تیروں سے قسمت آزمائی کی ممانعت

810۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبے کے اندر داخل ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ اندر بت رکھے ہوئے تھے، پھر آپ کے حکم سے انھیں نکال دیا گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی وہ تصویر میں بھی نکال دیں جن کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر تھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((قَاتَلَهُمُ اللهُ، أَمَ وَاللهِ لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّهُمَا لَمْ يَسْتَقْسِمَا بِهَا قَطُّ)) (أخرجه البخاري:1601، 3352، 4288)

’’اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو تباہ کرے! انھیں بخوبی معلوم ہے کہ سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے تو کبھی پانسوں سے قرعہ اندازی نہیں کی۔‘‘

 اس کے بعد آپ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور اس کے اطراف میں اللہ اکبر کہا لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی۔

811۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا:

  ((أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ)) ’’کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے راحت نہیں پہنچاتے؟‘‘

میں نے عرض کی: کیوں نہیں! (ضرور پہنچاتا ہوں)، چنانچہ میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر روانہ ہوا، وہ سب گھوڑوں پر سوار تھے جبکہ میں گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتا تھا، میں نے نبی ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا۔ میں نے اس کے اثرات اپنے سینے میں محسوس کیے، پھر آپ نے دعا فرمائی: ((اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا))

’’اے اللہ! اسے ثابت رکھ اور اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔‘‘

اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔

واضح رہے کہ ذو الخلصہ یمن میں قبیلۂ خثعم اور بجیلہ کا ایک گھر تھا جس میں بت نصب تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی اور اسے کعبہ کہا جاتا تھا۔

 راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ سیدنا جریر رضی اللہ تعالی عنہ وہاں آئے، آپ نے اسے آگ لگائی اور اسے گرا دیا۔ جب سیدنا  رضی اللہ تعالی عنہ یمن پہنچے تو وہاں ایک شخص تیروں کے ذریعے سے فال نکال رہا تھا، اسے کہا گیا کہ رسول اللہﷺ کا قاصد یہاں آ پہنچا ہے، اگر تو اس کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ تیری گردن اڑا دے گا۔

ایک دن ایسا ہوا کہ وہ فال کھول رہا تھا تو سیدنا جریر  رضی اللہ تعالی عنہ وہاں پہنچ گئے، انھوں نے فرمایا:

((لَتَكْسِرَنَّهَا وَلَتَشْهَدَنَّ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَوْ لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَكَ))

’’تو فال کے ان تیروں کو توڑ کر کلمہ شہادت، یعنی لا الہ الا اللہ پڑھ لے، بصورت دیگر میں تیری گردن اڑا دوں گا۔‘‘

چنانچہ اس نے تیر توڑ کر کلمہ شہادت پڑھ لیا، پھر سیدنا جریر ہی نے نبی ﷺ کو خوشخبری دینے کے لیے قبیلہ احمس سے ایک شخص کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا جس کی کنیت ابو ارطاۃ تھی، جب وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے کہا:

((يَا رَسُولَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا جِئْتُ حَتّٰى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْرَبُ)) (أخرجه البخاري:3020، 3076 3823، 4357، 6333، ومسلم:2478)

’’اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں جب وہاں سے آیا ہوں تو ذو الخلصہ کو توڑ پھوڑ کر خارشی اونٹ کی طرح کر دیا گیا تھا۔‘‘

یہ سن کر نبیﷺ نے قبیلہ اس کے سواروں اور اس کے پیادوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔

812۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((ثَلَاثَةٌ لَا يَنَالُونَ الدَّرَجَاتِ الْعُلٰى: مَنْ تَكَهَّنَ أَوِ اسْتَقْسَمَ أَوْ رَجَعَ مِنْ سَفَرِهِ طِيرَةً))

(أخرجه البيهقي في الشعب:10739، والطبراني في الأوسط:2663)

’’تین شخص کبھی بلند درجات حاصل نہیں کر سکتے: جس نے کہانت کی یا تیروں سے قسمت آزمائی کی یا بدشگونی کی وجہ سے سفر سے واپس آگیا۔‘‘

توضیح و فوائد: اگر کوئی شخص درج ذیل امور جائز اور سچ سمجھتے ہوئے انجام دیتا ہے، پھر ان کی تصدیق بھی کرتا ہے تو وہ شرک اور کفر کا ارتکاب کرتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص انہیں نا جائز سمجھتے ہوئے ایمانی کمزوری کی وجہ سے انجام دیتا ہے لیکن ان کی تصدیق نہیں کرتا اور ان کے مطابق عمل بھی نہیں کرتا اگر وہ جنت میں چلا گیا تب بھی جنت کے بلند درجات حاصل نہیں کر سکے گا۔

813۔ سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے جو رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں اس امر کا اعلان کر رہے تھے کہ جو شخص انھیں قتل کر دے یا زندہ گرفتار کر کے لائے اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ بطور انعام دیئے جائیں گے، چنانچہ ایک دن میں اپنی قوم بنو مدلج کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے سراقہ! میں نے ابھی ابھی ساحل پر چند لوگ دیکھے ہیں، میں انھیں محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی خیال کرتا ہوں۔

سراقہ کہتے ہیں: میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ہیں مگر میں نے یوں ہی اس سے کہہ دیا: وہ نہیں ہوں گے بلکہ تو نے فلاں فلاں کو دیکھا ہوگا جو ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں، جو اپنا گم شدہ کوئی جانور تلاش کر رہے تھے۔

اس کے بعد میں تھوڑی دیر تک اس مجلس میں ٹھہرا رہا، پھر کھڑا ہوا اور اپنے گھر جا کر خادمہ سے کہا: وہ میرا گھوڑا لے کر باہر ٹیلے کے پیچھے کھڑی رہے۔

میں نے اپنا نیزہ سنبھالا اور مکان کی پچھلی جانب سے نکلاء میں نیزے کی نوک سے زمین پر خط لگا رہا تھا اور اس کا اوپر والا حصہ نیچے کیے ہوئے تھا، اس طرح میں اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور اس پر سوار ہو گیا۔

میں نے اپنے گھوڑے کو ہوا کی طرح سرپٹ دوڑایا تاکہ وہ مجھے جلدی پہنچائے لیکن جب میں ان کے قریب ہوا تو میرے گھوڑے نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ میں گھوڑے سے گر پڑا۔ میں کھڑا ہوا اور ترکش کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس میں سے تیر نکال کر فال لی کہ میں ان لوگوں کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں؟ تو وہ بات سامنے آئی جو مجھے ناگوار تھی مگر میں پھر بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کی فال کو تسلیم نہ کیا۔

میرا گھوڑا مجھے لے کر پھر اتنا قریب پہنچ گیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺکی قراءت کی آواز سنی۔ آپ کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے جبکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ادھر اُدھر بہت دیکھ رہے تھے، اتنے میں میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور خود میں بھی اس کے اوپر سے گر پڑا۔

میں نے گھوڑے کو ڈانٹا تو بڑی مشکل سے اس کے پاؤں نکلے مگر جب وہ سیدھا ہوا تو اس کے اگلے دونوں پاؤں سے دھویں کی طرح غبار نمودار ہوا جو آسمان تک پھیل گیا۔ میں نے پھر تیروں سے قال لی تو وہی نکلا جسے میں برا جانتا تھا۔ آخر میں نے انھیں امان کے ساتھ آواز دی تو وہ ٹھہر گئے۔

میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا اور جب مجھے ان تک پہنچنے میں رکاوٹیں پیش آئیں تو میرے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہﷺ  کا ضرور بول بالا ہوگا۔

چنانچہ میں نے آپ کو بتایا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق سو اونٹ مقرر کر رکھے ہیں، پھر میں نے وہ باتیں بیان کیں جو وہ لوگ آپ کے ساتھ کرنا چاہتے تھے، بعد ازاں میں نے انھیں زاد راہ اور کچھ سامان پیش کیا لیکن انھوں نے نہ تو میرے مال میں کمی کی اور نہ کچھ مانگا، البتہ یہ ضرور کہا:

((أَخْفِ عَنَّا)) ’’ہمارا حال لوگوں سے پوشیدہ رکھیں۔‘‘

میں نے آپﷺ سے درخواست کی کہ میرے لیے ایک تحریر امن لکھ دیں، آپ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا جس نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر سند امان لکھ دی اور پھر رسول اللہﷺ آگے روانہ ہو گئے۔(أخرجه البخاري: 3906)

توضیح وفوائد: اہل عرب نے بتوں کے پاس تیر رکھے ہوئے تھے اور ان پر مختلف عبارتیں درج تھیں، مثلا: کام کرو، کام نہ کرو، توقف کرو۔ جب انھیں کوئی اہم کام شادییا سفر وغیرہ کرنا ہوتا تو وہ ترکش سے تیر نکالتے۔ اس پر جو لکھا ہوتا اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ہمارے معبود علم غیب رکھتے ہیں، اس لیے جو حکم نکلے وہ ان ہی کی طرف سے ہوتا ہے، پھر وہ یہ تیر سفر وغیرہ میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے لیکن عقیدہ مذکورہ بالا ہی رکھتے تھے، اسلام نے اسے گندہ اور شیطانی کام قرار دیا ہے۔ قرعہ ڈالنا بھی بظاہر اس کے مشابہ ہے لیکن اس میں اللہ تعالی سے رہنمائی مقصود ہوتی ہے، جتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اس لیے شریعت نے اسے جائز رکھا ہے۔