تعریف کرنا سیکھیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا
«وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا »
[ البقرۃ : ۸۳ ]
’’اور لوگوں کے لیے اچھی بات کہو۔‘‘

چند سالوں سے یکے بعد دیگرے بہت سے علماء کرام دنیا سے کوچ کر گئے ہیں، ایک چیز جو بڑی شدت سے محسوس کی گئی ہے کہ کسی بھی بڑے عالم کی وفات کے بعد جب لوگ ان کے حالات زندگی لکھتے اور بیان کرتے ہیں تو ان کے زھد، ورع، تقوی، للہیت،عبادت، امانت، دیانت، خودداری، عاجزی، انکساری، شجاعت اور سخاوت کے ایسے ایسے گوشے سامنے آتے ہیں کہ پھر یہ احساس جھنجھوڑنے لگتا ہے کہ اتنی قیمتی شخصیت ہمارے اندر موجود تھی تو ہم بے نصیب اس کی قدر کیوں نہ کر پائے؟
مگر تب سوائے حسرت کے اور کچھ باقی نہیں رہ جاتا

ماضی قریب میں تین بڑے بزرگوں کا حوالہ دیتا ہوں

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد شیخ المشائخ عبدالعزیز علوی، پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی رحمہم اللہ، ان بزرگوں کی وفات کے بعد ان کی زندگی اور سیرت و کردار سے متعلق ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کہ ہر بار پہلے سے زیادہ تڑپ اور احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم نالائقوں نے ایسے نایاب ہیروں کی کما حقہ قدر نہیں کی

تو سوال پیدا ہوتا ہے

کہ فوت شدہ بزرگوں کی زندگی میں ہی ایسی باتیں منظر عام پر کیوں نہیں لائی جاتیں،؟ آخر کسی شخصیت کی اچھائیاں بیان کرنے کے لیے اس کی موت کا ہی کیوں انتظار کیا جاتا ہے، کیا ہم کوئی مردہ پرست لوگ ہیں؟ یا زندوں کی تعریف کو شجرہ ممنوعہ سمجھتے ہیں؟؟؟ ؟

ذیل کے مضمون میں واضح کیا جائے گا کہ زندہ لوگوں کی تعریف کرنا، کسی کی صلاحیت دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کرنا، نہ صرف جائز اور مباح ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ائمہ و محدثین کی سنت ہے

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی زندگی میں ان کے عبادات میں شوق کی تعریف کی

فرمایا :
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔
الفتح : 29

ایک صحابی نے رات اپنی بھوک پر اپنے مہمان کو ترجیح دی تو صبح اللہ تعالیٰ نے اس کے فوت ہونے کا انتظار کیے بغیر اس کی تعریف کردی
فرمایا :
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو
الحشر : 09

قرآن میں اس حوالے سے اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں اہلِ ذوق چاہیں تو انہیں اکٹھا کر سکتے ہیں

زندہ، موجود انسان کی تعریف کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی بھی سنت ہے

موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی کی تعریف کی

فرمایا :
وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ
اور میرا بھائی ہارون، وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے، تو اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرے، بے شک میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔
القصص : 34

معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں پر جب بھی کسی نبی سے ملتے تو وہ آگے سے آپ کی تعریف ضرور کرتے، ہر نبی نے آپ کو
"مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح”
کہہ کر آپ سے کلام کی
(یعنی نیک بھائی اور نیک نبی کو مرحبا)

امام نووی رحمہ اللہ کا بہترین استدلال

اس کی تشریح میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَفِيهِ جَوَازُ مَدْحِ الْإِنْسَانِ فِي وَجْهِهِ إِذَا أُمِنَ عَلَيْهِ الْإِعْجَابُ وَغَيْرُهُ مِنْ أَسْبَابِ الْفِتْنَةِ…
کہ جس کی تعریف کی جائے اگر اس کے خود پسندی اور فخر و ریا وغیرہ میں مبتلا ہو جانے کا خطرہ نہ ہو تو اس حدیث سے انسان کے سامنے اس کی تعریف کرنے کا جواز نکلتا ہے

منہ پہ تعریف کے جواز کی ایک اور دلیل

علی بن حسین سے مرفوعا مروی ہے :

إذا أَحبَّ أَحَدُكُمْ أَخاهُ في الله، فَالْيُبَيِّنَ لَه فإِنه خَيْرٌ فِي الألفةِ وأَبْقى في المودة
السلسلة الصحيحة : 16]
” جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے اللہ کے لئے محبت کرے تو اس سے اظہار کر دے کیونکہ یہ بات الفت پیدا کرنے میں بہترین اور محبت کو دوام بخشنے والی ہے “۔

ظاہر بات ہے کہ یہ بھی تعریف ہی کا ایک انداز ہے، بالخصوص جب اسے محبت کی وجہ بھی بیان کرے گا تو ضرور اس کی اچھائیاں بیان کرتے گا

اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کی تعریف کے جواز کی ایک دلیل

نبی کریم علیم نے فرمایا :
{ مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ}
(سنن ترمذي: 1931)
جس نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا قیامت کے دن اللہ تعالی اس کا چہرہ آگ سے محفوظ رکھے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی تعریفیں کیں

چند مثالیں نوٹ کریں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میری امت میں سے سب سے رحم دل ابوبکر ہیں
اللہ کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں
سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں
سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے معاذ بن جبل ہیں
فرائض کو سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں
سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں
اور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں

اور فرمایا :
مجھے سب سے زیادہ ابوبکر سے محبت ہے
ابو بکر نے میری تب مدد اور تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا
عمر کو دیکھ کر تو شیطان راستہ بدل لیتا ہے
سعد پر میرے ماں باپ قربان ہوں
زبیر میرے حواری ہیں
حذیفہ میرا رازدان ہے
ابوالعاص میرا بہترین داماد ہے
بلال کے قدموں کی آہٹ میں نے جنت میں سنی ہے
خالد اللہ کی تلوار ہے
علی تو شیر ہے
عثمان بہت حیا والے ہیں
فاطمہ میرا جگر گوشہ ہیں

یہ سب تعریفیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،اپنے اصحاب کی کررہے ہیں اور ان کی زندگیوں میں کررہے ہیں، کاش کہ آج ہم یہ سنت زندہ کرسکیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک جاہلی شاعر کی بھی تعریف کی تھی

حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا شَاعِرٌ كَلِمَةُ لَبِيدٍ۔
أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللهَ بَاطِلٌ
وَكَادَ أُمَيَّةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ»
سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی، لبید کی بات ہے۔
"سن رکھو! اللہ کے سوا ہر چیز [جس کی عبادت کی جاتی ہے] باطل ہے۔”
اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جاتا۔”
[صحیح مسلم: 2256]

لیکن ہماری حالت کیا ہے؟

ہم بہت نالائق اور نکمے لوگ ہیں، ہمیں کسی کی تعریف کرتے ہوئے تو گویا موت پڑتی ہے، ہاں کسی کی کوئی غلطی ہاتھ لگنے کی دیر ہے بس پھر تو بی بی سی کے نمائندے ہم ہی ہوتے ہیں پھر تو دن رات اس کا چرچا کیا جاتا ہے، اللہ کی پناہ

ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں کہ لوگ اگر آپ میں کوئی بھلائی دیکھتے ہیں تو اسے چھپاتے ہیں اور اگر آپ کے بارے میں کوئی برائی معلوم ہو جائے تو اسے خوب نشر کرتے ہیں اور اگر کچھ بھی نہ ملے تو اپنے پاس سے جھوٹ گھڑ کر آپ پر تھوپ دیتے ہیں

قعنب بن ضمرہ شاعر کہتا ہے

إذا رأوا هفوة طاروا بها فرحاً
مني وما علموا من صالح دفنوہ
<شذا العرف فی فن الصرف>
کہ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ جب کبھی میری کوئی لغزش دیکھتے ہیں تو اسے لے کر خوشی سے اڑتے پھرتے ہیں اور اگر انہیں میری کوئی اچھی بات معلوم ہو جائے تو اسے دفن ہی کردیتے ہیں

امام ابن سیرین رحمه الله کہتے ہیں :

"یہ تمہارا اپنے بھائی پر ظلم ہے کہ اُس کی بُری بات جو تم جانتے ہو، ذکر کرو؛ لیکن اُس کی اچھائی کبھی ذکر نہ کرو!”
(رواہ وكيع في الزهد : 449)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی سن لیجیے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ
(بخاری : 6018)
اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے ۔

کلمہ خیر کہیں تاکہ کسی کا بھلا ھو جائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ، فَقُلْنَا : وَثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ فَقُلْنَا وَاثْنَانِ ، قَالَ وَاثْنَانِ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ۔
(بخاری 1368)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی، پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟

زندہ انسان کی خوبیوں کی تعریف کریں تاکہ اس میں حوصلہ پیدا ہو اور وہ مزید نکھر کر سامنے آئے

امام ذہبی کو محدث بنانے والا جملہ

امام ذہبی کے خط(تحریر) کو دیکھ کر ان کے استاد امام برزالی نے تعریف کرتے ہوئے کہا :
"يا بني! إن خطك يشبه خط المحدثين”
"میرے بیٹے! تیری تحریر تو محدثین کی تحریر جیسی ہے”.
امام ذہبی کہتے ہیں :
"فحبب الله إليّ علم الحديث”.
اس جملہ نے مجھے محنت کرنے پر مجبور کر دیا
اور وہ آگے چل کر دنیا کے امام بن گئے

عبداللہ تو بہت اچھا آدمی ہے

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرنی تھی تو پہلے ان کی اچھی تعریف کی پھر فرمایا :
"نعم الرجل عبد الله لو يصلي من الليل”
"عبد اللہ خوب لڑکا ہے، کاش رات میں نماز پڑھا کرتا”.
بس پھر کیا تھا کہ اس جملہ نے عبد اللہ بن عمر کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا،
ان کے لڑکے سالم کہتے ہیں :
"وكان بعد لاينام من الليل إلا قليلاً” –
"اس کے بعد عبد اللہ بن عمر – رضی اللہ عنہما – رات میں بہت کم سوتے تھے(زیادہ عبادت کرتے تھے) ".

اے اشج تیری دو عادتیں، اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ نے حضرت اشج عصری رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
"إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ : الْحِلْمَ وَالْحَيَاءَ”
«سنــن ابــن ماجہ-4188»
’’ تمہارے اندر دو خوبیاں ہیں جو اللہ کو پسند ہیں ۔ حلم (بردباری) اور حیاء ۔‘‘

خوبی دیکھ کر تعریف نہ کرنا بلکہ جل سڑ کر حسد میں مبتلا ہو جانا، شیطان کا کام ہے

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو عزت و احترام دیا، انہیں چیزوں کے ناموں کا علم دیا، تمام فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا
لیکن شیطان تھا کہ یہ سب کچھ دیکھ کر جل سڑ رہا تھا، بجائے تعریف کرنے کے اور آدم علیہ السلام کو مبارکباد اور دعا دینے کے، وہ الٹا ان کے خلاف ہو گیا

سعد کے بعد کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے

حضرت عمر رض نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :
(وَإِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ شَيْئًا عَنْ النَّبِيّ صلى الله عليه وسلم فلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ)
(حم) 88 ، وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح
جب آپ کو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کوئی خبر دیں تو پھر اسے مان لو مزید کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے

سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبد الرحمن بن عوف کی تعریف کرتے ہیں

ثقہ تابعی ابراہیم بن عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جنازے میں انکی چار پائی کے پایوں کے پاس دیکھا اور وہ کہہ رہے تھے :
” ہاے علم کے پہاڑ "

(فضائل الصحابة لاحمد :1256،الطبقات لابن سعد 126/3وسنده صحيح)

اپنے کلاس فیلوز کی تعریف کریں

ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ رحمھم اللہ دونوں ہی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں
حافظ ابن كثير اپنے دوست ابن القيم رحمهما الله کے بارے لکھتے ہیں :

كان حسَن القراءة والخلُق،
كثير التودُّد،
لا يحسد أحدًا،
ولا يؤذيه،
ولا يستعيبه،
ولا يحقد على أحد،
وكنتُ من أصحب الناس له،
وأحبِّ النـاس إليه.
[البداية والنهاية، لابن كثير (٥٢٣/١٨)]

وہ خوب صورت قرات کے مالک اور حسن اخلاق سے متصف تھے۔
وہ بہت زیادہ محبت کرنے والے تھے۔
انھوں نے کبھی کسی سے حسد کیا،
نہ کسی کو تکلیف پہنچائی،
نہ کسی کی عیب جوئی کی اور نہ ہی کسی سے کینہ رکھا۔
میں لوگوں میں ان کے سب سے زیادہ قریب اور ان کی نگاہ میں محبوب تر تھا۔
میں نے اپنے زمانے کے اہل علم میں ان سے زیادہ عبادت گزار کسی اور کو نہیں دیکھا۔ مختصر یہ کہ ان کی مثال کم ہی ملے گی بل کہ مجموعی طور سے وہ عدیم النظیر شخصیت تھے۔

بیوی اپنے شوہر کی تعریف کرے

یہ بہت مشکل کام ہے کہ کوئی خاتون اپنے شوہر کی تعریف کرے بلکہ ایک حدیث کے مطابق تو عورتوں کی یہ صورت حال ہے کہ تمام تر حقوق پورے کرنے کے باوجود اگر کبھی کوئی ڈیمانڈ پوری نہ کرسکے تو عورتیں جھٹ سے کہہ دیتی ہیں کہ میں نے تو آپ کے گھر میں کبھی کوئی سہولت اور آرام دیکھا ہی نہیں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ "
ترمذی : 1955، صحیح
جس نے لوگوں کا شکر ادا نہ کیا تو اس نے اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا

خدیجہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا :
إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،
وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ،
وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ،
وَتَقْرِي الضَّيْفَ،
وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ
صحيح البخاري | 3
آپ صلہ رحمی کرتے ہیں
لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں
لوگوں کو کما کر دیتے ہیں
مہانوں کی میزبانی کرتے ہیں

گھر کی خواتین کی تعریف کریں

گھر کی خواتین کس قدر محنت کرتی ہیں گرمی سردی میں کھانا پکانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی کرنا، بچوں کو سنبھالنا انتہائی محنت طلب اور مشکل کام ہے
مثال کے طور پر گرمی کے روزوں میں افطاری کے وقت رنگا رنگ کھانے دسترخوان پر سمجھے ہوں تو تھوڑی دیر رک کر سوچیں کہ ان کھانوں کو تیار کرنے میں کتنا وقت اور مشقت لگتی ہے تو فوراً گھر کی خواتین کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھ کر سنائیں :
‏(مَن فطَّر صائمًا في رمضانَ كان له مثلُ أجرِه)
(اے میری ماں! اے میری زوجہ! تجھے مبارک ہو) جو روزہ افطار کروائے اسے بھی روزے دار کے برابر اجر ملے گا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کی تعریفیں کیا کرتے تھے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے فضائل والی اکثر روایات کے راوی صاحب فضیلت کے علاوہ کوئی اور ہیں

سیدنا علی، معاویہ کی اور سیدنا معاویہ، علی کی تعریف کرتے ہیں
رضی اللہ عنہما

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ نے کبھی بھی ایک دوسرے پر ذاتی نقد نہیں کیا۔
سیدنا معاویہ نے کھلے دل سے اعتراف کیا :
واللہ انی لاعلم انہ افضل منی واحق بالامرمنی۔
سير أعلام النبلاء 140/3 وقال المحقق شعيب الأرنؤوط ورفقاؤه: رجاله ثقات
اللہ کی قسم علی مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حق دار ہیں

اور علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
۔قتلای وقتلی معاویة فی الجنة
( سير اعلام النبلاء)
میرے اور معاویہ کے مقتولین جنت میں جائیں گے

کاش کہ آج علی رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے

ایک شخص معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بولا :
میرا یہ کپڑا چوری ہوگیا تھا اور میں نے اس کو اس شخص کے پاس دیکھا۔
معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لو كان لهذا علي بن أبي طالب.
(مقتل علي لابن أبي الدنيا ، رقم: ١٠٧)
کاش اس مسئلہ کے حل کے لیے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہوتے!

علی رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان

جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
“لوگو ! آپ لوگ معاویہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے۔‘‘
( ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ 14/38850)

اپنے زمانے کے لوگوں کی تعریف کریں

شیخ بن باز، شیخ البانی کی تعریف کرتے ہیں
رحمھما اللہ

مفتی اعظم سعودیہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” آسمان کے سائباں کے نیچے میں نے اس زمانے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی سے زیادہ حدیث نبوی (علی صاحبہا الصلوات والتسلیم) کاعالم نہیں دیکھا۔“

مدینہ میں دو پہاڑ ہیں

شیخ نبیل نصار سندی حفظہ اللہ اپنے معاصر شیخ کے متعلق فرماتے ہیں :
”مدینہ میں دو پہاڑ ہیں جن سے اہلِ ایمان محبت کرتے ہیں۔ اُحد اور العباد!“ (یعنی جبلِ احد اور شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ)

دو دوستوں کا ایک دوسرے کو یاد کرنے کا طریقہ

ابو نضر هاشم بن القاسم بیان کرتے ہیں :
ﻛﺎﻥ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ اﻟﻤﻐﻴﺮﺓ ﺇﺫا ﺫﻛﺮ ﺷﻌﺒﺔ ﻗﺎﻝ: ﺳﻴﺪ اﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ ﻭﻛﺎﻥ ﺷﻌﺒﺔ، ﺇﺫا ﺫﻛﺮ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺳﻴﺪ اﻟﻘﺮاء
حلية الأولياء:٧/ ١٥٣ سنده صحيح
سلیمان بن مغیرہ، جب شعبہ کا تذکرہ کرتے تو انہیں ﺳﻴﺪ اﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ کہتے اور شعبہ جب سلیمان بن مغیرہ کا تذکرہ کرتے تو انہیں ﺳﻴﺪ اﻟﻘﺮاء کہتے

حافظ مسعود عالم، عبداللہ ناصر رحمانی کی تعریف کرتے ہیں

فیضلۃ شیخ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ نے موقع پر فرمایا :
"سچی بات ہے کہ میں "شیخ (عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ ) کی موجودگی میں بات نہیں کر سکتا مگر جو مجھ سے ہوا میں نے عرض کیا ہے اس میں اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو شیخ صاحب (عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ) اسکی تلافی فرما دیتے ہیں اور اگر کوئی کمی ہے تو شیخ صاحب اسکی اصلاح فرما دیتے ہیں "

ابو موسیٰ اشعری، ابن مسعود کی تعریف کرتے ہیں
رضی اللہ عنہما

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا :
لَا تَسْأَلُونَا وَهَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ.
جب تم میں یہ عالم موجود ہیں تو مجھ سے سوال نہ کیا کرو
سنن ابی داؤد 2059

یہ بھی دیکھیں

علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا :
أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم؟
تو آپ نے فرمایا :أَبُو بَكْرٍ
پھر پوچھا گیا تو فرمایا :عُمَرُ

اس حدیث کے راوی بھی علی رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(” أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَشَبَابِهَا)
کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں

اور یہ بھی علی رضی اللہ عنہ کا ہی فرمان ہے :
خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما

یعنی اپنے معاصرین کی تعریف کرنے میں کوئی بخل نہیں تھا

حافظ عبد السلام بھٹوی، حافظ عبد المنان نور پوری کی تعریف کرتے ہیں
رحمہما اللہ

غالباً 2011 میں مرکز طیبہ مریدکے میں تقریب بخاری کے موقع پر، جب حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ تقریب میں تشریف لائے تھے تو حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ نے فرمایاتھا :
عزیز طلبہ!حافظ(عبد المنان )صاحب کو غور سے دیکھ لو ایک وقت آئے گا جب تم میں سے چند لوگ ہوں گے جو کہہ سکیں گے کہ "ہم نے حافظ عبد المنان نور پوری کو دیکھا ہے ”
(کتبہ محمد ارشد کمال )

حافظ نورپوری رحمہ اللہ حافظ بھٹوی رحمہ اللہ کی تعریف کرتے ہیں

محمد یونس شاکر (نوشہرہ ورکاں) نے شیخ نورپوری رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ گزرے ہوئے اور موجودہ زمانے کے کسی عالم کا نام لکھ دیں جو مسلم و موحد ہو

تو شیخ رحمہ اللہ نے دو گزشتہ علماء اور دو موجودہ علماء کے نام پیش کیے :
امام بخاری ، امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ الأعلیٰ الأجل ۔
شیخ ربیع ابن ہادی مدخلی اور حافظ عبدالسلام صاحب بھٹوی۔ حفظہما اللّٰه تبارک و تعالیٰ۔
احکام و مسائل ج 2 ص 854

اپنے شاگردوں کی تعریف کریں

ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب ’’جنۃ الناظر‘‘ لکھی اور اپنے استاد کی خدمت میں پیش کی ؛شیخ نے اس پر تحریر کیا:
’’ مجھے یہ کتاب فقیہ ، عالم اور امام نے پیش فرمائی۔‘‘
اس وقت مصنف کی عمر صرف سولہ برس تھی!
(ذیل الطبقات؛ بہ شکریہ شیخ محمد صالح المنجد)

امام شافعی رحمہ اللہ کا اپنے شاگردوں کو خراج تحسین

امام شافعی رحمہ اللہ اپنے شاگر ابو یعقوب البویطی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے تھے کہ میرے شاگردوں میں اس سے زیادہ علم کوئی نہیں رکھتا۔ کبھی کبھی مسئلہ پوچھنے والے سے کہتے کہ ابو یعقوب سے پوچھو۔

دوسرے شاگرد مزنی رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ میرے مذہب کا ناصر ہے۔ ان کی قوت استدلال کے متعلق فرمایا:
یہ شیطان سے مناظرہ کرے تو اس پہ بھی غالب آجائے۔
سير أعلام النبلاء ( 58 /12 )

مسدد ایسا شاگرد ہے کہ اسے گھر جا کر بھی حدیث سنانے میں کوئی حرج نہیں ہے

مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ رحمہ اللہ کے شاگرد تھے یحیی ان کے بارے کہا کرتے تھے :
لَوْ أَنَّ مُسَدَّدًا أَتَيْتُهُ فِي بَيْتِهِ فَحَدَّثْتُهُ لَاسْتَحَقَّ ذَلِكَ، وَمَا أُبَالِي كُتُبِي كَانَتْ عِنْدِي أَوْ عِنْدَ مُسَدَّدٍ
بخاری : 1576
مسدد ایسا شاگرد ہے کہ اگر میں اسے گھر جا کر بھی حدیث سناؤں تو وہ اس کا اہل ہے اور مجھے اس بات سے کوئی پریشانی نہیں کہ میری کتابیں مسدد کے پاس ہوں یا میرے پاس ہوں

بیٹے، میں آپ کا درس اس لیے سنتا ہوں تاکہ آپ کا حوصلہ بڑھاؤں اور آپ پر فخر کروں

شیخ عبدالرزاق زاھد گھمن حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
جن دنوں مجھے مسجد نبوی میں درس دینے کے لیے مقرر کیا گیا، انہی دنوں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہمارے ایک استاد علامہ عبد الرحمن محی الدین ہوا کرتے تھے (متوفی 1444ھ بمطابق 2022ء)جنہیں ہم خطیب الجامعہ بھی کہا کرتے تھے،سلفی العقیدہ تھے، قرآن و سنت کے پرچار میں شیخ کا نمایاں نام تھا، جامعہ کے سبھی اساتذہ شیخ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے
فرماتے ہیں کہ جب میں مسجد نبوی میں درس دیتا تو شیخ بھی سنا کرتے تھے، کبھی تو آدھا آدھا گھنٹہ کھڑے درس سنتے رہتے، مجھے شرمندگی بھی ہوتی تھی کہ شیخ یہاں موجود ہیں، تو ایک دن میں نے شیخ سے عرض کی کہ آپ کو تو اردو زبان نہیں آتی پھر کیوں آپ کھڑے رہتے ہیں
تو شیخ رحمہ اللہ فرمانے لگے :
یَا بُنَيَّ أَنَا أَسْمَعُكَ لِكَي أُشَجِّعُكَ وَأَفْتَخِرُ بِكَ
بیٹے، میں آپ کا درس اس لیے سنتا ہوں تاکہ آپ کا حوصلہ بڑھاؤں اور آپ پر فخر کروں

آپ تجوید کے ساتھ مجھ سے عمدہ قراءت کرتے ہیں

علامہ تقي الدين الهلالي رحمه الله اپنے استاد تحفۃ الاحوزی کے مؤلف علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ کی سیرت میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنی مسجد میں جہری نمازوں کی امامت کے لئے مجھے آگے کرتے تھے جبکہ سری نمازوں کی امامت خود فرماتے تھے اسکی وجہ یہ بیان فرماتے آپ تجوید کے ساتھ مجھ سے کہیں عمدہ قرآن کریم کی قراءت کرتے ہیں اس لیے ہمیں پسند ہے کہ ہم آپکی قراءت سنیں