اُمّت پر نبیﷺکے حُقوق

اہم عناصر :
❄آپﷺپر ایمان لانا ❄ آپﷺکی عزت و توقیر کرنا
❄ آپﷺکی مکمل اتباع و اطاعت کرنا❄ آپﷺسے سب سے زیادہ محبت کرنا
❄آپﷺکی شان میں غلو نہ کرنا ❄آپﷺپر درود و سلام پڑھنا
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [الفتح: 9-8]
ذی وقار سامعین!
نبیﷺکی آمد سے پہلے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص خطہ عرب میں بدترین جہالت پھیل چکی تھی ، اللہ کے ساتھ کئی شریک بنا لئے گئے تھے ، بیٹیوں کو زندہ در گور کیا جاتا تھا، امراء غریبوں پر ظلم کرتے تھے ، نکاح کی اکثر صورتیں واضح زنا پر مستمل تھیں ، الغرض شاید ہی کوئی ایسا گناہ تھا اس وقت رائج نہ تھا ، ایسے میں اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر ترس اور رحم آیا ، جنابِ محمد رسول اللہﷺکو اس دنیا میں مبعوث فرمایا اور یہ اتنی بھی شفقت اور مہربانی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺکی دنیا میں بعثت کو اپنا احسان قرار دیا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
"بلاشبہ یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔” [آل عمران: 164]
یاد رکھیں! جتنا بڑا احسان ہوتا ہے اس کے تقاضے بھی اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں ، اس کے حقوق کا بھی اتنا ہی زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ آج کے خطبہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے اُن حقوق کو سمجھیں گے جو ہمارے ذمے ہیں ، جو ہم نے ادا کرنے ہیں:
آپﷺپر ایمان لانا:
نبیﷺکا ہمارے ذمے سب سے پہلا اور بنیادی حق یہ ہے کہ آپﷺ پر ایمان لایا جائے ، آپ کو اللہ کا بندہ اور رسول مانا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
❄يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
"اے لوگو! بلا شبہ تمھارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تمھارے رب کی طرف سے آیا ہے، پس تم ایمان لے آؤ، تمھارے لیے بہتر ہوگا اور اگر کفر کرو تو بے شک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔”[النساء: 170]
❄قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
"کہہ دے اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، وہ (اللہ) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اس کی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، پس تم اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لاؤ، جو اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔” [اعراف: 158]
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی، آپ نے فرمایا؛
’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس اُمت (امّتِ دعوت) کا کوئی ایک بھی فرد، یہودی ہو یا عیسائی، میرے متعلق سن لے، پھر وہ مر جائے اور اُس دین پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا، تو وہ اہل جہنم ہی سے ہوگا۔‘‘ [صحیح مسلم: 386]
 آپﷺکی عزت و توقیر کرنا:
نبیﷺکا ہمارے ذمے دوسرا حق یہ ہے کہ آپﷺکی عزت اور توقیر کی جائے ، اسی بات کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
❄إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
"بے شک ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور دن کے شروع اور آخر میں اس کی تسبیح کرو۔” [الفتح: 9-8]
❄يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔” [الحجرات: 2]
صحیح بخاری میں اس آیت کا سبب نزول بیان ہوا ہے، ابن ابی مُلیکہ فرماتے ہیں؛
كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا، أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، رَفَعَا أَصْوَاتَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ قَدِمَ عَلَيْهِ رَكْبُ بَنِيْ تَمِيْمٍ، فَأَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَخِيْ بَنِيْ مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِرَجُلٍ آخَرَ قَالَ نَافِعٌ لاَ أَحْفَظُ اسْمَهُ، فَقَالَ أَبُوْ بَكْرٍ لِعُمَرَ مَا أَرَدْتَ إِلاَّ خِلاَفِيْ قَالَ مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فِيْ ذٰلِكَ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ ﴾ اَلْآيَةَ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَمَا كَانَ عُمَرُ يُسْمِعُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هٰذِهِ الْآيَةِ حَتّٰی يَسْتَفْهِمَهُ
’’دو سب سے بہتر آدمی قریب تھے کہ ہلاک ہو جاتے، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما ، دونوں نے اپنی آوازیں بلند کیں جب بنو تمیم کے شتر سوار آپﷺکے پاس آئے۔ تو ان دونوں (بہترین آدمیوں) میں سے ایک نے بنی مجاشع کے اقرع بن حابس (کو بنو تمیم کا امیر مقرر کرنے) کا اشارہ کیا اور دوسرے نے ایک اور کا اشارہ کیا۔ نافع نے کہا، مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ تو ابوبکر نے عمر سے کہا : ’’تم نے صرف میری مخالفت کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔‘‘ اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
 يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ
 ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو۔‘‘
 ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے فرمایا؛
 پھر اس آیت کے بعد عمر کی آواز رسول اللہﷺکو سنائی نہیں دیتی تھی جب تک کہ آپﷺان سے دوبارہ پوچھتے نہیں تھے۔‘‘ [صحیح بخاری: 4845]
❄انس بن مالک فرماتے ہیں؛
 ’’جب یہ آیت اتری:
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
اب ثابت بن قیس بن شماس کی آواز بہت بلند تھی تو وہ کہنے لگے : ’’میں ہی اپنی آواز رسول اللہﷺکی آواز سے بلند کیا کرتا تھا، میرا عمل تو ضائع ہو گیا، میں اہلِ نار سے ہوں۔‘‘ اور وہ غمگین ہو کر گھر میں بیٹھ گئے۔ رسول اللہﷺنے انھیں نہ دیکھا تو ان کے بارے میں پوچھا۔ کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا : ’’رسول اللہﷺتمھیں تلاش کر رہے تھے، تمھیں کیا ہوا؟‘‘ کہنے لگے : ’’میں ہی ہوں جو اپنی آواز نبیﷺکی آواز سے بلند کرتا تھا اور اونچی آواز سے بات کرتا تھا، میرا عمل ضائع ہو گیا اور میں اہلِ نار سے ہوں۔‘‘ لوگوں نے آ کر رسول اللہﷺکو ان کی بات بتائی تو نبیﷺنے فرمایا؛
لاَ، بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ
 ’’نہیں، بلکہ وہ اہلِ جنت سے ہے۔‘‘
انس  نے فرمایا : ’’پھر ہم انھیں اپنے درمیان چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ جنتی ہیں۔ ‘‘ [مسند أحمد: ۱۲۴۰۸ ] اس کی سند صحیح ہے۔ تفسیر ابن کثیر کے محقق لکھتے ہیں کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو یہ خیال اس لیے ہوا کہ بنو تمیم (جن کے بارے میں یہ آیات اتریں) ان کے سامنے (رسول اللہﷺکی طرف سے) انھوں نے ہی خطبہ دیا تھا۔ [البدایہ والنہایہ ۵؍۴۲  ،  فتح الباری:۸؍۵۹۱]
❄حضرت عروۃ بن مسعود ثقفی  جو صلح حدیبیہ کے وقت مشرک تھے اور قریش کے نمائندہ بن کر رسول اللہﷺکے پاس آئے تھے ، وہ جب قریش کے پاس واپس لوٹے تو انھوں نے کہا؛
أَیْ قَوْمِ،وَاللّٰہِ لَقَدْ وَفَدْتُّ عَلَی الْمُلُوْکِ،وَوَفَدْتُّ عَلٰی قَیْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِیِّ، وَاللّٰہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم مُحَمَّدًا، وَاللّٰہِ إِنْ یَتَنَخَّمُ نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِیْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ،وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَہُ،وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْ یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِہٖ ، وَإِذَا تَکَلَّمُوْا خَفَضُوْا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ،وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیْمًا لَّہُ
  "اے میری قوم ! اللہ کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں سے مل چکا ہوں ، میں نے قیصر وکسری اور نجاشی جیسے بادشاہ دیکھے ہیں لیکن اللہ کی قسم میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کی اس کے ساتھی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم محمدﷺکی ان کے ساتھی کرتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! اگر وہ کھنکھارتے بھی ہیں تو ان کے منہ سے نکلنے والا بلغم ان کے کسی ساتھی کی ہتھیلی میں ہی گرتا ہے جسے وہ اپنے چہرے اور اپنی جلدپر مل لیتا ہے اور جب وہ کوئی حکم جاری کرتے ہیں تو ان کے ساتھی فوراً اس پر عمل کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو ان کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وضو والا پانی اسے مل جائے  اور جب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے پاس اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اور ان کی تعظیم کی بناء پر ان کی نظروں سے نظر نہیں ملاتے ۔۔۔۔ ” [صحیح بخاری: 2731]
آپﷺسے سب سے زیادہ محبت کرنا:
نبیﷺکا ہمارے ذمے تیسرا حق یہ ہے ہم اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت نبی کریمﷺ سے کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
"کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” [التوبہ: 24]
❄عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ»
ترجمہ: حضرت انس  سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔  [صحیح بخاری: 15]
❄     نبی کریمﷺسیدنا عمر کا ہاتھ پکڑے چل رہے تھے تو سیدنا عمر فاروق نے کہا؛
يَا رَسُولَ اللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي
"یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔”
تو نبی ﷺ نے فرمایا؛
 لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآنَ يَا عُمَرُ
 نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔ [صحیح بخاری: 6632]
 آپﷺکی مکمل اتباع و اطاعت کرنا:
نبیﷺکا ہمارے ذمے چوتھا حق یہ ہے کہ ہم نبیﷺکی مکمل اتباع اور اطاعت کریں ، اللہ تعالٰی نے قرآنِ مجید میں اطاعتِ رسولﷺ کا حکم دیا ہے اور  بتایا ہے کہ اگر تم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو رسول اللہﷺکی اطاعت کرو۔
❄وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
"اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور بچ جاؤ، پھر اگر تم پھر جاؤ تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمے تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔” [المائدہ: 92]
❄قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
"کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔” [آل عمران: 33]
❄عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ: إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي»، فَآذَنْتُهُ، فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو جَهْمٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ تَرِبٌ، لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ» فَقَالَتْ بِيَدِهَا هَكَذَا: أُسَامَةُ، أُسَامَةُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَاعَةُ اللهِ، وَطَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ»، قَالَتْ: فَتَزَوَّجْتُهُ، فَاغْتَبَطْتُ
ترجمہ: ابوبکر بن ابوجہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہﷺنے انہیں رہائش دی نہ خرچ۔ کہا: رسول اللہﷺنے مجھے فرمایا: "جب (عدت سے) آزاد ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا” سو میں نے آپ کو اطلاع دی۔ معاویہ، ابوجہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے ان کی طرف پیغام بھیجا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "معاویہ تو فقیر ہے اس کے پاس مال نہیں ہے، اور رہا ابوجہم تو وہ عورتوں کو بہت مارنے والا ہے، البتہ اسامہ بن زید ہے۔” انہوں نے (ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا: اسامہ! اسامہ! رسول اللہ ﷺنے انہیں فرمایا: "اللہ اور اس کے رسولﷺکی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے۔” کہا: چنانچہ میں نے ان سے شادی کر لی ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نکاح میں اتنی خیر رکھ دی کہ مجھ پر اس دور کی خواتین رشک کرتی تھیں۔ [مسلم: 3712]
❄حکیم بن حزام نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا ، آپ ﷺ نے عطا فرمایا ، میں نے پھر مانگا اور آپ ﷺ نے پھر عطا فرمایا ، میں نے پھر مانگا آپ ﷺ نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کرلے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہوگی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا ( یاد رکھو ) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر حکیم کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ غرض حکیم بن حزام رسول اللہ ﷺ کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پاگئے۔ حضرت عمر مال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔ [صحیح بخاری: 1472]
❄کعب بن مالک نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، مسجد میں، ابن ابی حدرد سے قرض کا مطالبہ کیا جو ان کے ذمے تھا تو ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہﷺنے گھر کے اندر ان کی آوازیں سنیں تو رسول اللہ ﷺ ان کی طرف گئے یہاں تک کہ آپ نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو آواز دی:
«يَا كَعْبُ»، فَقَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، «فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ»، قَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ فَاقْضِهِ
 "کعب!” انہوں نے عرض کی: حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے ہاتھ سے انہیں اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا آدھا حصہ معاف کر دو۔ کعب نے کہا: اللہ کے رسول! کر دیا۔ تو رسول اللہﷺنے (دوسرے سے) فرمایا: "اٹھو اور اس کا قرض چکا دو۔ [مسلم: 3987]
آپﷺکی شان میں غلو نہ کرنا:
نبیﷺکا ہمارے ذمے پانچواں حق یہ ہے کہ آپﷺکو وہی مقام اور رتبہ دیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو دیا ہے ، آپﷺکی شان میں غلو نہیں کرنا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
❄قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
"کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔”
اس بات کا حکم خود نبیﷺنے بھی دیا ہے ، آقا علیہ السلام فرماتے ہیں؛
 لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ”.
”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ [صحیح بخاری: 3445]
❄ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا؛
خَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تَتَغَنَّيَانِ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، وَتَقُولَانِ فِيمَا تَقُولَانِ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ:” أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ”.
نبی اکرمﷺمیری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھیکہ ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہیں۔ آپﷺنے فرمایا؛
"ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔” [ابن ماجہ: 1897 صححہ الالبانی]
آپﷺپر درود و سلام پڑھنا:
نبیﷺکا ہمارے ذمے چھٹا حق یہ ہے کہ نبیﷺپر کثرت سے درود پڑھا جائے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں درود پڑھنے کا حکم دیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
ترجمہ: بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیﷺپر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ [أحزاب: 56]
درود شریف کی فضیلت میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1۔ ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا؛
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ صحیح مسلم : 408]
2۔ ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘ [ صحیح الجامع : 6359 ]
3۔ درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا؛
اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا؛ جتنا چاہو۔ میں نے کہا: چوتھا حصہ؟ آپﷺ نے فرمایا؛
مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ
"جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔”
میں نے کہا: آدھا حصہ؟ آپﷺنے فرمایا؛
مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ
"جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔”
میں نے کہا: دو تہائی؟ آپﷺنے فرمایا؛
 مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ
"جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔”
میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو؟ آپﷺنے فرمایا؛
إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ
"تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔”
ایک روایت ہے میں ہے:
إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ
"تب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔” [ ترمذی : 2457 صححہ الالبانی ]
4۔ سیدنا فضالہ بن عبید  بیان کرتے ہیں ؛
سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺرَجُلًا يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ لَمْ يُمَجِّدْ اللَّهَ تَعَالَى وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِلَ هَذَا ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَمْجِيدِ رَبِّهِ جَلَّ وَعَزَّ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَدْعُو بَعْدُ بِمَا شَاءَ
 رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا کہ اس نے اللہ کی حمد و ثنا نہ کی تھی اور نہ نبی کریم ﷺ کے لیے درود پڑھا تھا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اس نے جلدی کی ۔ “ پھر اس کو بلایا اور اسے یا کسی دوسرے سے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے ، پھر نبی کریم ﷺ کے لیے درود پڑھے ، اس کے بعد جو چاہے دعا کرے ۔ “ [أبوداؤد: 1481 صححہ الالبانی]
5۔ سیدناعمر بن خطاب کہتے ہیں؛
إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ
"دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریمﷺپر صلاۃ (درود) نہیں بھیج لیتے۔” [ ترمذی : 486 حسنہ الالبانی ]
❄❄❄❄❄