تبسم رسول

عن جرير بن عبدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ ﷺ منذ أَسْلَمْتُ وَلَا رَانِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الأدب، باب التبسم والضحك، صحيح مسلم كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل جرير بن عبد الله رضی الله تعالى عنه.)
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا آپ ﷺ نے (اپنے پاس آنے سے کبھی نہیں روکا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرائے۔
عَن عَبدِ اللَّهِ بنِ الحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ بسما مِنْ رَسُول الله ﷺ . (أخرجه الترمذي)
(سنن ترمذی: ابواب المناقب عن رسول الله، باب في بشاشة النبي ﷺ وقال هذا حديث حسن غريب وصححه الألباني في المشكاة (5829).
عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت. ہے کہ آپ ﷺ سے زیادہ میں نے کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔
عَن جَابِرِ بن سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَا يَقُومُ مِن مُصَلاهُ الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ الصَّبْحَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ قَامَ، وَكَانُوا يَتَحَدَّلُونَ فَيَأْخُذُونَ في أمر الجاهلية فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ ﷺ (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: کتاب الفضائل، باب تبسمه ﷺ و حسن عشرته)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے بعد مصلی سے نہیں اٹھتے تھے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا۔ جب سورج طلوع ہوتا تو آپ اٹھتے اور لوگوں سے دور جاہلیت کی باتیں کرتے اس درمیان لوگ ہنسنتے اور آپ ﷺ مسکراتے۔
عَن أَبِي ذَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: تَبَسُّمُكَ فِيْ وَجْهِ اَخِيْكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ المُنكَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَبَصَركُ لِلِّرَجُلِ الرَّدِيْءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتَكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيْقِ لَكَ صَدَقَةَ، وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دُلْوِكَ فِي دُلْوِ اَخِيْكَ لَكَ صَدَقَةٌ . (رواه الترمذي).
(سنن ترمذی: ابواب البر والصلة عن رسول الله، باب ما جاء في صنائع المعروف، هذا حديث حسن غريب، وصححه الألباني في الصحيحة (572).
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا اپنے بھائی کے منہ پر مسکرانا صدقہ ہے، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، راستہ بھولے ہوئے آدمی کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے کمزور نگاہ والے کو راستہ بتانا صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کا راستے سے ہٹانا صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے خالی ڈول میں پانی بھرنا صدقہ ہے۔
تشریح:
ایک دوسرے سے خوش طبعی اور انہی مذاق سے پیش آنے کی اسلام نے ترغیب دی ہے کیونکہ اس سے طبیعت میں بشاشت آتی ہے اور رسول اکرم ﷺ بھی ہنسی مذاق کرتے تھے مگر اس میں حق و صداقت کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تھا چنانچہ آپ کے سے ایک آدمی نے ایک سواری کا سوال کیا تو آپ نے اسے اونٹنی کا بچہ دینے کے لئے کہا تو اس آدمی نے کہا کہ ہم اونٹنی کا بچہ لیکر کیا کریں گے ہمیں سواری کے لئے اونٹ چاہئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ بھی تو اونٹنی کا ہی بچہ ہوتا ہے۔ ایسے جب آپ ﷺ سے ایک بڑھیا نے سوال کیا کہ ہمیں ایسا کوئی عمل بتا دیجئے کہ جس کے کرنے سے میں جنت میں چلی جاؤں تو آپ نے فرمایا کہ جنت میں کوئی بوڑھی نہیں جائے گی جس پر وہ کافی حیران و پریشان ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ جنت میں سارے لوگ جوان ہو کر جائیں گے۔ نیز مسکراتا اور ہنسنا لوگوں کے دلوں کو موہنے کا بہترین ذریعہ ہے اور اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ہمیشہ لوگوں سے مسکرا کر ملنے کی توفیق بخشے۔
فوائد:
٭ ہنسی مذاق میں بھی حق و صداقت کا پایا جانا ضروری ہے۔
٭ اپنے بھائی سے مسکراہٹ کے ساتھ ملنا صدقہ ہے۔
٭ برابر مسکراتے رہنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
٭٭٭٭