تلاوت قرآن کی فضیلت اور رمضان المبارک

الحمد لله الذي أنزل على عبده الكتاب ولم يجعل له عوجا، وجعله نورا يهدي به من يشاء إلى الطريق المستقيم، أحمده سبحانه وأشكره على سوابغ إنعامه، وترادف آلائه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، أنزل كتابه يهدي للتي هي أقوم، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله المصطفى المختار، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
ہر طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار ہے۔ جس نے اپنے بندے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب اتاری اور اس میں کسی طرح کی کسر نہیں رکھی اور اس کتاب کو نور بنایا جس کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے۔ صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔ اس کے بے شمار انعام و اکرام پر میں اس کی تعریف اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اس نے اپنی کتاب قرآن نازل کی جو سیدھی راہ دکھاتی ہے۔ میں یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے منتخب اور برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ مولا! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! قرآن کریم کی تلاوت بالخصوص ماہ رمضان میں ایک بڑی عبادت اور افضل ترین عمل ہے۔ کیونکہ اس مہینہ کے کچھ امتیازات ہیں۔ جو دیگر مہینوں کو حاصل نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم دیگر مہینوں کی بہ نسبت ماہ رمضان میں قرآن کریم کی زیادہ تلاوت فرماتے۔ جبرئیل امین علیہ السلام ہر سال اس مہینہ میں آپ کو قرآن کا دور کراتے اور جب آپ کی زندگی کا آخری سال تھا تو انہوں نے دو مرتبہ آپ پر قرآن پیش کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود عمل کرنے کے ساتھ ہی صحابہ کرام کو بھی تلاوت کی ترغیب دیتے اور اس کے فضائل و محاسن بیان فرماتے چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة، والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول الم حرف، ولكن ألف حرف، ولام حرف.
وميم حرف) [جامع ترمذی: ابواب فضائل القرآن، باب ما جاء فی من قرأ حرفا من القرآن (3075) نیز دیکھئے: سنن دارمی: کتاب فضائل القرآن، باب فضل من قرأ القرآن (3190)]
’’ جس نے کتاب اللہ کے ایک حرف کی تلاوت کی اس کے بدلہ اسے ایک نیکی ملے گی اور وہ نیکی دس نیکیوں کے برابر ہو گی میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے۔ کلام ایک حرف ہے۔ اور میم ایک حرف ہے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون القرآن ويتدارسونَهُ فيما بينهم إلا نزلت عليهم السكينة، وغشيتهم الرحمة. وحفتهم الملائكة، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَن عِندَهُ) [سیوطی نے اشارہ کیا ہے۔ کہ ابو داود نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے۔ اور مناوی نے ذکر کیا ہے۔ کہ مذکورہ حدیث انہی الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ملاحظہ ہو: فیض القدیر405/5 نیز دیکھئے: خطبہ ذکر ائی کی فضیلت۔]
’’جو بھی جماعت اللہ کے کسی گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت کرنے اور باہم اسے پڑھنے کے لئے اکٹھا ہوتی ہے۔ تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ رحمت الہی انہیں ڈھانک لیتی ہے۔ فرشتے سایہ فگن ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان ان کا تذکرہ فرماتا ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’يقول الرب تبارك وتعالى: من شغله القرآن عن ذكري ومسألتي أعطيته أفضل ما أعطي السائلين، وفضل كلام الله على سائر الكلام تفضل الله على خلقه) [جامع ترمذی: ابواب فضائل القرآن، باب 25 (3094) و سنن دارمی: کتاب فضائل القرآن، باب فضل کلام اللہ علی سائر الکلام (3234)]
رب تعالی کا ارشاد ہے۔ کہ جس شخص کو قرآن نے میرے ذکر سے اور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا اسے میں وہ افضل ترین صلہ دوں گا جو سوال کرنے والوں کو دیتا ہوں اور سارے کلام پر اللہ کے کلام کی فضیلت ویسی ہی ہے۔ جیسی خود اللہ کی فضیلت اس مخلوق پر ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(مثل المؤمن الذي يقرأ القرآن كمثل الأترجة، ريحها طيب وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلِ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لا يقرأ القرآن كمثل التمرة، لا ريح لها وطعمها حلو، ومثل المنافق الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة، ريحها طيب وطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَل المَنافِقِ الَّذِي لَا يَقْرأْ القرآن كمثل الحنظلة، ليس لها ريح وطعمها مره) [صحیح بخاری: کتاب الاطعمة، باب ذکر الطعام (5427) و صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب فضيلة حافظ القرآن (797)]
’’وہ مومن جو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے۔ اس کی مثال نارنگی کی ہے۔ کہ اس کی بو بھی اچھی ہے۔ اور ذائقہ بھی عمدہ ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی ہے۔ کہ اس میں کوئی بو نہیں البتہ ذائقہ شیریں ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے۔ اس پھول کی طرح ہے۔ جس کی بو تو اچھی ہے۔ مگر ذائقہ کڑوا ہے۔ اور وہ منافق جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال اندرائن کے پھل کی کی ہے۔ جس میں کوئی خوشبو نہیں اور ذائقہ کڑوا ہے۔‘‘
نیز ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(الماهر بالقرآن مع السفرة الكرام البررة، يعني ملائكة الرحمن، والذي يقرأ القرآن ويتتعتع فِيهِ وَهُوَ عَليه شاق فله أجران) [صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب فضل الماهر بالقرآن (798) و صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب 52 ترجمة الباب]
’’قرآن کریم کی تلاوت میں مہارت رکھنے والا بزرگوں اور نیکو کار لکھنے والوں یعنی اللہ کے فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص ہکلا کر قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ اور اس میں اسے پریشانی ہوتی ہے۔ اس کے لئے دوہرا ثواب ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! قرآن کریم کے بے شمار فضائل ہیں۔ جن میں سے یہ چند فضیلتیں ذکر کی گئیں لہٰذا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ کہ وہ قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرے اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھے اور ان پر عمل کرے، قرآن کے احکامات بجالائے منہیات سے دور رہے اور اس کے اخلاق و آداب سے اپنے آپ کو سنوارے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق یہی قرآن تھے۔
اللہ تعالی نے آپ کو خلق عظیم سے متصف فرمایا اور قرآن کے بارے میں اس کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَم﴾ (الاسراء:9)
’’یہ قرآن دو رستہ دکھاتا ہے۔ جو سب سے سیدھا ہے۔‘‘
یعنی قرآن اس رشتہ کی رہنمائی کرتا ہے۔ جو توحید عقائد اور عبادات وغیرہ کے معاملہ میں سب سے پختہ اور صحیح ہے۔ چنانچہ قرآن کریم توحید کا اثبات کرتا ہے، شرک سے روکتا ہے’ تعلق باللہ کی طرف بلاتا اور کسی غیر اللہ سے لو لگانے سے منع کرتا ہے۔ کیونکہ ایک اللہ ہی کی ذات ایسی ہے۔ جو نفع و نقصان کی مالک ہے۔ اس کے سوا دنیا کا خواہ کوئی بھی شخص ہو خود اپنے لئے کسی نفع و نقصان کی طاقت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کو کچھ نفع پہنچائے یا ان سے کوئی شر دور کرے، قرآن کریم کا اعلان ہے:
﴿ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ؕ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍؕ۝۱۳ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ؕ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠۝۱۴﴾ (الفاطر:13،14)
’’یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے۔ اس کی بادشاہی ہے۔ اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں، اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کا جواب نہ دے سکیں اور وہ قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور اللہ باخبر کی طرح تمہیں کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘
لہٰذا دعا، التجاء، استعانت، استفاده، خوف اور امید و بیم یہ سب اللہ تعالی کے ساتھ ہی کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور سے جائز نہیں، کیونکہ عبادت و استعانت اسی کا حق ہے، جیسا کہ ہم اقرار کرتے ہیں
﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۝۴﴾ (الفاتحہ: 5)
’’اے پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘
عبادت ہی وہ چیز ہے۔ جو دلوں کو جلا بخشتی ہے، نفس کی تہذیب و تربیت کرتی ہے۔ ایمان کو بڑھاتی اور روح توحید کو مضبوط بناتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۙ۬ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِؕ۝۵﴾ البينۃ:5)
’’ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں یکسو ہو کر اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں اور میں سچا دین ہے۔‘‘
برادران اسلام! قرآن کریم مکارم اخلاق کی طرف بلاتا ہے۔ اور والدین کے ساتھ بھلائی صلہ رحمی کمزوروں اور مسکینوں پر شفقت و نرمی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہی وہ اخلاق ہیں۔ جن کے ذریعہ ایک انسان دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ اور اس کا امن و سکون بر قرار رہتا ہے۔
اللہ کے بندو! چونکہ حصول سعادت اصلاح حال انشراح صدر اور سکون قلب ذکر الہی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ۝۲۸﴾ (الرعد: 28)
’’سن لو! اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔‘‘
لہٰذا خوشنودئیِ مولٰی کے لئے ہمہ وقت کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرو اور اس کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے نیز روزوں کی ادائیگی اور شب بیداری کے لئے ان مبارک ایام کو غنیمت جانو کیونکہ تم ان بابرکت ایام سے گذر رہے ہو جن میں نیکیاں بڑھادی جاتی ہیں۔ اور گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، بالخصوص اس مقدس سر زمین اور متبرک مقامات میں جنہیں اللہ تعالی نے مزید خصوصیات عطا کی ہیں۔ چنانچہ مسجد حرام کی ایک نماز کا ثواب دیگر مسجدوں کی ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ اور اسی طرح ہر عمل صالح کا ثواب یہاں پر زیادہ ہے۔ لہٰذا کثرت سے نماز پڑھ کر اور قرآن مجید کی تلاوت اور صدقہ و احسان اور طواف وغیرہ کے ذریعہ ان بابرکت اوقات سے فائدہ اٹھاؤ گناہ کے کاموں سے بچو اور خاص طور سے اس مہینہ میں اور اس مقدس سرزمین میں انتہائی محتاط رہو۔ جہاں گناہ کی سزا بھی بڑھ جاتی ہے، لغو جھوٹ اور لوگوں کی آبروریزی سے اپنے روزے محفوظ رکھو۔
اللہ کے بندو! وہ شخص جس کا روزہ اسے سب و شتم، گالی گلوچ غیبت، چغلخوری، حرام خوری دھوکہ فریب کذب بہتان سود خوری اور ناپ تول میں کمی بیشی کرنے سے باز نہ رکھے اس کا روزہ کیسے قابل قبول ہو گا؟
مسلمانو! اللہ کا خوف کھاؤ کیونکہ تمہارے سامنے ایک بہت بڑا دن آنے والا ہے، جس میں نہایت ہی باریک اور مشکل ترین حساب کے لئے علیم و عادل حاکم کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اس دن مشفق باپ بھی کنارہ کشی اختیار کرلے گا اور مخلص دوست بھی تم سے بیزار ہو جائے گا ارشاد الہی ہے:
﴿وَيَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ) (الشعراء:88،89)
’’جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ بیٹے ہاں جو شخص اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا وہ بچ جائے گا)۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ۝۲۹ لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ؕ اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ۝۳۰﴾ (الفاطر: 29،30)
’’جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے۔ اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں۔ وہ اس تجارت کے امیدوار ہیں۔ جو بھی تباہ نہیں ہوگی۔ کیونکہ اللہ ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی عطا کرے گا وہ تو بخشنے والا اور قدردان ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله غافر الذنب، وقابل التوب، شديد العقاب، ذي الطول. لا إله إلا هو إليه المصير، أحمده سبحانه وأشكره على جوده العظيم، وفضله العميم، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، الإله الحق المبين، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله الناصح الأمين، اللهم صل وسلم وبارك على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه.
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ جو گناہ بخشنے والا توبہ قبول کرنے والا سخت سزادینے والا اور بڑا فضل کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی طرف لوٹ کر جاتا ہے، میں اس کے بے پایاں فضل و کرم پر حمد و شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور وہی برحق معبود ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو امت کے خیر خواہ اور رسالت کے امین ہیں، صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبه و سلم۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو اور اس کی بخشش و عطیات کے لئے تیار ر ہو وہ رحیم و کریم اور بہت زیادہ در گذر کرنے والا ہے۔ اپنے بندوں کو در گذر کر دینا پسند کرتا ہے۔ اور توبہ کرنے والوں کی توبہ سے خوش ہوتا ہے۔ لہٰذا قبل اس کے کہ رحمت و بخشش کا یہ مہینہ ختم ہو رب العالمین سے توبہ و استغفار کرنے میں جلدی کرو۔ گالی گلوچ اور عصیان و نا فرمانی کے ذریعہ اپنے روزے برباد نہ کرو۔ بکثرت اس کی طاعت کرو۔ گناہوں سے بخشش چاہو، جنت کی دعا کرو اور جہنم سے پناہ مانگو، قرآن مجید کی تلاوت لازم پکڑو اور اس کے معانی کے اندر فکر و تدبر کرو کیونکہ میں اللہ کی مضبوط رہی اور اس کا سیدھا دین ہے، جس نے اسے مضبوطی سے تھاما اس نے صراط مستقیم پالیا، اس کی آیات محکمات کی تعمیل کرو متشابہات پر ایمان رکھو اور اس کے بیان کردہ امثال پر یقین رکھو۔ اس کے حلال و حرام کے حدود کی پابندی کرو۔ گھروں میں دن اور رات میں اس کی تلاوت کرو اپنے اعمال کو خالص اللہ کے لئے انجام دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ پر چلو، کیونکہ سب سے عمدہ کلام کہیں اللہ کی کتاب ہے۔ اور سب سے بہترین طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ ہے۔ اور بدترین کام وہ ہے۔ جو شریعت کے نام پر ایجاد کر لیا گیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔