توحید اسماء وصفات اور اس میں الحاد و انکار کی ممانعت کا بیان
557۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو کسی لشکر کا امیر بنا کر روانہ فرمایا۔ وہ اپنی فوج کو نماز پڑھاتا تو اپنی قراءت ﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ﴾ یعنی سورہ اخلاص پرختم کرتا۔ جب یہ لوگ لوٹ کر آئے تو انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
((سلُوهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذٰلِكَ؟)
’’اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا تھا ؟“
لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سورت رحمٰن کی صفات پر مشتمل ہے۔ اس کی تلاوت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا:
((أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللهَ يُحِبُّهُ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:7375، وَمُسْلِمٌ:813)
’’اسے بتا دو کہ اللہ تعالی بھی اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
558۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ لِلهِ تِسْعَةً وَ وَتِسْعِينَ اِسْمًا، مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيّ:2736، 6410، 7392، ومُسْلِمُ:2577)
’’بلاشبہ اللہ تعالی کے ننانونے نام ہیں، یعنی سو سے ایک کم۔ جو کوئی انھیں یاد کرلے وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
توضیح و فوائد: اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات میں یکتا ہے، اسی طرح اپنے اسماء وصفات میں بھی وحدہ لا شریک ہے، اس ذات عالی کے اسمائے گرامی کتنے ہیں؟ یہ تعداد وہ خود ہی جانتا ہے، تاہم جو شخص اس کے ننانوے نام یاد کرے اور ان پر ایمان رکھے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہ نام کسی ایک شیخ حدیث سے ثابت نہیں، تاہم مختلف آیات واحادیث سے ثابت ہیں۔ شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ نے وہ نام ایک کتاب میں جمع کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اطلاق بندوں پر بھی ہوتا ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور رسول اکرمﷺ کو بھی رحیم کہا گیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت ذاتی اور لامحدود ہ اور نبی ﷺ کی صفت رحمت اللہ کی عطا کردہ اور محدود ہے۔
559۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ))
’’جس شخص کو کوئی بھی پریشانی یا غم لاحق ہو تو وہ یوں کہے‘‘:
((اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِي حُكْمُكَ . عَدْلٌ فِي قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمِّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِي، إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ هَمَّهُ وَحُزْنَهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَجًا))
’’اے اللہ! یقینًا میں تیرا بندہ ہوں اور تیری ہی بندے اور تیری ہی باندی (کنیز ) کا بیٹا ہوں۔ میری پیشانی تیری ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم جاری رہتا ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل و انصاف مبنی ہے میں تیرے ہر اس خاص نام کے ذریعے سے تجھ سے درخواست کرتا ہوں جو تو نے خود اپنا نام رکھا ہے یا اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا تو نے اسے اپنا علم غیب میں اپنے پاس خاص طور پر رکھا ہوا ہے۔ (اے اللہ! میں درخواست کرتا ہوں) کہ تو قرآن مجید کو میرے دل کی بہار بنا دے اور میرے سینے کا نور، میرے غموں کا علاج اور میرے فکروں کو ختم کرنے والا بنا دے۔‘‘
رسول اللہﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس دعا کو سیکھ سکتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
((بَل، يَنْبَغِي لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ يَتَعَلَّمَهَا)) (أخرجه أحمد: 3712، بإسناد ضعيف الجهالة أبي سلمة الجهني، وابن أبي شيبة:253/10، وأبو يعلى:5297، و ابن حبان: 972، و الطبراني في الكبير: 10352، و في الدعاء: 1035، و الحاكم: 509، 510/1وصححه الألباني في سلسلة الصحيحة، برقم: 199…)
’’کیوں نہیں، جو شخص بھی اس دعا کو سنے اسے یہ دعا سیکھ (یاد کر لینی چاہیے۔‘‘
560۔ امام ابن سنی نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی مذکور حدیث کا ایک شاہد سیدنا ابو موسی
رضی اللہ تعالی عنہ سے ذکر کیا ہے۔اس کی سند ضعیف ہے، البتہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔(أَخْرَجَهُ ابن السني في عمل اليوم والليلة:341، وفيه انقطاع بين عبد الله بن زبيد بن الحارث وبين أبي موسى، لهذا ضعفه الحافظ ابن حجر في أمالي الأذكار فيها نقله عنه ابن علان في الفتوحات الربانية: 13/4، إلا أنه حَسَّنَ حَديث ابن مسعود به)
561۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو بستر پر نہ پایا تو آپﷺ کو ٹولنے لگی، میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کے تلوے پر پڑا، اس وقت آپ سجدے میں تھے، آپ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے اور آپ کہہ رہے تھے:
((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءٌ عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:486)
’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیرے ذریعے سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری ثنا اور تعریف پوری طرح بیان نہیں کر سکتا تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود بیان کی۔‘‘
توضیح وفوائد: یعنی اے اللہ! میں تیرے اسماء وصفات کا احاطہ نہیں کر سکتا۔
562۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے کوئی کام کیا اور لوگوں کو بھی وہ کام کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ آپﷺ کے صحابہ میں سے بعض کو یہ خبر پہنچی تو انھوں نے اس رخصت اور اجازت کو ناپسند کیا اور اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔ نبی ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
((مَا بَالُ رِجَالٍ بَلَغَهُمْ عَنِّي أَمْرٌ تَرَخَّصْتُ فِيهِ، فَكَرِهُوهُ وَتَنَزَّهُوا عَنْهُ، فَوَاللَّوا لَأَنَا أَعْلَمُهُمْ بِاللهِ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً)) (أخرجه البخاري: 6101، و مسلم:2356)
’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جنھیں یہ خبر ملی کہ میں نے ایک کام کی اجازت دی ہے تو انھوں نے اس کام کو ناپسند کیا اور رخصت سے فائدہ نہیں اٹھایا، اللہ کی قسم! میں ان سب سے زیادہ اللہ کے بارے میں علم رکھتا ہوں اور ان سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘
توضیح و فوائد: اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی اور صفات کا جس قدر علم رسول اکرم ﷺ کو تھا اتنا کسی اور کو نہیں ہو سکتا، اس لیے صرف وہی اسماء وصفات معتبر ہوں گے جو اللہ تعالی نے قرآن میں بتائے ہیں یا نبی اکرم ﷺ نے احادیث میں ذکر فرمائے ہیں۔
563۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اَلْمِرَاءُ فِي الْقُرْآنِ كُفرٌ)) (أخرجه أحمد: 7848، 7989، 9479، 10143، 10539، 10834، وأبو داود:4603، وابن حبان :1464)
’’قرآن میں جھگڑنا اور اختلاف کرنا کفر ہے۔“
توضیح و فوائد: قرآن مجید میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا ذکر ہے۔ ان اسمائے گرامی کے بارے میں بے جا بحث اور ان کا انکار کرنا اسی طرح کفر ہے جس طرح قرآن کا انکار کفر ہے۔
564۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ: ﴿وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُوْلُوْا حِطذَةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ﴾ فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَرْحَفُونَ عَلٰى أَسْتَاهِهِمْ وَقَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 3403، 4479، 4641، ومسلم:3015)
’’جب بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا: ’’تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہو جاؤ اور کہو کہ ہمیں معاف کر دیا جائے، ہم تمھارے گناہ معاف کر دیں گے۔‘‘ انھوں نے اس حکم کو یوں بدلا کہ وہ سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے اور حطةٌ کے بجائے (حَبَّةٌ فِي شَعْرةٍ) ’’بالی میں دانہ‘‘ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔‘‘
565۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((قَالَ اللهُ تَعَالَى: كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذٰلِكَ، وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذٰلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ: لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدَأَنِي، وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَىَّ مِنْ إعَادَتِهِ، وَ أَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ: إِتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا، وَأَنَا الْأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفُوًا أَحَدًا)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي:3193،4974، 4975)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابن آدم نے مجھے جھٹلایا ہے، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہیں تھا اور اس نے مجھے گالی دی ہے، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہیں تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ کبھی پیدا نہیں کرے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا، حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے، حالانکہ میں یکتا ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرا ہمسر ہی ہے۔‘‘
566۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ! مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ، فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ يَا ابْنَ آدَمَ! اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمُنِي، قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذٰلِكَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ! اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَسْقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذٰلِكَ عِنْدِي)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 2569)
’’قیامت کے دن اللہ عز وجل فرمائے گا: آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تو نے میری عبادت نہ کی۔ وہ کہے گا: میرے رب! میں کیسے تیری عیادت کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے، پھر بھی تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ تمھیں معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالتے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے اسے کھانا نہ کھلایا، اگر تو اسے کھلا دیتا تو تجھے وہ (کھانا) میرے پاس مل جاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ شخص کہے گا: میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا، اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو ( آج) اس کو میرے پاس پالیتا‘‘
567۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش نے نبی ﷺسے امن سے رہنے کا معاہدہ کیا تو ان میں سہیل بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ رسول ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ((أكتُبْ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)) ’’(علی!) لکھو: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘
سہیل کہنے لگے: جہاں تک بسم اللہ کا تعلق ہے تو ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں جانتے لیکن وہ لکھو جسے ہم جانتے ہیں: بِاسْمِكَ اللهُم۔ ’’اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ‘‘(أخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1784)
568۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ الﷺ قَطُّ، إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ: ثِنْتَيْنِ فِي ذَاتِ اللهِ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي:3357، وَمُسْلِمٌ2371)
’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین مرتبہ خلاف واقعہ بات کی ہے۔ ان میں سے دو تو اللہ کی ذات ستودہ صفات کے متعلق تھیں۔“
توضیح و فوائد: اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے لیے لفظ ذات کا استعمال جائز ہے، مثلاً: ذات باری تعالی۔
569۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ سے موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((قَالَ مُوسَى عَلَيْهِ السلام أَنَا مُوسٰى قَالَ: مُوسٰى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ، قَالَ إِنَّكَ عَلٰى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللهِ عَلَّمَكَهُ اللهُ لَا أَعْلَمُهُ، وَأَنَا عَلٰى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ، وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتّٰى وَقَعَ عَلٰى حَرْفِ السَّفِينَةِ، ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هٰذَا الْعُصْفُورُ مِنَ الْبَحْرِ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي:122، 3401، 4725، 4726، 4727، ومسلم:2380)
’’موسیٰ علیہ نے کہا: میں موسی ہوں، پوچھا: بنی اسرائیل کے موسی؟ کہا: ہاں۔ انھوں نے کہا: اللہ تعالی نے اپنے علم میں سے جتنا علم آپ کو سکھایا ہے، میں اسے نہیں جانتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں سے جتنا علم مجھے دیا ہے، آپ اسے نہیں جانتے، اسی دوران میں ایک چڑیا (اڑتی ہوئی) آئی یہاں تک کہ کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر اس نے سمندر میں چونچ ماری تو خضر علیہ السلام نے ان سے کہا: میرے اور تمھارے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں اس سے زیادہ کی نہیں کی جتنی کمی اس چڑیا نے سمندر کے پانی میں کی ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: جس طرح اللہ تعالیٰ کا علم وسیع ہے اسی طرح اس کی صفات بھی بے شمار ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالی صفت علم سے متصف ہے لیکن اس کے علم اور مخلوق کے علم میں کوئی مماثلت اور نسبت ہی نہیں۔ انسان کا علم محدود اور اللہ تعالی کا علم لامحدود اور بے پایاں ہے۔
570۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:91)
’’جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہولیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْكِبْرُ: بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ))
’’اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر حق کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔‘‘
571۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَمَّا قَضَى اللهُ الْخَلْقَ، كَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ: إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 3194، 7463، ومُسْلِمٌ:2751)
’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر لیا تو عرش کے اوپر اپنے پاس یہ لکھا: میری رحمت میرے غضب سے آگے بڑھ گئی ( سبقت لے گئی) ہے۔“
572۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ يَغَارُ، وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ، وَغَيْرَةُ اللهِ أَنْ يَّأْتِي الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ عَلَيْهِ)) (أَخْرَجَهُ الْيُخَارِيُّ: 5223، وَمُسْلِمٌ: 2761)
’’اللہ تعالی غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے، البتہ اللہ کو غیرت اس پر آتی ہے کہ بندہ مومن وہ کام کرے جسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔‘‘
573۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَ: إِذَا تَقَرَّبَ عَبْدِى مِنِى شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَإِذَا تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا أَوْ بُوعًا وَإِذَا أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةٌ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيُّ:7537، وَمُسْلِمٌ:2675)
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: جب بندہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
توضیح وفوائد: اس سے اللہ تعالی کی چلنے اور دوڑنے کی صفت کا اثبات ہے، ہم اس پر بغیر تاویل کے ایمان لاتے ہیں کہ وہ اپنی شان کے مطابق چلتا بھی ہے اور دوڑتا بھی ہے۔
574۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ رَبَّكُمْ حَیٌّى كَرِيمٌ، يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا)) (أخرجه أبو داود:1488، والترمذي:3556، وابن ماجه:3865)
’’بلاشبہ تمھارا رب بہت حیا والا اور بڑائی ہے۔ بندہ جب اس کی طرف اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ انھیں خالی لوٹا دے۔“
575۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، قَالَ: فَيُحِبُّهُ جِبْرَئِيلُ، ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ، فَيَقُولُ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فَلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، قَالَ: ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ وَإِذَا أَبْغَضَ اللهُ عَبْدًا دَعَا جِبْرَئِيلَ فَيَقُولُ: إِنِّي أَبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ، قَالَ: فَيُبْغِضُهُ جِبْرَئِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ، قَالَ: فَيُبْغِضُونَهُ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ في الْأَرْضِ)) (أخرجه البخاري:7481، وَمُسْلِمٌ: 2637)
’’جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں، کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ تعالی کسی بندے سے بغض ( نفرت) رکھتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے: میں فلاں شخص سے بغض ( نفرت) رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو تو جبرئیل علیہ السلام اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ہے، تم بھی اس سے بغض رکھو، وہ (سب) اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض و نفرت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘
576۔ سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے۔ لیے کھڑے ہوتے
تو یوں دعا فرماتے تھے:
((اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ، وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:771)
’’اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں، اس لیے میرے سارے گناہ بخش دے کیونکہ گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں اور میری بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ پر چلانے والا کوئی نہیں اور برے اخلاق مجھ سے دور کر دے، تیرے سوا برے اخلاق کو مجھ سے دور کرنے والا کوئی نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں اور دونوں جہانوں کی سعادتیں تجھ سے ہیں، ہر طرح کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیری طرف سے کوئی گزر نہیں ہے، میں تیرے ہی سہارے ہوں اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے تو برکت والا اور رفعت و بلندی والا ہے، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘
577۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں (یہ کلمات) کہتے تھے: ((سُبُّوْحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:487)
’’نہایت پاک ہے، انتہائی مقدس ہے فرشتوں اور روح ( جبریل علیہ السلام) کا پروردگار‘‘
578۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے رکوع میں یہ دعا پڑھتے تھے: ((سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ)) (أَخْرَجَهُ أَبو دَاوُد:873، والنسائي1050، 1133)
’’پاک ہے وہ ذات جو غلبہ وقوت، ملکیت، بڑائی اور عظمت والی ہے۔‘‘
579۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ خَالِقُ كُلِّ صَانِعٍ وَصَنْعَتَهُ)) (أخرجه الحاكم:31/1، وقال: حديث صحيح على شرط مسلم، والبيهقي في الشعب:190، والبخاري في خلق أفعال العباد: 92)
’’یقینا اللہ تعالیٰ ہر کاریگر اور اس کی کاریگری کا خالق ہے۔‘‘
580۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
((خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهُ قَامَتِ الرَّحِمُ فَأَخَذَتْ بِحَقْوِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ لَهُ: مَهْ، قَالَتْ: هٰذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ الْقَطِيعَةِ، قَالَ: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ، وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكَ؟ قَالَتْ بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَذَاكِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:4830، 4831، 4832، 5987 ، 7502، ومُسْلِمُ: 2554)
’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، جب وہ اس سے فارغ ہوا تو رحم ( رشتہ داری) کھڑی ہو گئی اور رحمن کی کمر پکڑ لی (پناہ مانگنے لگی)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے رحم ٹھہر جا۔ اس نے عرض کی: اے اللہ! یہ قطع رحمی سے تیری پناہ مانگنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو مجھے توڑے گا میں اسے توڑوں گا؟ رقم نے عرض کی: اے میرے رب! کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بس یہ تیرے لیے ہے۔‘‘
581۔ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: میں اپنے غلام کو مار رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی: ((اِعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ! اللهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ))
’’ابو مسعود! جان لو، اس (غلام) پر تمھیں جتنا اختیار ہے، اس کی نسبت اللہ تعالی تم پر زیادہ اختیاررکھتا ہے۔“
میں مڑا تو دیکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ تھے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَمَا لَوْ لَمْ تَفْعَلْ لَنَفَحَتْكَ النَّارُ، أَوْ لَمَسْتَكَ النَّارُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 1659)
’’دیکھو! اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمھیں آگ جھلساتی یا تمھیں آگ چھوتی۔‘‘
توضیح و فوائد: اس سے اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت کا اثبات ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
582۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ جب ہم اپنے بستروں میں چلے جائیں تو یہ دعا پڑھیں:
((اَللّٰهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، رَبَّنَا وَرَبِّ كُلِّ شَيْءٍ . فَالِقَ الْحَبِ وَالنَّوَى، وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ، فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ. فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ، فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ، اِقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2713)
’’اے اللہ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے رب اور ہر چیز کے رب، دانے اور گٹھلیوں کو چیر (کر پودے اور درخت اگا) دینے والے! تورات، انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے! میں ہر اس چیز کے شرسے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضے میں ہے، اے اللہ! تو ہی اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں، اے اللہ! تو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی شے نہیں، تو ہی ظاہر ہے، تیرے اوپر کوئی شے نہیں، تو ہی باطن ہے، تجھ سے پیچھے کوئی شے نہیں، ہماری طرف سے (ہمارا) قرض ادا کر اور ہمیں فقر سے غنا عطا کر۔‘‘
583۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں بھاؤ چڑھ گئے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے (چیزوں کے) بھاؤ مقرر کر دیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ)) (أَخْرَجَهُ أَحمدُ:12591،14057، وأبوداود:3451، والترمذي:1314، والضياء في المختارة:1631، والدارمي:2545، وابن ماجه:2200، وأبو يعلى:2861، وابن حبان:4935، والبيهقي في السنن:29/6، وفي الأسماء والصفات ص:85)
’’یقینا اللہ تعالی ہی بھاؤ بڑھانے والا، وہی تنگی پیدا کرنے والا، کشادگی دینے والا اور رزاق ہے، مجھے امید ہے کہ میں جب اپنے رب سے ملوں گا تو کوئی شخص جان و مال کے بارے میں ظلم کی بنا پر مجھ سے کوئی مطالبہ کرنے والا نہیں ہوگا۔‘‘
584۔ سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر پانچ باتوں پر مشتمل خطبہ دیا، آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَّنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:179)
’’بے شک اللہ تعالٰی سوتا نہیں ہے اور سونا اس کے شایان شان بھی نہیں، وہ میزان کے پلڑوں کو جھکاتا اور اوپر اٹھاتا ہے، رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘
585۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے لوگوں میں ایک دن کی دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ((إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلَا وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَالَ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:3057، 3337، 3439، 4402، 7123، 7407، ومُسْلِمٌ:169، 274)
’’اللہ تعالی یک چشم نہیں ہے، البتہ مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا۔ اس کی آنکھ پھولے ہوئے انگور جیسی ہوگی۔‘‘
توضیح و فوائد: اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی صحیح سالم آنکھیں ہیں جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
586۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے:
((اَللّٰهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، وَالْجِنِّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيَّ:7383، وَمُسْلِمٌ:2717)
’’اے اللہ! میں تیرے لیے مطیع و فرمانبردار ہو گیا ہوں، تجھ پر ایمان لایا ہوں، تجھی پر میں نے بھروسا کیا ہے، تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا اور تیری مدد ہی سے کفر کے ساتھ جنگ کی ہے، اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا دے، تو ہمیشہ زندہ رہنے والا .، مجھے کبھی موت نہیں آئے گی آئے گی جبکہ جن و انس سب مر جائیں گے۔‘‘
587۔ سیدنا ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺجب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتے اور اس کے بعد کہتے:
((اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:591)
اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے تو صاحب رفعت و برکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!‘‘
588۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اللهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ، وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَيْسَ مِنْهَا، فَأَتٰى شَجَرَةً، فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيْسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَيْنَا هُوَ كَذٰلِكَ إِذْ هُوَ بِهَا، قَائِمَةٌ عِنْدَهُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا. ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ: اَللّٰهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَارَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2747)
’’جب بندہ اللہ تعالی سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا اونٹ دوران سفر میں گم ہو گیا ہو، اور اس کا کھانا اور پانی وغیرہ ای (سواری) پر ہو۔ وہ اس کے ملنے) سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے میں لیٹ جائے اور سواری (کے ملنے) سے ناامید ہو چکا ہو۔ وہ انھی خیالوں میں گم تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ وہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اسے نکیل سے پکڑا اور فرط جذبات اور بے پناہ خوشی میں کہہ بیٹھا: اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ بے پناہ خوشی اور فرط جذبات میں غلطی کر بیٹھا۔ (جتنی خوشی زندگی سے مایوس اس شخص کو ہوئی، اللہ رب العزت کو جب بندہ اللہ سے توبہ کرتا ہے اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے)۔‘‘
589۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (( يَضْحَكُ اللهُ إِلٰى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، وَكِلَا هُمَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ))
’’اللہ تعالی ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا، پھر بھی وہ دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کیسے ہوگا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يُقَاتِلُ هٰذَا فِي سَبِيلِ الله عَزَّ وَجَلَّ، فَيُسْتَشْهَدُ، ثُمَّ يَتُوبُ اللهُ عَلَى الْقَاتِلِ فَيُسْلِمُ، فَيُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيُسْتَشْهَدُ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِيُّ:2826، وَمُسْلِمٌ:1890)
’’ایک وہ شخص جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ شہید ہو گیا، دوسرا اس کا قاتل جسے اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی کہ وہ مسلمان ہو گیا اور بعد ازاں وہ بھی اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہید ہو گیا (اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہو گئے)۔‘‘
590۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمُ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاةِ وَالذِّكْرِ، إِلَّا تَبَشْبَشَ اللهُ لَهُ كَمَا يَتَبَشْبَشُ أَهْلَ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِمْ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 8350، وابن ماجه:800)
’’جو مسلمان مرد نماز اور ذکر کے لیے مسجدوں میں پابندی سے حاضر ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس شخص سے ایسے خوش ہوتا ہے، جس طرح مسافر کے گھر والے اس کے گھر لوٹنے پر خوش ہوتے ہیں۔‘‘
591۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقٰى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ فَيَقُولُ: مَنْ يَّدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ وَمَنْ يَسْأَلْنِي فَأُعْطِيَهُ؟وَمَن يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرْ لَهُ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيُّ:1145، 6321، 7494، وَمُسْلِمٌ:758)
’’ہما را بزرگ و برتر پروردگار ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے۔ وہ آواز دیتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے، میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے، تو میں اسے معاف کر دوں؟“
592۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ حرم کعبہ میں بیت اللہ کے پاس تین آدمی اکٹھے ہوئے۔ ان تینوں میں سے دو تو قریشی تھے اور ایک ثقفی قبیلے سے تھا یا ایک قریشی اور دو ثقفی تھے۔ یہ تینوں خوب مونے تازے اور ان کی توندیں نکلی ہوئی تھیں مگر عقل سب کی کم تھی۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا: تمھارا کیا خیال ہے کہ اللہ ہماری باتیں سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا: اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے اور اگر آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا: اگر اللہ زور سے بولنے پر سن لیتا ہے تو آہستہ بولنے پر بھی ضرور سنتا ہوگا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُكُمْ وَ لَا جُلُوْدُكُمْ وَ لٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ (حم السجدة22:41)
’’تم جو دنیا میں چھپ کر گناہ کرتے تھے تو اس ڈر سے نہیں کہ تمھارے کان، تمھاری آنکھیں اور تمھارے چمڑے تمھارے خلاف گواہی دیں گے بلکہ تم سمجھتے تھے کہ بے شک اللہ تمھارے بہت سے اعمال کو نہیں جانتا جو تم کرتے تھے۔‘‘ (أَخْرَجَهُ البُخَارِيُّ:4817، و مسلم:2775)
593۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ آیت کریمہ پڑھی:
﴿إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمْنٰتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيْعًا بَصِيْرًا﴾ (النساء 58: 4))
’’بلا شبہ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچا دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ اچھی نصیحت کرتا ہے، بلاشبہ اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
آیت تلاوت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنا انگوٹھا اپنے کان پر اور ساتھ والی انگلی اپنی آنکھ پر رکھ رہے تھے۔ (أخرجه أبو داود:4720، والبيهقي في الأسماء والصفات:390، وابن المنذر: 1923، وابن أبي حاتم: 987/3، 5524، وابن حبان: 265، والحاكم:24/1)
594۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا:
((رَبُّنَا سَمِيعٌ بَصِيرٌ)) (أخرجه الطبراني في الكبير: 14194، وابن أبي حاتم: 987/3، 5226، وابن كثير في التفسير: 516/1،
وأورده السيوطي في الدر المنثور: 176/2)
’’بلاشبہ ہمارا رب خوب سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔‘‘
اور آپ ﷺنے اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ فرمایا۔
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ وہ کانوں اور آنکھوں کے بغیر سمیع بصیر نہیں ہے بلکہ اس کی آنکھیں بھی ہیں اور کان بھی اور یہ اس کی شان کے مطابق ہی ہیں، اس کی کوئی کیفیت یا مثال ہم بیان نہیں کر سکتے۔ اسی طرح باب کی دیگر احادیث میں اللہ تعالی کی انگلیوں اور ہاتھوں وغیرہ کا اثبات ہے۔
595۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جا رہے تھے۔ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے تو بآواز بلند لا إِلهَ إِلَّا الله اور اللہ اکبر کہتے۔ جب ہماری آوازیں بلند ہوئیں تو نبی ﷺ نے فرمایا: ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِرْبَعُوا عَلٰى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ، إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:2992، 4202، 6384، 6409، 6610، 7386، ومسلم:2704)
’’اے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ وہ تو تمھارے ساتھ ہی ہے۔ بے شک وہ خوب سنتا ہے اور انتہائی قریب ہے۔‘‘
596۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ يُصْرِفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ ) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 2654 )
’’بنو آدم کے سارے دل ایک دل کی صورت میں اللہ تعالی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اسے (ان سب کو گھماتا ہے۔)‘‘
597۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَأْخُذُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ سَمَاوَاتِهِ وَأَرْضِيهِ بِيَدَيْهِ، فَيَقُولُ: أَنَا اللهُ –وَيَقْبِضُ أَصَابِعَهُ وَيَبْسُطُهَا أَنَّا الْمَلِكُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2788)
’’اللہ عز وجل آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لے گا، پھر فرمائے گا: میں اللہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔‘‘ اور آپ میں ہم یہ فرماتے ہوئے اپنی انگلیوں کو بند کرتے تھے اور کھولتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ منبر نیچے تک ہل رہا تھا، یہاں تک کہ میں (دل میں) کہنے لگا کہ کہیں یہ رسول اللہ ﷺ کو گرا نہ دے۔
598۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ الْمُقْسِطِينَ، عِنْدَ اللهِ، عَلٰى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ يَّمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ. وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينَ، الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا)) . (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1827)
’’عدل و انصاف کرنے والے لوگ اللہ رحمن کے ہاں دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے۔ اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل وعیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں، ان کے معاملے میں عدل و انصاف کرتے ہیں۔‘‘
599۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَمَّا خَلَقَ اللهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ، فَقَالَ: اَلْحَمْدُ لِللَّهِ، فَحَمِدَ اللهَ بِإِذْنِهِ، فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: يَرْحَمُكَ اللهُ يَا آدَمُ، إِذْهَبْ إِلٰى أُولٰئِكَ الْمَلَائِكَةِ، إِلٰى مَلَأٍ مِنْهُمْ جُلُوسٌ، فَقُلْ: السلام عَلَيْكُمْ، قَالُوا: وَعَلَيْكَ السلام وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰى رَبِّهِ، فَقَالَ: إِنَّ هٰذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ اللهُ لَهُ … وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ …. اخْتَرْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَقَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي، وَكَلْتَا يَدَى رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ، ثُمَّ بَسَطَهَا)) (أخرجه الترمذي:3368، وابن حبان:6167، والحاكم: 64/1، وابن أبي عاصم في السنة:206)
’’جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اس میں روح پھونکی تو انھیں چھینک آئی، تو انھوں نے الْحَمْدُ لِلهِ کہا۔ انھوں نے اللہ کی حمد اس کی توفیق سے کی، اس پر ان کے رب نے فرمایا: اے آدم (يَرْحَمُكَ الله) اللہ تجھ پر رحم فرمائے، یہ فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے ان کے پاس جاؤ اور انھیں ((السلام عَلَيْكُمْ)) ’’تم پر سلامتی ہو‘‘ کہو۔ انھوں نے جواب میں کہا: ((وَعَلَيْكَ السلام وَرَحْمَةُ الله)) ’’تم پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو‘‘ پھر آدم علیہ السلام اپنے رب کی طرف لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تیرا اور تیری اولاد کا آپس میں سلام ہے۔ اور اللہ نے ان سے فرمایا: … جبکہ ان کے دونوں ہاتھ بند تھے۔ ان میں سے جس کا چاہو انتخاب کر لو۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا: میں نے اپنے رب کی دائیں طرف کو اختیار کیا ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ) اور میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں اور برکت والے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا دایاں ہاتھ کھولا……….‘‘
600۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَ، أَنْفِقْ أُنْفِقُ عَلَيْكَ))
’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: آدم کے بیٹے! تو لوگوں پر خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘
مزید فرمایا: ((يَمِينُ اللهِ مَلْأٰى وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: مَلَانُ سَحَّاءُ لَا يَغِيضُهَا شَيْءٌ، اللَّيْلَ وَالنَّهَارُ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيِّ:4684، 5352، 7411، 7496، ومُسْلِمٌ:993)
’’اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ ابن نمر نے کلائی کے بجائے ملان (کا لفظ) بیان کیا ہے۔ رات اور دن مسلسل خرچ کرنے سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔‘‘
601۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
((يَطْوِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنٰى، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِرُونَ ثُمَّ يَطْوِي الْأَرْضَ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ أَيْنَ الْمُتَكَبِرُونَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2788)
’’اللہ عز وجل قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لے گا اور فرمائے گا: بادشاہ میں ہوں۔ آج دوسروں پر جبر و ظلم کرنے والے کہاں ہیں؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: بادشاہ میں ہوں، (آج) جبر کرنے والے کہاں ہیں؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں؟‘‘
602۔سیدنا ابو ہریره رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((تَحَاجَتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَقَالَتِ النَّارُ: أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ، وَقَالَتِ الْجَنَّةُ: مَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ؟ قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ أَنتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَقَالَ لِلنَّارِ: إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِلْؤُهَا، فَأَمَّا النَّارُ، فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رِجْلَهُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ قَدْ، فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ، وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلٰى بَعْضٍ، وَلَا يَظْلِمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا، وَأَمَّا الْجَنَّةُ، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 4850، ومسلم: 2846، 36)
’’جنت اور دوزخ نے آپس میں مباحثہ اور تکرار کی۔ دوزخ نے کہا: میں تو متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا: میرے اندر تو صرف کمزور اور ناتواں اور کم مرتبے والے لوگ داخل ہوں گے؟ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔ اور دوزخ سے کہا: تو میرا عذاب ہے، میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا سزا دوں گا۔ بہر حال ان دونوں (جنت اور دوزخ) کو بھرنا ضرور ہے۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر نہیں رکھے گا۔ جب وہ قدم رکھے گا تو اس وقت دوزخ بولے گی: بس، بس اور بس، پھر اس وقت یہ بھر جائے گی اور اس کا ایک حصہ دوسرے حصے سے لپٹ جائے گا۔ اللہ تعالٰی اپنی مخلوق میں سے کسی بندے پر ظلم نہیں کرے
گا۔ لیکن جنت! تو بلا شبہ اس ( کو بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ وہاں ایک مخلوق پیدا کرے گا۔‘‘
603۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کے رسول ﷺ سے دیدار الہی والی حدیث کے متعلق بیان کرتے
ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((فَيَقُولُ: هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ تَعْرِفُونَهُ؟ فَيَقُولُونَ: السَّاقُ، فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ. فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ)) (أخرجه البخاري: 4919، 7439، ومُسْلِمٌ:183)
’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمھیں اپنے رب کی کوئی نشانی معلوم ہے جس کے ذریعے سے تم اسے پہچان سکو؟ وہ کہیں گے: پنڈلی ذریعہ شناخت ہے، پھر اللہ تعالی اپنی پنڈلی کھول دے گا تو ہر مومن اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائے گا۔‘‘
604۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ قیامت کے دن اہل ایمان کے اللہ تعالی کا دیدار کرنے کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((فَيَأْتِيهِمُ اللهُ فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا)) (أخرجه البخاري:7437، ومُسْلِمٌ:182)
’’اللہ تعالی ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جسے وہ پہچانتے ہوں گے ان سے فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں تو وہ کہیں گے: تو ہی ہمارا رب ہے۔“
605۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بلا شبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰى صُورَتِهِ)) (أخرجه مسلم:2612)
’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو اس کے چہرے ( پر مارنے) سے بچے کیونکہ اللہ تعالی نے آدم کو اس کی صورت پر بنایا ہے۔‘‘
606۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ، فَإِنَّ ابْنَ آدَمَ خُلِقَ عَلٰى صُورَةِ الرَّحْمَنِ تَعَالٰى)) (أَخْرَجَهُ الطبراني في الكبير:13404، وابن خزيمة 41، والبيهقي في الأسماء والصفات: 640، وعبد الله بن أحمد في السنة:68/1 و536/2، والآجري في الشريعة:315، والدارقطني في كتاب الصفات: 45، 48، وابن أبي عاصم في السنة: 529، 530)
’’تم (انسانی) چہرے کو برا بھلا مت کہو کیونکہ ابن آدم کی تخلیق اللہ رحمن کی صورت پر کی گئی ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بھی شکل وصورت ہے جو اس کے شایان شان ہے، اور آدم کو بھی اللہ تعالیٰ نے شکل وصورت عطا فرمائی جس میں چہرہ، آنکھیں اور دیگر اعضاء شامل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کی شکل اللہ کی شکل کے مشابہ ہے۔ اللہ کی آنکھیں، چہرہ اور صورت ہے لیکن اس کی کیفیت یا مثال بیان نہیں کی جاسکتی۔
607۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا آدم و سیدنا موسی علیہما السلام کے جھگڑے والی حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول الله الله نے فرمایا: ((قَالَ لَهُ، آدم: يَا مُوسَى اصْطَفَاكَ اللهُ بِكَلامِهِ)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيَّ:6614، وَمُسْلِمٌ:2652)
’’سیدنا آدم علیہ السلام نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے سے ہم کلام ہونے کے لیے منتخب فرمایا۔‘‘
608۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((يَقُولُ اللهُ: يَا آدَمُ فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، فَيُنَادِي بِصَوْتٍ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ بَعْثًا إِلَى النَّارِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:3348، 4741، 6530،7483)
’’قیامت کے دن اللہ تعالی سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائے گا: اے آدم! وہ کہیں گے: جی پروردگار! میں حاضر ہوں جو ارشاد ہو، پھر انھیں ایک بلند آواز سنائی گئی: اللہ تعالی تمھیں حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا حصہ نکالو۔‘‘
609۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:
((رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَىَّ، وَانْصُرْنِي وَلَا تَنْصُرْ عَلَىَّ، وَامْكُرْ لِي وَلَا تَمْكُرْ عَلَىَّ)) (أَخْرَجَهُ أبو داود: 1510، 1511، والترمذي:3551، وابن ماجه:3830، وأحمد: 1997، وابن حِبَّان: 947، وابن أبي شيبة:280/10، والنسائي في عمل اليوم والليلة:607، والبغوي في شرح السنة:1375)
’’اے میرے رب! میری مدد فرما، میرے خلاف (دشمن) کی مدد نہ فرما۔ میری تائید اور نصرت فرما، میرے خلاف کسی کی تائید اور نصرت نہ فرما۔ میرے حق میں تدبیر فرما، میرے خلاف تدبیر نہ فرما۔‘‘
610۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ قیامت کے دن اہل ایمان کے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اﷺ نے فرمایا:
((فَيَلْقَى الْعَبْدَ، فَيَقُولُ: أَيْ فُلْ! أَلَمْ أُكْرِمْكَ وَأُسَوِّدْكَ، وَأَزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْلَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟ فَيَقُوْلُ: بَلٰى، قَالَ فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ، فَيَقُولُ: لَا. فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2968، والحميدي:1178، وابن خزيمة في التوحيد:369/1، 371، وابن حبان: ،4642، 7445، أحمد:10378، وابن مندة: 809)
’’اللہ رب العزت بندے سے ملاقات فرمائے گا تو کہے گا: اے فلاں! کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی، تمھیں سرداری عطا نہیں کی تھی، تمھاری شادی نہیں کرائی تھی، گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہیں دیے تھے اور تمھیں ایسی صلاحیتیں عطا نہیں کی تھیں کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے؟ وہ جواب میں کہے گا: کیوں نہیں! (بالکل ایسا ہی تھا)۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملو گے؟ وہ کہے گا: نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج میں اسی طرح تھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے۔“
611۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ معاذ بن معاذ عنبری سے، وہ حماد بن سلمہ سے، وہ ثابت بنانی ہے، وہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی کریمﷺ سے اللہ تعالی کے اس فرمان: ﴿فَلمَّا تَجَلّٰى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ﴾ ’’پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی‘‘ کے متعلق روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اس طرح کیا، یعنی آپ نے چھنگلی کا کنارہ نکالا۔ میرے باپ نے کہا: معاذ نے ہمیں (یہ کر کے) دکھایا۔ راوی نے کہا: تو ان سے حمید الطویل نے کہا: ابو محمد! یہ دکھانے سے آپ کا کیا ارادہ ہے؟ راوی نے کہا: تو انھوں نے اس کے سینے پر سخت چوٹ لگائی اور فرمایا: حمید! تو کون ہے؟ اور تو کیا چیز ہے؟ یہ حدیث مجھے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں اور تو کہتا ہے کہ آپ کا اس سے کیا ارادہ ہے؟(أخرجه أحمد: 12260، 13178، و الترمذي: 3074، و ابن خزيمة في التوحيد: 258، 259/1، وابن أبي عاصم في السنة:481، والضياء في المختارة:1672، 1673، 1875، والحاكم:25/1، 320/2)
توضیح و فوائد: اس سے باری تعالی کے بابرکات وجود کا اثبات ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے محض چھوٹی انگلی کے بقدر اپنی ذات عالی کا مظاہرہ فرمایا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔