يَّنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلاً، فَيَكْسِرَ الصَّلِيْبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيْرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَ يَفِيْضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتّٰی تَكُوْنَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِّنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا، ثُمَّ يَقُوْلُ أَبُوْ هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوْا إِنْ شِئْتُمْ : « وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا » ( النساء:۱۵۹ )] [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی ابن مریم علیہما السلام : ۳۴۴۸ ]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا قریب ہے کہ تم میں ابن مریم( علیھما السلام ) انصاف کرنے والا حاکم بن کر نازل ہو، پھر وہ صلیب توڑ دے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ ختم کرے گا اور مال عام ہو جائے گا، حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا، حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو گا۔‘‘ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اور اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’اور اہلِ کتاب میں کوئی نہیں مگر وہ اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔‘‘
آپ چالیس سال رہیں گے دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے اور اسلام کو غالب کریں گے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسَى، وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ . (سنن ابی داؤد 4324)
میرے اور ان یعنی عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، یقیناً وہ اتریں گے، جب تم انہیں دیکھنا تو پہچان لینا، وہ ایک درمیانی قد و قامت کے شخص ہوں گے، ان کا رنگ سرخ و سفید ہو گا، ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے، ایسا لگے گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے گو وہ تر نہ ہوں گے، تو وہ لوگوں سے اسلام کے لیے جہاد کریں گے، صلیب توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے اور جزیہ معاف کر دیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں سوائے اسلام کے سارے مذاہب کو ختم کر دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، پھر اس کے بعد دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے، پھر ان کی وفات ہو گی تو مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔
عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والی جماعت جہنم سے بچا لی جائے گی
عصابتان من امتی احرزھما اللہ من النار
ہر یہودی اور عیسائی بھی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے گا
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء : 159)
اور اہل کتاب میں کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔
اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں درست ہیں، پہلا تو یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا ہر شخص اپنے مرنے سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کے زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لے آئے گا، مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب موت سامنے آ جاتی ہے، جیسا کہ فرعون مرتے وقت ایمان لے آیا تھا، مگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب عادل حاکم کی صورت میں اتریں گے اور دجال اور دوسرے تمام کفار سے جہاد کریں گے، تو ان کی موت سے پہلے پہلے تمام دنیا میں اسلام غالب ہو جائے گا۔ یہود و نصاریٰ یا تو مقابلے میں قتل ہو جائیں گے، یا اسلام لے آئیں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، چنانچہ جب عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوں گے تو ان کی وفات سے پہلے ہر موجود یہودی اور نصرانی ان کی نبوت اور ان کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور دوبارہ اترنے پر ایمان لا چکا ہو گا۔
(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)