وعدۂ رحمٰن
ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ[آل عمران: 9]
ذی وقار سامعین!
دینِ اسلام میں وعدہ کی پاسداری کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے کئی مقامات پر اہل ایمان کو خود(اللہ تعالیٰ)سے اور عام لوگوں سے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا ہےاور وعدہ پورا کرنے والوں کی تحسین فرمائی ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا
”اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔“ [بنی اسرائیل: 34]
ارشاد ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو۔“ [المائدہ: 1]
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
”اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔“ [المؤمنون: 8]
نیکی کے کاموں کی تفصیل بتاتے ہوئےاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا
”اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں۔“ [البقرہ: 177]
اللہ تعالیٰ نےاولوالالباب(اہلِ دانش) لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ
”جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور پختہ عہد کو نہیں توڑتے۔“ [الرعد: 20]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
”اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمھیں دیا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ [الانعام: 152]
ارشاد ربانی ہے:
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
”اور اللہ کا عہد پورا کرو جب آپس میں عہد کرو اور قسموں کو ان کے پختہ کرنے کے بعد مت توڑو، حالانکہ یقیناً تم نے اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنایا ہے۔ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔“ [النحل: 91]
اسی طرح آقا نے احادیث مبارکہ میں وعدہ پورا کرنے کی ترغیب دلائی ہے:
حضرت عبادۃ سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
اضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمْ الْجَنَّةَ: اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُمْ، وَأَدُّوا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ .
”مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو،میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں،جب تم بات کرو تو سچ بولو،جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو،جب امین بنایا جائے تو اسے ادا کرو،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو،آنکھیں نیچی رکھو اور ہاتھوں کو روکے رکھو،کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔“ [مسند احمد: 22757 حسن لغیرہ]
سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
”منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔“ [صحیح بخاری: 33]
ان آیات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ وعدہ کی پاسداری کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، اس لئے ہم آج کے خطبہ جمعہ میں یہ بات سمجھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن اور فرمانبردار بندوں سے جو وعدہ کرتے ہیں اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، بلکہ اسے پورا کرتے ہیں ، اس کے بعد یہ سمجھیں گے کہ وہ کون سے خوش نصیب ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے وعدے کئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے
وعدہ پورا کرنا اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
”بے شک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔“ [آل عمران: 9]
ارشادِ ربانی ہے:
وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
”اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ [الروم: 6]
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ
”اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟“ [التوبہ: 111]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ
”اے ہمارے رب! اور ہمیں عطا فرما جس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، بے شک تو وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔“
[آل عمران: 194]
فرعون نے خواب دیکھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو اس کی بادشاہت کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ اس خواب کی وجہ سے اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہر نومولود لڑکے کو قتل کردیا جائے۔ حضرت موسیٰ اسی سال پیدا ہوئے جب لڑکوں کے قتل کا حکم جاری تھا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ان کو ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں بہا دیں اور تسلی دی کہ وہ محفوظ رہیں گے اور دوبارہ ماں سے ملیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا موسیٰ کی والدہ سے وعدہ تھا ، یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے پورا کیسے کیا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِيْهِ١ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَ لَا تَخَافِيْ وَ لَا تَحْزَنِيْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۰۰۷فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا١ؕ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـِٕيْنَ۰۰۸وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّيْ وَ لَكَ١ؕ لَا تَقْتُلُوْهُ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ يَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۰۰۹وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا١ؕ اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۰وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ١ٞ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَۙ۰۰۱۱وَ حَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ۰۰۱۲فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَؒ۰۰۱۳
”اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تو اس پر ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔ تو فرعون کے گھر والوں نے اسے اٹھا لیا، تاکہ آخر ان کے لیے دشمن ہو اور غم کا باعث ہو۔ بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔ اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ میرے لیے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، امید ہے کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچائے، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ سمجھتے نہ تھے۔ اور موسیٰ کی ماں کا دل خالی ہوگیا۔ یقیناً وہ قریب تھی کہ اسے ظاہر کر ہی دیتی، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ہم نے اس کے دل پر بند باندھ دیا تھا، تاکہ وہ ایمان والوں میں سے ہو۔ اور اس نے اس کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا۔ پس وہ اسے ایک طرف سے دیکھتی رہی اور وہ شعور نہیں رکھتے تھے۔ اور ہم نے اس پر پہلے سے تمام دودھ حرام کردیے تو اس نے کہا کیا میں تمھیں ایک گھر والے بتلاؤں جو تمھارے لیے اس کی پرورش کریں اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں۔تو ہم نے اسے اس کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے اور تاکہ وہ جان لے کہ یقیناً اللہ کا وعدہ سچ ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔“ [القصص: 13-7]
الله تعالی کے مومنوں سے سچے وعدے
حضرت موسیٰ کی والدہ سے وعدہ وفا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَؒ
”یقیناً اللہ کا وعدہ سچ ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔“ [القصص: 13]
یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں ، اب ہم ان چند لوگوں کا تذکرہ کریں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے وعدے کئے ہیں:
ایمان والوں سے اللہ کا وعدہ:
اللہ کا اہل ایمان سے وعدہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اور نیک اعمال کرو ، اس کے بدلے میں دنیا میں تمہیں غلبہ ملے گا ، حکومت ملے گی اور آخرت میں تمہیں جنت ملے گی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۳۹
”اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔“ [آل عمران: 139]
دوسری جگہ فرمایا:
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۰۰۵۵
”اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا، جس طرح ان لوگوں کو جانشین بنایا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور ہی اقتدار دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ہر صورت انھیں ان کے خوف کے بعد بدل کرامن دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔“ [النور: 64]
یہ وعدہ دنیا میں ہے ، آخرت میں جنت کا وعدہ ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ١ؕ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُؒ۰۰۷۲
”اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے، اور پاکیزہ رہنے کی جگہوں کا جو ہمیشگی کے باغوں میں ہوں گی اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی سب سے بڑی ہے، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔“ [التوبہ: 72]
دوسری جگہ فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِيْمِۙ۰۰۸ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ؕ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۰۰۹
”بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے ان کے لیے نعمت کے باغات ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہنے والے۔ اللہ کا وعدہ ہے سچا اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“[لقمان: 9-8]
تیسری جگہ فرمایا:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ٞ وَّنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيْلًا۰۰۵۷
”اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔“ [النساء: 57]
سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ
”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں ، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے ۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں“۔ [صحیح بخاری: 3244]
ذکر کرنے والوں سے الله کا وعدہ:
اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے وعدہ ہے کہ تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد کروں گا ، تم میرا ذکر کرو ، میں تمہارا ذکر کروں گا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِؒ۰۰۱۵۲
”سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔“[البقرہ: 52]
یعنی ہر وقت تم مجھے یاد کرو ، تسبیح ، تہلیل اور تحمید کرکے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ نبی مکرمﷺنے فرمایا:
يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں۔“ [صحیح بخاری: 7405]
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًاۙ۰۰۴۱
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا۔“ [الاحزاب: 41]
دوسری جگہ فرمایا:
فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِكُمْ
”تو تم اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے ہوئے یاد کرو۔“ [النساء: 103]
تیسری جگہ فرمایا:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ
وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۰۰۲۰۵
”اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی سے اور خوف سے اور بلند آواز کے بغیر الفاظ سے صبح و شام یاد کر اور غافلوں سے نہ ہو۔“ [الاعراف: 205]
سیدنا أبو موسیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لاَ يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ وَالمَيِّتِ
”اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یا د کر تا ہے اور اس کی مثال جواپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔“ [صحیح بخاری: 6407]
شکر کرنے والوں سے الله کا وعدہ:
اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے والوں سے وعدہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۰۰۷
”اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کردیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقیناً بہت سخت ہے۔“ [ابراہیم: 7]
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے شکر کرنے کا حکم دیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ٰیۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۰۰۱۷۲
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں اور اللہ کا شکر کرو، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔“ [البقرہ: 172]
دوسری جگہ ارشاد ہوا:
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۰۰۱۱۴
”سو کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں حلال، پاکیزہ رزق دیا ہے اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔“ [النحل: 114]
سیدنا صہیب کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ
”مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ(ابھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔“[صحیح مسلم: 7500]
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جس قوم نے ناشکری کی ، اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ برباد کرکے رکھ دیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ١ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ١ؕ۬ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ١ؕ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ۰۰۱۵فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَ بَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّ اَثْلٍ وَّ شَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ۰۰۱۶ذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْا١ؕ وَ هَلْ نُجٰزِيْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ۰۰۱۷وَ جَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّ قَدَّرْنَا فِيْهَا السَّيْرَ١ؕ سِيْرُوْا فِيْهَا لَيَالِيَ وَ اَيَّامًا اٰمِنِيْنَ۰۰۱۸فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا وَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ وَ مَزَّقْنٰهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۰۰۱۹
’’قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں خدا کی قدرت کی نشانیاں تھیں ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھا کر اس کا شکر ادا کرو۔ عمدہ شہر اور بخشنے والا رب۔ لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر تیز بہاؤ کے پانی کا نالا بھیج دیا اور ہم نے ان کے ان ہرے بھرے باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیئے جو بد مزہ میووں والے اور بکثرت جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے یہ ہم نے انہیں ان کی ناشکری کے بدلے میں دیا۔ ہم ایسی سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں کو ہی دیتے ہیں۔ ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی چند بستیاں اور رہی تھی جو برسر راہ ظاہر تھیں اور ان میں چلنے کی منزلیں ہم نے مقرر کردی تھیں۔ ان میں راتوں اور دنوں کو باامن و امان چلتے پھرتے رہو۔ لیکن انہوں نے پھر درخواست کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کے کر دے چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا۔ اس لئے ہم نے انہیں گزشتہ فسانوں کی صورت میں کر دیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دئیے۔ ہر ایک صبر و شکر کرنے والے کے لئے اس ماجرے میں بہت سی عبرتیں ہیں۔‘‘ [السبا: 19-15]
دعا کرنے والوں سے اللہ کا وعدہ:
اللہ تعالیٰ کا دعا کرنے والوں سے وعدہ ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو ، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَؒ۰۰۶۰
”اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“ [المؤمن: 60]
دوسرے مقام پہ مالکِ کائنات فرماتے ہیں:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
”اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔“ [البقرہ: 186]
سیدنا سلمان فارسی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا
” بلاشبہ تمہارا رب بہت حیا والا اور سخی ہے ۔ بندہ جب اس کی طرف اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ انہیں خالی لوٹا دے ۔ “ [ابوداؤد: 1488 صححہ الالبانی]
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَمْ يَسْأَلْهُ يَغْضَبْ عَلَيْهِ
”جو اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا، الله تعالیٰ اس پر غصے ہوتا ہے۔“ [الادب المفرد: 658 حسنہ الالبانی]
غار میں پھنس جانے والے تین آدمیوں کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کی۔ [تفصیل کے لیے دیکھیں صحیح بخاری: 2215]
سیدہ سارہ کی دعا اللہ نے قبول کی۔ [تفصیل کے لیے دیکھیں صحیح بخاری: 2217]
ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں ، یہ بہت نزدیک راستہ ہے ۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کر کے کپڑے ٹھیک کر کے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑ لیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہو گیا اور مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کر لینے دو۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور وہ جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آ گئی؛
اَمَّنْ یٰجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السٰوْۗءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ
” اللہ ہی ہے جو بیقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے ۔“(النمل:62)
پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آ رہا ہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آرپار ہو گیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور اصرار کے ساتھ کہنے لگا اللہ کے لیے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں، بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔
(تاریخ دمشق:489/19)(تفسیر ابن کثیر: آیت نمبر 62 کے تحت)
سچی توبہ کرنے والوں سے الله کا وعدہ:
اللہ تعالیٰ کا سچی توبہ کرنے والوں سے وعدہ ہےکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا جائے گا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۷۰وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا۰۰۷۱
”مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
اور جو توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو یقیناً وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، سچا رجوع کرنا۔“[الفرقان: 71-70]
دوسری جگہ اللہ فرماتے ہیں:
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰٓىِٕكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا۰۰۱۷
”توبہ (جس کا قبول کرنا) اللہ کے ذمے (ہے) صرف ان لوگوں کی ہے جو جہالت سے برائی کرتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ پھر مہربان ہوجاتا ہے اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔“ [النساء: 17] اس آیت کریمہ یہ پتہ چلتا ہے کہ توبہ ان کی قبول ہوتی ہے جو قریب یعنی جلدی توبہ کر لیتے ہیں اور جو گناہ پہ گناہ کئے جاتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے ، پھر ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی ، مالکِ کائنات فرماتے ہیں:
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُلِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ١ۚحَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّيْ تُبْتُ الْـٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَهُمْ كُفَّارٌ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا۰۰۱۸
” اور توبہ ان لوگوں کی نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجاتی ہے تو وہ کہتا ہے بے شک میں نے اب توبہ کرلی اور نہ ان کی ہے جو اس حال میں مرتے ہیں کہ وہ کافر ہوتے ہیں، یہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔“ [النساء: 18]
جیسے فرعون نے ساری زندگی توبہ نہیں کی تو آخری وقت بھی توبہ قبول نہیں ہوئی نہیں۔جب فرعون ڈبکیاں لینے لگا تو اس نے موت و حیات کی کشمکش کے دوران دہائی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتے ہوئے مسلمان ہوتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا بھی اقرار کیا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ کیا اب ایمان لاتا ہے؟ اس سے پہلے تو بار بار انکار کرچکا اور انتہا درجے کا فسادی تھا۔
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُهٗ بَغْيًا وَّ عَدْوًا١ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ١ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۰۰۹۰
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے پا لیا تو اس نے کہا میں ایمان لے آیا کہ بے شک حق یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرماں برداروں سے ہوں۔ کیا اب؟ حالانکہ بے شک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔“ [یونس: 91-90]
اور جس بندے سے گناہ ہو جاتا ہے تو اس کو فکر ہوتی ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گیا ہے اور وہ جلدی توبہ کرتا ہے تو چاہے 100 بندوں کا قاتل ہو تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔[تفصیل کے لیے دیکھیں صحیح بخاری: 3470]
سیدنا انس کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ
”سارے انسان خطا کارہیں اور خطاکاروں میں سب سے بہتروہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔“[ترمذی: 2499حسنہ الالبانی]
سیدنا بریدہ کہتے ہیں:
ماعز بن مالک (اسلمی) نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔“ وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر واپس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا:”تم پر افسوس! جاؤ، اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔“وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے، پھر آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے پاک کیجیے۔ تو نبی ﷺ نے (پھر) اسی طرح فرمایا حتی کہ جب چوتھی بارر (یہی بات) ہوئی، رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟“انہوں نے کہا: زنا سے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ”کیا اسے جنون ہے؟“ تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ مجنون نہیں ہے۔ تو آپ ﷺنے پوچھا: ”کیا اس نے شراب پی ہے؟“اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کا منہ سونگھا تو اسے اس سے شراب کی بو نہ آئی۔ کہا: تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تم نے زنا کیا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں (یہیں آپ نے اس سے اس واقعے کی تصدیق چاہی جو آپ تک پہنچا تھا) پھر آپ نے ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم دیا، چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے حوالے سے لوگوں کے دو گروہ بن گئے، کچھ کہنے والے یہ کہتے: وہ تباہ و برباد ہو گیا، اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا۔ اور کچھ کہنے والے یہ کہتے: ماعز کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں (ہو سکتی) کہ وہ (خود) نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، پھر کہا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے۔ کہا: دو یا تین دن وہ (اختلاف کی) اسی کیفیت میں رہے، پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، وہ سب بیٹحے ہوئے تھے، آپ نے سلام کہا، پھر بیٹھ گئے اور فرمایا:
اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ
”ماعز بن مالک کے لیے بخشش مانگو۔“
تو لوگوں نے کہا: اللہ ماعز بن مالک کو معاف فرمائے! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ
”بلاشبہ انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک امت میں بانٹ دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے۔“ [صحیح مسلم: 4431]
صدقہ کرنے والوں سے الله کا وعدہ:
اللہ تعالیٰ کا صدقہ کرنے والوں سے وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بڑھا چڑھا کر واپس کرے گا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۰۰۲۶۱
”ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، ایک دانے کی مثال کی طرح ہے جس نے سات خوشے اگائے، ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ [البقرہ: 261]
دوسری جگہ فرمایا:
مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً١ؕ وَاللّٰهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ١۪ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ۰۰۲۴۵
”کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، پس وہ اسے اس کے لیے بہت زیادہ گنا بڑھا دے اور اللہ بند کرتا اور کھولتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ [البقرہ: 245]
فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالسلام بھٹویاس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
”قرض حسن سے مراد یہ ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرے اور اس میں ریاکاری یا کسی کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے کی نیت نہ ہو۔ اللہ کا کرم دیکھیے کہ خود ہی سب کچھ عطا کرکے بندوں سے مانگ رہا ہے اور اسے اپنے ذمے قرض قرار دے رہا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ
”جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں اضافہ کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلاکر بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ [صحیح بخاری: 1410]
سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ
”صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔“ [صحیح مسلم: 6592]
سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کا کھجور کا ایک درخت ہے، میں اس درخت کا ضرورت مند ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے باغ کی دیوار کو سیدھا کر سکوں، آپ اسے حکم دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دے اور میں اپنے باغ کی دیوار کو مضبوط کر لوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: تم یہ درخت اسے دے دو، اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک درخت لے دوں گا۔ اس نے اس بات سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو دحداح نے آکر اس آدمی سے کہا کہ میرے پورے باغ کے عوض تم یہ ایک کھجور مجھے فروخت کر دو، اس نے ایسے ہی کیا، پھر سیدنا ابو دحداح رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ ایک کھجور اپنے پورے باغ کے عوض خریدلی ہے، آپ یہ کھجور اس ضرورت مند کو دے دیں، میں کھجور کا یہ درخت آپ کے حوالے کر چکا ہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَاحَ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّة
”جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کے لیے لٹک رہے ہیں۔ “
آپ ﷺ نے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائی، ابو دحداح نے اپنی بیوی کے پاس آکر اس سے کہا:؛
یَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! اخْرُجِی مِنَ الْحَائِطِ فَإِنِّی قَدْ بِعْتُهُ بِنَخْلَة فِی الْجَنَّة فَقَالَتْ: رَبِحَ الْبَیْعُ أَوْ كَلِمَة تُشْبِهُهَا
اے ام وحداح! باغ سے باہر نکل آؤ، میں نے یہ باغ جنت کی ایک کھجور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے تو بڑے فائدے والا سودا کیا۔
[مسند احمد: 11903صححہ الالبانی]
❄❄❄❄❄