تین اعمال ، تین انعام

اہم عناصر :
❄ غصّے پر قابو پانا
❄ زبان کی حفاظت کرنا
❄ اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے اپنا عذر پیش کرنا
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97]
ذی وقار سامعین!
ہر انسان عام طور پر اور ہر مومن خاص طور پر یہ چاہتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھ سے اپنا عذاب روک لے ، دنیا اور آخرت میں مجھے کوئی عذاب نہ دے۔ دیکھا جائے تو یہی سب سے بڑی کامیابی و کامرانی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ [آل عمران: 85]
"پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا.”
مطلب یہ ہے کہ جو شخص کل قیامت والے اللّٰہ تعالٰی کے عذاب سے بچ گیا وہ حقیقی کامیاب و کامران ہے اور جو شخص کل قیامت والے دن جہنم میں چلا گیا تو اس جیسا خسارے والا کوئی انسان نہیں ہوگا۔ اس لئے ہر وقت جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے خاص اور مقرب بندوں (عباد الرحمٰن) کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ جہنم کے عزاب سے پناہ مانگتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا [الفرقان: 65]
"اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے۔ بے شک اس کا عذاب ہمیشہ چمٹ جانے والا ہے۔”
اور آقا علیہ السلام نے جہنم سے پناہ مانگنے کا فائدہ ارشاد فرمایا ہے ؛
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْجَنَّةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتْ الْجَنَّةُ اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَمَنْ اسْتَجَارَ مِنْ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتْ النَّارُ اللَّهُمَّ أَجِرْهُ مِنْ النَّارِ [ترمذی: 2572 صححہ الالبانی]
ترجمہ : انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ جواللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے توجنت کہتی ہے: اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کردے، اور جوتین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتاہے تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ اس کو جہنم سے نجات د ے’۔
اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے ، مجھے اپنی رحمت کی آغوش میں رکھے تاکہ میں لوگوں کے سامنے ذلیل نہ ہوجاؤں ، کیونکہ جب عیب ظاہر ہوتے ہیں تو غیر تو غیر اپنے بھی منہ پھیر لیتے ہیں اور اتنے طعنے دیتے ہیں کہ بندے کا زندہ رہنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ کیونکہ ہر بندے کے کچھ نہ کچھ پوشیدہ معاملات ہوتے ہیں ، جیسے کہتے ہیں کہ
"ہر انسان کی دو کہانیاں ہوتی ہیں ،ایک وہ جو وہ سب کو سُناتا ہے، دوسری وہ جو وہ سب سے چُھپاتا ہے۔”
اور یہ چھپی کہانی ہوتی ہے انسان چاہتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ صبح و شام یہ دعا لازمی پڑھا کرتے تھے ؛
اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي، وَآمِنْ رَوْعَاتِي [أبوداؤد: 5074 صححہ الالبانی]
کہ اے اللہ! میرے عیب چھپا دے۔ مجھے میرے اندیشوں اور خطرات سے امن عنایت فرما۔
اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ جب میں اللّٰہ کے سامنے اپنا عذر پیش کروں ، معافی مانگوں تو اللّٰہ تعالیٰ میرا عذر اور میری توبہ قبول کرکے میری بخشش و مغفرت فرمادے۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ایسے تین اعمال کو سمجھیں گے جن کو کرنے سے اللّٰہ تعالیٰ اپنا عذاب بھی روک لیتے ہیں ، عیبوں پر پردہ بھی ڈالتے ہیں اور توبہ قبول بھی فرماتے ہیں۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اس کے لئے پاکیزہ زندگی اور بہترین اجر ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97] "جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔”
آئیے ان تین اعمال کو تھوڑا تفصیل سے سمجھیں جن کے بدلے میں اللّٰہ تعالیٰ تین انعام عطاء فرماتے ہیں۔
عن أنس بن مالك مرفوعا: «من كَفّ غَضَبَه كَفَّ اللهُ عَنْه عَذَابَه ، وَمَنْ خَزَن لِسَانَه سَتَر اللهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنِ اعْتَذَرَ إِلىَ اللهِ قَبِلَ اللهُ عُذْرَهُ». [سلسلہ صحیحہ: 418]
"سیدنا انس بن مالک سے مرفوعا مروی ہے کہ جس شخص نے اپنے غصےپر قابوپالیا، اللّٰہ تعالیٰ اس سے اپنا عذاب روک لے گا اور جس شخص نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللّٰہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو شخص اللّٰہ سے معذرت کرے گا اللہ اس سے اس کی معذرت قبول کرے گا۔
1۔ غصّے پر قابو پانا
اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ
من كَفّ غَضَبَه كَفَّ اللهُ عَنْه عَذَابَه
"جس شخص نے اپنے غصےپر قابوپالیا، اللّٰہ تعالیٰ اس سے اپنا عذاب روک لے گا.”
غصّے پر قابو پانے کی اہمیت:
❄ اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں اہلِ جنت کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [آل عمران: 134]
"جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔”
❄ اللہ تعالٰی ایمان والوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ [الشوری: 37]
"اور وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور جب بھی غصے ہوتے ہیں وہ معاف کردیتے ہیں.”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ» [بخاری: 6114]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے۔ بے قابو نہ ہوجائے۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ [مسلم: 6592]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْصِنِي، قَالَ: «لاَ تَغْضَبْ» فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ: «لاَ تَغْضَبْ» [بخاری: 6116]
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر ۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ غصہ نہ ہو ا کر ۔
❄ عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ [ابوداؤد: 4777 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: جناب سہل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اﷲ اسے قیامت کے دن برسر مخلوق بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حورعین میں سے جسے چاہے منتخب کر لے۔“
غصّہ کے وقت کیا کریں؟
1۔سب سے پہلےشیطان سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہئے کیونکہ وہی اصل محرک ہے جو دل میں وسوسہ ڈال کر طبیعت کے اندرونی حصے سے غصہ کو باہر نکال دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ[الأعراف:200]
ترجمہ: اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چو کا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر دے) تو اللہ کی پناہ مانگ یقینا وہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا غَضِبَ الرجلُ فقال أعوذُ باللهِ سَكَنَ غضبُه[صحيح الجامع:695]
ترجمہ: جب آدمی کو غصہ آئے اور اللہ سے پناہ مانگ لے تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔
صحیحین میں دوشخص کے گالی گلوج کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک کا چہرہ غصے میں سرخ ہوجاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں، آپ ﷺ نے اس غصہ ہونے والے شخص کے پاس آکر فرمایا :
إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه : أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
[بخاري: 3282، مسلم:2610]
ترجمہ: میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہہ لے تو اس کی یہ کیفیت دور ہوجائے ، وہ کلمہ ہے” أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ” (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں)۔
2۔ اس کے بعد فورًا زبان پہ خاموشی اختیار کرلینی چاہئے کیونکہ جس قدر زبان کھولے گا، غلط الفاظ نکلیں گے اور غصہ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ، اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا:
إذا غَضِبَ أحدُكم فلْيسكتْ [ صحيح الجامع:693 ]
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔
3۔ اپنی حالت تبدیل کرلینا چاہئے یعنی کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھے ہوں یا بیٹھنے سے غصہ دور نہ ہو تو لیٹ جائیں۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إذا غضبَ أحدُكم وهو قائمٌ فلْيجلسْ، فإن ذهبَ عنه الغضبُ وإلاَّ فلْيَضْطَجِعْ
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوتو چاہئے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ پھرلیٹ جائے ۔ [أبوداود:4782 صححہ الالبانی]
2۔ زبان کی حفاظت کرنا
اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی؛
وَمَنْ خَزَن لِسَانَه سَتَر اللهُ عَوْرَتَهُ
"اور جس شخص نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللّٰہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔”
زبان کی حفاظت کا حکم:
زبان کی حفاظت بہت زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے کہ قرآن وحدیث میں اس کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا [بنی اسرائیل: 53]
"اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بے شک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔”
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ» [بخاری: 6475]
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور جوکوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جوکوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔
زبان کی حفاظت کی اہمیّت وفضیلت:
زبان اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے ، جو بندہ زبان کی حفاظت نہیں کرتا اور جو منہ میں آئے بولتا رہتا ہے۔ ایسا بندہ اپنا بہت زیادہ نقصان کرتا ہے۔ کیونکہ زبان کے بول کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ [بخاری: 10]
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں۔
❄ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَفَعَهُ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا [ترمذی: 2407 صححہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ‘انسان جب صبح کرتاہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: توہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔’
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ» [بخاری: 6478]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بند ہ اللہ کی رضامندی کے لئے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کردیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی نارضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ، مَا يَتَبَيَّنُ فِيهَا، يَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَيْنَ المَشْرِقِ» [بخاری: 6477]
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا بندہ ایک بات زبان سے نکالتاہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں (کتنی کفر اور بے ادبی کی بات ہے) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گرپڑتا ہے جتنی پچھم سے پورب دور ہے۔
❄ جناب سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے صحابہ بھی تھے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابوبکر کو برا بھلا کہا اور انہیں اذیت دی ، تو ابوبکر خاموش رہے ۔ اس نے پھر دوسری بار اذیت دی تو ابوبکر خاموش رہے ۔ اس نے پھر تیسری بار اذیت دی تو ابوبکر نے اسے بدلے میں کچھ کہا ۔ جب سیدنا ابوبکر نے اس سے بدلہ لیا تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے ، تو ابوبکر نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھ سے ناراض ہو گئے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
نَزَلَ مَلَكٌ مِنَ السَّمَاءِ يُكَذِّبُهُ بِمَا قَالَ لَكَ، فَلَمَّا انْتَصَرْتَ وَقَعَ الشَّيْطَانُ، فَلَمْ أَكُنْ لِأَجْلِسَ إِذْ وَقَعَ الشَّيْطَانُ[أبوداؤد: 4896 حسنہ الالبانی]
” آسمان سے ایک فرشتہ اترا تھا جو اس آدمی کو اس کے کہے پر جھٹلا رہا تھا ۔ جب تم نے اس سے بدلہ لیا تو شیطان آ گیا۔ اور جب شیطان آ گیا تو میں نہیں بیٹھ سکتا۔
❄ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّةَ» [بخاری: 6474]
ترجمہ: سیدنا سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے لئے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز ( زبان ) اور دونوں پاؤں کے درمیان کی چیز ( شرمگاہ ) کی ذمہ داری دے دے میں اس کے لئے جنت کی ذمہ داری دے دوں گا۔
❄ حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا، ایک دن جبکہ ہم چل رہے تھے میں آپ کے قریب ہو گیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا: تو نے بڑی عظیم بات پوچھی ہے اور جس کے لیے اللہ آسان کر دے اس کے لیے یہ آسان بھی ہے۔ پھر آقا علیہ السلام نے جنت میں لے جانے والے کئی اعمال بتائے۔ اس حدیث کے آخر میں ہے
ثُمَّ قَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟» قُلْتُ: بَلَى، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ، فَقَالَ: «تَكُفُّ عَلَيْكَ هَذَا» قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ قَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يُكِبُّ النَّاسَ عَلَى وُجُوهِهِمْ فِي النَّارِ، إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ؟»
آقا علیہ السلام نے فرمایا: میں تجھے وہ چیز نہ بتاؤں جس پر ان سب کا مدار ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! تب نبی ﷺ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: اسے روک کر رکھنا۔میں نے کہا: اللہ کے نبی! ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: معاذ! تیری ماں تجھے روئے۔ لوگوں کو (جہنم کی) آگ میں چہروں کے بل گھسیٹنےوالی چیز ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصلوں کے سوا اور کیا ہے؟ [ابن ماجہ: 3973 صححہ الالبانی]
3۔ اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے اپنا عذر پیش کرنا
اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے تیسری بات یہ ارشاد فرمائی؛
وَمَنِ اعْتَذَرَ إِلىَ اللهِ قَبِلَ اللهُ عُذْرَهُ
"اور جو شخص اللّٰہ سے معذرت کرے گا اللہ اس سے اس کی معذرت قبول کرے گا۔”
مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللّٰہ کے حضور توبہ کر لیتا ہے ، اپنا عذر اللّٰہ کے ہاں پیش کرتا ہے تو اللّٰہ اسکی معذرت اور توبہ قبول کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بندے کو احساس ہو کہ میں نے گناہ کیا ہے ، میری غلطی ہے ، مجھ سے بھول ہو گئی ہے اور وہ دل سے چاہتا ہے کہ میرا اللّٰہ میری توبہ قبول کر لے اور مجھے معاف فرمادے۔ یہ اللّٰہ کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے کہ بندے کو احساس ہو جائے کہ میں گناہگار ، خطاکار اور پاپی ہوں۔ ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو گناہ پہ گناہ کیے جا رہے ہیں لیکن ان کو کوئی احساس ہی نہیں ہے کہ ہم گناہگار ہیں اور ہمارا کوئی پروردگار ہے تو ایسے بندوں کو اللّٰہ تعالیٰ معاف بھی نہیں فرماتے کیونکہ انہوں نے اللّٰہ کے حضور توبہ نہیں کی۔
❄ سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک بندے نے بہت گناہ کئے اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا ہی گنہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا؛
أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي
” میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ”
پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں نے دوبارہ گناہ کر لیا، اسے بھی بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛
أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي
"میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے بدلے میں سزا بھی دیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ ”
پھر جب تک اللہ نے چاہا بندہ گناہ سے رکا رہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور اللہ کے حضور میں عرض کیا: اے میرے رب! میں نے گناہ پھر کر لیا ہے تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛
أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَلَاثًا فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ
” میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ورنہ اس کی وجہ سی سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ تین مرتبہ، پس اب جو چاہے عمل کرے۔” [بخاری: 7507]
اس حدیث سے استغفار کی بھی بڑی فضیلت ثابت ہوئی بشرطیکہ گناہوں سےتائب ہوتاجائے اوراستغفار کرتارہے تو اس کو ضررنہ ہوگا ۔استغفار کی تین شرطیں ہیں۔ گناہ سے الگ ہوجانا، نادم ہونا ، آگے کےلیے یہ نیت کرناکہ اب نہ کروں گا۔ اگر پھر گناہ ہوجائے توپھراستغفار کرے۔
❄ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺقَالَ كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ
ترجمہ : انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’ سارے انسان خطا کارہیں اور خطاکاروں میں سب سے بہتروہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔ [ترمذی: 2499 حسنہ الالبانی]
❄ عن جابر رضی الله عنه قال قال رسول الله ﷺ(مرَّ رجلٌ ممن كان قبلكُم بجُمجُمة، فنظر إليها، فحدّث نفسه بشيءٍ ثم قال: يا ربِّ! أنت أنت، وأنا وأنا، أنت العوادُ بالمغفرةِ، وأنا العوادُ بالذنوب! وخرّ للهِ ساجداً، فقيل له: ارفع رأسك، فأنت العوّادُ بالذّنوبِ، وأنا العوّادُ بالمغفرةِ، [فرفع رأسه، فغُفِر له]) [سلسلہ صحیحہ: 2338]
سیدنا جابر سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلے والے لوگوں میں سے ایک آدمی (کا ذکر ہے، وہ) ایک کھوپڑی کے پاس سے گزرا، اس نے اس کی طرف دیکھا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔ پھر اس نے کہا: اے میرے پروردگار! تو بڑی عظیم ذات ہے اور میں بڑا کمزور ہوں، تو بار بار بخشنے والا ہے اور میں بار بار گناہ کرنے والا ہوں، پھر اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑا، (غیبی آواز آئی ) اسے کہا گیا: اپنا سر اٹھاؤ، تو بار بار گناہ کرنے والا ہے اور میں بار بار بخشنے والا ہوں۔ سو اس نے اپنا سر اٹھایا اور (اللہ تعالیٰ نے )اسے بخش دیا۔“ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جو بندہ اللہ سے ڈر جاتا ہے اور اسے إحساس ہوجاتا ہے کہ میرا کوئی رب ہے تو اس کا عذر اور اسکی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔
❄ سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر و ہ( نادم ہوا) مسئلہ پوچھنے نکلا۔
فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَهُ هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لَا فَقَتَلَهُ
وہ ایک درویش کےپاس آیا اوراس سے پوچھا ،کیا اس گناہ سےتوبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں ۔یہ سن کر اس نےاس درویش کوبھی قتل کردیا۔
پھر وہ ( دوسروں سے) پوچھنے لگا۔ آخر اس کوایک درویش نےبتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا( وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھاکہ) اس کوموت واقع ہوگئی ۔مرتےمرتے اس نے اپناسینہ اس بستی کی طرف جھکادیا۔ آخر رحمت کےفرشتوں اورعذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا۔ (کہ کون اسے لے جائے) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو(جہاں وہ توبہ کےلیے جارہاتھا) حکم دیا کہ وہ اس کی نعش سےقریب ہو جائے اوردوسری بستی کو(جہاں سے وہ نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سےدور ہوجا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سےفرمایا کہ
قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَهُ [بخاری:3407 ]
اب دونوں کافاصلہ دیکھوں اور(جب ناپا تو) اس بستی کو(جہاں سے وہ توبہ کےلیے جارہا تھا) ایک بالشت نعش سےنزدیک پایا اس لیے وہ بخش دیاگیا۔
اس بندے کو إحساس ہو گیا کہ میں گنہگار ہوں اور اس نے کوشش کی کی اللہ مجھے کسی نہ کسی طرح معاف کردے تواللہ تعالٰی نےاس کو معاف کرکے جنتوں کا وارث بنا دیا۔
❄❄❄❄❄