تربیت اولاد سے متعلق نبوی تعلیمات
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةَ) (سوره تحریم، آیت: 6)۔
ترجمہ: اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔
نیز ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ (سورة التغابن : آیت:15)
ترجمہ: تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلكم مسؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الإِمَامِ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بیتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤولةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالحَادِمِ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَكُلُّكُم رَاعٍ وَّمَسْؤُوْلٌ عَن رَّعِيَّتِهِ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری: كتاب الجمعة، باب الجمعة في القرى والمدن، وكتاب العتق، باب العبد راع في مال سیده، صحیح مسلم كتاب الإمارة، باب فضيلة الأمير العادل وعقوبة الجائز والحث على الرفق …..)
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ، رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ تم سب کے سب ذمے دار ہو ، اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ امام (حکمراں) ذمے دار ہے اور اس سے اپنی رعایا کے بارے میں باز پرسی ہوگی ، آدمی اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اور اس سے اپنی رعیت (اہل خانہ) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اپنی رعیت (گھر میں رہنے والے بچے اور دیگر افراد) کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے ، اس سے اس کی رعیت (مال و اسباب) کے بارے میں پوچھا جائے گا، پس تم سب (اپنے اپنے دائرے میں) نگراں اور ذمے دار ہو اور سب سے اس کی (اپنی اپنی رعیت کے بارے میں باز پرس کی جائے گی۔
وَعَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ : مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعْيَّةً، يَمُوتُ يَومَ يَمُوتُ وَهُوَ عَاشُ لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الجَنَّةَ . (أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: كتاب الإيمان حباب استحقاق الوالي الغاش لرعيته النار.)
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ جس بندہ کو اللہ تعالی نے رعیت دی ہو پھر وہ شخص اپنی رعیت کے حقوق میں خیانت کی حالت میں مرا تو ایسے شخص پر اللہ تعالی جنت کو حرام کر دے گا۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا مَاتَ الإِنسَانُ الْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلالَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِه، أو وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُولَهُ. (اخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: کتاب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب انسان وفات پا جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا اجر و ثواب اسے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے، صدقہ جاریہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو، صالح اولاد جو مرنے والے کے لئے دعا کرے۔
تشریح:
والدین کے لئے اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن ان کی تربیت کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور تربیت کی ذمہ داری باپ کو عطا کی گئی ہے وہی ان کا ذمہ دار ہے۔ اس سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی۔ باپ کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت کرے، انہیں دینی تعلیم سے مزین کرے، اور ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ مسجدوں اور دیگر دینی مجلسوں میں لے جائے ۔ باپ کے لئے صرف بچوں کی ساری ضروریات زندگی کا مہیا کرنا ان کے کھانے پینے اور کپڑا وغیرہ کا انتظام کرتا اور ان سے بے پروا ہو کر دنیوی امور میں مشغول ہو جانا کافی نہیں ہے کیونکہ جس نے ایسا کیا اور اس کے بچے خراب اور راہ راست سے بھٹک گئے تو وہ دنیا میں شرمندگی اٹھائے گا اور آخرت میں اللہ تعالی کے سامنے کتب افسوس ملے گا۔ اللہ تعالی ہمیں بچوں کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ والدین سے اولاد کی تربیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
٭ اولاد کی تربیت سے بے پرواہی خطر ناک شیو ہے۔
٭ نیک اولا دوالدین کے لئے بہترین نعمت ہیں۔
٭٭٭٭