استاد کا ادب

 

مار نہیں، پیار سے پہلے کی باتیں ہیں کہ طلبہ، اساتذہ کے برابر بیٹھنا،

ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے

اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔

اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں نوازتا بھی تھا۔

الغرض والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی

اور اس کا تسلسل دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے چلا آرہا تھا۔

اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی

کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ کرے

وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔

اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ.(الرحمن : 60)

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔

باادب با نصیب، جو ادب کرے گا وہ ادب کروائے گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا.(بنی اسرائیل : 7)

اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانوں کے لیے بھلائی کی اور اگر برائی کی تو انھی کے لیے

سنن ترمذی میں ایک روایت ہے جو معنًی صحیح ہے

مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ (ترمذی 2022)

جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے ،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقررفرمادے گا جو اس عمرمیں(یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں

ایک بوڑھے کی تعظیم میں تاخیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھا آدمی ۔۔نبی کریم ﷺ سے ملاقات کیلئے آیا

تو لوگوں نے اسے رستہ دینے ۔۔یا۔۔بیٹھنے کی جگہ دینے میں دیر کی

تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا ". سنن الترمذي، 1919، صحيح

”جو ہمارے چھوٹے پر رحم اور شفقت نہ کرے ،اور ہمارے بڑے کی عزت نہ کرے، تو وہ ہم میں سے نہیں“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بزرگوں کی وجہ سے نماز ہلکی کردیتے تھے

آپ نے فرمایا

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ مِنْهُمْ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ بخاري 671

جب تم میں سے کوئی، لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ لوگوں میں کمزور، بیمار اور بوڑھے سبھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے

بوڑھے کی عزت کرنا اللہ تعالیٰ کی عزت کرنے سے ہے

سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ

(ابو داؤد كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي تَنْزِيلِ النَّاسِ مَنَازِلَهُمْ4843) دیکھئے صحیح الجامع ، حدیث 2095

” بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو اور تقصیر سے بچتا ہو اور ( اسی طرح ) حاکم عادل کی عزت کرنا ‘ اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے ۔ “

بزرگوں میں برکت

عبداللہ بن عباس ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ:

برکت تمہارے بزرگوں (عمر رسیدہ لوگوں)کے ساتھ ہے. سلسلہ صحیحہ 322

اساتذہ، بزرگ اور بڑے ہوتے ہیں

اساتذہ، بزرگ اور بڑے ہوتے ہیں، اساتذہ، اُن سبھی حقوق اور آداب کے مستحق ہیں جو بزرگوں اور بڑوں کے لیے ہیں

رہبربھی یہ ہمدم بھی یہ غمخوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

عباس رضی اللہ عنہ کا حسنِ ادب

عباس چچا تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھتیجے تھے

عباس، عمر میں بڑے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے تھے

مگر چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استاد اور معلم تھے

تو سیدنا عباس رضى الله عنه سے پوچھا گیا :

أيُّما أكبر، أنت أم النَّبيُ صلى الله عليه وسلم؟

”آپ بڑے ہیں یا نبی صلى الله عليه وسلم؟“

فرمایا :

هو أكبر منِّي، وأنا وُلدت قبله. رواه الطبراني، كما قال الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (9/273)، والحاكم (3/362)، قال الهيثمي: رجاله رجال الصَّحيح. (سير أعلام النبلاء للذهبي : 80/2)

”بڑے تو وہی ہیں، اگرچہ پیدا پہلے میں ہوا تھا۔“

استاد،عمر میں چھوٹا بھی ہوتو پھر بھی اپنی انا قربان کرکے علم حاصل کریں

صحابیِ رسول حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ساداتِ قریش میں سے تھے اور آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس علم حاصل کیا کرتے تھے

باوجود اس بات کے کہ وہ معاذ سے پچاس سال بڑے تھے

ان سے کہا گیا :

أنت تتعلم على يد هذا الغلام ؟

کہ آپ اس لڑکے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں

تو انہوں نے فرمایا :

إنما أهلكنا التكبر (الآداب الشرعية لابن مفلح ٢/٢١٥)

(اس میں حرج ہی کیا ہے) ہمیں تکبر نے ہلاک کردیا ہے

استاد کی عزت کیے بغیر علم حاصل نہیں کیا جاسکتا

ایک عربی شاعر کہتا ہے :

اِنَّ المُعلمَ والطبيبَ کلاھما

لاینصَحان إذا ھما لم یُکرَما

فاصبِر لِدائکَ اِن اھنتَ طبیبَہ

واصبر لِجھلکَ اِنْ جَفَوتَ مُعلما

استاد اور طبیب، دونوں کی حالت یہ ہے کہ جب تک ان کی عزت نہ کی جائے ان سے خیر حاصل نہیں ہوسکتی لھذا اگر آپ، طبیب کی بےعزتی کرتے ہو تو پھر اپنی بیماری کو برداشت کرو اور اگر استاد سے بے وفائی کرتے ہو تو پھر اپنی جہالت پہ راضی رہو

استاد کو اس کے نام سے نہ پکارا جائے

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے "الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع” میں لکھا ہے کہ استاد کو اپنے نام سے نہ پکارا جائے بلکہ اس کے لئے احترام جیسے کلمات استعمال کریں جیسے ” أيها العالم، أيها الحافظ "ایسے کلمات استعمال کرو جن میں تعظیم پنہاں ہو۔

موسی علیہ السلام نے اپنے استاد سے کہا :میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا

موسی و خضر علیہما السلام کا واقعہ مشہور ہے جب موسی علیہ السلام کو پتہ چلا کہ خضر علیہ السلام کے پاس علم ہے تو سیکھنے کے لیے خضر کے پاس تشریف لے گئے

اور جا کر کہنے لگے :

قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا.(الكهف : 66)

موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں تیرے پیچھے چلوں؟ اس (شرط) پر کہ تجھے جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دے۔

خضر علیہ السلام نے کہا :

قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا.(الكهف : 67)

اس نے کہا بے شک تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔

وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا.(الكهف : 68)

اور تو اس پر کیسے صبر کرے گا جسے تو نے پوری طرح علم میں نہیں لیا۔

موسی علیہ السلام نے کہا:

قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا.(الكهف : 69)

اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو توُ مجھے ضرور صبر کرنے والا پائے گا اور میں تیرے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

دیکھیے کتنا عظیم شاگرد ہے، وقت کا پیغمبر ہے، اولوالعزم رسولوں میں سے ہے، اس سے باری تعالیٰ نے کلام کی ہے، کلیم اللہ کے لقب سے مُلَقَّبْ ہے، ان پر تورات نازل ہوئی ہے مگر ادب کا انداز کیسا ہے کہ استاد محترم کو کہہ رہے ہیں

وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا

استاد محترم! میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا

مگر افسوس کہ آج چھوٹے چھوٹے شاگرد، جن کی کوئی اوقات نہیں ہوتی، بس یہ کہ کسی چوہدری کا بیٹا ہوں یا میرا باپ گورنمنٹ افسر ہے تو اساتذہ کو پریشرائزڈ کرتے ہیں، بے عزت کرتے ہیں، اور نہ جانے کیا کچھ

علم حاصل کرنے کے لیے چھ بنیادی شرائط

ایک عربی شاعر کہتا ہے :

اخی لن تنال العلم إلا بستۃ

سانبیک عن تفصیلہا ببيان

ذکاءوحرص و اجتہاد وغربۃ

وصحبۃ استاذ وطول زمان

اے میرے بھائی چھ کام کیے بغیر آپ علم حاصل نہیں کر سکتے اور میں تجھے ان چھ چیزوں کی تفصیل بیان کرتا ہوں

01.ذہانت

02.علم کی حرص

03.محنت و کوشش

04.علاقے اور وطن سے دوری

05.استاد محترم کی صحبت و رفاقت میں بیٹھنا

06.اور علم کے لیے لمبا وقت صرف کرنا

حصولِ علم کے لیے استاد سے چمٹے رہنے کا حیران کن واقعہ

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

امام بَقِی بن مخلد رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کے لئے پیدل اندلس سے بغداد کا سفر طے کیا۔

امام بقی خود اپنی روداد سفر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب میں بغداد کے قریب پہنچا تو مجھے امام احمد بن حنبل کے آزمائش کی اطلاع ملی اور مجھے معلوم ہوا کہ انہیں لوگوں سے ملنے اور تعلیم و تدریس پر پابندی لگی ہوئی ہے۔

چنانچہ آزمائش کی خبر سن کر مجھے کافی تکلیف پہنچی۔ بغداد پہنچ کر میں نے اپنا سازو سامان ایک کمرے میں رکھا۔ اور امام احمد بن حنبل کے گھر کی تلاش میں نکل پڑا۔ پوچھتے ہوئے ان کے گھر پہنچا اور دروازہ پر دستک دی تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے از خود میرے لئے اپنے گھر کا دروازہ کھولا۔

میں نے عرض کیا: ابو عبداللہ! میں ایک اجنبی آدمی ہوں، حدیث کا طالب علم ہوں، سنت رسول کو لکھنے کا مجھے شوق ہے، آپ کے پاس میرے آنے کا اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے۔

امام احمد نے کہا: آپ اندر آجاؤ اور دیکھو کسی کو کو تمھارے آنے کی کی خبر نہ لگے۔ پھر مجھ سے حال و احوال دریافت کرتے ہوئے کہنے لگے: فی الحال میں ایک آزمائش میں مبتلا ہوں اور مجھ پر تعلیم و تدریس کی پابندی لگی ہوئی ہے۔

میں نے امام احمد سے دوبارہ عرض کیا: میں ایک اجنبی آدمی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں روزانہ فقیروں کے بھیس میں آپ کے گھر آیا کروں، آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر صدقہ اور مدد کا سوال کروں۔ پھر آپ گھر سے نکل کر مجھے حدیث بیان کریں اگرچہ ایک ہی حدیث سہی۔

امام بقی کہتے ہیں: پھر میں روزانہ ان کے گھر آیا کرتا اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز لگاتا: "آپ پر اللہ کی رحمت ہو صدقہ دو اجر پاؤ”

یہ آواز سن کر امام احمد نکلتے اور مجھے اپنے گھر میں لے جاتے اور مجھ سے کبھی دو کبھی تین اور کبھی اس سے زیادہ حدیثیں بیان کرتے یہاں تک کہ میرے پاس اس طرح 300 حدیثیں جمع ہوگئیں۔

پھر ایک دن آیا کہ اللہ تعالی نے امام احمد کو اس آزمائش سے چھٹکارا دلایا اور ہر طرف ان کے چرچے ہونے لگے۔ اس کے بعد جب میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس آتا ( جب وہ اپنے وسیع حلقے میں اپنے طلبہ کے ساتھ ہوتے ) تو مجلس میں میرے لئے جگہ بناتے اور مجھے اپنے قریب بٹھاتے اور حدیث کے طلبہ سے مخاطب ہوکر فرماتے: دیکھو! "طالب علم اسے کہتے ہیں”۔

(سير أعلام النبلاء 13/292)

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے شام میں اپنے استاد سے کہا :میں چاہتا ہوں کہ آپ کی خدمت کروں

فرماتے ہیں :جب میں شام پہنچا تو پوچھا:

وہ کون سی شخصیت ہے جو اس دین والوں میں افضل ہے؟

انھوں نے کہا:

فلاں گرجا گھر میں ایک پادری ہے۔

میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا: میں اِس دینِ (نصرانیت) کی طرف راغب ہوا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں اور گرجا گھر میں آپ کی خدمت کروں اور آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: (ٹھیک ہے) آ جاؤ۔ پس میں اس میں داخل ہو گیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ، استاد کا دروازہ بھی نہ کھٹکھٹاتے

حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ

کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔

اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے

اور جب وہ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے

تو ان سے حدیث پوچھتے

اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی

اور یہ برداشت کرتے رہتے۔

وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے

کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا

تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں

اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔

سنن دارمی، ﺑﺎﺏ اﻟﺮﺣﻠﺔ ﻓﻲ ﻃﻠﺐ اﻟﻌﻠﻢ، ﻭاﺣﺘﻤﺎﻝ اﻟﻌﻨﺎء ﻓﻴﻪ سندہ صحیح

ابن عباس نے زید بن ثابت کا کس طرح احترام کیا

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کے متعلق آتا ہے کہ وہ بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے استاد کے سامنے پیش آتے تھے۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنھما حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ کے گھوڈے کے رکاب کو پکڑ کر چلتے اور فرماتے:

"هكذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا” (الجامع لأخلاق الراوي: ۱۸۸/۱)

امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ﺫﻫﺐ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻟﻴﺮﻛﺐ ﻭﻭﺿﻊ ﺭﺟﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﺮﻛﺎﺏ ﻓﺄﻣﺴﻚ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺑﺎﻟﺮﻛﺎﺏ ﻓﻘﺎﻝ ﺗﻨﺢ ﻳﺎ اﺑﻦ ﻋﻢ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ. ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﻫﻜﺬا ﻧﻔﻌﻞ ﺑﺎﻟﻌﻠﻤﺎء ﻭاﻟﻜﺒﺮاء (المعرفة والتاريخ :1/ 484،المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:(93)،تاريخ دمشق:19/ 326 سنده صحيح)

ہمیں اپنے علماء کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اظہار خیال

ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺎﺭ فرماتے ہیں :

ﻟﻤﺎ ﻣﺎﺕ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻗﻌﺪﺕ ﺇﻟﻰ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻓﻲ ﻇﻞ ﻗﺼﺮ ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﻜﺬا ﺫﻫﺎﺏ اﻟﻌﻠﻢ، ﻟﻘﺪ ﺩﻓﻦ اﻟﻴﻮﻡ ﻋﻠﻢ ﻛﺜﻴﺮ (المعرفة والتاريخ :1/ 486 صحيح الطبقات الكبرى لابن سعد :2/ 276 صحيح)

استاد کا دروازہ کھٹکھٹانے کا ادب

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازوں پر ناخنوں سے دستک دی جاتی تھی

(الأدب المفرد للبخاری 1080)

استاد محترم کی موجودگی میں ایسے بیٹھے ہوئے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے اصحاب کی ایک مجلس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَسَكَتَ النَّاسُ كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْرَ (صحيح البخاري | كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ |2842)

لوگ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایسے خاموش بیٹھے ہوتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں

نظر بھر کر استاد محترم کا چہرہ ہی نہ دیکھ سکے

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ؛ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ، 321)

اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا

استاد کی سواری کی نکلیل پکڑ کر آگے آگے چلنا

ختلی کا بیان ہے

رأيت شيخًا راكبًا بمنى وشيخ يقوده وآخر يسوقه

وهما يقولان: أوسعوا للشيخ

فقلت :من الراكب؟

فقيل: الأوزاعي

قلت: من القائد؟

قال: سفيان الثوري

قلت: فالسائق؟

قال: مالك بن أنس.

کہ میں نے دیکھا کہ منیٰ کے میدان میں ایک شیخ سوار ہیں، ایک ان کے آگے چل رہے اور ایک پیچھے، اور دونوں کہہ رہے ہیں کہ شیخ کے لیے راستا دو-

میں نے پوچھا:

سوار کون ہے؟

بتلایا گیا: امام اوزاعی

پوچھا:

آگے کون ہیں؟

کہا گیا:

امام سفیان ثوری

پھر پوچھا:

پیچھے کون ہیں؟

خبر دی گئی:

امام مالک رحمھم اللہ-

(الکامل لابن عدی 1/ 173)

علامہ احسان اپنے استاد محترم کے پاؤں دبایا کرتے تھے

علامہ احسان الہٰی ظہیر شہید رحمہ اللّٰہ کو محدثِ زماں امام ناصر الدین البانی رحمہ اللّٰہ سے شرفِ تلمذ حاصل تھا کہ مدینہ یونیورسٹی، مدینہ منورہ میں ان سے کسبِ فیض کیا تھا۔ علامہ شہیدؒ کے برادرِ اصغر جناب عابد الہٰی صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں محدث البانیؒ کی خدمت میں حاضرہوا تو علامہ شہید کا ذکر چھڑ گیا۔ امام البانی نے فرمایا:

احسان الہٰی بڑے ذہین تھے؛ میں ان کے اخلاق اور مودبانہ انداز کو نہیں بھول سکتا۔ ایک مرتبہ ہم نے لندن کا اکٹھے سفر کیا۔ میری بڑی خدمت کی اور میرے پاؤں دابتے رہے!

استاد کے ادب کی وجہ سے ایک سال تک سوال ہی نہ پوچھ سکے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنا تھا لیکن مکمل ایک سال گزر گیا (قریب رہنے کے باوجود) ان کی تعظیمی ھیبۃ کی وجہ سے پوچھ ہی نہ سکا

صحیح مسلم

استاد کے سامنے صفحہ بھی آہستہ سے پلٹتے

ہمارے سلف کا تواضع اپنے اساتذہ کے سامنے اس قدر ہوتا تھا کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"کنت أصفح الورق بين يدي مالك رحمه الله صفحا رفيقا،هيبة له لئلا يسمع وقعها” (المجموع للإمام النووی:٦٧)

"میں امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے انکی ہیبت و رعب کے بسبب کتاب کے اوراق آہستہ سے پلٹتا تھا۔

استاد کی موجودگی میں پانی نہ پی سکے

امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد امام ربیع بن سلیمان المرادی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :

و اللہ ما اجترات ان اشرب الماء و الشافعی ینظر الي ھیبة له (تذکرۃ السامع و المتکلم لابن جماعة : 98)

کہ ” قسم اللہ کی! جس وقت امام شافعی رحمہ اللہ میری طرف دیکھ رہے ہوں تو میں نے ان کی ہیبت کی وجہ سے کبھی بھی پانی پینے کی جرأت نہیں کی۔”

ایسے شاگرد کے متعلق استاد کے جذبات

امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے اس شاگرد کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :

ما خدمني أحد ما خدمني الربيع وكان يقول له: يا ربيع، لو أمكنني أن أطعمك العلم لأطعمتك

میری جتنی خدمت ربیع نے کی ہے اتنی کسی اور نے نہیں کی

اور فرمایا کرتے تھے :اے ربیع! اگر میرے لیے ممکن ہوتا کہ میں تجھے علم کھلا سکتا تو ضرور ایسے کرتا

مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

فرماتے ہیں :

ہم نے کچھ نہیں پڑھا بس اساتذہ کی خدمت کی ھے ان کی دعائیں لی ہیں اوربس

مفتی عبدالرحمن عابد صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ

آپ کے ایک ہم عصر جامعہ فیلو نے مجھے بتایا کہ شیخ عبدالرحمن عابد، زمانہ طالب علمی میں وضو کرتے اساتذہ کے پیچھے تولیہ پکڑ کر کھڑے رہتے جب استاد محترم فارغ ہوتے تو فوراً خشک تولیہ پیش کرتے

استاد کی موجودگی میں سوال کا جواب نہ دیں

محدث حافظ سفیان بن عیینہؒ کی موجودگی میں عبداللہ بن مبارکؒ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا :

إنا نهينا أن نتكلم عند أكابرنا (سير أعلام النبلاء 8/ 420)

ہمیں اپنے اکابر کی موجودگی میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے!

ہزاروی صاحب کی موجودگی میں نور پوری صاحب

ایک دفعہ شیخ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ سے شیخ عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ کی موجودگی میں ایک مسئلہ پوچھا گیا تو شیخ نورپوری نے استاد محترم کی موجودگی میں مسئلہ بتانے سے انکار کر دیا اور سائل کو ہزاروی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: استاد جی پوچھ لیں

ایک شاگرد کے اپنے استاد سے متعلق جذبات

امام ابن القيم رحمہ اللہ اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”جب کبھی خوف کے سائے گہرے ہوتے، بُرے خیالات راہ بناتے، زمین تنگ پڑنے لگتی؛ ہم ان کے روبرو حاضر ہو جاتے، انہیں دیکھنے اور سننے کی دیر ہوتی کہ سب کچھ چَھٹ جاتا، انشراحِ صدر، قوت، یقین اور گُونا گوں اطمینان نصیب ہو جاتا …“ (الوابل الصيب : 48)

علامہ اقبال فرماتے ہیں :

تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوَض

دل چاہتا تھا ہدیۂ دِل پیش کیجیے

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبَق

کہتا ہے ماسٹر سے کہ “بِل پیش کیجیے!”

"إن المُعلّم والطبيب كلاهما لا ينصحان إذا هُما لم يُكرما فاصبر لدائكِ إن أهنتَ طبيبه واصبر لجهلك إن جَفوتَ مُعلّما