وراثت میں سے بیٹیوں اور بہنوں کو حصہ دو

 اسلام انسان کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے ، اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں ، انہی میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ اسلام نے انسان کے لئے تقسیم میراث کا بہترین نظام دیا ہے۔ اسلام نے بہت سارے امور کی رعایت کرتے ہوئے میراث کا نظام بنایا ہے ، جس میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی میراث کا حقدار بنایا گیا ہے۔

مگر افسوس کہ شروع دن سے ہی بیٹی کو کم تر سمجھا جاتا ہے بیٹے اور بیٹی میں حقوق کا عدم توازن قائم کیا جاتا ہے حتی کہ

بیٹی کا پہلا حق جو اکثر لوگ کھا جاتے ہیں وہ اس کی پیدائش کی خوشی ہے

بیٹیوں کو چھوڑ کر صرف بیٹوں کے لیے وقف کرنا جاہلیت کا کام ہے

زمانہ جاہلیت کی ایک رسم بد کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ [الأنعام : 139]

اور انھوں نے کہا جو ان چوپائوں کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری بیویوں پر حرام کیا ہوا ہے اور اگر وہ مردہ ہو تو وہ سب اس میں شریک ہیں۔ عنقریب وہ انھیں ان کے کہنے کی جزا دے گا۔ بے شک وہ کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

علامہ سیوطی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اسْتَدَلَّ مَالِکٌ بِقَوْلِہِ {خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰی اَزْوَاجِنَا} عَلٰی أَنَّہُ لَا یَجُوْزُ الْوَقْفُ عَلٰی أَوْلَادِ الذُّکُوْرِ دُوْنَ الْبَنَاتِ، وَأَنَّ ذٰلِکَ الْوَقْفَ یُفْسَخُ، وَلَوْ بَعْدَ مَوْتِ الْوَاقِفِ، لِأَنَّ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ۔‘‘

’’(امام) مالک نے ارشاد باری تعالیٰ[ترجمہ: صرف ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری خواتین پر حرام کیا گیا ہے) سے استدلال کیا ہے، کہ بیٹیوں کو چھوڑ کر صرف بیٹوں کے لیے وقف کرنا جائز نہیں اور ایسا وقف، وقف کرنے والے کی موت کے بعد بھی منسوخ کیا جائے گا، کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا طریقہ ہے۔‘‘

اپنی اولاد کے درمیان عدل کریں

 اسلام نے والدین کو سختی سے روکا ہے کہ وہ ساری نوازشات ایک بیٹے یا بیٹی پر نہ کریں، اگر اپنی زندگی میں کچھ وقف کر رہے ہیں تو ساری اولاد میں انصاف کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 [اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى] (المائدۃ:8)

عدل کرو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے

سنن ابو داود میں الفاظ یہ ہیں:

اعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ.

اپنی اولاد میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔

 نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

 ’’میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا، تو میری ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے کہا:

 ’’جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنائیں گے، میں راضی نہیں ہوں گی۔‘‘

 چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:

 ’’میں نے عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو عطیہ دیا، تو یارسول اللہ! اس [یعنی بیوی] نے مجھے حکم دیا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناؤں۔‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:

 ’’أَعْطَیْتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ ھٰذَا؟‘‘

 ’’کیا تم نے باقی ماندہ اولاد کو (بھی) ایسا ہی عطیہ دیا ہے؟‘‘

 انہوں نے عرض کیا:

 ’’لَا‘‘ ’’نہیں‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ’’فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ‘‘

 ’’پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو‘‘

انہوں نے بیان کیا:

 ’’وہ واپس آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔‘‘

اس قصہ کو اچھی طرح سمجھنے کی خاطر درج ذیل سات روایات کے الفاظ بھی توفیق الٰہی سے نقل کئے جارہے ہیں:

 صحیح مسلم میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’فَلَا تُشْہِدْنِيْ إِذَا ، فَإِنِّيْ لَا أَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ۔‘‘

’’پھر مجھے گواہ نہ بناؤ، کیونکہ بے شک میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔‘‘

صحیح مسلم میں ہی ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’فَلَیْسَ یَصْلُحُ ھٰذَا، وَإِنِّيْ لَا أَشْہَدُ إِلَّا عَلٰی حَقٍّ۔‘‘

’’یہ درست نہیں اور یقینا میں حق کے علاوہ کسی اور بات پر گواہ نہیں بنتا۔‘‘

 سنن النسائی میں ہے:

’’أَلَا سَوَّیْتَ بَیْنَہُمْ؟‘‘

[تم نے ان کے درمیان مساوات کیوں نہیں کی‘‘؟]

صحیح ابن حبان میں ہے:

 ’’ سَوِّ بَیْنَہُمْ‘‘

’’ان کے درمیان مساوات کرو‘‘

صحیح مسلم اور سنن النسائی میں ہے:

 ’’فَأَرْجِعْہُ‘‘

’’پس اسے واپس لے لو‘‘

عدل کرنے والوں کے لیے نور کے منبر

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَی مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَکِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُکْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا

 [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الأمیر العادل…: ۱۸۲۷، عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما ]

’’بے شک انصاف کرنے والے جو اپنے فیصلے میں، اپنے اہل و عیال میں اور رعایا میں انصاف کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے، رحمان عزوجل کے دائیں طرف ہوں گے اور رحمان کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔‘‘

لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہر ایک کا حق اللہ تعالی نے خود مقرر کیا ہے

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا [النساء : 11]

اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے، پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد)۔ تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں،بے شک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بھائی کے حصے کے لیے معیار بہن کے حصہ کو بنایا

(للذکر مثل حظ الانثیین) میں معیار پیمانہ اور بنیاد بیٹی کا حصہ بنایا گویا بیٹی کا حصہ تو مقرر اور طے شدہ ہی ہے بیٹے کا اسی کے مطابق مقرر کرنا ہوگا

جیسے ایک ڈاکٹر کسی مریض سے کہتا ہے کہ یہ سیرپ صبح و شام ایک ایک چمچ استعمال کرنا ہے گویا چمچ کی مقدار اور سائز ایک طے شدہ چیز ہے جسے سب جانتے ہیں اس کے متعلق بتانے یا پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے بس سیرپ کو اس کے حساب سے ماپ تول کرنا ہے

ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دینا ہے گویا لڑکی کا حصہ ایسا اٹل اور طے شدہ ہے جس کے متعلق بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے بس لڑکے کا حصہ اس کے مطابق چیک کرنا ہے

بیٹی یا بہن کا حصہ ان کی امانت ہے

 یہ وراثتی حصہ امانت ہے ان وارثوں کی جن کو قرآن نے وارث ٹھہرایا ہے اس امانت کو جلد ازجلد اس کے وراثوں کے حوالے کریں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا [النساء : 58]

بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، یقینا اللہ تمھیں یہ بہت ہی اچھی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

اور فرمایا

فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ [البقرۃ :283]

تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اپنی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے

بیٹی کو اس کا حق دو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا [الإسراء : 26]

اور رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو اور مت بے جا خرچ کر، بے جا خرچ کرنا۔

ذا القربی میں بیٹی بھی آتی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ

اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں

 میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔

حتیٰ کہ چھوٹے بچوں اور جنین کا بھی حق ہے۔ اس سے عرب کے جاہلی دستور کی تردید مقصود ہے۔ جس کے مطابق عورتوں اور بچوں کو میت کے متروکہ مال اور جائداد سے محروم کر دیا جاتا اور صرف بالغ لڑکے ہی جائدادپر قبضہ کر لیتے تھے

ترکہ کی مقدار اگرچہ انتہائی کم ہو پھر بھی ہر وارث کو اس کا حصہ دیا جائے گا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا [النساء : 7]

مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔

تفہیم القرآن میں مودودی صاحب لکھتے ہیں

 میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتٰی کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔

کسی کا ایک لاٹھی برابر مال بھی اس کی رضا مندی کے بغیر کھانا حرام ہے

اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا [النساء :19]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ

حضرت ابوحمید ساعدی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

 لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْخُذَ عَصَا أَخِيهِ بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسِهِ وَذَلِكَ لِشِدَّةِ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ  [مسند احمد، حدیث نمبر: 22504]

 کسی شخص کے لئے اپنے کسی بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضا مندی کے بغیر لیناجائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔

یاد رکھیں کہ آج کل جو بہنیں اپنے بھائیوں کو وراثت میں سے اپنا حصہ معاف کر دیتی ہیں وہ دل کی رضامندی سے نہیں کرتیں حقیقت میں ان کا یہ فیصلہ مجبوری کی بنیاد پر ہوتا ہے  وہ بے چاریاں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے باپ کی وراثت میں اپنے بھائیوں سے حصہ لے لیا تو پھر ہم ان سے مل نہیں سکتیں لوگ ہمیں باتیں کریں گے ہم کس منہ سے اپنے بھائی کے گھر آئیں گی ان کی یہ مجبوری ہوتی ہے حصہ نہ لینا

کبھی سوچا کہ چھوٹی عمر میں تو جو کچھ بھائی کو ملتا تھا وہی بہن بھی مانگتی تھی برابر کا جیب خرچ برابر کے کپڑے مگر شادی ہوجانے کے بعد وہ کون سی مجبوری ہے کہ بہن اپنا سارا حصہ بھائی کو چھوڑ دیتی ہے

آپ نے کبھی ایسا نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بھائی نے اپنی بہن کو حصہ معاف کر دیا ہو کہ میں نہیں لیتا میری بہن کو دے دو سوچیں ایسا کیوں ہے

کسی شخص کو بھی وراثت کے حصص میں کمی بیشی کا اختیار نہیں ہے

شریعت میں جس کا جو حصہ مقرر ہے وہ ایک اٹل ہے اس میں کسی بھی کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ان میں رد و بدل کا اختیار کسی شخص کو حاصل ہے نہ ہی کسی حکومت کو

فرمایا

 نَصِيبًا مَفْرُوضًا [النساء، 7]

 مقرر کیا ہوا حصہ ہے

اور فرمایا

 فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ [النساء : 11]

 یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں۔

اور فرمایا

 وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ [النساء : 12]

یہ اللہ کی طرف سے تاکیدی حکم ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، نہایت بردبار ہے۔

 کوئی ایک کسی دوسرے کو عاق نہیں کر سکتا

بعض اوقات والدین اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو اس کے ساتھ ناراضگی کی وجہ سے وراثت سے محروم کرنے کے لیے اسے عاق کردیتے ہیں یا کسی حصہ دار کو محض مؤنث ہونے کی وجہ سے محروم کردیا جاتا ہے

جبکہ یہ جائز نہیں ہے

اگر وہ نافرمان ہے تو اس کی نافرمانی کا وبال اسی کے سر ہوگا اور اگر وہ مؤنث ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے لیکن اس بنیاد پر اسے وراثت سے محروم نہیں کیا جاسکتا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى [المائده :8]

اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

أَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ  (بخاری باب صُنْعِ الطَّعَامِ وَالتَّكَلُّفِ لِلضَّيْفِ،5788)

ہر حقدار کو اس کا حق دو

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 ألحقوا الفرائض بأهلها [بخاري]

حصہ داروں کو ان کے مقررہ حصے دو

فرمایا

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [النساء :11]

اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے

یتیم کا مال کھانے والوں کے متعلق وعید

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا [النساء : 10]

بے شک جو لوگ یتیموں کے اموال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 ’’ سات تباہ کن چیزوں سے اجتناب کرو۔‘‘

 صحابہ نے عرض کیا :

 ’’یا رسول اللہ! وہ کیا ہیں ؟‘‘ فرمایا :

 ’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، اس جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن، بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘

 [ بخاری، الحدود، باب رمی المحصنات : ۶۸۵۷، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یتیم لڑکیوں کو ان کے چچا سے حصہ لے کردیا

 سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ وفات پا گئے اور ان کی بیٹیوں کے چچا نے سارا ورثہ سنبھال لیا۔

 سعد رضی اللہ عنہ کی دو لڑکیاں تھیں۔ ان کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورثے کا سوال کیا تو یہ آیت (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) نازل ہوئی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو اور جو بچ جائے وہ تمھارے لیے ہے۔

[ أبو داوٗد، الفرائض، باب ما جاء فی میراث الصلب : ۲۸۹۱۔ عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما۔ ترمذی : ۲۰۹۲۔ أحمد : 352/3، ح : ۱۴۸۱۰، و قال الألبانی حسن ]

شرعی تقسیم پر عمل نہ کرنے والوں کی سزا

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ [النساء : 14]

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے وہ اسے آگ میں داخل کرے گا، ہمیشہ اس میں رہنے والا ہے اور اس کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

خائن قیامت کے دن اپنی خیانت لے کر آئے گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

 وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ [آل عمران : 161]

 اور جو خیانت کرے گا قیامت کے دن لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کی

گن پوائنٹ پر یا ورغلا کر یا سبز باغ دکھا کر اپنی بہنوں سے انگوٹھے لگوا لینا اور ان کی جائیداد اپنے نام کر لینا  خیانت ہے

قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز خائن کی گردن پر بیٹھ کر آوازیں لگائے گی

 ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا

:‏‏‏‏ وَلَا يَأْتِي أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَى رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ وَلَا يَأْتِي بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ.  (صحیح بخاری، کتاب: زکوۃ کا بیان

باب: زکوٰۃ نہ ادا کرنے والے کا گناہ۔

حدیث نمبر: 1402)

 کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس طرح نہ آئے کہ وہ اپنی گردن پر ایک ایسی بکری اٹھائے ہوئے ہو جو چلا رہی ہو اور وہ  (شخص)  مجھ سے کہے کہ اے محمد  ( ﷺ  ) ! مجھے عذاب سے بچائیے میں اسے یہ جواب دوں گا کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا  (میرا کام پہنچانا تھا)  سو میں نے پہنچا دیا۔

 اسی طرح کوئی شخص اپنی گردن پر اونٹ لیے ہوئے قیامت کے دن نہ آئے کہ اونٹ چلا رہا ہو اور وہ خود مجھ سے فریاد کرے ‘ اے محمد  ( ﷺ  ) ! مجھے بچائیے اور میں یہ جواب دے دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھ کو  (اللہ کا حکم)  پہنچا دیا تھا۔

ہمیں یہ بات سوچنا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن ہماری بہن ہماری بیٹی ہمارے کاندھوں پر بیٹھی ہو اور آواز دے دے کر اپنا حق مانگ رہی ہو یا باپ کی وراثت میں سے جائیداد کا وہ حصہ جو بہن کا بنتا تھا اور ہم نے اس کو نہیں دیا وہ ہمارے کاندھوں پر بیٹھا ہو اور لوگوں کے سامنے ہماری رسوائی کا سبب بن رہا ہو

ایک بالشت زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والا قیامت کے دن سات زمینوں کا بوجھ اٹھائے گا

 سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 «مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا، فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ»

(بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ،3198)

 جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے کسی کی دبالی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا

ایک انسان سات زمینیں کیسے اٹھائے گا

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان سات زمینیں کیسے اٹھا سکتا ہے کیا چھ فٹ کے انسان کی گردن میں سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا یہ تو ممکن نہیں ہے عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں بہرحال ماننا پڑے گا چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے

دوسری بات یہ ہے کہ قیامت کے دن گنہگار لوگوں کے گناہوں کے مطابق ان کے جسم بہت بڑے ہو جائیں گے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جہنمی کی ایک داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوجائے گی اور ان کے کندھوں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے گا

 اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ سات زمینوں کے اندر نیچے تک دھنسا دیا جائے گا

ایک چادر برابر خیانت بھی جہنم کا سبب بن سکتی ہے

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ’’مدعم‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے پالان اتار رہا تھا کہ اسے ایک اندھا تیر لگا جس نے اسے قتل کر دیا، لوگوں نے کہا، اسے جنت مبارک ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمتوں میں سے لی تھی، جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھیں، اس پرآگ بن کر شعلے مار رہی ہے۔‘‘

 [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ خیبر : ۴۲۳۴ ]

قیامت کے دن حقوق واپس کرنے پڑیں گے حتی کہ بغیر سینگوں والی بکری کو بھی اس کا حق لے کر دیا جائے گا

 حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

 لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَی أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّی يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَائِ مِنْ الشَّاةِ الْقَرْنَائِ

 (صحیح مسلم، کتاب: صلہ رحمی کا بیان، باب: ظلم کرنے کی حرمت کے بیان میں، حدیث نمبر: 6580)

 قیامت کے دن تم لوگوں سے حقداروں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لے لیا جائے گا۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَکَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَکَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَی هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَی مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ

 (صحیح مسلم، کتاب: صلہ رحمی کا بیان، باب: ظلم کرنے کی حرمت کے بیان میں، حدیث نمبر: 6579)

 کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے صحابہ ؓ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

مرتے وقت وصیت میں کسی کو نقصان پہنچانے والا جہنم میں جائے گا

حضرت ابوہریرہ   ؓ  رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا

 «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةَ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ  لَهُمَا النَّارُ»  [رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ]

’’ بے شک آدمی اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتے رہتے ہیں ، پھر انہیں موت آتی ہے تو وہ وصیت میں کسی کو نقصان پہنچا جاتے ہیں ، تو ان دونوں کے لیے جہنم کی آگ واجب ہو جاتی ہے ۔‘‘

 جنت سے ایک بالشت کا فاصلے سے جہنم کی طرف سفر کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مرتے وقت وصیت میں کسی کا حق مار جائے یا تقسیم وراثت غلط کر جائے

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

 ’’وصیت میں نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘

[ السنن الکبرٰی للنسائی : 60/10، ح : ۱۱۰۲۶، و سندہ صحیح ]

باپ اگر غلط وصیت کربھی جائے تو اولاد پر لازم ہے کہ اسے شرعی حکم کے مطابق درست کرے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [البقرة : 182]

پھر جو شخص کسی وصیت کرنے والے سے کسی قسم کی طرف داری یا گناہ سے ڈرے، پس ان کے درمیان اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

جائیداد ہتھیانے کے لیے باپ کی طرف سے اپنے نام خودساختہ وصیت

ایسا واقعہ بھی ہو چکا ہے کہ ایک شخص کا باپ فوت ہوگیا ہاسپٹل سے اپنے باپ کی ڈیڈ باڈی گھر لا رہا تھا راستے میں ایمبولینس کے اندر پڑے ہوئے مردہ باپ کے انگوٹھے ایک خالی کاغذ پر لگا رہا تھا تاکہ بعد میں اپنی مرضی سے اس پر وصیت لکھ کر اسے باپ کی طرف منسوب کرتے ہوئے جائیداد اپنے نام لگوا سکوں

یہ باقی ورثاء سے خیانت ہے

جھوٹی وصیت یا وصیت میں تبدیلی کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں

فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [البقرة : 181]

پھر جو شخص اسے بدل دے، اس کے بعد کہ اسے سن چکا ہو تو اس کا گناہ انھی لوگوں پر ہے جو اسے بدلیں، یقینا اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

ایک تہائی حصہ وصیت کرنے کی اجازت ہے

 امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:

’’میں مکہ مکرمہ میں اس قدر [شدید] بیمار ہوا، کہ موت کے قریب پہنچ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  میری عیادت کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا:

’’یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ لِيْ مَالًا کَثِیْرًا، وَلَیْسَ یَرِثُنِيْ إِلَّا ابْنَتِيْ، أَفَأَ تَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِيْ؟۔‘‘

[’’یارسول اللہ! ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بلاشبہ میرے پاس بہت مال ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کردوں؟‘‘]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’لَا۔‘‘

’’نہیں‘‘

انہوں نے کہا :

 ’’فَالشَّطْرُ؟۔‘‘

’’تو آدھا؟‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’لَا۔‘‘

’’نہیں‘‘

میں نے عرض کیا: ’’ا َلثُّلُثُ؟۔‘‘

’’ایک تہائی؟‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’اَلثُلُثُ کَبِیْرٌ، إِنَّکَ إِنْ تَرَکْتَ وَلَدَکَ أَغْنِیَائَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ

 تَتْرُکَہُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ… الحدیث

’’ایک تہائی(بھی) بہت ہے، بلاشبہ تم اپنی اولاد کو مال دار چھوڑو، یہ اس سے بہتر ہے، کہ انہیں تنگ دست چھوڑو، کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں…

بہنوں کے چور

چور چوری کرے تو پکڑ کر تھانے دے دیتے ہیں اور یہ سارے بھائی چور بیٹھے ہیں جنہوں نے مل کر بہن کا حق کھا لیا ہے

 کئی لوگ سود، چوری، جھوٹ و فریب سے بچتے ہیں اور دیندار ہونے کے دعوے دار ہیں لیکن میراث کے مسئلے میں بہنوں بیٹیوں کے حقوق کھا کر آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں

الغرض یہ ایسے عجیب چور ہیں کہ لوگوں کے مال تو ان کے شر سے محفوظ ہیں لیکن سگی بیٹی یا بہن کی چوری کیئے جا رہے ہیں

بہن نے حصہ مانگا تو بھائیوں نےٹانگیں توڑ ڈالیں

 جو بہن اپنا حقِ وراثت مانگتی ہے معاشرہ اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جیسے اس نے بہت بڑا جرم کر لیا ہے، اس کا بھائیوں کی طرف سے سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور بھائی بہن کے رشتے کو معطل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے ایک کمزور بہن اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اس کے بھائی اس کا سوشل بائیکاٹ کردیں

ضلع اوکاڑہ کا واقع ہے  ایک بہن نے اپنے بھائیوں سے باپ کی جائیداد سے حصہ مانگ لیا تو بھائیوں نے مل کر بہن کی ٹانگیں توڑ دیں وہ ان کی بڑی بہن تھی بھائی سارے اس سے چھوٹے  تھے وہ بچاری روتی تھی اور کہتی تھی جب یہ چھوٹے ہوتے تھے میں ان کو کھلاتی تھی میں ان کو دکان پر لے جاتی تھی جھولے میں لوری دے کر سلایا کرتی تھی ماں کے ساتھ مل کر پیار محبت کے ساتھ ہم نے ان کو پالا پوسا ہے اب یہ بڑے ہوگئے ہیں صرف حصہ مانگنے پر انہوں نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا کہ میری ٹانگیں توڑ ڈالی

کتنا بڑا ظلم ہے ہے اب دیکھیں اس بیچاری کا کیا قصور ہے کہ اس نے اپنا حصہ مانگ لیا ہے ❓

مولانا طارق جمیل صاحب کا واقعہ

مولانا طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں ہیں کہ میں اپنے استاد محترم کے پاس شہد کی بوتل تحفہ کے طور پر لے کر گیا میں نے کہا استاد جی یہ تحفہ مجھ سے قبول فرما لیں دس روپے کی بوتل اس وقت شہد کی مل جاتی تھی مجھے فرمانے لگے کہ آپ نے یہ شہد کہاں سے لیا ہے

 میں نے کہا کہ یہ میرے اپنے باغ کا شہد ہے

 فرمانے لگے کیا آپ کا جو باغ ہے وہ آپ کے باپ کو وراثت میں ملا ہے

 میں نے کہا جی

 فرمانے لگے کیا آپ کے باپ نے اپنی بہنوں کو حصہ دیا ہے

میں نے عرض کیا جی میرے باپ کی کوئی بہن ہی نہیں ہے

 پھر پوچھنے لگے کہ کیا آپ کے دادا نے اپنی بہنوں کو حصہ دیا تھا میں نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے تو بہت تحقیق کے بعد انہوں نے مجھ سے شہد قبول فرمایا

قرآن کے ساتھ شادی

بعض لوگ جائیداد باہر جانے کے خوف سے اپنی بیٹیوں کی شادی ہی نہیں کرتے یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی کی شادی قرآن سے کردی

یہ انتہائی شرم ناک ظالمانہ اور گستاخانہ فعل ھے یہ اللہ تعالی کے غضب کو اپنے ہاتھوں دعوت دینے والی بات ہے ایسا کرنے والوں کو فورا توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بچی کی شادی کرنی چاہیے یہ بیٹی پر کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایک تو اسے جائیداد سے محروم رکھا اور دوسرا اس بیچاری کو نکاح سے محروم رکھا

بیٹی کا ہی انکار کر دیا جاتا ہے

بعض ظالم قسم کے لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کہ وراثت بچانے کے لیے بیٹیوں کا سرے سے انکار ہی کر دیتے ہیں ہیں یا بہنوں کا انکار ہی کر دیتے ہیں کہ یہ ہماری بیٹیاں بہنیں نہیں ہیں ہمارے ساتھ ان کا بلکل کوئی تعلق نہیں ہے

بیٹی غیروں میں چلی جائے لیکن زمین نہ جائے

باپ اور بیٹے آپس میں مل کر مشورہ کرتے ہیں کہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم اپنی بہنوں کو مجبور کرو کہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں —

 ورنہ تمہارے باپ کی زمین غیروں میں چلی جائے گی“-

جبکہ یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی کو جائیداد سے حق دینے کا حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہے ٬ کیا اللہ تعالیٰ کو یہ علم نہ تھا کہ بیٹی کو حصہ دینے سے زمین غیروں میں چلی جائے گی؟“

 لوگ بیٹی کو زمین دیتے ہوئے سمجھتے کہ زمین غیروں میں چلی جائے گی مگر داماد کو بیٹی دیتے ہوئے کیوں نہیں سوچتے کہ بیٹی غیروں میں چلی جائے گی.

یہ عجیب بات ہے حالانکہ اگر سوچا جائے تو وہ غیر نہیں اپنے ہوتے ہیں ہیں وہ بیٹی آپ کی اپنی ہے اس کی اولاد نواسے نواسیاں بھانجے بھانجیاں  آپ کے اپنے ہیں اگر آپ ان کو حصہ دو گے تو آپ کی بہن کھائے گی آپ کے بھانجے کھائیں گے آپ کے نواسے نواسیاں کھائیں گے آپ کا داماد اور بہنوئی کھائے گا بھلا یہ غیر ہیں❓

اللہ کے بندو❗ بہن کو بھائیوں کی طرف سے کوئی چیز مل جائے تو پھولی نہیں سماتی لوگوں کو بتاتی ہے کہ یہ میرے بھائی نے مجھے دیا ہے لیکن اگر اس کو جائیداد میں سے پورا حصہ مل جائے تو سوچیں وہ اپنے سسرال میں کتنا فخر کرے گی

اگر آپ اپنی بہن کو ایک ہزار روپے کا سوٹ لے کر دیں اور اس کا خاوند اس کو 3000 کا سوٹ لے کر دے اگرچہ خاوند والا سوٹ زیادہ مہنگا اور زیادہ اچھا ہے لیکن وہ آپ کے سوٹ کو زیادہ ترجیح دے گی اور زیادہ خوشی محسوس کرے گی خاص خاص موقعوں پر آپ کا دیا ہوا سوٹ پہنے گی

کیا جہیز وراثت کا متبادل ہو سکتا ہے

بعض لوگ بیٹیوں کو جہیز دے کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے وراثت کا حق ادا کر دیا ہے اب وراثت میں سے صرف بیٹوں کو ہی حصہ ملے گا

کیا دنیا دار اور کیا دیندار سب کی یہی حالت ہے چند برتن جہیز میں دے کر اسے اس کے حصے کی جائیداد سے محروم کرنے کی روایت عام ہے۔

 اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو جہیز میں پوری دنیا کی دولت دے دے اس کے بعد اس بیٹی کا میراث میں ایک روپیہ بھی حق بنتا ہو تو وہ ایک روپیہ اس بیٹی کا حق ہے یہ اس کو دینا پڑے گا۔ اگر اس دنیا میں نہ دیا تو کل آخرت میں اپنی نیکیوں کو صورت میں دینا پڑے گا

جہیز اسلامی نہیں بلکہ ہندوانہ رسم ہے ہندوؤں کے طریقے پر چل کر یہ سمجھنا کہ اسلام کا ایک فریضہ ادا ہو گیا ہے یہ محض ایک دھوکہ ہے جس سے فریضہ ادا نہیں ہوتا بلکہ شیطان خوش ہوتا ہے

جہیز اکثر والدین اپنی زندگی میں اپنی بیٹیوں کو دیتے ہیں جبکہ وراثت فوت ہونے کے بعد شریعت کے مقرر کردہ حصے ہر وارث کو دینے کا نام ہے

بالفرض جہیز دیا بھی جائے تو زندگی میں تمام والدین پر لازم ہوتا ہے کہ اولاد میں برابر مال تقسیم  کریں لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ جہیز بھی تمام بیٹیوں کو ایک جیسا نہیں دیا جاتا اور بیٹوں کو تو بالکل وہ چیز نہیں دی جاتی جو جہیز میں بیٹیوں کو دی جاتی ہے

بہنوں کو وراثتی حصہ دینے کی بجائے عیدی، شبراتی، ہاڑی ،سونی جیسے تعاون کرنا

ہمارے معاشرے میں یہ بات عام پائی جاتی ہے کہ بہنوں کو یا بیٹیوں کو وراثت میں ان کا حصہ نہیں دیا جاتا البتہ عید شبرات یا ہاڑی سونی کے موقع پر یا پھر جب کبھی بہن، بھائیوں کی پاس آئے یا جب بھائی، بہن کے گھر جائیں یا پھر خاص خاص موقعوں پر ان کو سوٹ، کپڑے، جوتے لے کر دینا ان کے لیے موسمی سوغاتیں یا کوئی اور چیزیں لے کر جانا وراثت کا متبادل سمجھی جاتی ہیں

یہ ایسا قبیح رواج اور بری رسم ہے کہ اس کے ذریعے فریقین میں سے کسی ایک کو ضرور نقصان پہنچتا ہے

اگر تو بہن کا وراثت میں حصہ بہت زیادہ بن رہا تھا، مثال کے طور پر اگر شرعی تقسیم کرتے تو ایک بہن کو باپ کی وراثت سے پانچ ایکڑ زمین ملنا تھی جس کی سالانہ آمدنی تقریبا پانچ لاکھ بنتی ہے ہے اب بہن کو ہر سال پانچ لاکھ سے محروم کرکے عید شبرات کے موقع پر پانچ سات ہزار روپے کے تحائف دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے جوکہ بہن پر ظلم ہے

اور اگر باپ کا چھوڑا ہوا ورثہ انتہائی کم ہے کہ اگر بہن کو حصہ دیا جائے تو وہ بمشکل دس پندرہ ہزار روپے بنتے ہیں لیکن وہ تقسیم نہ کریں اور بھائی کو دے دیں پھر بھی بھائی معاشرتی رسم و رواج کے تحت پابند ہے کہ بہن کو عید شبرات اور دیگر مواقع پر تحائف ضرور دے گا اب بھائی بیچارہ بہن کا ہلکا سا حصہ رکھ کر پابند ہے کہ ہر سال ان موقعوں پر اس کو کچھ نہ کچھ تحائف ضرور دے گا اور یوں اس بھائی کے اوپر مستقل ظلم ہوتا ہے

خواتین اپنی روش تبدیل کریں

 اکثر پڑھی لکھی مسلمان عورتیں بھی محض معاشرے کے دباؤ میں آکر بھائیوں کو اپنا حق وراثت معاف کردیتی ہیں لیکن یہ معافی دل سے نہیں ہوتی

 عورتوں کو حق وراثت کی زبردستی معافی کے اس رواج کو اپنے پاؤں تلے روند کر قرآن کا شرعی حق بحال کروانا ہوگا

خواتین یاد رکھیں یہ اپنے بھائیوں کے ساتھ خیرخواہی نہیں ہے اگر تم بھائیوں کو اپنا حصہ چھوڑ دیتی ہو اور دل سے رضامندی نہیں ہے تو یہ گویا بھائیوں کے لئے جہنم کی آگ کا ٹکڑا چھوڑ رہی ہو

استاذ گرامی حفظہ اللہ کا بیان کردہ ایک واقعہ

 اسکی صرف ایک صورت ہے وہ یہ کہ میراث کے مال کو اور جائیداد کو شرعی طریقہ سے تقسیم کر دیا جائے اور جائیداد ورثاء کے نام کر کے ان کے حوالے کر دی جائے اس کے بعد اگر کوئی وارث اپنی مرضی سے اپنا حق کسی کو ہبہ کرنا چاہے یا واپس کرنا چاہے تو جائز ہے

میں نے اپنے استاد گرامی حضرت حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالی سے سنا انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے کا ایک واقعہ بیان کیا :

 ایک شخص نے اپنی بہنوں کو کہا کہ باپ کی وراثت میں سے تمہارا جو حصہ بنتا ہے وہ تم لے لو بہنیں کہنے لگیں کہ ہم نے حصہ نہیں لینا اس نے کہا دیکھیں یہ تقسیم اللہ تعالی کا حکم ہے لھذا آپ اپنا حصہ لے لیں

بہرحال اس نے بہنوں کو ان کا حصہ دے دیا پھر کچھ عرصے کے بعد بہنوں سے کہنے لگا کہ آپ اپنی زمین مجھے دے دیں اور جتنا ٹھیکہ بنتا ہے وہ میں تمہیں دیتا رہوں گا اور میں اس میں کاشتکاری کرتا ہوں تو وہی بہنیں جو پہلے حصہ لینے کے لیے تیار نہیں تھیں اب صورتحال یہ ہے کہ بھائی کو ٹھیکے پر بھی زمین نہیں دے رہیں اور کہتی ہیں کہ ہمیں خود ضرورت ہے

معلوم ہوا کہ بھائیوں کی طرح بہنوں کو بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ بےچاریاں مجبورا اپنا حصہ نہیں لیتیں

شرعی تقسیم پر عمل کرنے والوں کا انعام

وراثت کے حصے مقرر کرنے کے بعد للہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [النساء : 13]

یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے وہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے وراثت کو حدود اللہ قرار دیا اور اس حکم کی اطاعت پر جنت اور فوز عظیم کا وعدہ فرمایا ہے اور نافرمانی اور حدود اللہ کی پامالی کی صورت میں ہمیشہ کی آگ اور عذاب مہین کی سزا سنائی ہے۔ افسوس کہ بڑے بڑے بظاہر متقی لوگ بھی بہنوں کو ان کا حصہ نہیں دیتے، اکثر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جائداد بیٹوں کو دے دیں اور بیٹیوں کو محروم کر دیں۔ اسی طرح اگر کوئی وارث کمزور ہو تو اسے بھی وراثت سے حصہ نہیں دیتے، ان سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اور اس کے رسوا کن عذاب اور ہمیشہ کی آگ سے ڈرنا چاہیے۔

اگر بیٹیوں اور بہنوں کو حق وراثت دے گا تو جنت میں جائے گا

 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِكُ لَهُ ابْنَتَانِ فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا مَا صَحِبَتَاهُ أَوْ صَحِبَهُمَا إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ

(ابن ماجة، كِتَابُ الْأَدَبِ، بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ،حسن، 3670)

 جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے ، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔

فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا میں یہ بھی آ جاتا ہے کہ جو ان کا حق بنتا ہے وہ انہیں ادا کرے کیونکہ اگر انہیں انکا مقررہ حق ہی نہیں دے گا تو پھر احسان کیسا