سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت کے چند درخشاں پہلو
اہم عناصرِ خطبہ :
01. نسب نامہ ، کنیت اور لقب
02. قبولِ اسلام ، کیوں اور کیسے ؟
03. فضائل ومناقب
04. عملی زندگی کے چند پہلو
05. خلیفۂ دوم کے کارناموں کا مختصر تذکرہ 6۔ شہادت
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ان شاء اللہ ایک عظیم شخصیت کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔
٭ یہ وہ شخصیت ہیں کہ جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے خصوصی طور پر مانگا تھا ۔
٭ جنھیں اللہ تعالی نے سابقین اولین ( سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں) میں شامل فرمایا ۔
٭ جن کے قبول ِ اسلام سے اللہ تعالی نے اسلام اور مسلمانوں کو قوت بخشی ۔
٭ جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار کیا کہ جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کرجنت کی بشارت دی۔
٭ وہ شخصیت کہ جن کی زبان اور دل پر اللہ تعالی نے حق رکھ دیا تھا ۔
٭ جو زمین پراپنی زبان سے مشورہ دیتے تو عرش سے اللہ تعالی ان کی موافقت میں وحی نازل کردیتا ۔
٭ جنھیں تاریخ اسلام میں سب سے پہلے امیر المؤمنین کا لقب دیا گیا ۔
٭ جن کے دور خلافت میں فارس اور روم کی دو بڑی سلطنتیں شکست سے دوچار ہوئیں اور ان میں اسلام کا عَلَم بلند ہوا ۔
میری مراد دورِ خلافت راشدہ کے دوسرے خلیفہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔جو ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اِس امت کے سب سے افضل انسان ہیں ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے۔ چنانچہ ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل قرار دیتے تھے اور ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے ، ان کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو افضل تصور کرتے تھے ۔ صحیح البخاری :3655
جناب عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے تیرہ سال بعد ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں ہوئی تھی ۔ اِس طرح عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرہ سال چھوٹے تھے ۔ اور اس کی دلیل صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ تینوں کی وفات تریسٹھ ( ۶۳) سال کی عمر میں ہوئی ۔ صحیح مسلم :2358،2352
اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تیرہ سال بعد ہوئی ہو ۔ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تقریبا تیرہ سال زندہ رہے ۔ اس کے بعد ان کی شہادت ہوئی ۔
عمر رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ یوں ہے : عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبد اللہ بن قُرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی۔
یوں کعب بن لؤی میں آپ کا نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے ساتھ جا ملتا ہے ۔
آپ کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہاشم بن المغیرۃ بن عبد اللہ بن مخزوم تھا۔
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے نسب نامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ باپ کی طرف سے بنو عدی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جو مکہ مکرمہ کے معزز قبیلوں میں سے ایک تھا ۔ اِس لحاظ سے آپ اور آپ کے قبیلے کا شمار مکہ مکرمہ کے اشراف میں ہوتا تھا۔ اور قریش کی سفارت کاری انہی کے ذمہ تھی ۔اور آپ ماں کی طرف سے بنو مخزوم قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ، جس کا شمار مکہ مکرمہ کے امیرترین قبیلوں میں ہوتا تھا، کیونکہ اس قبیلہ کے لوگ تجارت کرتے تھے اور پڑھنا لکھنا بھی جانتے تھے ۔ابو جہل اور ولید بن مغیرہ جیسے دولتمند لوگ بھی اسی قبیلے کے تھے ، جو اسلام اور مسلمانوں کے شدید ترین دشمن تھے ۔ تاہم اسی قبیلے سے اللہ تعالی نے کئی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی بھی توفیق دی ۔ مثلا ارقم بن ابی الأرقم رضی اللہ عنہ ، جنھوں نے اپنا گھر اُن کمزور مسلمانوں کیلئے پناہ گاہ کے طور پر وقف کر رکھا تھا جو کفار کے مظالم سے تنگ آکر اسی گھر میں آچھپتے تھے ۔ اسی طرح ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ بھی بنو مخزوم قبیلے سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔
آپ کی کنیت ’ابو حفص ‘تھی اور لقب ’ فاروق ‘ تھا ۔
آپ کی یہ کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی تھی ۔ جیساکہ معرکۂ بدر کے متعلق روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : ’’ مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم وغیرہ کے کچھ لوگوں کو یہاں زبردستی لایا گیا ہے اور انھیں ہم سے لڑنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ لہذا تم میں سے جس شخص کا بنو ہاشم میں سے کسی سے آمنا
سامنا ہو تو وہ اسے قتل نہ کرے ۔ اسی طرح العباس بن عبد المطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جان ہیں، ان سے کسی کا آمنا سامنا ہو تو وہ انھیں بھی قتل نہ کرے ۔ ‘‘
چنانچہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’ ہم اپنے باپوں ، اپنے بیٹوں ، اپنے بھائیوں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو قتل کریں اورالعباس کو چھوڑ دیں ؟ اللہ کی قسم ! اگر وہ میرے سامنے آگئے تو میں ان پر تلوار سے حملہ کردوں گا ۔ ‘‘
ان کی یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا :
(( یَا أَبَا حَفْص ! أَیُضْرَبُ وَجْہُ عَمِّ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالسَّیْفِ ؟ ))
’’اے ابو حفص ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو تلوار کے ساتھ قتل کردیا جائے گا ؟ ‘‘
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : یہ پہلا دن تھا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ابو حفص کہہ کر پکارا ۔ المستدرک للحاکم :4988 ۔ وقال : صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ ورواہ ابن اسحاق والبیہقی
اور جہاں تک ’ الفاروق ‘ لقب کا تعلق ہے تو یقینی طور پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اس لقب کے مستحق تھے ، کیونکہ آپ ان حضرات میں سے تھے کہ جنھوں نے اسلام قبول کیا تو اللہ تعالی نے ان کے ذریعے اسلام اور کفر کے درمیان فرق کردیا ۔ اسی طرح جب آپ خلیفہ بنے تو اللہ تعالی نے ان کے ذریعے اسلام کو غلبہ دیا ۔
تاہم اس سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے انھیں یہ لقب کس نے نوازا تھا ؟
ایک قول یہ ہے کہ انھیں یہ لقب سب سے پہلے اہل کتاب نے نوازا ۔لیکن یہ بات کسی صحیح سند سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ انھیں یہ لقب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوازا تھا ۔ لیکن جس روایت میں اس لقب کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔ ضعیف الجامع للألبانی:1586والسلسلۃ الضعیفۃ :3062
خصوصا وہ تمام روایات کہ جن میں خود ان کا اپنا بیان ہے کہ جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
’’ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم حق پر نہیں ؟ اگر ہم مر جائیں اور اگر ہم زندہ رہیں ؟ (دونوں صورتوں میں)‘‘
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیوں نہیں ، ہم حق پر ہیں ، اگر ہم مر جائیں اور اگر ہم زندہ رہیں ۔(دونوں صورتوں میں)‘‘
تو انھوں نے کہا : تب آپ چھپے ہوئے کیوں ہیں ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! آپ ضرور نکلیں گے ۔
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں میں نکالا ، ایک میں حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری میں میں تھا ۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔۔۔۔۔ اس دن مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ الفاروق ‘ کا لقب نوازا ۔۔۔۔۔تو اِس قسم کی تمام روایات انتہائی ضعیف ہیں ۔ السلسلۃ الضعیفۃ :6531
اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ِاس لقب کے ساتھ انھیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پکارا ہوگا ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے بلاشبہ آپ کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی اور ان کے ذریعے حق وباطل میں فرق کیا ۔
جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے : ( مَا زِلْنَا أَعِزَّۃً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ ) صحیح البخاری:3684،3863
’’ جب سے عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت سے ہم طاقتور بن گئے ۔ ‘‘
وہ مزید کہتے ہیں : ’’ ہم بیت اللہ میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا ، چنانچہ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہم اس میں نماز پڑھنے لگے۔ ‘‘ طبقات ابن سعد:3 /1/193
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد خلیفہ بنایا گیا تو آپ کو ’ امیر المؤمنین ‘ کا لقب دیا گیا ۔ اور تاریخ اسلام میں سب سے پہلے آپ ہی کو اس لقب سے پکاراگیا ۔ کیونکہ اس سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا ۔ تاہم اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سب سے پہلے جس نے آپ کو ’ امیر المؤمنین ‘ کے لقب کے ساتھ ذکر کیا وہ عراق سے آئے ہوئے دو افراد تھے جن کے نام تھے : لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہما ۔ الأدب المفرد للبخاری : ص353 ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الأدب المفرد :390
قبولِ اسلام :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اعلان ِ نبوت فرمایا اور ابتداء میں چند کمزور لوگوں نے اسلام قبول کیا تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے شدید مخالف تھے اور ان میں سے بعض کو عذاب بھی دیا کرتے تھے ۔ اِس کی دلیل ان کے بہنوئی جناب سعید بن زید رضی اللہ عنہ ( جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں ) کا یہ قول ہے :
( لَوْ رَأَیْتُنِیْ مُوْثِقِی عُمَرُ عَلَی الْإِسْلَامِ أَنَا وَأُخْتُہُ ، وَمَا أَسْلَمَ )
’’ عمر نے جب اسلام قبول نہیں کیا تھا تو انھوں نے مجھے اور اپنی بہن ( فاطمہ ) کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باندھ رکھا تھا ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 3867
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش تھی کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرلیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصی طور پر یہ دعا فرمایا کرتے تھے :
(( اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الإِْسْلَامَ بِأَحَبِّ ہَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ )) وَکَانَ أَحَبَّہُمَا إِلَیْہِ عُمَرُ ۔ جامع الترمذی :3681 ۔ وصححہ الألبانی
’ اے اللہ ! ابو جہل اور عمر بن الخطاب میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہو اس کے ساتھ اسلام کو تقویت دے ۔ ‘‘
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ان دونوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب عمر رضی اللہ عنہ تھے ۔
چنانچہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کی اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے صحیح ترین روایات کے مطابق چھبیس سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا ۔
اسلام قبول کرنے کا جو سبب بیان کیا جاتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ اپنی بہن فاطمہ اور ان کے خاوند سعید بن زید کے پاس گئے ، انھیں مارا ، پھر ان سے سورۃ طہ کی تلاوت سنی تو اسلام قبول کرنے پر تیار ہو گئے ! تو یہ واقعہ مشہور ضرور ہے لیکن صحیح نہیں ہے اور محدثین کے نزدیک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکا ۔
اس سلسلے میں ایک اور واقعہ مسند احمد میں روایت کیا گیا ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سورۃ الحاقہ کی تلاوت سنی تو اس سے ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی ۔ لیکن مسند احمد کی یہ روایت مرسل ہے ۔ اس لئے اسے بھی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ مسند أحمد :107 ۔ ضعفہ الأرنؤوط
البتہ جو بات سب سے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کا آپ پر شدید اثر ہوا اور آپ اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ واقعہ امام بخاری نے ( باب إسلام عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ) میں ذکر کیا ہے ۔ وہ واقعہ کیا ہے ؟ آئیے وہ واقعہ سماعت کیجئے :
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ( عمر رضی اللہ عنہ ) کو جب کبھی یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرا خیال ہے کہ ایسے ہونے والا ہے ، تو وہ ویسے ہی ہوجاتا تھا۔ ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت آدمی گزرا ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یا میرا گمان غلط ہے ، یا پھر یہ آدمی جاہلیت کے زمانے میں کاہن ہوا ہے یا کافر ہی
ہے ! اسے میرے پاس لاؤ ۔ چنانچہ اسے بلایا گیا ۔ تو انھوں نے اسے یہی بات کہی ۔ اس نے کہا :
میں نے آج کے دن جیسا دن کبھی نہیں دیکھا کہ جس میں ایک مسلمان آدمی کا استقبال کیا گیا ہے ۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم مجھے ضرور بتاؤ ۔ اس نے کہا : میں زمانۂ جاہلیت میں ان کا کاہن ہوتا تھا ۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تمھاری جِننی ( جن کی مؤنث ) نے تمھیں جو خبر دی اس میں کونسی حیران کن بات ہے ؟
تو اس نے کہا : میں ایک دن بازار میں تھا کہ وہ میرے پاس آئی ، میں اس پر گھبراہٹ کے آثار پہچان رہا تھا۔ اس نے آتے ہی کہا : آپ جنوں کے اوندھا ہونے کے بعد ان کی ناکامی اور ناامیدی نہیں دیکھتے ! اب بستیوں میں ان کی آمد ورفت نہیں ہوگی ، بلکہ اب وہ اونٹنیوں وغیرہ کے ساتھ جنگل میں ہی رہیں گے ۔
( اُس کی اِس بات میں اشارہ تھا کہ ایک نبی آچکا ہے جس کی وجہ سے اب شیطان جنوں کی آمد ورفت بہت ہی محدود ہو گئی ہے ۔ )
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اِس نے سچ کہا ہے ۔ پھر انھوں نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے کہا :
میں ان کے ( مشرکین مکہ ) کے معبودوں کے پاس سویا ہوا تھا ، اسی دوران ایک آدمی ایک بچھڑا لے کر آیا ، پھر اسے ذبح کیا ۔ اچانک ایک چیخ آئی ، وہ اتنی شدیدتھی کہ میں نے اس سے زیادہ سخت چیخ کبھی نہیں سنی ۔ اس نے کہا : ( یَا جَلِیْحْ ! أَمْرٌ نَجِیْحْ ، رَجُلٌ فَصِیْحْ یَقُولُ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ )
’’اے چست وچالاک آدمی ! ایک معاملہ کامیابی کا ظاہر ہوا ہے ، ایک فصیح زبان والا آدمی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ‘‘
چنانچہ لوگ چونک گئے ۔ میں نے ( دل میں ) کہا : میں یہ جان کر رہوں گاکہ اِس آواز کی حقیقت کیا ہے ! اُس چیخنے والے نے پھر وہی بات دہرائی ۔ تو میں ا ٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اس کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ کہا گیا کہ یہ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نبی ہیں ۔ صحیح البخاری : 3866
خلاصہ یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے متعلق ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور شدید تمنا تھی، تو دوسری خود عمر رضی اللہ عنہ نے جب کچھ دلائل کا خود مشاہدہ کر لیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت پر دلالت کرتے تھے تو آپ نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر نہیں کی ، بلکہ بہت جلد اسلام قبول کرلیا ۔ اسی لئے آپ کو ’ سابقین اولین ‘ میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ۳۹ افراد اسلام لا چکے تھے ۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے والے چالیسویں فرد تھے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب
تمام اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سب سے افضل صحابی ہیں ۔
جیسا کہ محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ تو انھوں نے کہا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
میں نے کہا : پھر کون ہے ؟ انھوں نے کہا : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔
پھر مجھے خدشہ ہوا کہ اس کے بعد کہیں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام نہ لے لیں تو میں نے کہا : پھر آپ ہیں ؟
انھوں نے کہا : میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام شخص ہوں ۔ صحیح البخاری :3671، سنن أبی داؤد :4629
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو متعدد فضائل ومناقب حاصل ہیں جن میں سے اہم فضائل ہم ذکر کرتے ہیں
01.عمر رضی اللہ عنہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ
( أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ ؟ ) ’’ آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔
میں نے کہا : مردوں میں سے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
میں نے کہا : پھر کون ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ صحیح البخاری :3662، صحیح مسلم :2384
اور یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حفصہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر لی تھی ۔
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی صاحبزادی حفصہ رضی اللہ عنہا کے شوہر خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ جب وفات پا گئے تو میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انھیں حفصہ سے شادی کی پیش کش کی ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے مہلت دیں ، میں ذرا اپنے معاملے میں غور کر لوں ۔ پھر کچھ دن کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا : میں چاہتا ہوں کہ میں ابھی شادی نہ کروں ۔ اس کے بعد میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا : اگر آپ پسند کریں تو میں حفصہ کی شادی آپ سے کردوں ؟ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے ان کی خاموشی پر عثمان رضی اللہ عنہ کے انکار سے زیادہ غصہ آیا ۔ پھر میں کچھ روز ٹھہرا رہا ، جس کے بعد رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ سے شادی کا پیغام بھیج دیا ۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا نکاح کردیا ۔
اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا : آپ نے مجھے حفصہ سے شادی کیلئے شادی کی پیش کش کی تھی ، میں خاموش ہوگیا تھا ، جس پر آپ شاید مجھ سے خفا ہو گئے تھے ؟ اصل بات یہ ہے کہ آپ کی پیش کش کو ٹھکرانے سے مجھے اس کے علاوہ کسی چیز نے نہیں روکا تھا کہ میں جانتا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس راز کو فاش نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ سے نکاح نہ کرتے تو میں یقینا کرلیتا ۔ صحیح البخاری :5122
حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر رضی اللہ عنہ سے شدید محبت کی دلیل ہے ۔
02.عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت
ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔ چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِفْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ )) ’’ اس کیلئے ( دروازہ ) کھولو اور اسے جنت کی بشارت دے دو ۔ ‘‘
میں نے دروازہ کھولا تو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ۔ میں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کی بشارت دی تو انھوں نے الحمد للہ کہا ( یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔ )
پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِفْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ )) ’’ اس کیلئے بھی( دروازہ ) کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دے دو ۔ ‘‘
میں نے دروازہ کھولا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے ۔ میں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کی بشارت دی تو انھوں نے بھی الحمد للہ کہا ( یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔ )
اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِفْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ عَلٰی بَلْوٰی تُصِیْبُہُ ))
’’ اس کیلئے بھی( دروازہ ) کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دے دو ۔ ( اور یہ بھی بتا دو کہ ان پر ) ایک مصیبت آئے گی ۔‘‘
میں نے دروازہ کھولا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے ۔ میں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کی بشارت دی تو انھوں نے بھی الحمد للہ کہا
( یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔ ) پھر کہا : ( اَللّٰہُ الْمُسْتَعَان ) ’’ میں اللہ تعالی سے ہی مدد
چاہتا ہوں ۔ ‘‘ صحیح البخاری :3693
اسی طرح حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا : (( ہٰذَانِ سَیِّدَا کُہُوْلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ مِنَ الْأوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ إِلَّا النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ )) جامع الترمذی : 3666 ۔ وصححہ الألبانی
’’ یہ دونوں انبیاء ورسل علیہم السلام کے علاوہ باقی تمام اول وآخر اہل جنت میں عمر رسیدہ لوگوں کے سردار ہونگے۔‘‘
03. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھا
جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نہ صرف جنت کی بشارت دی بلکہ جنت میں ان کا محل بھی دیکھا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں اور ایک عورت ایک محل کے ایک کونے میں بیٹھی وضو کر رہی ہے ، میں نے پوچھا : یہ محل کس کا ہے ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا : یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت کو یاد کرکے میں وہاں سے چلا گیا۔ ‘‘ صحیح البخاری :3680،صحیح مسلم :2395
اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے سونے کا ایک محل دیکھا ۔ میں نے پوچھا : یہ کس کا ہے؟ انھوں نے کہا : یہ قریش کے ایک شخص کا ہے ۔ تو میں نے گمان کیا کہ شاید وہ میں ہوں اس لئے میں نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے ابن الخطاب ! مجھے اس میں داخل ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی سوائے اس کے کہ میں تمھاری غیرت کو جانتا تھا ۔ ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا ؟ صحیح البخاری:5226 و7024، صحیح مسلم :239
04. شیطان بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دور بھاگتا تھا
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش کی کچھ خواتین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی آپ سے بآواز بلند
گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ آپ ہماری ضرورتیں پوری کریں اور ہمیں زیادہ نان ونفقہ دیں ۔ اسی دوران عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی ۔ چنانچہ خواتین اٹھیں اور جلدی جلدی پردہ کرنے لگیں ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دی ۔ وہ اندر آئے تو دیکھا رسول اللہ رضی اللہ عنہ ہنس رہے ہیں ۔ تو انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ( أَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ ) ’’ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے تعجب ان عورتوں پر ہے جو میرے پاس بیٹھی تھیں ، آپ کی آواز سنی تو جلدی جلدی پردہ کرنے لگیں ۔ ‘‘ تو انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! انھیں مجھ سے زیادہ آپ سے ڈرنا چاہئے تھا ۔ پھر انھوں نے خواتین کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’ اپنی جانوں کی دشمنو ! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ؟ ‘‘
تو انھوں نے کہا : ہاں ، اس لئے کہ آپ بہت تند مزاج اور سنگدل ہیں ۔
تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ! وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجاًّ قَطُّ إِلَّا سَلَکَ فَجاًّ غَیْرَ فَجِّکَ)) صحیح البخاری :3683 ، صحیح مسلم : 2396 واللفظ لہ
’’ اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ شیطان جب آپ کو کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بھی آپ کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلا جاتا ہے ۔‘‘
ایک اور حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے بچوں کا شور شرابہ سنا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دیکھا کہ ایک بچی رقص کررہی تھی اور چھوٹے چھوٹے بچے اس کے ارد گرد تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا ، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد عمر رضی اللہ عنہ ظاہر ہوئے ۔ تو وہ سارے اِدھر اُدھر بھاگ گئے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنِّیْ لَأنْظُرُ إِلٰی شَیَاطِیْنِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوْا مِنْ عُمَرَ)) جامع الترمذی :3691 ۔ وصححہ الألبانی
’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ انسانوں اور جنوں میں سے شیاطین عمر رضی اللہ عنہ سے دور بھاگ گئے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ سے واپس لوٹے تو آپ کے پاس ایک کالے رنگ کی لڑکی آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالی نے آپ کو صحیح سالم واپس لوٹا دیا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور اشعار پڑھوں گی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے واقعتا نذر مانی تھی تو دف بجا لو ، ورنہ نہیں ۔
چنانچہ وہ دف بجانے لگی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ۔پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف بجاتی رہی ۔ پھرعلی رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف بجاتی رہی ۔پھر عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف بجاتی رہی ۔پھرعمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تواس نے دف کو نیچے پھینکا اور اس پر بیٹھ گئی ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الشَّیْطَانَ لَیَخَافُ مِنْکَ یَا عُمَرُ ))
’’ عمر ! یقینا شیطان بھی آپ سے ڈرتا ہے ۔ ‘‘ جامع الترمذی : 3690 ۔ وصححہ الألبانی
05. حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَقَدْ کَانَ فِیْمَا قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُوْنَ ، فَإِن یَّکُ فِیْ أُمَّتِیْ أَحَدٌ فَإِنَّہُ عُمَرُ ))
’’ تم سے پہلی امتوں میں کئی لوگ ایسے تھے جنھیں الہام کیا جاتا تھا۔ اور اگر کوئی شخص میری امت میں یقینی طور پر ایسا ہو سکتاہے تو وہ عمر ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 3689، صحیح مسلم :2398
الہام سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کی زبان پر درست اور برحق بات کو جاری کردیتا ۔ اِس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے ، جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہٖ )) جامع الترمذی : 3682 ۔ وصححہ الألبانی
’’ بے شک اللہ تعالی نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو رکھ دیا ہے ۔ ‘‘
ابن عمر رضی اللہ عنہ مزید کہتے ہیں : ( مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ ، فَقَالُوْا فِیْہِ ، وَقَالَ فِیْہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، إِلَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مِمَّا قَالَ عُمَرُ ) احمد فی المسند:5697 وصححہ الأرنؤوط
’’ جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں ان کی آراء مختلف ہوتیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن مجید انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔ ‘‘
اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
( وَافَقْتُ رَبِّیْ فِیْ ثَلَاثٍ ) ’’ میں نے تین مسئلوں میں اپنے رب سے موافقت کی ۔ ‘‘
01. میں نے کہا :یا رسول اللہ ! کاش ہم مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لیں !
تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کردی : ﴿وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی﴾
’’ اور تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو ۔ ‘‘
02. اور میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کاش آپ اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں ، کیونکہ ان سے اچھا آدمی بھی گفتگو کرتا ہے اور برا بھی ۔ تو اللہ تعالی نے پردہ والی آیت نازل کردی ۔
یعنی یہ آیت﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ﴾ الأحزاب33 :53
03. اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی (بعض) بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیرت کھاتے ہوئے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا تھا تو میں نے ان سے کہا : ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب تمھیں طلاق دے دے اور ان کی شادی تم سے بہتر خواتین سے کر دے ۔ تو اللہ تعالی نے بالکل انہی الفاظ میں یہ آیت نازل کردی :
﴿عَسٰی رَبُّہٗٓ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ ﴾ صحیح البخاری :402
04.صحیح مسلم کی روایت میں تیسرا مسئلہ بدر کے قیدیوں کا ہے ۔ صحیح مسلم :2399
جس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ بدر کے دن جب اللہ تعالی نے مشرکوں کو شکست دی اور ان میں سے ستر افراد مارے گئے اور ستر افراد کو قیدی بنا لیا گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے بارے میں ابو بکرو عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ طلب کیا اور فرمایا : (( مَا تَرَوْنَ فِیْ ہٰؤُلَائِ الْأسْرَی؟)) ’’ ان قیدیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ ‘‘
تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ ہمارے چچا زاد اور قبیلے کے لوگ ہیں ، آپ ان سے فدیہ لے لیں جس سے ہمیں ان کافروں پر طاقت حاصل ہوجائے گی ( یعنی اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کرنے میں ہمیں کافی مدد ملے گی ) اور شاید اللہ تعالی انھیں اسلام قبول کرنے کیلئے ہدایت دے دے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مَا تَرَی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ؟) ’’ ابن خطاب ! آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘
تو میں نے کہا : اللہ کی قسم ! میری رائے وہ نہیں جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ آپ ہمیں اجازت دیں ، ہم ان کی گردنیں اتار دیں ۔عقیل کو علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیں ، وہ اس کی گردن اڑا دیں ، میرے فلاں قریبی رشتہ دار کو میرے حوالے کردیں ، میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ کیونکہ یہ کفر کے سرغنے اور کافروں کے
سردار ہیں ۔ ( یعنی یہ آزاد ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اور زیادہ سازشیں کریں گے )
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا اور میری رائے کو پسند نہ کیا ۔ میں ایک دن بعد آیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے ، آپ اور آپ کے ساتھی ( ابو بکر ) کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر مجھے رونا آگیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر رونا نہ آیا تو پھر بھی آپ دونوں کے رونے کی بناء پر رونے کی کوشش کروں گا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس لئے رو رہا ہوں کہ تمھارے ساتھیوں نے فدیہ قبول کرنے کا مشورہ دیا ( اور میں نے وہ مشورہ قبول کرلیا ) جبکہ ان سب کا عذاب ( قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) اس درخت سے بھی زیادہ قریب تک پیش کیا گیا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کی ہیں:
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ٭ لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ الأنفال8 :67۔68 ،صحیح مسلم : 1763
’’نبی کیلئے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس کے پاس جنگی قیدی آئے حتی کہ وہ (انھیں )زمین میں اچھی طرح قتل کرکے (کفر کی طاقت کو توڑ دیتا ) ، تم دنیا کا مال چاہتے ہو جبکہ اللہ ( تمھارے لئے ) آخرت چاہتا ہے ۔ اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے ۔ اگر ایسا ہونا پہلے سے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو تم نے ( فدیہ ) لیا اس پر تمھیں بہت بڑی سزا دی جاتی ۔ ‘‘
05. عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی بن سلول مرا تو اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے آپ کے کُرتے کا مطالبہ کیا جسے وہ اپنے باپ کا کفن بنانا چاہتے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنا کرتہ دے دیا ۔پھر انھوں نے کہا کہ آپ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے ، لیکن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام کر کہا :
یا رسول اللہ ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے آپ کو منع کیا ہے !
ایک روایت میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے جا رہے ہیں جبکہ اس نے فلاں دن یوں کہا تھا ، فلاں دن یوں کہا تھا ۔۔۔۔اس کی کئی باتیں ذکر کیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا :
((أَخِّرْ عَنِّیْ یَا عُمَر )) ’’ عمر ! پیچھے ہٹو ۔ ‘‘
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((خَیَّرَنِی اللّٰہُ فَقَالَ : ﴿ اِسْتَغْفِرْلَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ﴾ ’’مجھے اللہ تعالی نے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کیلئے استغفار کریں یا ان کیلئے استغفار نہ کریں ۔ اگر آپ ان کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالی انھیں ہرگز نہیں بخشے گا ۔ ‘‘
( وَسَأَزِیْدُ عَلٰی سَبْعِیْنَ ) ’’ اور میں ستر سے بھی زیادہ مرتبہ اس کیلئے بخشش مانگوں گا ۔ ‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( وَلَوْ أَعْلَمُ أَنِّیْ إِنْ زِدتُّ عَلَی السَّبْعِیْنَ یُغْفَرُ لَہُ لَزِدتُّ عَلَیْہَا )
’’ اگر مجھے علم ہوتا کہ ستر سے زیادہ مرتبہ اس کیلئے دعائے مغفرت کے نتیجے میں اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ضرور ایسا کر گزرتا ۔ ‘‘
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ تو منافق تھا !
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی ۔ پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کردی :
﴿ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ﴾ التوبۃ9 :84
’’ ان ( منافقوں ) میں سے کوئی مر جائے تو آپ نہ اس کی نماز جنازہ پڑھنا اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔ ‘‘ صحیح البخاری :4393،4394،4395، وصحیح مسلم :2400
یہ چند واقعات تھے جن میں جناب عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق اللہ رب العزت کی طرف سے وحی نازل ہوئی ۔ان مسائل کو موافقاتِ عمر کہا جاتا ہے ۔
06. اسی طرح حرمت ِ خمر کے بارے میں بھی اللہ تعالی نے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق اس کی واضح تحریم نازل فرمائی ۔ مسند أحمد :378، جامع الترمذی :3049۔صححہ الألبانی
07. اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں نماز کیلئے لوگوں کو بلانے کے طریقۂ کار کے بارے میں جب مختلف آراء سامنے آئیں تو عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا تھا کہ نماز کیلئے اذان کہی جائے ۔ پھر اذان کے الفاظ انھیں اور اسی طرح عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں بتلائے گئے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اذان کہیں ۔ صحیح مسلم :377، جامع الترمذی :189
ان تمام واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جناب عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر برحق اور درست بات کو جاری کردیا تھا ۔ اور وہ جو بات کرتے تھے اللہ تعالی بھی اسی کی تائید فرماتا تھا۔
06. سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فتنوں کے سامنے ایک مضبوط دروازہ تھے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ انھوں نے فرمایا :
( أَیُّکُمْ یَحْفَظُ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِی الْفِتْنَۃِ ؟ )
’’ تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہو ؟‘‘
تو میں نے کہا : میں ۔
انھوں نے فرمایا : ( إِنَّکَ لَجَرِیٔ ) ’’تم بہت جراتمند ہو ۔‘‘
تو میں نے کہا : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے :
(( فِتْنَۃُ الرَّجُلِ فِیْ أَہْلِہٖ وَوَلَدِہٖ وَجَارِہٖ تُکَفِّرُہَا الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالصَّدَقَۃُ وَالْأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ ))
’’ آدمی اپنے گھر والوں ، اپنی اولاد اور اپنے پڑوسیوں کی وجہ سے جس فتنے سے دوچار ہوتا ہے اسے نماز ، روزہ ، صدقہ ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا جیسے اعمال مٹا دیتے ہیں ۔ ‘‘
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فتنے سے میری مراد یہ نہیں تھی ۔ بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا آئے گا ۔
تو میں نے کہا : امیر المؤمنین ! آپ کا اس فتنے سے کیا تعلق ؟ آپ اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔
انھوں نے فرمایا : کیا اس دروازے کو ( زبردستی ) توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟
تو میں نے کہا : اسے توڑا جائے گا ۔
تو انھوں نے فرمایا : تب تو اسے دوبارہ بند نہیں کیا جا سکے گا ۔
ہم نے کہا : حذیفہ ! کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے ؟
تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں ، انھیں اس بات پر اتنا یقین تھا جیسے یہ یقینی ہے کہ کل سے پہلے رات آئے گی۔ صحیح البخاری :3586
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فتنوں کے سامنے بند دروازہ تھے ۔ اِس دروازے کو زبردستی توڑا گیا اور حملہ کرکے آپ کو شہید کیا گیا ۔ اس کے بعد امت مسلمہ پر متعدد فتنے امڈ آئے ۔ چنانچہ فرق ِ باطلہ اور متعدد
بدعات کا ظہور آپ کی شہادت کے بعد ہوا ۔ منافقین آپ کی زندگی میں چھپے ہوئے تھے ۔ لیکن جیسے ہی آپ کو شہید کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی منافق سانپوں کی طرح اپنی بِلوں سے نکل آئے اور زہر پھیلانے لگے ۔
زید بن وہب کہتے ہیں کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ۔ انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یاد کیا تو رو دیئے ۔ اور اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں بھیگ گئیں ۔پھر انھوں نے فرمایا :
( إِنَّ عُمَرَ کَانَ حِصْنًا حَصِیْنًا لِلْإِسْلَامِ ، یَدْخُلُوْنَ فِیْہِ وَلَا یَخْرُجُوْنَ مِنْہُ )
’’ بے شک عمر رضی اللہ عنہ اسلام کا مضبوط قلعہ تھے ۔ لوگ اس میں داخل ہوتے تھے اور اس سے نکلتے نہیں تھے ۔ ‘‘
( فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ انْثَلَمَ الْحِصْنُ ، فَالنَّاسُ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْإِسْلَامِ )
’’ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو قلعہ میں شگاف پڑ گیا ، چنانچہ لوگ اسلام سے نکلنے لگے ہیں ۔ ‘‘ مصنف عبد الرزاق : 7/289۔ وإسنادہ صحیح
07. عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان کی تصدیق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ ایک مرتبہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا ، اسی دوران ایک بھیڑیے نے ان پر حملہ کردیا اور ایک بکری کو پکڑ لیا ۔ چنانچہ چرواہا اس کے پیچھے بھاگا حتی کہ اسے اس سے چھڑوا لیا ۔ بھیڑیے نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہنے لگا: (( مَنْ لَہَا یَوْمَ السَّبُعِ یَوْمَ لَیْسَ لَہَا رَاعٍ غَیْرِیْ ؟ ))
’’بکری کی حفاظت اُس دن کون کرے گا جب فتنے ہونگے اور میرے علاوہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہوگا؟ ‘‘
تو لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ ( بھیڑیا بھی بول سکتا ہے ) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَإِنِّیْ أُوْمِنُ بِہٖ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ )) وَمَا ثَمَّ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ
’’( اگر آپ لوگوں کو اس پر یقین نہیں آرہا ) تو مجھے اس پر یقین ہے اور ابو بکر و عمر کو بھی اس پر یقین ہے۔ ‘‘ جبکہ وہاں ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما نہیں تھے ۔ صحیح البخاری :3487
08.عمر رضی اللہ عنہ کے علم کی بشارت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ میں سویا ہوا تھا کہ اسی دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس ایک پیالہ لایا گیا ہے جس میں دودھ ہے ، میں نے اس میں سے اتنا پیا کہ میں اپنے ناخنوں میں اس کی تازگی کو دیکھنے لگا ۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کی تعبیر علم ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :82 ، صحیح مسلم :2391
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کی تعبیر علم کے ساتھ کی ، کیونکہ دودھ تمام لوگوں کیلئے مفید ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بدن کی اصلاح ہوتی ہے ۔ اسی طرح علم بھی تمام لوگوں کیلئے مفید ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دنیا وآخرت کے تمام امور سنورتے ہیں ۔
09. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرنے کا حکم دیا
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ، اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنِّیْ لَا أَدْرِیْ مَا بَقَائِیْ فِیْکُمْ ، فَاقْتَدُوْا بِالَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ )) وَأَشَارَ إِلٰی أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ جامع الترمذی :3663۔ وصححہ الألبانی
’’ مجھے نہیں معلوم کہ میں تم لوگوں میں کب تک باقی رہوں گا ، لہذا تم میرے بعد ( ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) ان دو کی اقتداء کرنا ۔ ‘‘
10. اگر نبوت کا سلسلہ چلتا تو عمر رضی اللہ عنہ نبی ہوتے
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَوْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ)) جامع الترمذی : 3686۔ وحسنہ الألبانی
’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔ ‘‘
سامعین کرام ! ہم نے عمر رضی اللہ عنہ کے چند فضائل ومناقب ذکر کئے ہیں ، جن سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ موصوف کس قدر عظیم الشان تھے اور ان کا مقام ومرتبہ کس قدر بلند تھا ۔ اللہ تعالی ہمیں ان کے مرتبے کو پہچاننے اور ان سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔
آئیے اب سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی کے کچھ عملی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی کے چند عملی پہلو
01. عمر رضی اللہ عنہ دین میں بہت مضبوط تھے اور اللہ کی کتاب پر سختی سے عمل کرنے والے تھے ۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((أَرْحَمُ أُمَّتِیْ بِأُمَّتِیْ أَبُوْ بَکْرٍ ، وَأَشَدُّہُمْ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ عُمَرُ ))
’’ میری امت میں سے میری امت کیلئے سب سے زیادہ رحم دل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ان میں سب سے زیادہ مضبوط دین والے عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ‘‘ جامع الترمذی : 3790، سنن ابن ماجہ :154واللفظ لہ۔ وصححہ الألبانی
اورابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’میں سویا ہوا تھا کہ اسی دوران میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا جو مجھے پیش کئے جا رہے تھے اور ان پر کُرتے تھے ، کسی کا کرتہ سینے تک تھا ( یعنی بہت ہی چھوٹا کرتہ جو گلے سے بس سینے تک ہی پہنچتا ) اور کسی کا اس سے نیچے تک ۔ اور عمر رضی اللہ عنہ بھی پیش کئے گئے جن پر اتنا لمبا کرتہ تھا کہ وہ اسے گھسیٹ رہے تھے ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس کی تعبیر دین ہے ۔‘‘ صحیح البخاری : 23 ، صحیح مسلم :2390
اور اس سے مراد یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے خوبصورت دینی اثرات اور ان کے بہترین طریقے ان کی وفات کے بعد بھی مسلمانوں میں جاری رہیں گے اور ان کی اقتداء کی جائے گی ۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حُرّ بن قیس رضی اللہ عنہ نے عیینہ بن حصن کیلئے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ان کے پاس آنے کی اجازت طلب کی ، تو انھوں نے اجازت دے دی ۔ چنانچہ جب وہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہنے لگے : ابن الخطاب ! آپ ہمیں زیادہ مال نہیں دیتے اور نہ ہی ہمارے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں ! یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کو شدید غصہ آیا حتی کہ انھوں نے اسے سزا دینے کا ارادہ کرلیا تھا ۔ تو حُرّ بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المؤمنین ! اللہ تعالی کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے حکم ہے کہ
﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ﴾ الأعراف7 :199
’’ در گزر کرنے کا رویہ اختیار کیجئے ، معروف کاموں کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے ۔ ‘‘
اور یہ ( عیینہ بن حصن ) بھی جاہلوں میں سے ایک ہے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
( وَاللّٰہِ مَا جَاوَزَہَا عُمَرُ حِیْنَ تَلَاہَا عَلَیْہِ ، وَکَانَ وَقَّافًا عِنْدَ کِتَابِ اللّٰہِ )
’’ اللہ کی قسم ! عمر رضی اللہ عنہ پر جب انھوں نے اس آیت کی تلاوت کی تو وہ اس سے آگے نہیں بڑھے اور آپ
اللہ کی کتاب پر سختی سے عمل پیرا تھے ۔ ‘‘ صحیح البخاری:4642
02. عمر رضی اللہ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
جناب عمر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت تھی ۔
عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔ اسی دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ إِلاَّ مِنْ نَّفْسِیْ )
’’ اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ( دنیا کی ) ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، ہاں البتہ میری جان سے زیادہ محبوب نہیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ ، حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ))
’’ نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہاں تک کہ میں تمھیں تمھاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو جاؤں ۔‘‘
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ( فَأنِّہُ الْآنَ وَاللّٰہ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ )’’ اب اللہ کی قسم ! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ ‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اَلْآنَ یَا عُمَرُ) ’’ اے عمر ! اب بات بنی ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری:6632
03. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری
جناب عمر رضی اللہ عنہ کو چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی ، اس لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق دل سے اطاعت وفرمانبرداری کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دیتے تھے ۔
01. حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَنْہَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ ))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپوں کی قسم اٹھاؤ ۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرکے فرماتے ہیں :
فَوَاللّٰہِ مَا حَلَفْتُ بِہَا مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم نَہٰی عَنْہَا ذَاکِرًا وَلاَ آثِرًا ۔
یعنی میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ آپ نے اس سے منع کر دیا ہے ، تب سے میں نے کبھی
ایسی قسم نہیں اٹھائی، نہ اپنی طرف سے اور نہ کسی کی طرف سے نقل کرتے ہوئے۔ صحیح البخاری :6647،صحیح مسلم :1646
02. عبد اللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے اور جب آپ ’سرغ‘ مقام پر پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ چنانچہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
(( إِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِنْہُ))
’’ جب تم وبا کے بارے میں سنو کہ وہ کسی ملک میں پھیل چکی ہے تو اس میں مت جاؤ ۔اور جب تم کسی ملک میں موجود ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے مت نکلو ۔ ‘‘
یہ حدیث سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ’ سرغ ‘ سے ہی واپس لوٹ آئے ۔ صحیح البخاری :5730،6973 ، صحیح مسلم :2219
03. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حجر اسود کا بوسہ لیا تو فرمایا :
( أَمَا وَاللّٰہِ ، إِنِّیْ لَأعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْ لاَ أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ) ’’ خبر دار ! مجھے معلوم ہے کہ تم ایک پتھر ہو اور تم نہ نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ نفع ۔ اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارا بوسہ لیا ہے تو میں کبھی تمہارا بوسہ نہ لیتا ۔ ‘‘
پھر فرمانے لگے : (( مَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ ، إِنَّمَا کُنَّا رَائَ یْنَا الْمُشْرِکِیْنَ ، وَقَدْ أَہْلَکَہُمُ اللّٰہُ ، ثُمَّ قَالَ : شَیْئٌ صَنَعَہُ رَسُوْلُ اللّٰہُ صلي الله عليه وسلم فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَتْرُکَہُ ))
یعنی ’’ اب ہم رمل کیوں کریں ! وہ تو در اصل ہم مشرکین کے سامنے ( اپنی طاقت ) کے اظہار کیلئے ہی کرتے تھے اور اب تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا ہے ! پھر کہنے لگے : جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ، ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ اسے چھوڑ دیں ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 1605، صحیح مسلم :1270
04. انفاق فی سبیل اللہ :
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے اُس دن میرے پاس مال موجود تھا ۔ میں نے دل میں کہا : آج ابو بکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جانے کا بہترین موقع ہے ، لہذا میں اپنا آدھا مال لے آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (( مَا أَبْقَیْتَ لِأَہْلِکَ ؟ )) ’’ اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ ‘‘
میں نے کہا : ( مِثْلَہُ ) جتنا مال آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اتنا ہی گھر والوں کیلئے چھوڑ آیا ہوں ۔
پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا پورا مال لے آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا ۔
آپ نے پوچھا :(( مَا أَبْقَیْتَ لِأَہْلِکَ ؟ ))’’ اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ ‘‘
تو انھوں نے کہا 🙁 أَبْقَیْتُ لَہُمُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ )
میں ان کیلئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آیا ہوں۔
تب میں نے کہا 🙁 لَا أُسَابِقُکَ إِلٰی شَیْیئٍ أَبَدًا ) میں آپ سے کسی چیز میں کبھی سبقت نہیں لے جا سکتا۔ سنن أبی داؤد : 1678۔ وحسنہ الألبانی
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں زمین ملی تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں مشورہ کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :
یا رسول اللہ ! مجھے خیبر میں زمین ملی ہے اور اس سے زیادہ عمدہ اور نفیس مال مجھے کبھی نہیں ملا ۔ تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَہَا وَتَصَدَّقْتَ بِہَا ))
’’ اگر آپ چاہیں تو اس کی ملکیت اپنے پاس رکھیں اور اس کی آمدنی صدقہ کردیں ۔ ‘‘ یعنی اسے وقف کردیں۔
چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں فیصلہ کر دیا کہ اسے بیچا نہیں جائے گا ، اسے وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا اور وہ کسی کو ہبہ بھی نہیں کی جائے گی ۔ اور اس کی آمدنی انھوں نے فقیروں ، رشتہ داروں ، غلاموں ، مسافروں اور مہمانوں کیلئے اور اللہ کے راستے ( جہاد ) میں خرچ کرنے کیلئے صدقہ کردی ۔ صحیح البخاری : 2737، صحیح مسلم :1632
یہ دونوں واقعات اس بات کے دلائل ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔
05. غزوات میں شرکت
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی اور میدان جہاد میں شجاعت وبہادری کے اعلی نمونے پیش کئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر ، غزوۂ احد ، غزوہ بنی المصطلق ، غزوۂ خندق، صلح حدیبیہ ، غزوۂ خیبر ، فتح مکہ ، جنگ حنین اور غزوۂ تبوک سمیت تمام جنگوں میں شریک ہوئے ۔ اور ان جنگوں میں
آپ رضی اللہ عنہ کے کئی واقعات کتب ِ حدیث اور کتبِ سیرت میں موجود ہیں جنھیں ہم قلت ِ وقت کے پیش نظر یہاں ذکر نہیں کر سکتے ۔
06. زہد فی الدنیا
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد اللہ تعالی نے قیصروکسری کے خزانے مسلمانوں کو عطا کردئیے ۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کا اندازِ معیشت ویسے ہی رہا جیسے خلیفہ بننے سے پہلے تھا ۔ بلکہ جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات قریب تھی تو آپ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ ان کے ذمے چھیاسی ہزارقرضہ ہے جو انھیں ان کی طرف سے ادا کرنا ہے ۔
آپ اندازہ لگائیں کہ مسلمانوں کا خلیفہ ، وسیع وعریض اسلامی مملکت کا حکمران موت کے وقت مقروض ہے !
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو قیصر وکسری کے قیمتی خزانوں نے ذرا بھی متاثر نہ کیا ۔ دنیا کے مال ومتاع نے آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے فتنے میں مبتلا نہ کیا ، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے اللہ رب العزت کو پیارے ہو گئے ۔
بیت المال سے اپنے اور اپنے اہل وعیال کیلئے کچھ مال لینے کے بارے میں ان کا موقف یہ تھا کہ آپ فرماتے تھے :
’’ اللہ کے مال میں میری حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ایک یتیم کے سرپرست کی ہوتی ہے ۔ جس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾
’’ اور جو مالدار ہو وہ ( یتیم کے مال سے ) کچھ نہ لے ۔ اور جو محتاج ہو وہ عرف کے مطابق کھا سکتا ہے ۔ ‘‘
چنانچہ میں جب مالدار ہوتا ہوں تو بیت المال سے کچھ بھی نہیں لیتا اور اگر محتاج ہوتاہوں تو عرف کے مطابق کھا لیتا ہوں لیکن جب اللہ تعالی آسانی کر دیتا ہے تو واپس لوٹا دیتا ہوں ۔ ‘‘ طبقات ابن سعد : 3/276وسندہ صحیح
اسی طرح آپ نے فرمایا :
’’ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ میں بیت المال سے کتنا لیتا ہوں ۔ سال بھر میں دو مرتبہ کپڑے لیتا ہوں ، ایک مرتبہ سردی میں اور دوسری مرتبہ گرمی میں ۔ اور سواری صرف حج وعمرہ کیلئے لیتا ہوں ۔ اور میری اور میرے گھر والوں کی خوراک ویسے ہی ہے جیسے قریش کے ایک متوسط آدمی کی ہوتی ہے ۔ پھر تم لوگ یہ بھی یاد رکھو کہ میں بھی
مسلمانوں میں سے ایک ہوں ، جو آزمائشیں ان پر آتی ہیں وہ مجھ پر بھی آتی ہیں ۔ ‘‘ طبقات ابن سعد : 3/275وسندہ صحیح
محترم سامعین ! یہ چند پہلو تھے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی عملی زندگی کے ، جنھیں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھی ان کی اقتداء کریں ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
محترم بھائیو اور بزرگو ! سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت طیبہ کا ایک باب ان کے دورِ خلافت سے متعلق ہے ۔ جو ایک مستقل موضوع ہے اور اس کیلئے ایک خطبہ نہیں بلکہ کئی خطبے درکار ہیں ۔ لیکن ہم یہاں اِس باب کو چند اہم نکات میں بیان کرتے ہیں ۔
خلیفۂ دوم : امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کے کارناموں کا مختصر تذکرہ
01. بطور ِ خلیفہ نامزدگی
خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے قبل سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ المسلمین نامزد کردیا تھا ۔ اور یہ اس امت کے سب سے افضل انسان حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی فراست کی دلیل ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے بعد اگر کوئی شخص منصب ِ خلافت پر فائز ہونے کا سب سے زیادہ اہل ہے تو وہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ انسان جب قریب المرگ ہوتا ہے تو اس وقت اسے اللہ تعالی کا زیادہ خوف ہوتا ہے ، چنانچہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اللہ تعالی کو ناراض کرنے والا ہو ۔ لہذا جناب ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے آپ کو اللہ تعالی کے ہاں بریء الذمہ کرنے کیلئے اپنی موت سے پہلے اُس شخص کو اپنا جانشین مقرر فرمایا جو ان کے بعد اِس امت کا سب سے افضل انسان تھا ۔ اور خلافت کیلئے سب سے زیادہ مضبوط اور سب سے زیادہ پرہیزگار اور امانتدار تھا ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ پر موت کا وقت آیا تو انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کردیا ۔ پھر آپ کے پاس علی اور طلحہ ( رضی اللہ عنہما ) آئے تو انھوں نے پوچھا : آپ نے کس کو خلیفہ مقرر کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا : عمر رضی اللہ عنہ کو ۔ تو ان دونوں نے کہا : ( وہ تو انتہائی سخت مزاج ہیں لہذا ) آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے ؟ انھوں نے کہا : کیا تم مجھے اللہ تعالی سے ڈراتے ہو ! میں تم سے زیادہ عمر رضی اللہ عنہ کو جانتا ہوں ۔ میں کہوں گا : اللہ ! میں نے مسلمانوں کا خلیفہ اس شخص کو نامزد کیا جو مکہ والوں میں سب سے بہتر تھا ۔ إرواء الغلیل للألبانی : 6/80
چنانچہ پوری امت نے عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق کیا اور انھیں خلیفۂ اول کا جانشین تسلیم کرتے ہوئے ان کی بیعت کی ۔
02. رعایا کی فلاح وبہبود
امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ رعایا کی فلاح وبہبود کا بہت خیال رکھتے تھے ۔
٭ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے آپ نے فرمایا تھا :
(( لَئِنْ سَلَّمَنِی اللّٰہُ لَأَدَعَنَّ أَرَامِلَ الْعِرَاقِ لاَ یَحْتَجْنَ إِلٰی رَجُلٍ بَعْدِیْ ))
’’ اگراللہ تعالی نے مجھے صحیح سالم رکھا تو میں عراق کی بیواؤں کو اِس طرح چھوڑ کر جاؤں گا کہ وہ میرے بعد کسی آدمی کی محتاج نہیں رہیں گی ۔ ‘‘ صحیح البخاری :3497
اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کیلئے کس قدر فکرمند رہتے تھے!
٭ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک نوجوان عورت آپ سے ملی اور کہنے لگی : امیر المؤمنین ! میرا خاوند فوت ہو چکا ہے اور اس نے اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ہیں ۔ اللہ کی قسم ! انکے پاس پائے بھی نہیں کہ جنھیں وہ پکا کر کھا لیں ۔ اور نہ ان کے پاس دودھ دینے والا کوئی جانور ہے اور نہ ہی کھیتی ہے۔اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک ہی نہ ہوجائیں ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ واپس لوٹے ، ایک اونٹ جو بہت ہی مضبوط پیٹھ والا تھا ، گھر میں بندھا ہوا تھا ، آپ رضی اللہ عنہ نے اس پر دو بورے رکھے اور ان میں غلہ بھر دیا ، پھر ان دونوں کے درمیان کچھ اور سامان اور کپڑے رکھ دئیے ۔ پھر اس اونٹ کی نکیل اس عورت کے ہاتھ میں پکڑائی اور فرمایا : لے جاؤ اِسے ، اِس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالی تمھیں اور مال عطا کردے گا ۔ صحیح البخاری : 3928
٭ انسان تو انسان آپ رضی اللہ عنہ جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :
( لَوْ مَاتَ جَدْیٌ بِطفِّ الْفُرَاتِ لَخَشِیْتُ أَن یُّحَاسِبَ اللّٰہُ بِہٖ عُمَرَ )
’’ اگر ایک بکری کا بچہ فرات کے کنارے پر مر جائے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالی عمر سے اس کا حساب نہ لے لے ۔ ‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ : 13/277، طبقات ابن سعد :3/305۔ وہو حسن لغیرہ
03. رحم دل افسروں کی تعیین
ابو عثمان النہدی بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بنو اسد کے ایک آدمی کو کسی اہم کام کا ذمہ دار مقرر کیا ۔ چنانچہ وہ آپ رضی اللہ عنہ کو سلام کہنے کیلئے آیا ۔ اسی دوران عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کوئی بچہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کا بوسہ لیا ۔ تو اُس آدمی نے کہا : امیر المؤمنین ! آپ بھی بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ! جبکہ میں نے تو کبھی اپنے کسی بچے کا بوسہ نہیں لیا ۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تب تو تم لوگوں کیلئے بھی رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کرو گے ، جاؤ میں تم سے کبھی کوئی کام نہیں لے سکتا ۔ البخاری فی الأدب المفرد : ص 64۔ وصححہ الألبانی
اسی طرح ابو فراس النہدی بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا :
’’ خبر دار ! میں تمھاری طرف اپنے افسروں کو اس لئے نہیں بھیجتا کہ وہ تمھاری جِلدوں پر ماریں ، یا تمھارے مالوں پر قبضہ کرلیں ، بلکہ میں انھیں اس لئے بھیجتا ہوں کہ وہ تمھیں تمھارا دین سکھلائیں ، لہذا اگروہ کسی شخص کے ساتھ اِس کے علاوہ کوئی اور سلوک کرے تو وہ مجھ تک اپنی بات پہنچائے ، اللہ کی قسم ! میں اُس سے ضرور بدلہ لوں گا۔‘‘ مسند أحمد:1/279 وحسنہ أحمد شاکر
04. تعلیم وتربیت کا اہتمام
السائب ین یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا کہ مجھے کسی آدمی نے کنکری ماری ، میں نے دیکھا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے ، انھوں نے کہا : یہ جو دو آدمی ہیں نا ، انھیں میرے پاس لے آؤ ۔
میں انھیں لے کر آیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : تم کن میں سے ہو اور کہاں سے ہو ؟
انھوں نے کہا : اہل طائف میں سے ۔
تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر تم اسی شہر سے ہوتے تو میں تمھیں سزا دیتا ، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں اونچی کرتے ہو ؟ صحیح البخاری :458
05. فاروقی دور کی فتوحات
سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو اُن دنوں مسلمانوں کی فوج جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ’یرموک ‘ کے مقام پر رومیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہی تھی ۔ اِس سے پہلے عراق کے بیشتر علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا ۔ ’جنگ یرموک ‘ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا اور رومی شکست فاش سے دوچار ہوئے ۔
جب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے زمامِ خلافت سنبھالی تو آپ نے سب سے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اسلامی فوج کی قیادت سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ پر ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا نیا سپہ سالار مقرر کردیا ۔ اس کے بعد ملک ِ شام میں جو معارک ہوئے اور مسلمانوں کو جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ مختصراً یوں ہیں :
٭ ۱۳ ھ میں معرکۂ فِحْل ہوا جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔
٭ ۱۴ ھ میں دمشق فتح ہوا ۔
٭اس کے بعدمسلمانوں کی فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ ایک حصہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شمال (سوریہ ) کی جانب بڑھا ۔ اور دوسرا حصہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جنوب (اردن)کی جانب پیش قدمی کرنے لگا ۔چنانچہ ملک ِ شام کے باقی علاقے ( سوریہ اور اردن ) پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ ان پے در پے فتوحات کے نتیجے میں رومی بادشاہ ( ہرقل ) شدید مایوس ہوا اور اسے ذلیل وخوار ہو کر ملک ِ شام کو الوداع کہنا پڑا ۔
٭ ۱۵ ھ میں بیت المقدس فتح ہوا ۔جو رومیوں کا ایک مضبوط قلعہ تھا ۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے ساتھ طویل عرصے تک اس کا محاصرہ کئے رکھا ۔ آخر کار اہل بیت المقدس اِس شرط پر صلح پر آمادہ ہوئے کہ امیر المؤمنین خود بیت المقدس آئیں ۔ چنانچہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس گئے ۔ جہاں رومیوں کے ساتھ صلح نامے پر اتفاق کیا گیا ۔ جس کی رُو سے اہل بیت المقدس کو ان کی جانوں ، ان کے مالوں اور عبادت خانوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ۔پھر عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس میں داخل ہوئے ، نماز ادا کی اور اس میں مصلی تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔ جو آج بھی مسجد اقصی کے احاطے میں ’’ مصلی عمر بن الخطاب ‘ کے نام سے موجود ہے ۔
یوں پورے بلاد ِ شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ۔
ملک ِ مصر اور لیبیا پر چڑھائی
٭ فتحِ بیت المقدس کے بعد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی اجازت سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج کے ساتھ مصر کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اور عریش ، عین شمس ، فسطاط اور صعید کو فتح کرتے ہوئے اسکندریہ تک جا پہنچے جو اُس وقت مصریوں کا دار الحکومت تھا ۔عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کا کئی مہینوں تک محاصرہ کئے رکھا ۔ آخر کار ’مقوقس ‘ جزیہ دینے کی شرط پر صلح کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ اِس طرح متعدد معرکوں کے بعد ۲۱ ھ میں ملک ِ مصر
بھی مسلمانوں نے فتح کر لیا ۔اس کے بعد ۲۲ ھ میں مسلم فوج نے طرابلس پر بھی اسلامی جھنڈے گاڑھ دئیے۔
ملک فارس کی فتوحات
جنگ یرموک میں فتح کے بعد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جہاں اسلامی فوج کے ایک حصے کو بلاد شام کو مکمل طور پر فتح کرنے کا حکم دیا ، وہاں اسلامی فوج کے دوسرے حصے کو بلادِ فارس کی طرف بھی پیش قدمی کرنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ بلادِ فارس میں اسلامی فوج کو جو فتوحات حاصل ہوئیں ان کا مختصر تذکرہ کچھ یوں ہے :
٭ ۱۳ ھ میں معرکۃ الجسرہوا جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔
٭ پھر اسی سال رمضان کے مہینے میں ( البویب ) کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں نے معرکۃ الجسر کا بدلہ لیا اور فتح حاصل کی ۔ اِس معرکہ میں مسلمانوں کے قائد مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ۔
٭ ۱۴ ھ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ’ قادسیہ ‘ کی مشہور جنگ ہوئی ۔ جس میں مسلمانوں نے شجاعت وبہادری کے عظیم نمونے پیش کئے ۔ کئی دن کی مسلسل لڑائی کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی ۔ جس سے ’ مدائن ‘ کی فتح کا راستہ ہموار ہوا ۔
٭ ۱۶ ھ میں ’ مدائن ‘ فتح ہوا ۔ جہاں کسری کے محلات تھے اور ان میں اس کے خزانے بھی تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق اللہ تعالی نے کسری کے بیش بہا خزانے مسلمانوں کے قدموں تلے بچھا دئیے ۔
٭پھر ۱۶ ھ میں ہی ’ معرکۂ جلولا ‘ ہوا ۔ اور اس میں بھی مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔
٭ اس کے بعد ’ تکریت ‘ اور ’ موصل ‘ بھی فتح ہوگئے ۔ یوں ’ دجلہ ‘ اور ’ فرات ‘ کے درمیان واقع تمام علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ۔
٭ ۲۱ ھ میں ’ نہاوند ‘ کی مشہور جنگ ہوئی ۔ جس میں فتحیاب ہونے کے بعد مسلمانوں نے اسے ( فتح الفتوح ) قرار دیا ۔ کیونکہ اس میں مسلمانوں نے فارسیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ اور پھر فارس کے بقیہ علاقوں کو فتح کرنا آسان ہوگیا ۔ اِس جنگ میں مسلمانوں کے قائد نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ، جن کے بعد حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی قیادت سنبھال لی ۔
٭ ’ نہاوند ‘ کے بعد مسلمانوں نے ’ اصبہان ‘ پر بھی قبضہ کر لیا ۔ اس کے بعد ’ قم ‘ ، ’ قاشان ‘ اور ’ ’ کرمان ‘ کے علاقے بھی فتح کر لئے ۔ اور مسلمان اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر خونی جنگیں لڑتے ہوئے مشرق کی جانب دریائے جیحون اور سندھ تک اور جنوب کی جانب بحر ہند تک اور شمال کی جانب بحر قزوین اور ارمینیا تک جا پہنچے ۔
محترم سامعین ! جن فتوحات کا ہم نے مختصر تذکرہ کیا ہے یہ صرف نو سال کے قلیل عرصے میں مسلمانوں کو
حاصل ہوئیں ۔ جس سے دنیا آج تک حیران ہے کہ کس قدر تیزی کے ساتھ مسلمانوں نے اُس دور کی دو بڑی سلطنتوں ( روم وفارس ) کو اور پھرملک ِ مصر کو فتح کرلیا تھا ! ایسا یقینا اللہ تعالی کی توفیق سے اور پھرمسلمانوں کے عظیم جذبۂ جہاد اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی کامیاب منصوبہ بندی اور جنگی پالیسی کے نتیجے میں ممکن ہوا ۔
شہادت ِ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ِ مبارکہ میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ ( یہ سب ) احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ہلنے لگا ۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مارا اور ارشاد فرمایا :
(( أُثْبُتْ أُحُدُ ، فَمَا عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْصِدِّیْقٌ أَوْشَہِیْدَانِ)) صحیح البخاری :3686
’’ احد ! ثابت رہو (اور مت ہلو ) کیونکہ اِس وقت تمھارے اوپر نبی یا صدیق یا دو شہیدوں کے علاوہ کوئی نہیں۔ ‘‘ دو شہیدوں سے مراد عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ جبل حراء پر بھی پیش آیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ اس پہاڑ پر تھے ۔ اور وہ ہلنے لگ گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے ۔ صحیح مسلم : 2417
خودعمر رضی اللہ عنہ بھی شہادت کی دعا ان الفاظ میں کیا کرتے تھے :
( اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ ) صحیح البخاری :1890
’’ اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب کرنا اور میری موت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں کرنا ۔ ‘‘
چنانچہ اللہ رب العزت نے آپ کی دعا کو قبول کیا اور انھیں شہادت نصیب کی ۔
شہادت کا واقعہ :
عمر و بن میمون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پہلی صف میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تھے اور ان کے پیچھے دوسری صف میں میں کھڑا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ آپ صفیں درست کرتے تھے حتی کہ جب نمازیوں میں کوئی خلل نہ دیکھتے تو تکبیر کہتے ۔ اور بسا اوقات پہلی رکعت میں سورۃ یوسف یا سورۃ النحل یا ان جیسی کوئی اور سورت پڑھتے حتی کہ لوگ آپ کے پیچھے پہنچ جاتے ۔
تو ہوا یوں کہ آپ نے ابھی تکبیر ہی کہی تھی کہ کوئی شخص عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوا اور میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے
ہوئے سنا : ’’ مجھے کتے نے مارڈالا ہے ۔ ‘‘ یا کہا : ’’ مجھے کتا کھا گیا ہے ۔ ‘‘
پھر عِلج ( عجمی کافر جو بہت سخت جان تھا اور اس کا نام ابو لؤلوہ تھا) اپنی دو دھاری چھری کے ساتھ دائیں بائیں حملے کرنے لگا اور جو بھی اس کے سامنے آیا اس نے اسے نہیں چھوڑا۔ حتی کہ اس نے تیرہ افراد کو نشانہ بنایا جن میں سے سات شہید ہوگئے ۔ پھر مسلمانوں میں سے ایک شخص نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اس نے اس کے اوپر ایک طویل سی ٹوپی ڈال دی ( جس سے وہ کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا ۔ ویسے بھی رات کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔)
اسے جب یقین ہوگیا کہ وہ پکڑا گیا ہے تو اس نے خودکشی کرلی ۔
عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اپنی جگہ پہ کھڑا کردیا تاکہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔
جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھے وہ ‘وہ سب کچھ دیکھ رہے تھے جو میں دیکھ رہا تھا ۔ لیکن جو لوگ مسجد کے کناروں میں تھے تو انھیں کچھ پتہ نہ چلا ، ہاں جب انھیں عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنائی نہ دی تو وہ ’ سبحان اللہ ‘ کہنے لگے۔ اس کے بعد عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انھیں انتہائی مختصر سی نماز پڑھائی ( ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے سورۃ الکوثر اور سورۃ النصر پڑھیں ) ۔ چنانچہ جب سب لوگ نماز سے فارغ ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : دیکھو ، مجھ پر حملہ آور کون تھا ؟ وہ گئے اور کچھ دیر کے بعد واپس لوٹے تو کہا : وہ مغیرہ کا غلام ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اچھا ! وہ جو کاریگر ہے ؟ ( یہ ایک نجار تھا ) ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : جی ہاں ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ اسے غارت کرے ، میں نے تو اس کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا تھا ، اُس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اُس شخص کے ہاتھوں نہیں مارا جو اسلام کا دعویدار ہو ۔ تم اور تمھارے والد پسند کرتے تھے کہ مدینہ میں عجمی غلام زیادہ تعداد میں رہیں ۔ العباس رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ غلاموں کے مالک تھے ۔ تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر آپ چاہیں تو ہم انھیں قتل کردیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :نہیں ، اب جبکہ وہ تمھاری زبان بولتے ہیں ، تمھارے قبلے کی طرف نماز بھی پڑھتے ہیں اور تمھاری طرح حج بھی کرتے ہیں!
پھر عمر رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر ان کے گھر لے جایا گیا ۔ ہم سب ان کے ساتھ گئے ۔ اور لوگوں کی حالت ایسی تھی کہ جیسے اُس دن سے پہلے ان پر کوئی مصیبت آئی ہی نہ تھی ۔ کوئی کہہ رہا تھا : وہ ٹھیک ہوجائیں گے ۔ اور کوئی کہہ رہا تھا: مجھے ڈر ہے ( کہ اب نہیں بچ سکتے )
چنانچہ آپ کے پاس نبیذ ( کھجور کا نچوڑ جس میں نشہ نہیں ہوتا ) لایا گیا ، آپ نے پیا تو وہ ان کے پیٹ سے باہر آگیا ۔ پھر دودھ لایا گیا ، آپ نے پیا تو وہ بھی آپ کے زخموں سے باہر نکل آیا ۔ تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ اب یہ نہیں بچ سکتے ۔ ( ایک روایت میں ہے کہ طبیب نے یہ صورتحال دیکھ کر کہا : اب آپ وصیت کریں ، کیونکہ میرے
خیال میں آپ پر آج یا کل تک موت آجائے گی ۔ )
پھر ہم ان کے پاس گئے ، لوگ آنے جانے اور ان کی تعریف کرنے لگے۔ ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا : امیر المؤمنین ! آپ کو اللہ کی بشارت پر خوش ہونا چاہئے ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ، آپ نے بہت پہلے اسلام قبول کرلیا تھا ، پھر آپ خلیفہ بنے تو آپ نے عدل وانصاف کیا ۔ اب آپ شہادت حاصل کر رہے ہیں۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ گزارے لائق ہے ، نہ میرے خلاف ہے اور نہ میرے حق میں ہے۔
جب وہ نوجوان واپس جانے لگا تو اس کا تہہ بند زمین کو چھو رہا تھا ۔ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
( رُدُّوْا عَلَیَّ الْغُلَامَ ) ’’ اس نوجوان کو میرے پاس واپس لاؤ ۔ ‘‘
آپ نے فرمایا : ( یَا ابْنَ أَخِیْ ! اِرْفَعْ ثَوْبَکَ فَإِنَّہُ أَنْقٰی لِثَوْبِکَ وَأَتْقٰی لِرَبِّکَ )
’’ میرے بھتیجے ! اپنا تہہ بند اوپر اٹھاؤ ، اس سے تمھارا تہہ بند بھی صاف رہے گا اور تمھیں تمھارے رب کا خوف بھی نصیب ہوگا ۔ ‘‘
( سامعین ! ذرا غور فرمائیں کہ عمر رضی اللہ عنہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے غافل نہیں ! ایک برائی کو دیکھا تو اس پر خاموشی اختیار نہیں کی ، بلکہ برائی کرنے والے نوجوان کو پیار سے سمجھایا اور اُس برائی سے منع کیا ۔ اور اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا بہت بڑا گناہ ہے ، تبھی تو عمر رضی اللہ عنہ خاموش نہ رہ سکے ۔ )
اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا :
’’ عبد اللہ ! دیکھو میرے اوپر کتنا قرضہ ہے ؟ ‘‘
چنانچہ جب حساب کیا گیا تو آپ پر چھیاسی ہزار یا اس کے قریب قرضہ نکلا ۔
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قرضہ اتارنے کیلئے اگر آل عمر کا مال کافی ہو جائے تو ان کے مالوں میں سے ادا کردینا ۔ ورنہ بنی عدی بن کعب میں جا کر سوال کرنا ، اگر ان کے مال بھی قرضہ اتارنے کیلئے کافی نہ ہوں تو قریش میں جا کر سوال کرنا ۔ انھیں چھوڑ کر کسی اور کے پاس نہ جانا ۔ پھر میرا قرضہ اتار دینا ۔
اور اب تم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور انھیں کہو : عمر آپ کو سلام کہتا ہے ۔ امیر المؤمنین مت کہنا ، کیونکہ اب میں امیر المؤمنین نہیں رہا ۔ اور ان سے کہنا : عمر بن الخطاب اجازت طلب کرتا ہے کہ اسے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے ۔
چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گئے ، سلام کہا اور اجازت طلب کی ۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اندر گئے تو
دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں ۔ انھوں نے کہا : عمر بن الخطاب آپ کو سلام کہہ رہے ہیں ۔ اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کیلئے آپ سے اجازت کے طلبگار ہیں ۔تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا :
میں وہ جگہ اپنے لئے چاہتی تھی ، لیکن آج میں عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح دیتی ہوں ۔
چنانچہ جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آئے تو عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : یہ عبد اللہ آگیا ہے ۔ تو انھوں نے فرمایا : مجھے اٹھا کے بٹھاؤ ۔ لہذا ایک آدمی نے انھیں سہارا دیا ۔ تو آپ نے پوچھا : ہاں ، تمھارے پاس کیا خبر ہے ؟ انھوں نے کہا : جو آپ پسند کرتے ہیں وہی ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی ہے ۔ تو انھوں نے کہا : الحمد للہ ۔ میرے لئے اس سے زیادہ اہم بات کوئی نہ تھی ۔ لہذا جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا ۔ پھر سلام کہنا اور کہنا : عمر بن الخطاب اجازت طلب کرتا ہے ۔ اگر عائشہ رضی اللہ عنہا اجازت دے دیں تو مجھے اندر لے جانا اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کردینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ جب آپ فوت ہو گئے تو ہم انھیں اٹھا کر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس لے گئے ۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سلام کہنے کے بعد کہا : عمر بن الخطاب آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں ۔ تو انھوں نے کہا : اندر لے آؤ ۔ چنانچہ انھیں اندر لے جایا گیا ۔ اور ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ انھیں دفن کردیا گیا ۔ صحیح البخاری :3700
محترم حضرات ! ہم آخر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی زبانی ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی جناب عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے ۔ یاد رہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی جناب عمر رضی اللہ عنہ سے کیا تھا ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے مابین پیار ومحبت پر مبنی تعلقات تھے ۔ ایسا نہیں جیسا کہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے ! تو یہ دعوی بالکل درست نہیں ہے ، بلکہ یہ دعوی باطل ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کیلئے دعا کر رہے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کو ایک چارپائی پر لٹایا گیا تھا ، اچانک ایک شخص میرے پیچھے سے آیا اور میرے کندھوں پر اپنی کہنی رکھ کر کہنے لگا :
’’ اے عمر ! اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالی سے یہی امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ملا دے گا ، کیونکہ میں اکثر وبیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کرتا تھا کہ
((جِئْتُ أَنَا وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ،وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُوْ بَکُرٍ وَعُمَرُ،وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ))
’’ میں ، ابو بکر اور عمر آئے۔میں ، ابو بکر اور عمر داخل ہوئے ۔میں ، ابو بکر اور عمر نکلے ۔‘‘
تو اسی لئے مجھے پوری امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالی آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کردے گا ۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے جو یہ دعا کر رہے تھے ۔ صحیح البخاری :3677، مسلم :238
آخر میں اللہ تعالی سے ایک بار پھر یہ دعا ہے کہ وہ ہمیں عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی محبت نصیب کرے ۔ اور ہمیں قیامت کے روز ان کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے ۔ آمین