طلاق کا مسنون طریقہ

الحمد لله العليم الحليم، أتقن ما صنع، وأحكم ما شرع، أحمده سبحانه، له الحمد كله والثناء، وأشكره على ما من به من الآلاء والنعماء، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
اللہ ہی تعریف کا سزاوار ہے۔ جو علیم و حلیم ہے۔ اس نے جو کچھ بنایا نہایت ہی عمدگی سے بنایا اور محکم ترین شریعت نازل کی اس کے لئے ہر قسم کی حمد و ثنا ہے۔ اس کی بے پایاں نعمتوں پر میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے ورسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے حکم کی تابعداری کرو۔ نافرمانی سے بچو اور یہ ایمان رکھو کہ اللہ تعالی علیم و حکیم ہے۔ وہ یہ خبر رکھتا ہے۔ کہ بندوں کے لئے کیا چیز بہتر ہو گی اس نے ہمیں جس کام کا بھی حکم دیا اس میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت موجود ہے۔ اور جس چیز سے بھی منع کیا ہماری سهولت و آسانی کے لئے کیا نکاح کا طریقہ مشروع کیا کہ اس کے اندر بے شمار منافع میں لیکن اختلاف و نزاع کی صورت میں طلاق بھی مباح قرار دیا تاکہ بیوی کی جانب سے اگر اس کے نفس یا شوہر کے مال و جائداد میں کوئی خیانت ظاہر ہو یا کسی اخلاقی کمزوری یا بہ طبعی کا پتہ چلے تو شوہر ایسی غیر صالح بیوی کے شر سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ شوہر کو اپنی بیوی کے سلسلہ میں جب کوئی تشویش ناک بات معلوم ہو یا اس کے لئے وہ نا خوشگواری کا سبب بن رہی ہو اور ایسی صورت ہو کہ اس کی اصلاح شوہر کے بس سے باہر ہو یا شوہر کو یہ خوف ہو کہ اس کے حقوق ادا نہیں کر سکے گا تو اسے اختیار ہے۔ کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر رخصت کر دے۔
اس کے بالکل برعکس کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ کہ شوہر شریر اور بدخلق ہوتا ہے۔ جو اپنی بیوی کے ساتھ بدسلو کی کرتا اور اس کی زندگی ناخوشگوار بنا دیتا ہے۔ اور بیوی کو یہ ڈر لاحق ہو جاتا ہے۔ کہ وہ شوہر کے حقوق کے سلسلہ میں اللہ کے مقرر کردہ حدود کی پابندی نہ کر سکے گی تو ایسی صورت میں بیوی کے لئے بھی یہ جائز ہے۔ کہ اس شوہر سے رہائی حاصل کرلے خواہ طلاق لینے کے لئے اسے شوہر کو کچھ مال بھی دینا پڑے۔
بہرحال جب شوہر یا بیوی کی جانب سے نا اتفاقی کی صورت پیدا ہو جائے اور دونوں کے درمیان تعلقات برقرار نہ رہ سکیں تو ایسی صورت میں اللہ تعالی نے طلاق کے مشروع طریقہ کی جانب رہنمائی کی ہے۔ فرمایا:
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ﴾ (البقره: 229)
’’طلاق دو بار ہے۔ ( جن میں سے ہر ایک دفعہ کے بعد عورت کو) یا تو بطریق شائستہ نکاح میں رہنے دینا ہے۔ یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘
جب طلاق کی ضرورت پیش آجائے تو اس نازک معاملہ کی جانب اقدام کرنے سے پہلے خوب غور و فکر نیز اپنے خیر خواہوں اور بزرگوں سے صلاح و مشورہ کر لینا چاہئے کیونکہ طلاق ایک ایسا کام ہے۔ جس کے بعد احوال پراگندہ اور افراد خاندان منتشر ہو جاتے ہیں۔ نیز ان کے علاوہ اور بہت سی باتیں پیش آتی ہیں۔ جن کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوتا۔
طلاق شرعی جسے طلاق مسنون کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے۔ کہ آدمی اپنی بیوی کو بحالت طہر ایک طلاق دے جس طہر میں اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو اور طلاق دینے کے بعد اسے اپنے ہی گھر میں رہنے دے۔ اگر اس دوران دونوں کے مابین پھر سے محبت پیدا ہو جائے جو اختلاف تھا وہ دور ہو جائے اور دونوں کو یہ امید ہو کہ اللہ کے حدود کی پابندی کر سکیں گے تو شوہر کو چاہئے کہ رجوع کرلے، ہو سکتا ہے۔ کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ الفت و محبت اور مودت و یگانگت پیدا فرما دے۔ نیز میاں بیوی دونوں گاہے بگاہے پیش آ جانے والی نامناسب باتوں سے چشم پوشی کرنے اور مقاضائے بشریت صادر ہونے والے بعض افعال کو برداشت کرنے کا عزم کریں۔ لیکن رجوع کے بعد بھی اگر ناخوشگواری کی صورت باقی رہتی ہے۔ اور حالات میں سدھار پیدا نہیں ہوتا تو پہلی طلاق کے انداز پر اسے دوسری طلاق دے اور جس طرح پہلی طلاق کے بعد کیا تھا اسی طرح پھر کرے (یعنی طلاق دینے کے بعد اگر اصلاح حال کی صورت پیدا ہو جائے جیسا کہ ابھی مذکور ہوا تو رجوع کرلے) کیونکہ شرعا اور عام لوگوں کے نزدیک بھی یہی مطلوب ہے۔ اور اگر اس (رجوع) کے بعد بھی حالات میں سدھار نہ پیدا ہو تو اسی انداز سے تیسری طلاق دے دے اس آخری طلاق کے بعد عورت اپنے سابقہ شوہر کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر ایسا ہو کہ وہ عورت کسی اور مرد کے ساتھ شادی کرے پھر ان دونوں کے مابین (باہمی بگاڑ اور فساد کی وجہ سے) طلاق کی نوبت آئے تو اس کے بعد وہ عورت پھر اپنے سابقہ شوہر کے پاس نکاح جدید کے ساتھ واپس آسکتی ہے۔ یہ طلاق کا وہ مسنون طریقہ ہے۔ جس کی ہمیں شریعت نے تعلیم دی ہے۔ لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے۔ کہ بہت سے جاہل نادان اور پرلے درجے کے لوگ بے موقع و محل طلاق کا استعمال کرتے ہیں، بعض لوگوں کو یہ حماقت سوار رہتی ہے۔ کہ ان سے اگر خرید و فروخت یا لین دین میں کوئی مغالطہ ہو جاتا ہے۔ یا لایعنی امور میں کسی سے کوئی اختلاف یا فضول میں کوئی جھگڑا ہو جاتا ہے۔ تو جھٹ اپنی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ بیچاری یہ بھی نہیں جانتی کہ کسی سبب اور قصور کی وجہ سے اس کے ساتھ یہ سلوک ہوا۔ اس موقع پر طلاق کا سبب شوہر کی بے رغبتی نہیں بلکہ محض اس کا طیش و غضب اور اس کی حماقت ہوتی ہے۔
اسی طرح بعض بے وقوف ایک نہایت ہی معمولی بات پر اپنی بیوی کو طلاق سنا دیتے ہیں، مثلا بیوی نے کھانا تیار نہیں کیا گیا اس کے کپڑے نہیں دھوئے یا گھر کی صفائی نہیں کی یا کسی اہم ضرورت کے تحت اپنے میکے چلی گئی تو طیش میں آکر اسے سب و شتم کرتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ایک ہی بار میں اسے تین طلاق داغ دیتے ہیں۔ حالانکہ ایک ہی مجلس میں اور ایک ہی لفظ کے ساتھ تین طلاق دینے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ ایسا شخص جو گویا دوبارہ صلح کی گنجائش نہیں چھوڑ تا حکم اٹھی سے سرتابی کرنے والا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نا فرمان ہے۔ شیطانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ اپنے غضب اور غصہ اور خواہش نفس کے پیچھے چلتا ہے۔ افراد خاندان کو منتشر کرتا اور دشمنوں کو ہنسنے اور خوش ہونے کا موقع دیتا ہے۔
بسا اوقات یہ ہوتا ہے۔ کہ ایسا نا عاقبت اندیش جلد باز شخص اپنے کرتوت پر نہایت پشیمان ہوتا اور کف افسوس ملتا ہے۔ اور رجوع اور تلافی مافات کے لئے ادھر ادھر دوڑتا اور کوشش کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جو اپنی امت کے لئے نہایت ہی شفیق اور خیر خواہ ہیں، آپ کا ارشاد گرامی ہے:
(أبغض الحلال إلى الله الطلاق) [امام سیوطی نے الجامع الصغیر (79/1) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔]
’’اللہ کے نزدیک حلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔‘‘
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدی تھی، تو آپ غصہ ہو گئے اور فرمایا:
(أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم) [سنن نسائی: کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعة وما فيه من التغليظ (3401)]
’’کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ہو رہا ہے۔ درانحالیکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟‘‘
یہاں تک کہ آپ کا غصہ دیکھ کر ایک صحابی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا ایسے شخص کو میں قتل نہ کر دوں؟
نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب کسی ایسے شخص کے بارے میں فتویٰ لیا جاتا جو اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکا ہوتا تو اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے:
(لو اتقيت الله جعل لك مخرجاً)
’’یعنی تم اگر اللہ سے ڈرے ہوتے تو وہ تمہارے لئے کوئی سبیل پیدا کر دیتا۔‘‘
اللہ کے بندو! لہٰذا اللہ کا خوف کھاؤ اور ہر مسلمان یہ ملحوظ رکھے کہ طلاق دینے کا مسنون طریقہ اور اس کا موقع و محل کیا ہے؟ اگر وہ اس کا خیال نہیں رکھتا تو محرمات کا مرتکب ہو گا؟ ندامت و پشیمانی اٹھائے گا اور اس کی زندگی بے کیف ہو کر رہ جائے گی۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْـًٔا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۲﴾ (البقره: 229)
’’طلاق دوبار ہے۔ اور ہر ایک دفعہ کے بعد عورت کو یا تو بطریق شائستہ نکاح میں رہنے دینا ہے۔ یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو ہاں اگر میاں بیوی کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حد میں ہیں۔ ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبه ثانیه
الحمدلله على إحسانه، والشكر له على توفيقه وامتنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيما لشأنه سبحانه، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله الداعي إلى رضوانه، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه.
اللہ تعالیٰ کے احسان و توفیق پر میں اس کی حمدوثنا بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور وہ پاک ہے ساتھ ہی یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو اللہ کی رضا و خوشنودی کی طرف بلانے والے ہیں۔ یا اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
لوگو! اپنے اندر اللہ کا خوف پیدا کرو اور اس کے احکامات بجالاؤ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات و توجیہات کی تعمیل اور سیرت و ہدایت کی اتباع کرو کہ میں باعث نجات و فلاح ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں جن باتوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ وہ ہمارے لئے خیر و سعادت کا باعث اور سکون و طمانیت کی ضامن ہیں۔ آپ کے ارشادات و توجیہات جو ہمارے لئے اصلاح حال اور راحت زندگی کا سبب ہیں۔ انہی میں سے یہ ارشاد گرامی بھی ہے:
(لا يفرك مؤمن مؤمنة، إن كره منها خلقا رضي منها آخر) [صحیح مسلم: کتاب الرضاع، باب الوصیة بالنساء (1469) و مسند احمد: 329/2 (8371)]
’’کوئی مومن شوہر اپنی مومن بیوی سے بغض نہ رکھے کیونکہ اس کی کسی عادت سے اگر اسے ناگواری ہے۔ تو اس کے اور دوسرے اخلاق سے وہ خوش ہو گا۔‘‘
اس حدیث کا مطلب یہ ہے۔ کہ کسی ایک خراب عادت کی وجہ سے کسی کو اپنی بیوی سے بغض و نفرت نہیں رکھنی چاہئے بلکہ اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ اس کے اندر اگر ایک خراب عادت ہے۔ تو دوسرے بہت سے اچھے اخلاق بھی ہیں۔ اور محض ایک نامناسب عادت کی وجہ سے دوسرے بہت سے عمدہ اور بہترین اخلاق کو نظر انداز کر دینا مناسب نہیں، کیونکہ یہ بات تقریباً نا ممکن ہے۔ کہ کسی کو ایسی بیوی یا دوست یا ہم نشین ملے جس کی ایک ایک ادا اسے پسند ہو اور ہر پہلو سے وہ اس کے معیار کے مطابق ہو۔
ایک مسلمان اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ان گرانقدر توجیہات پر عمل کرے تو بے شمار مشکلات سے محفوظ رہے گا اس کے حالات درست ہو جائیں گے گھر با سعادت ہوگا اور اپنی بیوی کے ساتھ اس کی صحبت و رفاقت طویل ہو گی۔
لہٰذا! نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان گرانقدر اور مفید ترین ارشادات و تو جیمات پر عمل کرو اس سے دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔