ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون

(وقت کی قدر کریں)

===≠======

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ [الأنبياء : 1]

لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا اور وہ بڑی غفلت میں منہ موڑنے والے ہیں۔

مشاہدات

آج ہمارے ارد گرد اچانک موت کی بیسیوں مثالیں اور مشاہدات موجود ہیں جوکہ ہمیں نصیحت کیلئے کافی ہیں

چند دن قبل جامع مسجد القادسية میں انتہائی شفیق اور نیک بھائی محترم ابو انس طالب الرحمن بھائی کی وفات کا واقعہ پیش آیا رات دوستوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سوئے تو صبح دوستوں نے دیکھا وہ تو موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں

(اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ)

دو سال قبل گوجرانوالہ کے ایک شہر کامونکی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص مسجد میں بیٹھا وضوء کررہا تھا دوران وضوء طبیعت کچھ بے چین ہوئی تو ٹوٹی پر سر رکھ دیا ادھر ہی موت آگئ

دوران سفر مجھے ایک شخص نے انتہائی عجیب واقعہ سنایا کہ اس کا ایک عزیز مالٹے کھا رہا تھا اسی دوران مالٹے کا پانی اس کی ناک میں چڑھ گیا صرف اتنی بات پر اس کی موت واقع ہو گئی

پانی کا بلبلا

انسان تو پانی کا ایک بلبلا ہے جوکہ کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے

ابھی گیا تو ابھی مٹا

اس بلبلے کو کوئی ہلکی سی آہٹ بھی بجھا سکتی ہے

اسے بجھانے کے لیے ہوا کا جھونکا ہی کافی ہے

چھوٹی سی کنکر سے ختم ہو سکتا

چیونٹی کا کاٹنا اور سوئی کی نوک بھی اس کا کام تمام کر سکتی ہے

خوش فہمی

مگر انسان ہے کہ اپنی ہی خوش فہمی میں رہتا ہے بیس تیس سال کا عرصہ گزارنے کے بعد بھی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ ابھی تو موت بہت دور ہے کم از کم بیس پچیس سال تو مزید زندہ ہی رہوں گا

لیکن اسے نہیں معلوم کہ یہ محض ایک خوش فہمی ہے جو دل بہلانے کے لیے کافی ہے

نوجوان قبریں

اگر کبھی قبرستان میں جانا ہو تو بہت سی قبریں ایسی بھی ملیں گی جن میں مدفون لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ ابھی تو ہم جوان ہیں ابھی تو لمبا عرصہ زندہ رہیں گے لیکن انہیں اچانک موت نے دبوچ لیا پھر جب آنکھ کھلی تو اندھیری قبر میں ہی کھلی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ : الصِّحَّةُ ، وَالْفَرَاغُ [بخاری 6412]

” دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کے متعلق دھوکے میں ہیں، صحت اور فراغت۔“

وہ دھوکہ یہی خوش فہمی ہے کہ ابھی تو بہت وقت باقی ہے

برف کا بلاک

جیسے دھوپ میں پڑا برف کا ایک بلاک ہو جو مسلسل پگھلا جا رہا ہے اگرچہ اس سے کوئی فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے ایک وقت پر اسے ختم ہو جانا ہے

یہی قانون ہماری زندگی کا ہے

ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں بہرحال ایک مقرر وقت پر اسے ختم ہوجانا ہے اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمیں اس مقرر وقت کا بھی علم نہیں ہے

ہمارا فریضہ

اب چونکہ موت کا علم ہی نہیں کب آ جائے، اس لیے موت آنے تک ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا لازم ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [آل عمران : 102]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

ٹرین کی مثال

ریلوے اسٹیشن پر مسافر جس طرح پوری تن دھی کے ساتھ پیلٹ فارم پر بیٹھے گاڑی کا انتظار کررہے ہوتے ہیں اور اس دوران وہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اسٹیشن سے جدا نہیں ہوتے حتی کہ اپنے بیگ سے کپڑا نکال کر نیچے نہیں بچھاتے کہ مبادا اچانک ٹرین آگئی تو کپڑا اکٹھا کرتے ہوئے لیٹ ہو جائیں گے

بعینہ ہمیں موت کی تیاری رکھنی چاہیے اور ہروقت اللہ کی فرمانبرداری میں رہنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو اچانک موت آجائے اور ہم فرمانبرداری کے کیفیت سے دور ہوں

موت کے بعد انسان اللہ تعالیٰ سے وقت کا مطالبہ کرے گا مگر افسوس کہ اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ [المنافقون : 10]

اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمھیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے، پھر وہ کہے اے میرے رب! تونے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا۔

وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [المنافقون : 11]

اور اللہ کسی جان کو ہرگز مہلت نہیں دے گا جب اس کا وقت آگیا اور اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔

قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ [السجدة : 11]

کہہ دے تمھیں موت کا فرشتہ قبض کرے گا، جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ [السجدة : 12]

اور کاش! تو دیکھے جب مجرم لوگ اپنے رب کے پاس اپنے سر جھکائے ہوں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، پس ہمیں واپس بھیج، کہ ہم نیک عمل کریں، بے شک ہم یقین کرنے والے ہیں۔

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99]

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! مجھے واپس بھیجو۔

لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100]

تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔

علاء بن زیاد فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس مرنے والے کی جگہ رکھ کر سوچے کہ گویا اس کی موت آ پہنچی تھی اور اس نے رب تعالیٰ سے مہلت مانگی تو اسے مل گئی، سو وہ اس مہلت میں جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کی بندگی کر لے۔

تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

مرنے کے بعد وقت مانگنے کی بجائے مرنے سے پہلے نیکیوں میں سبقت کریں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [البقرة : 148]

اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے، جس کی طرف وہ منہ پھیرنے والا ہے، سو نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، تم جہاں کہیں ہو گے اللہ تمھیں اکٹھا کر کے لے آئے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

نیکیوں میں پہل کرنے والے ہی آگے بڑھنے والے ہیں

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ [الواقعة : 10]

اور جو پہل کرنے والے ہیں، وہی آگے بڑھنے والے ہیں۔

أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ [الواقعة : 11]

یہی لوگ قریب کیے ہوئے ہیں۔

فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ [الواقعة : 12]

نعمت کے باغوں میں۔

کھجور کھانے والے صحابی کی داستان

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ شرف اور فضیلت میں امت کے تمام افراد سے بڑھ کر ہیں، کیونکہ ایمان لانے میں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور لڑنے میں وہ تمام صحابہ سے پہلے ہیں، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی زندگی میں نماز کے لیے آگے کیا اور اسی بنا پر مسلمانوں نے انھیں خلافت کے منصب کے لیے مقدم رکھا

پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو!

عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:

«اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَتَكَ قَبْلَ سُقمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ» [رواه الحاكم وصححه الألباني في صحيح الجامع الصغير (رقم 1077]

”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔”

انسان کو سب سے زیادہ محبوب اپنی جوانی ہوتی ہے۔ بوڑھا تو شیر بھی شکار کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ کی راہ میں آنا ہے تو ابھی سے خود کو بدلیں۔ بڑھاپے میں مصلے اور تسبیحیاں اٹھانے کا اگر پلان ہے تو کیا خبر بڑھاپا ہی نصیب نہ ہو؟

غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ

منشور لشخص تركي يلخص الحياة ومتاعها الزائل قبل أيام طردني مالك البيت لأنه كان يطلب زيادة كبيرة على الإيجار ، بعد ايام من طردي حدث الزلزال ، الان أنا والمالك الذي طردني نتدفأ على نفس النار في الخيمة.

دنیا زائلة هي ومن عليها

صبح ہو تو شام اور شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کیا جائے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

"إِذَا أَمْسَيْتَ فَلا تَنْتَظِرِ الصَّباحَ، وإِذَا أَصْبَحْتَ فَلا تَنْتَظِرِ المَساءَ، وخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لمَرَضِكَ، ومِنْ حياتِك لِمَوتِكَ” [رواه البخاري]

جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار مت کر

اور جب صبح کرے تو شام کا انتظار مت کر

اور اپنی صحت سے اپنی بیماری اور اپنی زندگی سے اپنی موت کے لیے تیاری کر

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا، طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا أَوِ الدُّخَانَ أَوِ الدَّجَّالَ أَوِ الدَّابَّةَ أَوْ خَاصَّةَ أَحَدِكُمْ أَوْ أَمْرَ الْعَامَّةِ ] [ مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال : ۲۹۴۷ ]

’’چھ چیزیں ظاہر ہونے سے پہلے اعمال میں جلدی کر لو، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا دھواں یا دجال یا دابہ یا تم میں سے کسی پر انفرادی عذاب یا سب پر اجتماعی عذاب۔‘‘

قیامت قائم ہونے سے پہلے پہلے اگر ایک درخت لگانے کا بھی موقع مل جائے تو وہ موقع ضائع نہ کیا جائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِنْ قَامَتْ السَّاعَةُ وَبِيَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَفْعَلْ [مسند احمد 12569]

اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو (جسے وہ گھاڑنا چاہتا ہے) تو اگر وہ اسے گھاڑ سکتا ہے تو ضرور گھاڑے

ساٹھ سال کے بعد تو بالکل ہی کوئی عذر، بہانہ باقی نہیں رہتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ أَعْذَرَ اللّٰهُ إِلَی امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَهُ حَتّٰی بَلَّغَهُ سِتِّيْنَ سَنَةً ] [بخاري، الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ…: ۶۴۱۹ ]

’’اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا عذر ختم کر دیا جس کی موت میں اتنی دیر کی کہ وہ ساٹھ برس ہی کو پہنچ گیا۔‘‘

مگر اس حدیث سے مراد یہ نہیں کہ اس سے کم عمر والے کو یہ بات نہیں کہی جائے گی، بلکہ مراد یہ ہے کہ سب سے زیادہ ڈانٹ اس عمر کے لوگوں کو پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ہر اس شخص کو کہی جائے گی جو بلوغت کی عمر کو پہنچا، اللہ تعالیٰ نے اسے اچھے برے کی تمیز عطا فرمائی، اگر وہ چاہتا تو ایمان لا سکتا تھا، مگر وہ جان بوجھ کر کفر پر اڑا رہا۔ کیونکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ساٹھ سال سے کم عمر والے کفار کو اس عذر کی وجہ سے جہنم سے چھٹکارا نہیں ملے گا کہ انھیں ساٹھ برس کی عمر نہیں ملی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کتنے ہی کافر جہنم واصل ہوئے، جن کی عمریں ساٹھ سال سے کم تھیں

(تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

اللہ تعالیٰ کا عذاب آنے سے پہلے پہلے اللہ کی طرف رجوع کیا جائے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ [الزمر : 54]

اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ اور اس کے مطیع ہو جاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے، پھر تمھاری مدد نہیں کی جائے گی۔

ایک دوسرے مقام پر فرمایا

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ [الزمر : 55]

اور اس سب سے اچھی بات کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی جانب سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے، اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم سوچتے بھی نہ ہو۔

اچانک عذاب سے اس لیے ڈرایا کہ اس میں نہ سنبھلنے کی مہلت ملے گی نہ توبہ کی، اس لیے جلد از جلد اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی اختیار کر لو، اس سے پہلے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت تم پر اچانک آ جائے، جب کہ تم سوچتے بھی نہ ہو، کیونکہ عذاب آنے کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہ ہو گی

قیامت کے دن پوچھے جانے والے اہم سوال

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

” لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ ".

1. اپنی عمر کہاں گزاری؟

2. جسم کن کاموں میں خرچ کیا ؟

3. مال کہاں سے کمایا؟

4. اور کہاں پر خرچ کیا؟

5. اپنے علم پر کیا عمل کیا؟

آنے والے کل یعنی روز قیامت کی تیاری کریں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [الحشر : 18]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ اس سے پور ی طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ [الحشر : 19]

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اس نے انھیں ان کی جانیں بھلوا دیں، یہی لوگ نافرمان ہیں۔

قیامت بہت قریب آ چکی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ [الأنبياء : 1]

لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا اور وہ بڑی غفلت میں منہ موڑنے والے ہیں۔

مزید فرماتے ہیں

اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا  [ المعارج : ۶، ۷ ]

وَ نَرٰهُ قَرِيْبًا

’’بے شک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔‘‘

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

[بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ ] [ مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ : ۲۹۵۰۔ بخاري، : ۶۵۰۳ ]

’’ مجھے اور قیامت کو ان دو (انگلیوں) کی طرح بھیجا گیا ہے۔‘‘

معاملہ تو اس سے بھی زیادہ تیزی پر ہے!!

حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کا بیان ہے کہ میں اور میری والدہ اپنے احاطے کی دیوار لیپ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے۔آپ نے پوچھا :’’عبد اللہ کیا ہو رہا ہو؟‘‘میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!اس کی کچھ مرمت کر رہا ہوں۔آپ نے فرمایا: ’’ معاملہ تو اس سے بھی زیادہ تیزی پر ہے "

(یعنی موت اس سے بھی قریب آتی جا رہی ہے، اعمال میں جو کمیاں ہیں ان کی اصلاح و درستگی کی بھی فکر کرو)۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُطَيِّنُ حَائِطًا لِي أَنَا وَأُمِّي فَقَالَ مَا هَذَا يَا عَبْدَ اللَّهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ شَيْءٌ أُصْلِحُهُ فَقَالَ الْأَمْرُ أَسْرَعُ مِنْ ذَلِكَ [سنن ابو داؤد:(5235) صحیح امام البانی وغیرہ]

قیامت کے دن انسان کی حسرتیں

أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ [الزمر : 56]

(ایسا نہ ہو)کہ کوئی شخص کہے ہائے میرا افسوس! اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کی جناب میں کی اور بے شک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔

أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [الزمر : 57]

یا کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں ضرور پرہیزگاروں میں سے ہوتا۔

أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [الزمر : 58]

یا کہے جب وہ عذاب دیکھے کاش! میرے لیے ایک بار لوٹنا ہو تو میں نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں۔

لوگ جہنم میں بھی چیختے ہوئے صرف اور صرف وقت کا مطالبہ کریں گے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ [فاطر : 37]

اور وہ اس میں چلائیں گے، اے ہمارے رب! ہمیں نکال لے، ہم نیک عمل کریں گے، اس کے خلاف جو ہم کیا کرتے تھے۔ اور کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی کہ اس میں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا حاصل کر لیتا اور تمھارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا۔ پس چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا

اللہ کی قسم! نہ وہ گھر والوں کی طرف جانے کی تمنا کرے گا، نہ اولاد کی طرف، بلکہ یہی تمنا کرے گا کہ واپس جا کر اللہ کی اطاعت کر لے۔ سو کوتاہی کرنے والے کافر کی آرزو دیکھو اور ملی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اس پر عمل کر لو۔