سیدنا حَسن و حُسین رضی اللہ عنہما
اہم عناصر :
❄ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا تعارف❄ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل
❄ صحابہ کا سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے پیار ❄ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی شہادت
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا [الاحزاب: 33]
ذی وقار سامعین!
کائنات کی سب سے افضل ہستی، سید البشر اور امام الانبیاء کے گھرانے والوں کو اہل بیت کہا جاتا ہے ۔اس نسب اور خاندان سے ہونا دنیا کا سب سے بڑا اعزاز واکرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
"اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔” [الاحزاب: 33]
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اہل بیت کے دو افراد سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کا تذکرہ کریں گے
سیّدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا تعارف
نام و نسب:
سیّدنا حسن/حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا پورا نام یہ ہے:
حسن/حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
آپ رسول اللہ ﷺ کے نواسے، جنتی نوجوانوں کے سردار، فاطمہ بنت محمد ﷺ کے لخت جگر اور امیر المومنین علی کے نور نظر ہیں۔
سیدنا علی بیان کرتے ہیں؛
“لَمَّا وُلِدَ الْحَسَنُ سَمَّاهُ حَمْزَةَ، فَلَمَّا وُلِدَ الْحُسَيْنُ سَمَّاهُ بِعَمِّهِ جَعْفَرٍ، قَالَ: فَدَعَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أُغَيِّرَ اسْمَ هَذَيْنِ ” فَقُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَسَمَّاهُمَا حَسَنًا وَحُسَيْنًا
"حسن اور پھر حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں کے نام پہلے اور رکھے گئے تھے، لیکن بعد میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دونوں بچوں کے نام تبدیل کردوں، تو میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، اور پھر اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا نام ’حسن‘ اور ’حسین‘ رکھا”۔ [السلسلة الصحيحة:٢٧٠٩]
ولادت:
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رمضان تین ہجری میں پیدا ہوئے۔
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ 5 شعبان 4 ہجری میں پیدا ہوئے۔
سیّدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل
جنتی نوجوانوں کے سردار:
❄ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ کے قریب ہی سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما موجود تھے۔ آپ ایک دفعہ انھیں دیکھتے اور دوسری دفعہ لوگوں کو فرماتے؛
إنّ ابني ھٰذا سید، ولعل اللہ أن یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین
"میرا یہ بیٹا (نواسا) سید (سردار) ہے اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائے۔” [صحیح البخاری: 2704]
❄نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛
الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ
"حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔” [مسند احمد 3/3ح10999]
❄سیدنا حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
اس فرشتے (جبریل علیہ السلام) نے مجھے خوش خبری دی کہ
وأن الحسن والحسین سیّدا شباب أھل الجنۃ
"اور بے شک حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔” [ترمذی: 3781 ]
❄سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ وأبوھما خیرمنھما
"حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے ابا (سیدناعلی ) ان دونوں سے بہتر ہیں۔” [المستدرک للحاکم 3/167 ح 4779 ]
❄رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
"حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔” [ترمذی: 3781 ]
نبیﷺکے محبوب:
❄سیدنا براء بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا، نبی ﷺ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے کندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور آپ فرما رہے تھے؛
اللھم إنّي أحبہ فأحبہ
"اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تُو بھی اس سے محبت کر۔” [صحیح البخاری: 3749 ]
❄سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں دن کے کسی حصے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلا۔ آپ (سیدہ) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے خیمے کے پاس آئے اور فرمایا: چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے؟ آپ حسن کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
تھوڑی دیر میں وہ (حسن ) دوڑتے ہوئے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں گلے لگا لیا (معانقہ کیا) اور فرمایا؛
اللھم إني أحبہ فأحبہ وأحب من یحبہ
"اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تُو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرے اُس سے محبت کر۔” [صحیح بخاری: 2122 ]
❄نبی کریم ﷺ اسامہ بن زید اور حسن (رضی اللہ عنہما) کو پکڑتے (اور اپنی رانوں پر بٹھاتے) آپ فرماتے: اے اللہ! ان دونوں سے محبت کر، کیونکہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ [صحیح البخاری: 3735]
❄نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛
ھذان ابناي وابنا ابنتي، اللھم إنّي أحبھما فأحبھما وأحبّ من یحبّھما
"یہ دونوں (حسن وحسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے میرے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو اِن سے محبت کرے تُو اس سے محبت کر۔”[ترمذی: 3769 ]
❄عطاء بن یسار (تابعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں ایک آدمی (صحابی) نے بتایا: انھوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) کو سینے سے لگا کر فرما رہے تھے؛
اللھم إني أحبھما فأحبھما
اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو (بھی) ان دونوں سے محبت کر۔
[مسند احمد 5/ 369 ح 23133 وسندہ صحیح ]
نبیﷺکے پھول:
نبی کریم ﷺ نے سیدنا حسن بن علی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا؛
ھما ریحا نتاي من الدنیا
وہ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ [صحیح البخاری: 3753 ]
محبتِ حسنین رضی اللہ عنہما فرض ہے:
❄سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
جس نے ان دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما) سے محبت کی تو یقینا اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا تو یقینا اس نے مجھ سے بغض کیا۔
[مسند احمد 2/ 440 ح 9673 وسندہ حسن لذاتہ]
❄رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
حسین مني وأنا من حسین، أحبّ اللہ من أحبّ حسیناً، حسین سبط من الأسباط
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔ [ترمذی: 3775 ]
حسنین رضی اللہ عنہما اہلِ بیت میں سے ہیں:
❄سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت:
نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ
"اور (مباہلے کے لئے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔” [اٰل عمران: 16]
نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا: اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لاء أھلي
اے اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔ [صحیح مسلم: 6220]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
ایک دن صبح کو نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے جسم مبارک پر اونٹ کے کجاوں جیسی دھاریوں والی ایک اونی چادر تھی تو حسن بن علی (رضی اللہ عنہما) تشریف لائے، آپ نے انھیں چادر میں داخل کر لیا۔ پھر حسین تشریف لائے، وہ چادر کے اندر داخل ہو گئے۔ پھر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تشریف لائیں تو انھیں آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا، پھر علی (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے تو انھیں (بھی) آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا۔
پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا؛
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا
"اے اہلِ بیت! اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دور کر دے اور تمھیں خوب پاک صاف کر دے۔” [الاحزاب: 33] [صحیح مسلم: 6261]
❄سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دائیں طرف فاطمہ کو اور بائیں طرف علی کو بٹھایا اور اپنے سامنے حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) کو بٹھایا (پھر) فرمایا؛
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا
اے اہلِ بیت! اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دُور کر دے اور تمھیں خوب پاک وصاف کردے۔ (الاحزاب: 33)
اے اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ [مسند احمد: 16988 صحیح]
❄سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے بارے میں فرمایا؛
اللھم ھؤلا ء أھل بیتي
اے میرے اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ [المستدرک 2/ 416 ح 3558 ]
❄سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أحبو ا اللہ لما یغذوکم من نعمہ، وأحبوني بحب اللہ، وأحبوا أھل بیتي لحبي
اللہ تمھیں جو نعمتیں کھلاتا ہے اُن کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو، اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو، اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ [ترمذی: 3789 ]
نبیﷺنے منبر چھوڑ دیا:
ایک دفعہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) تشریف لے آئے تو آپ منبر سے اُتر گئے اور انھیں پکڑ کر اپنے سامنے لے آئے، پھر آپ نے خطبہ شروع کر دیا۔ [ترمذی: 3774 ]
رسول اللہﷺسے مشابہت:
❄مشہور جلیل القدر صحابی سیدنا انس بن مالک نے فرمایا؛
"حسن بن علی (رضی اللہ عنہما) سے زیادہ کوئی بھی رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نہیں تھا۔”
[صحیح بخاری: 3752]
❄سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن کو گود میں بٹھایا اور فرمایا؛
ھٰذا مني "یہ مجھ سے ہے۔” [ابو داود: 4131 ]
صحابہ کا سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے پیار
خلفاء راشدین کا حسین سے پیار:
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں؛
ﻛَﺎﻥَ اﻟﺼِّﺪِّﻳﻖُ ﻳُﻜْﺮِﻣُﻪُ ﻭَﻳُﻌَﻈِّﻤُﻪُ، ﻭَﻛَﺬَﻟِﻚَ ﻋُﻤَﺮُ ﻭَﻋُﺜْﻤَﺎﻥُ،
"ابوبکر صدیق حسین کی عزت وتکریم کرتے تھے اور عمر وعثمان رضی اللہ عنہما بھی آپ کی عزت وتکریم کرتے تھے۔” [ البداية والنهاية: 161/8 ]
ابوبكر صديق کا حسن سے پیار:
سیدنا عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ
صَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَصْرَ ، ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ ، وَقَالَ : بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَا شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ.
"ابوبکر عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حسن بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا:
میرے باپ تم پر قربان ہوں! تم میں نبی ﷺ کی شباہت ہے۔ علی کی نہیں۔ یہ سن کر علی ہنسنے لگے۔” [صحیح بخاری: 3542 ]
سیدنا عمر کا حسنین سے پیار:
امام ابن عساکر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں؛
ﺃﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻟﻤﺎ ﺩﻭﻥ اﻟﺪﻳﻮاﻥ ﻭﻓﺮﺽ اﻟﻌﻄﺎء اﻟﺤﻖ اﻟﺤﺴﻦ ﻭاﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻔﺮﻳﻀﺔ اﺑﻴﻬﻤﺎ ﻣﻊ ﺃﻫﻞ ﺑﺪﺭ ﻟﻘﺮاﺑﺘﻬﻤﺎ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﻓﻔﺮﺽ ﻟﻜﻞ ﻭاﺣﺪ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﺧﻤﺴﺔ ﺁﻻﻑ ﺩﺭﻫﻢ.
جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دفاتر ترتیب دہے اور عطائیں مقرر کیں تو حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ ﷺ سے قرابت کی وجہ اس کے والد کے ساتھ سے اہل بدر میں سے حصہ مقرر کیا۔ [ تاريخ دمشق: 238/13 ]
ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں؛
ﻭﻗﺪ ﺛﺒﺖ ﺃﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺮﻣﻬﻤﺎ ﻭﻳﺤﻤﻠﻬﻤﺎ ﻭﻳﻌﻄﻴﻬﻤﺎ ﻛﻤﺎ ﻳﻌﻄﻲ ﺃﺑﺎﻫﻤﺎ.
"پس ثابت ہوا کہ عمر بن خطاب ان دونوں کی عزت وتکریم کرتے ان کی ذمہ داریاں اٹھاتے اور ان کو اسی طرح عطا کرتے جس طرح ان کے والد کو عطا کیا کرتے تھے۔”
[البداية والنهاية: 226/8]
امام ذہبی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
ﺃﻥ ﻋُﻤَﺮَ ﻛَﺴَﺎ ﺃﺑﻨﺎء اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ، ﻭﻟَﻢْ ﻳﻜ ُﻦْ ﻓِﻲ ﺫﻟِﻚَ ﻣَﺎ ﻳﺼ ﻠُﺢُ ﻟِﻠْﺤَﺴَﻦِ ﻭاﻟﺤُﺴَﻴﻦِ، ﻓَﺒَﻌﺚَ ﺇﻟَﻰ اﻟﻳ ﻤَﻦِ، ﻓَﺄُﺗِﻲ ﺑِﻜِﺴْﻮَﺓ ﻟَﻬُﻤَﺎ، ﻓَﻘَﺎﻝ: اﻵﻥ ﻃَﺎﺑَﺖْ ﻧَﻔْﺴِﻲ.
عمر بن خطاب نے صحابہ کے بیٹوں کو کپڑے پہنائے لیکن ان میں کوئی ایسا کپڑا نہیں تھا جو حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے شایان شان ہو تو آپ نے یمن کی طرف ایک بندہ بھیج ان کے لیے جوڑے منگوائے پھر فرمایا: اب جاکر میرا دل خوش ہوا۔ [سیر اعلام النبلاء: 351/4]
عثمان کا حسنین رضی اللہ عنہما سے پیار:
ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں؛
ﻛَﺎﻥ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥ ﺑْﻦُ ﻋَﻔَّﺎﻥ ﻳﻜْﺮِﻡ اﻟْﺤَﺴَﻦَ ﻭاﻟْﺤُﺴَ ﻳﻦَ ﻭ ﻳﺤِﺒُّﻬُﻤَﺎ.
ﻭﻗَﺪْ ﻛَﺎﻥ اﻟْﺤَﺴَﻦُ ﺑْﻦُ ﻋَﻠِﻲٍّ ﻳﻮْﻡ اﻟﺪَّاﺭ – ﻭﻋُﺜْﻤَﺎﻥ ﺑْﻦُ ﻋَﻔَّﺎﻥ ﻣﺤﺼﻮﺭ – ﻋﻨﺪﻩ ﻭﻣﻌﻪ اﻟﺴ ﻳﻒ ﻣﺘﻘﻠﺪاً ﺑﻪ ﻳﺤﺎﺟﻒ ﻋَﻦْ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥ.
"عثمان حسین وحسین رضی اللہ عنہما کی عزت وتکریم کرتے اور ان سے محبت کرتے تھے۔ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے اس دن حسن ان کے پاس تھے اور ان کے پاس تلوار تھی جو ان کے کندھے سے لٹکی ہوئی تھی جس سے وہ عثمان کا دفاع کرتے تھے۔” [البداية والنهاية: 41/8]
ابوہریرہ کا حسنین سے پیار:
سعيد بن ابو سعید المقبری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا، پس ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا۔ لیکن ابوہریرہ کو آپ کی آمد یا سلام کا علم نہیں ہو سکا۔ ہم نے بتایا کہ اے ابوہریرہ! یہ حسن بن علی آئے ہیں اور انہوں نے ہم پر سلام کیا ہے۔ تو آپ ان کے پاس گئے اور کہا؛
ﻭﻋَﻠﻳﻚ اﻟﺴَّﻼَﻡ ﻳﺎ ﺳﻳﺪي، ﺛُﻢَّ ﻗَﺎﻝ: ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭﺳُﻮﻝ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ ﻭﺳَﻠَّﻢَ ﻳﻘُﻮﻝ: ﺇﻧﻪ ﺳﻳﺪ.
اے میرے سردار آپ پر بھی سلامتی ہو! پھر بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ سردار ہیں۔ [مستدرک حاکم: 4792]
ابوالمھزم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ہم ایک خاتون کے جنازے میں تھے۔
ﻓَﺠَﻌَﻞَ ﺃﺑُﻮ ﻫُﺮَﻳﺮَﺓ ﻳﻨْﻔُﺾُ اﻝﺗﺮاﺏ ﻋَﻦْ ﻗﺪﻣﻴﻪ ﺑِﻄَﺮﻑ ﺛَﻮْﺑِﻪِ، ﻓَﻘَﺎﻝ اﻟْﺤُﺴَﻴﻦُ: ﻳﺎ ﺃﺑَﺎ ﻫُﺮَﻳﺮَﺓ، ﻭﺃﻧﺖ ﺗﻔﻌﻞ ﻫﺬا؟! ﻓﻘﺎﻝ: ﺩﻋﻨﻲ، ﻓَﻮَاﻟﻠَّﻪِ ﻟَﻮْ ﻳﻌْﻠَﻢُ اﻟﻨَّﺎﺱ ﻣِﺜْﻞَ ﻣَﺎ ﺃﻋْﻠَﻢُ ﻟَﺤَﻤَﻠُﻮﻙ ﻋَﻠَﻰ ﺭﻗَﺎﺑِﻬِﻢْ.
"ابوہریرہ حسین کے قدموں سے گرد جھاڑنے لگے حسین نے کہا: اے ابو ہریرہ! آپ یہ سب کر رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: مجھے چھوڑیں، جو میں جانتا ہوں اگر لوگ وہ جان لیں تو آپ کو اپنے گردنوں پر سوار کرلیں۔” [تاریخ الاسلام للذھبی: 627/2]
مستدرک حاکم میں ہے کہ ایک بار سیدنا ابوہریرہ سیدنا حسن بن علی سے ملے تو ان سے کہا؛
ﺭﺃﻳﺖُ ﺭﺳُﻮﻝ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ ﻭﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺒَّﻞَ ﺑﻄﻨﻚ ، ﻓَﺎﻛْﺸِﻒِ اﻟْﻤَﻮْﺿِﻊَ اﻟَّﺬِﻱ ﻗَﺒَّﻞَ ﺭﺳُﻮﻝ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ ﻭﺳَﻠَّﻢَ ﺣَﺘَّﻰ ﺃﻗَﺒِّﻠَﻪُ، ﻗَﺎﻝ: ﻭﻛَﺸَﻒَ ﻟَﻪُ اﻟْﺤَﺴَﻦُ ﻓَﻘَﺒَّﻠَﻪُ.
ایک بار میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے پیٹ پر بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے، آپ میرے لیے اس حصے کو ظاہر کریں تاکہ میں بھی وہاں بوسہ دوں۔ جہاں رسول اللہ ﷺ نے اپنے لب مبارک لگائے ہیں۔ چناچہ آپ نے وہ حصہ ظاہر کیا اور ابوہریرہ نے وہاں بوسہ دیا۔ [مستدرک حاکم: 4785]
آپ فرماتے ہیں ؛
میں نے جب بھی حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن نبی ﷺ باہر تشریف لائے، آپ ﷺ نے مجھے مسجد میں پایا۔ آپ نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھ پر سہارا لیا۔ پس میں ﷺ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ بنو قینقاع کا بازار آ گیا۔ ابوہریرہ فرماتے ہیں : آپ ﷺ نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ آپ ﷺ نے بازار کا ایک چکر لگایا، (بازار کو) دیکھا پھر لوٹ آئے اور میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ لوٹ آیا۔ پھر آپ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور حبوہ باندھ کر بیٹھ گئے پھر فرمایا: ’ذرا منے کو میرے پاس بلانا۔ پس حسین دوڑے ہوئے آئے اور آپﷺکی گود میں گر گئے۔ پھر انہوں نے ﷺ کی داڑھی میں ہاتھ ڈال کر کھیلنا شروع کر دیا۔
ﻓَﺠَﻌَﻞَ ﺭﺳُﻮﻝ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ ﻭﺳَﻠَّﻢَ ﻳﻔْﺘَﺢُ ﻓَﻢَ اﻟْﺤُﺴَﻴﻦِ ﻓَﻴﺪْﺧُﻞُ ﻓَﺎﻩ ﻓِﻲ ﻓِﻴﻪِ ﻭﻳﻘُﻮﻝ: اﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺇﻧﻲ ﺃﺣﺒﻪ ﻓﺃﺣﺒﻪ.
نبی ﷺ سیّدنا حسین کے منہ کو کھولتے اور اس میں اپنا منہ داخل کر کے فرماتے: اے اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، تو بھی اس سے محبت کر۔ [مستدرک حاکم: 4823]
مساور السعدی بیان کرتے ہیں کہ:
ﺭﺃﻳﺖُ ﺃﺑَﺎ ﻫُﺮَﻳﺮَﺓ ﻗَﺎﺋِﻤﺎً ﻋَﻠَﻰ ﻣَﺴﺠﺪِ ﺭﺳُﻮْﻝ اﻟﻠﻪِ -ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ ﻭﺳَﻠَّﻢَ- ﻳﻮْﻡ ﻣﺎﺕ اﻟﺤَﺴَﻦُ ﻳﺒْﻜِﻲ، ﻭﻳﻨَﺎﺩﻱ ﺑِﺄَﻋﻠَﻰ ﺻَﻮْﺗِﻪِ: ﻳﺎ ﺃﻳﻬَﺎ اﻟﻨَّﺎﺱ! ﻣَﺎﺕ اﻟﻴﻮﻡ ﺣﺐ ﺭﺳُﻮْﻝ اﻟﻠﻪِ -ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ ﻭﺳَﻠَّﻢَ.
جس دن حسن کا انتقال ہوا میں نے ابوہریرہ کو رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں کھڑے دیکھا وہ رو رہے تھے اور بلند آواز سے کہہ رہے تھے: لوگو! آج رسول اللہ ﷺ کے محبوب کا انتقال ہو گیا ہے۔ [سير أعلام النبلاء: 346/4]
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا حسین سے پیار:
شہر بن حوشب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ ایک عورت چیختی ہوئی آئی اور کہا: حسین رضی اللہ عنہا کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
ﻗﺪ ﻓﻌﻠﻮﻫﺎ ﻣﻸ اﻟﻠﻪ ﺑﻴﻮﺗﻬﻢ ﺃﻭ ﻗﺒﻮﺭﻫﻢ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﻧﺎﺭا ﻭﻭﻗﻌﺖ ﻣﻐﺸﻴﺎ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻭﻗﻤﻨﺎ.
کیا انہوں نے ایسا کیا ہے ! اللہ ان کے گھروں کو یا ان کے قبروں کو آگ سے بھر دے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہا بے ہوش ہو گئیں اور ہم وہاں سے اٹھ کر آ گئے۔ [تاریخ دمشق: 238/14]
عمرو بن العاص کا حسین سے پیار:
عيزار بن حريث العبدى رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
ایک بار سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کعبے کے سائے مین بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو آتے ہوئے دیکھا۔ تو آپ نے فرمایا؛
ﻫﺬا ﺃﺣﺐ ﺃﻫﻞ اﻷﺭﺽ ﺇﻟﻰ ﺃﻫﻞ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﻴﻮﻡ.
"یہ شخص آج آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ہے۔” [تاریخ دمشق: 179/14]
معاویہ کا حسن سے پیار:
سیدنا معاویہ بیان کرتے ہیں کہ
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُصُّ لِسَانَهُ أَوْ قَالَ شَفَتَهُ يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَنْ يُعَذَّبَ لِسَانٌ أَوْ شَفَتَانِ مَصَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
میں نے نبی ﷺ کو حسن رضی اللہ عنہ کی زبان یا ہونٹ چوستے ہوئے دیکھا ہے اور اس زبان یا ہونٹ کو عذاب نہیں دیا جائے گا جسے نبی ﷺ نے چوسا ہو۔ [مسند احمد: 16247]
صاحب عقد الفرید نقل کرتے ہیں کہ: ایک بار سیدنا معاویہ نے اپنے ہم مجلسوں سے سوال کیا؛
ﻣﻦ ﺃﻛﺮﻡ اﻟﻨﺎﺱ ﺃﺑﺎ ﻭﺃﻣّﺎ، ﻭﺟﺪا ﻭﺟﺪﺓ، ﻭﻋﻤّﺎ ﻭﻋﻤﺔ، ﻭﺧﺎﻻ ﻭﺧﺎﻟﺔ؟ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﺃﻣﻴﺮ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﺃﻋﻠﻢ. ﻓﺄﺧﺬ ﺑﻴﺪ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﻭﻗﺎﻝ: ﻫﺬا، ﺃﺑﻮﻩ.ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ، ﻭﺃﻣﻪ ﻓﺎﻃﻤﺔ اﺑﻨﺔ ﻣﺤﻤﺪ، ﻭﺟﺪّﻩ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠّﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺟﺪّﺗﻪ ﺧﺪﻳﺠﺔ.
ماں باپ، نانا نانی، چچا پھوپھی، خالہ اور ماموں کے حساب سے سب سے زیادہ مکرم کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: اے امیرالمومنین! آپ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے) ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ ہیں۔ جن کے والد علی، ماں فاطمہ، نانا محمد رسول اللہ ﷺ اور نانی خدیجہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ [العقد الفريد: 345/5]
عبداللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں کہ:
ﺃﻥ ﺣَﺴَﻦَ ﺑْﻦَ ﻋَﻠِﻲٍّ ﺩﺧَﻞَ ﻋَﻠَﻰ ﻣُﻌَﺎﻭﻳﺔَ ﻓَﻘَﺎﻝ: ﻷَﺟِﻴﺰَﻧَّﻚَ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓ ﻟَﻢْ ﺃﺟِﺰْ ﺑِﻬَﺎ ﺃﺣَﺪًا ﻗَﺒْﻠَﻚَ ﻭﻻَ ﺃﺟِﻴﺰُ ﺑِﻬَﺎ ﺃﺣَﺪًا ﺑَﻌْﺪَﻙ ﻣِﻦَ اﻟْﻌَﺮَﺏ، ﻓَﺄَﺟَﺎﺯﻩ ﺑِﺄَﺭﺑَﻌِﻤِﺎﺋَﺔِ ﺃﻟْﻒٍ، ﻓَﻘَﺒِﻠَﻬَﺎ.
حسن بن علی رضی اللہ عنہما معاویہ کے پاس داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا: میں ضرور آپ کو ایک ایسا عطیہ دوں گا جو آپ سے پہلے کبھی کسی عرب کو نہ دیا ہے نہ دوں گا۔ پھر آپ نے انہیں چار لاکھ عطا کیے اور انہوں نے قبول کیے۔ [مصنف ابن أبي شيبة: 188/6]
جابر کا حسین سے پیار:
حضرت جابر فرماتے ہیں ؛
ﻣَﻦْ ﺳَﺮَّﻩُ ﺃﻥ ﻳﻨْﻈُﺮَ ﺇﻟَﻰ ﺭﺟُﻞٍ ﻣِﻦْ ﺃﻫْﻞِ اﻟْﺠَﻨَّﺔِ، ﻓَﻠْﻴﻨْﻈُﺮْ ﺇﻟَﻰ اﻟْﺤُﺴَﻴﻦِ ﺑْﻦِ ﻋَﻠِﻲٍّ” ﻓَﺈِﻧِّﻲ ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭﺳُﻮﻝ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴﻪِ ﻭﺳَﻠَّﻢَ ﻳﻘﻮﻟﻪ.
جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ ایک جنتی آدمی دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو انہیں جنتی کہتے سنا ہے۔ [صحيح ابن حبان: 6966]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا حسین سے پیار:
ابن ابی نعم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
كُنْتُ شَاهِدًا لِابْنِ عُمَرَ ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُنِي عَنْ دم البعوض وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا.
میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں موجود تھا کہ ان سے ایک شخص نے احرام کی حالت میں مچھر کے مارنے کے متعلق سوال کیا ( کہ اس کا کفارہ کیا ہے) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا: تم کہاں سے ہو؟ اس نے کہا: عراق سے۔ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو! جو مچھر کے خون کے متعلق سوال کر رہا ہے اور انہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو قتل کر دیا۔ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں ( حسن و حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ [صحیح بخاری: 5994]
سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی شہادت
سیدنا حسنکی شہادت:
سیدنا حسن51 ہجری میں 48 سال کی عمر میں زہر کی وجہ سے شہید ہوئے۔
سیدنا حسین کی شہادت:
❄سیدنا علی سے روایت ہے کہ
ایک دن میں نبی ﷺ کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو ناراض کر دیا ہے؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا: بلکہ میرے پاس سے ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل (شہید) کیا جائے گا۔ [مسند احمد 1/85 ح 648 ]
❄سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
میں نے ایک دن دوپہر کو نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ حسین اور اُن کے ساتھیوں کا خون ہے، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں۔ [مسند احمد 1/242 ]
اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے۔
❄سیدنا حسین رضی اللہ عنہ (10) محرم (عاشوراء کے دن) اکسٹھ (61) ہجری میں شہید ہوئے۔ [تاریخ دمشق لابن عساکر 14/237 ]
❄شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ جب سیدناحسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا؛
عراقیوں پر لعنت ہو، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے، اللہ انھیں قتل کرے۔ انھوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا، اللہ انھیں ذلیل کرے۔ [مسند احمد : 26550 وسندہ حسن ]
❄سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی (عراقی) نے مچھر (یا مکھی)کے (حالتِ احرام میں) خون کے بارے میں پوچھا تو آپنے فرمایا؛
اسے دیکھو، یہ (عراقی) مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے اور انھوں نے نبی ﷺ کے بیٹے (نواسے) کو قتل (شہید) کیا ہے۔ [صحیح بخاری: 5994، 3753 ]
❄شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ
میں نبی ﷺ کی زوجہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھا۔ میں نے سیدنا حسین کی شہادت کی خبر سنی تو اُم سلمہ کو بتایا۔ (کہ سیدنا حسین شہید ہو گئے ہیں)۔
انھوں نے فرمایا: ان لوگوں نے یہ کام کر دیاہے، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے۔ اور وہ (غم کی شدت سے) بے ہوش ہوگئیں۔ [تاریخ دمشق 14/ 229 وسندحسن ]
❄تابعیِ صغیر ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:
"اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنھوں نے حسین بن علی کو قتل (شہید) کیا تھا، پھر میری مغفرت کر دی جاتی، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی ﷺ کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔”