تین نعمتیں (کان کا استعمال)

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا﴾ [بنی اسرائیل: 36]
سورہ بنی اسرائیل کی ایک مختصر مگر انتہائی جامع آیت خطبہ میں تلاوت کی گئی ہے خالق کائنات رب الانسان والجان۔ مالك الارض والسموات نے اس آیت مبارکہ میں انسان کو ملنے والی تین انتہائی قیمتی اور بے بدل نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کے متعلق خبردار کیا ہے کہ کل قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے تحت باز پرس اور کڑا احتساب ہوگا۔
ظاہر بات ہے جو نعمت جس قدر زیادہ قیمتی اور نفع بخش ہوگی اس کے بارے پوچھ کچھ بھی اسی قدر زیادہ اور سخت ہوگی۔ وہ تین نعمتیں:
کان، آنکھیں اور دل ہیں۔
یہ تینوں چیزیں جہاں اللہ تعالٰی کی نعمتیں ہیں۔ وہاں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بہت بڑی نشانیاں بھی ہیں:
1۔ کان:
ایک باریک پردہ اور جھلی ہے لیکن قادر مطلق نے اس پردے اور جھلی میں ایسی صلاحیت پیدا کر دی ہے کہ اس کے ذریعے انسان دنیا جہاں کی سنی جانے والی آواز یں سنتا بھی ہے اور ان کے درمیان فرق بھی پہچانتا ہے۔
آنکھ:
ایک قطرہ آب ہے لیکن انسان اس سے دنیا جہان کی دیکھی جانے والی تمام چیزیں دیکھتا اور ان کے مختلف رنگوں زاویوں اور ڈھانچوں کو پہچانتا ہے۔
دل:
ایک دھڑکتا ہوا عضلہ اور لوتھڑا ہے لیکن اس کے اندر بے شمار جذبات، خواہشات اور عقائد و نظریات جنم لیتے اور ختم ہوتے ہیں۔ اور یہ پورے بدن کو خون کی شکل میں غذا پہچانے کا کام سرانجام دے رہا ہے۔ اور کسی قسم کی توانائی بجلی، پٹرول اور گیس وغیرہ کے بغیر یہ پرزہ چل رہا ہے اور مسلسل دھڑکتا رہتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے سورۃ الملک میں ان تینوں نعمتوں کے متعلق ارشاد فرمایا:
﴿ قُلْ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ﴾ [الملك: 23]
’(اے پیغمبرﷺ) اعلان فرما دیجئے وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں عدم سے وجود بخشا ہے اور تمہیں کان آنکھیں اور دل عطاء فرمائے لیکن تم بہت کم شکر کرتے ہو۔‘‘
قرآ ن کریم میں کئی مرتبہ ان نعمتوں کی گرانقدری اور شان ومنزلت بیان کی گئی ہے۔ اور اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کو یہ نعمتیں ان کے مطالبے کے بغیر بلا معاوضہ عطاء فرمائی ہیں اور ان کے درست استعمال کا حکم دیا ہے اور غلط استعمال پر سخت پابندی عائد کی ہے۔
کیونکہ یہ تینوں نعمتیں ایسی حساس نعمتیں ہیں کہ ان کے درست استعمال سے دنیا میں امن سکون عزت اور وقار ملتا ہے اور آخرت میں فوز و فلاح اور دائگی جنت ملتی ہے اور ان کے غلط استعمال سے دنیا میں فتنہ وفساد برپا ہوتا ہے بدامنی و بیقراری جنم لیتی ہے اور آخرت میں شقاوت و بدبختی اور نار جہنم مقدر بن جاتی ہے۔
اس لیے آج کے خطبہ میں ان تینوں نعمتوں کا درست اور غلط استعمال بیان کیا جائے گا۔ اور درست استعمال کے فوائد اور منافع اور غلط استعمال کے نقصانات و فسادات ذکر کیے جائیں گے۔ تاکہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم ان قیمتی نعمتوں کا درست استعمال کر رہے ہیں یا الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔
کان:
یہ ایک قدرتی آلہ سماعت ہے جس میں رب ارض و سماء نے قوت شنوائی پیدا فرمائی ہے اور اس کا درست استعمال یہ ہے کہ
1۔کانوں سے اللہ کی کتاب سنی جائے:
کتاب اللہ کا سنن،ا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَا أَذِنَ اللهُ لِشَيْءٍ مَّا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، يَجْهَرُ بِهِ) [صحيح البخاري، كتاب فضائل القرآن، باب من لم يتغن بالقرآن (5024) و مسلم (232)]
’’اللہ پاک کسی (آواز) پر اتنا کان نہیں لگاتے جس قدر پیغمبرﷺ کی آواز پر کان لگاتے ہیں جو خوبصورت آواز کے ساتھ بلند آواز سے تلاوت فرماتے ہیں۔‘‘
غور فرمائیے! کتاب اللہ کا سننا اللہ رب العزت کے ہاں کسی قدر محبوب اور مرغوب عمل ہے کہ پیغمبر کے قرآن پڑھنے پر اللہ بھی کان لگا لیتا ہے۔
کتاب اللہ کا سننا، رسول اللہ ﷺ کے نزدیک بھی انتہائی محبوب عمل ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا جبکہ آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے (اے عبداللہ) (اقرأ عَلَیَّ) ’’تو مجھے تلاوت قرآن سنا۔‘‘ میں نے عرض کیا: (اَقْرَأْ عَلَيْكَ وَ عَلَيْكَ اُنْزِلَ) ’’میں آپ کو پڑھ کر سناؤں؟ جبکہﷺ پر قرآن پاک نازل ہوا ہے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے پسند ہے کہ میں کسی دوسرے سے قرآن پاک سنوں‘‘ چنانچہ میں نے سورت نساء کی تلاوت شروع کر دی جب میں اس آیت ﴿فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا ﴾[النساء:41]
تو آپ ﷺ نے فرمایا: (حسبك الآن) ’’اب بس کرو۔‘‘ اچانک میں نے آپﷺ کی جانب نظر اٹھائی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب التفسير، تفسير سورة النساء باب فكيف إذا جئنا.. (5050) و مسلم (247)]
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کس قدر ذوق و شوق اور کامل توجہ کے ساتھ قرآن کریم سنا کرتے تھے اور آپ ﷺ کے ہاں یہ کس قدر محبوب اور پیارا عمل تھا۔
کتاب اللہ کا سنا فرشتوں کے نزدیک بھی انتہائی پسندیدہ عمل ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ رات کے وقت سورت بقرہ کی تلاوت کر رہا تھا اور ان کا گھوڑا ان کے قریب بندھا ہوا تھا۔ اچانک گھوڑا کودنے لگا تو اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ خاموش ہو گئے۔ اس پر گھوڑا بھی کودنے سے رک گیا پھر اس نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا کودنے لگا جب وہ خاموش ہوا تو گھوڑا بھی کو دنے سے رک گیا۔ پھر اسے نے پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا کودنے لگا۔ چنانچہ اسید رضی اللہ تعالی عنہ (نفل) نماز سے فارغ ہوا اور اس کا بیٹا گھوڑے کے قریب تھا وہ خوفزدہ ہو گیا کہ (گھوڑے کے کودنے سے) بچے کو کچھ تکلیف نہ پہنچ جائے اور جب بچے کو گھوڑے سے دور ہٹا دیا تو اس نے آسمان کی جانب سر بلند کیا تو وہاں سائبان سانظر آیا جس میں چراغ سے دکھائی دے رہے تھے۔ جب صبح ہوئی تو اس نے یہ واقعہ نبی ﷺ کو کہہ سنایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن حضیر! تم پڑھتے رہتے۔‘‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں گھوڑا بچے کو روند نہ ڈالے۔ اور وہ اس سے بالکل نزدیک تھا۔ چنانچہ میں (نماز روک کر) اس کی طرف گیا اور میں نے آسمان کی جانب سراٹھایا تو وہاں سائبان سا نظر آیا جس میں روشنیاں ہی دکھائی دے رہی تھیں، جب میں گھر سے باہر نکلا تو مجھے روشنیاں نظر نہ آئیں۔
آپﷺ نے دریافت کیا، تجھے معلوم ہے یہ روشنیاں کیا تھیں؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
(تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ، وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحْتَ، يَنظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ) [مسند احمد (883/5) والبيهقي (213/1) والصحيحة (1982) و صحيح الجامع الصغير (1071)]
’’یہ فرشتے تھے، تیری قرآت سننے کے لیے اترے تھے اور اگر تو قرآت جاری رکھتا تو صبح ہونے پر لوگ انہیں دیکھتے۔ فرشتے ان سے نہ چھبتے۔“
سبحان اللہ! قرآن کریم کا سماع کتنا عظیم الشان عمل ہے کہ فرشتے بھی قرآن مجید کو سننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں اور جہاں انہیں قرآن سننے کا موقع میسر آتا ہے وہاں نزول فرماتے ہیں اور قریب ہو کر قرآن سنتے ہیں۔
اور کتاب اللہ کا سننا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے نزدیک بھی انتہائی مرغوب عمل ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب صفہ ایک قاری کی تلاوت قرآن سن رہے تھے۔ اچانک رسول اللہﷺ تشریف لائے اور ہمارے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے، جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو قاری ادبًا خاموش ہو گیا۔ آپ ﷺ نے السلام علیکم کہا، پھر آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ ’’تم کیا پڑھ رہے تھے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ہم اللہ کی کتاب (کی تلاوت) سن رہے تھے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگوں کو بنایا جن کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود کو ان کے ساتھ شامل کروں‘‘[سنن أبي داود، كتاب العلم، باب في القصص، رقم: 3666]
آج لوگ قرآن سننے کے لیے سال میں ایک آدمی دفعہ حسن قراءت کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو جب بھی فرصت ملتی فراغت ہوتی ان میں سے کوئی تلاوت شروع کر دیتا اور باقی بیٹھ کر سننے لگ جاتے۔ کیسا پیارا اور عمدہ شوق ہے۔
2۔ کانوں سے حدیثیں سنی جائیں:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
[نَضَّرَ اللهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا) [سنن ابن ماجه، المقدمة، باب من بلّغ علما (232)]
’’اللہ تعالی اس شخص کے چہرے کو ترو تازہ رکھے جس نے میری بات کو سنا اس کو محفوظ کیا اس کو یاد رکھا اور اس کو (لوگوں تک) پہنچایا۔‘‘
معلوم ہوا حدیث رسول سننا اس قدر شان و شوکت والا عمل ہے کہ اس عمل پر نبی رحمت نے عظیم الشان دعا دی ہے کہ اللہ اس شخص کے چہرے کو رونق تازگی اور جمال بخشے۔ اور یہ رونق اور تازگی دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں حاصل ہوگی۔
﴿ وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ [القيمة:22،23]
3۔ کانوں سے دین کی بات اور وعظ و نصیحت سنی جائے:
رب ارض و سماء نے اعلان فرمایا:
﴿ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وأُولَئِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ﴾ [الزمر: 18]
’’جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس قدر کامل توجہ سے وعظ و نصیحت سنتے تھے گویا کہ سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور وہ حرکت کرنے سے اڑ جائیں گے۔[سنن أبي داود، كتاب الطب، باب الرجل بتداوی، رقم: 3855]
آج لوگ گانے بجانے پر تو کان لگاتے ہیں لیکن نصیحت پر کان نہیں لگاتے دائیں کان سے سنتے اور بائیں سے نکال دیتے ہیں۔
اور سورہ ق میں فرمایا:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ [ق:37]
’’اس میں ہر صاحب دل کے لیے عبرت ہے اور اس کے لیے جو دل سے متوجہ ہو کر کان لگائے اور وہ حاضر ہو۔‘‘
معلوم ہوا قرآن کریم کی مبارک تاثیر بھی انہی لوگوں کے لیے ہے جو دل حضوری اور پوری توجہ سے قرآن کی نصیحت سنتے ہیں۔
4۔ اذان کو توجہ سے سنا جائے اور جواب دیا جائے:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ ہم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اذان سن کر دل سے یہ دعا کی:
(اللَّٰهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدَ الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا نِ الَّذِي وَعَدْتَّهُ) [صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب الدعاء عند النداء (614) و ابوداود (529) والترمذي (211) و ابن ماجه (722)]
’’تو قیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگی۔‘‘
غور کیجئے! اذان پر کان لگانا اور جواب دینا پھر بعد میں دعا پڑھنا اتنا شاندار عمل ہے کہ ایسے شخص کے لیے امام الانبیاء کی سفارش حلال ہو جاتی ہے۔
جناب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ امام نے فرمایا:
’’جس شخص نے مؤذن کی اذان سن کر یہ کلمات کہے:
(اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللهِ رَبَّا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ) [صحيح مسلم، كتاب الصلاة باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه (389) و ابوداود (525) والترمذي (210)]
تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
یہ اذان سننے اور دعا پڑھنے کی دوسری فضیلت ہے کہ اس عمل سے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ لیکن آج جو لوگ اذان پر کان نہیں لگاتے وہ سوچیں کہ وہ کتنی بڑی فضیلت سے محروم رہتے ہیں۔
5۔ جن باتوں یا آوازوں کو سن کر عبرت پکڑنے کا حکم ہے ان سے عبرت پکڑے اور جن باتوں یا آوازوں کو سن کر جو کچھ پڑھنے کا حکم ہے وہ پڑھے۔ مثلاً: بادلوں کی گرج سن کر عبرت پکڑے اور یہ کلمات کہے:
(اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ) [جامع الترمذي، كتاب الدعوات، باب ما يقول اذا سمع الرعد (3450) و احمد (100/2) والبيهقي
(362/3) تحفة الذاكرين (ص (174) یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں ابو مطر راوی مجہول ہے۔]
مرغ کی آواز سن کر:
(اللهمَّ إِنِّي اَسْئَالُكَ مِنْ فَضْلِكَ) پڑھے[صحيح البخاري، كتاب بدء الخلق، باب خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال (3303) و مسلم (2729) و ابو داؤد (5102)]
اور گدھے اور کتے کی آواز سن کر:
(اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ) پڑھے۔[صحيح البخاري، كتاب بدء الخلق، باب خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال (3303) و مسلم (2729) و ابو داؤد (5102)]
اسی طرح ہر جائز اور اچھی بات پر کان لگانا کانوں کا درست استعمال ہے۔
1۔ کانوں کا برا استعمال:
میوزک موسیقی اور گانے سننا: اللہ رب العزت نے سورہ لقمان میں فرمایا ہے:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ۖۗ وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًا ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾ [لقمان:6]
’’بعض لوگ کھیل تماشے کا سامان (آلات الهو واهب، موسیقی، میوزک و غیره) خریدتے ہیں تاکہ (خود گمراہ ہونے کے ساتھ) اپنی جہالت کی وجہ سے لوگوں کو بھی گمراہ کریں اور دین کا تمسخر اڑا میں ایسے لوگوں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
غور فرمائیں! رب کائنات نے گانے بجانے کو گمراہ کن چیز قرار دیا ہے اور اسے دین کا تمسخر اڑانے کے مترادف ٹھہرایا ہے اور واقعہ اکثر گانے بولنے والے اور سننے والے دین اور اہل دین کا مذاق اڑاتے ہیں مزید فرمایا:
﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِیْۤ اُذُنَیْهِ وَقْرًا ۚ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ (لقمان: 7)
’’جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔‘‘
حقیقت میں گانے بجانے میں محو رہنے والوں کو قرآن سننا اور خطبہ سنتا موت دکھائی دیتا ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے رات دن گانے سنتے نہیں اکتاتے لیکن آدھے گھنٹے کے درس یا خطبے میں بیس بار گھڑی دیکھتے ہیں کہ کب جان چھوٹے گی اس لیے فرمایا کہ انہیں درد ناک اور رسوا کن عذاب کی خوشخبری سناؤ۔
اور خالق کبریا نے سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا:
﴿وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ﴾ (بني اسرائيل: 64]
’’ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکائے۔‘‘
اس آیت میں اللہ رب العزت نے گانے بجانے کو شیطان کی آواز قرار دیا ہے یہ گانے بجانے کی کس قدر شدید مذمت ہے کہ اسے شیطان کی آواز اور شیطان کا گمراہ کن ہتھیار کہا گیا ہے اور آج یہ صورت شیطان دن رات ہمارے گھروں میں گونجتی ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ’’عرج‘‘ علاقے میں سفر کر رہے تھے اچانک ایک شاعر سامنے آیا وہ اشعار کہنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا:
(خُذُوا الشَّيْطَانَ، أَوْ أَمْسِكُوا الشَّيْطَانَ) [صحیح مسلم، كتاب الشعر، باب في انشاد الأشعار، رقم: 5895]
’’شیطان کو پکڑو اور اس کا منہ بند کرو۔‘‘
یقیناً ایک شخص کا پیٹ پیپ سے بھرا ہوا ہو تو (یہ پیپ) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ عشقیہ اشعار سے اور گانوں غزلوں سے بھرا ہوا ہو۔
اس حدیث میں رؤف و رحیم پیغمبر نے گویے اور گلوکار کو صاف لفظوں میں شیطان قرار دیا ہے، جن لوگوں کو ہمارے پیغمبر ﷺ نے شیطان قرار دیا۔ آج ان کی تصویریں ہمارے گھروں دکانوں اور دفتروں میں آویزاں ہیں اور ان کی گندی اور نجس آوازیں گھر گھر گلی گلی اور دکان دکان پر گونج رہی ہیں۔
سنن ابی داؤد میں ہے: حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں تھا انہوں نے بانسری کی آواز سنی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دونوں کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیں اور راستے سے ہٹ کر دوسری جانب چلنا شروع کر دیا۔ (نافع نے کہا) کچھ دور جانے کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے پوچھا: اے نافع! کیا تجھے کوئی آواز سنائی دے رہی ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر انہوں نے اپنے دونوں کانوں سے انگلیاں نکال لیں اور بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا آپﷺ نے بانسری کی آواز سنی تو آپﷺ نے اسی طرح کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا۔ ہے (یعنی آپﷺ نے بھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھیں)۔ [سنن ابی داود، كتاب الأدب، باب كراهية الغناء والزمر (4924) صحيح عند الالباني.]
لیکن آج اس بانسری موسیقی اور میوزک کے بغیر خرادیے کا خراد نہیں چلتا، درزی کی سلائی مشین نہیں چلتی ہوٹل والے کا ہوٹل نہیں چلتا، گاڑی والے کی گاڑی نہیں

چلتی دکاندار کی دکان نہیں چلتی۔ حتی کہ یہ شیطانی آوازیں آج موبائل کی نحوست سے مسجدوں کے اندر قیام، رکوع، سجود، درس اور خطبے کے اندر بھی گونجنے لگیں۔ آج حاجی نمازی کی جیب سے بھی موبائل کی آواز آتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم مسجد کی بجائے کسی سینما گھر یا تھیٹر میں پہنچ گئے ہیں۔
2۔ مسلمان کی جاسوسی کرنا (مسلمان قوم کی اجازت کے بغیر اس کی بات پر کان لگانا):
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(مَنِ اسْتَمَعَ إِلٰى حَدِيثٍ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ صُبَّ فِي أُذُنَيْهِ الْأَنكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) [صحيح البخاري، كتاب التعبير، باب من كذب في حلمه (7042) و ابوداود (5024) والترمذی (1751) والدارمي (2708)]
’’جس نے کسی قوم کی ایسی بات پر کان لگایا جسے وہ فاش کرنا پسند نہیں کرتے کل قیامت کے دن اس کے کانوں میں چکھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘
لیکن آج گھروں اور برادریوں میں یہ عادت بد عام ہے لوگ دوسروں کی باتوں پر کان لگاتے اور چھپ کر باتیں سنتے ہیں۔
3۔ ہر سنی سنائی بات بلا تحقیق آگے پہنچا دیا:
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ) [صحيح مسلم، المقدم، باب النهي عن الحديث بكل ما سمع (8) و ابوداود (1992)]
’’آدمی کے جھوٹا ہونے کی یہی نشانی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات بلا تحقیق آگے پہنچا دے۔‘‘
آج بہت سارے لوگ اس جھوٹ میں مبتلا ہو چکے ہیں، خبروں کی تحقیق کا رواج ہی ختم ہو گیا ہے بس ادھر سے سنا اور ادھر مشہور کر دیا۔ خواہ اس جھوٹی خبر سے کسی عزت دار کی عزت پامال ہو جائے یا کسی بے گناہ پر تہمت لگ جائے آج اس سنے سنائے سلسلے نے برادریوں خاندانوں رشتہ داروں اور دوستوں کے اندر لڑائی جھگڑے اور بدامنی کا طوفان برپا کر رکھا ہے اور پرانی محبتوں کو نفرتوں اور کدورتوں میں بدل ڈالا ہے۔ اور اسی بلا تحقیق سنے سنائے تسلسل نے دین کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور بے شمار بدعات و خرافات دین میں داخل کر دی ہیں۔
جب کہ قرآن میں بھی ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا ﴾ (سورة الحجرات:6)
’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔‘‘
معلوم ہوا بلا تحقیق بات آگے پہنچانا غلط ہے یہی وجہ ہے محمدثین نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے راویوں کی زبردست جانچ پڑتال کی ہے اور ایسی زبردست تحقیق کی ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
4۔ کسی بھی گناہ والی بات پر کان لگانا:
(مثلا: غیبت جھوٹ چغلی اور بے دینی والی بات کو ذوق و شوق سے سننا) اس کے نتیجے میں انسان بری بات کرنے والے کی طرح برا بن جاتا ہے۔
5۔ کفار و مشرکین:
اہل بدعت اور بے دین لوگوں کی ایسی باتوں کو سنتا جن باتوں میں وہ اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑا رہے ہوں۔
اللہ رب العزت نے سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ﴾ [النساء: 140]
’’اور اللہ تعالی تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آتھوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔‘‘
لیکن آج لوگ اہل بدعت کی محفلوں میں رافضیوں کی مجلسوں میں اللہ کی آیتوں میں تحریف کرنے والوں کی نشستوں میں بڑے ذوق وشوق سے بیٹھتے اور شریک ہوتے ہیں اور شادی بیاہ کی ان تقریبات میں بڑی دھوم دھام سے شرکت کرتے ہیں جن میں کھلی بے پردگی بے حیائی فحاشی و عریانی اور آزادانہ چھیڑ چھاڑ کے ذریعے اللہ کے دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
جبکہ رسول اللہ ﷺ تو دروازے پر لٹکا قیمتی خوبصورت ریشمی کپڑا دیکھ کر اپنی لخت جگر فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا اور داماد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے سے پلٹ گئے تھے۔[صحیح بخاری، كتاب اللباس، باب من كره العقود على الصور (5957)]
حالانکہ وہاں نہ ٹی وی، وی سی آرتھا نہ کیبل اور ڈش تھی۔ نہ نیم برہنہ عورتوں کا ناچ تھا۔ نہ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا تھا۔ صرف ایک خوبصورت پردہ تھا اور آپ یہ کہہ کر پلٹ گئے کہ (مَالِی وَ لِلدُّنْیَا) ’’میرا دنیا کی سجاوٹوں اور رنگینیوں سے کیا تعلق؟‘‘
لیکن آج بڑے بڑے دینی اور مذہبی لوگ شادی بیاہ کی حیاء باختہ رسموں: حنا مہندی اور ابٹن وغیرہ میں شریک ہو جاتے ہیں جہاں برائی اور بدی کا شور و غوغا ہوتا ہے ڈیک بج رہے ہوتے ہیں، میوزک موسیقی کی آواز سے محلے کے درودیوار لرز رہے ہوتے ہیں….. اور نیکی منہ چھپاتی پھرتی ہے…. اور دین کا تمسخر اڑایا جا رہا ہوتا ہے….. اللہ ہمیں ایسی بری مجلسوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔