والدین کے حقوق  (1)

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا [الإسراء : 23]

اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو ’’اف‘‘ مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا [الإسراء : 24]

اور رحم دلی سے ان کے لیے تواضع کا بازو جھکا دے اور کہہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جیسے انھوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا۔

مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے چند حقوق کا تذکرہ کیا ہے

01.  وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا

والدین سے حسن سلوک کرنا

توحید اور خدمت والدین کا اکٹھا تذکرہ

والدین کی خدمت کی انتہائی اہمیت اس بات سے معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اپنی توحید کے ساتھ ساتھ والدین کی خدمت اور احسان کا تذکرہ کیا ہے چند آیات ملاحظہ فرمائیں

فرمایا

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [النساء :36]

اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو

اور فرمایا

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [البقرۃ :83]

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو

سورہ انعام میں ہے

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [الأنعام :151]

کہہ دے آئو میں پڑھوں جو تمھارے رب نے تم پر حرام کیا ہے، (اس نے تاکیدی حکم دیا ہے) کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائو اور ماں باپ کے ساتھ خوب احسان کرو

اللہ تعالیٰ اور والدین کی رضا لازم ملزوم ہے

عبداللہ عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

 رِضَى الرَّبِّ فِي رِضَى الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ

(ترمذی ،أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ مِنْ الْفَضْلِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ​،1899 صحيح)

 رب کی رضا والد کی رضامیں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ‘

باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے

حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے نبی ﷺسے سنا، آپ فرمارہے تھے :

الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوْ احْفَظْهُ  (ابن ماجہ ،كِتَابُ الْأَدَبِ،بَابُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ،3663 صحیح)

 باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے،چاہے اس دروازے کو ضائع کرلو، چاہے محفوظ کرلو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا

01.۔ والد کی خدمت جنت میں داخل ہونے کا اہم ذریعہ ہے۔

02. ۔ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر والد کو ناراض کر و گے تو تمہارے لیے جنت کا دروازہ نہیں کھلے گا اس طرح تم جنت کا دروازہ کھو بیٹھو گے۔

03. محفوظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ والد کو خوش کرو گے تو جنت کا دروازہ تمہارے لیے ضرور کھل جائے گا۔

والدین کی خدمت افضل ترین اعمال میں سے ایک عمل ہے

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :

’’سب سے افضل عمل کون سا ہے۔‘‘

فرمایا :

 [ اَلصَّلاَةُ عَلٰی وَقْتِهَا ]

 ’’نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ ‘‘

 پوچھا :

 ’’پھر کون سا؟‘‘

فرمایا :

 [ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ ]

 ’’ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔‘‘

 پوچھا :

’’پھر کون سا؟‘‘

 فرمایا :

 ”جہاد فی سبیل اللہ“  [ بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلوۃ لوقتھا : ۵۲۷ ]

انسان کی خدمت کا سب سے زیادہ مستحق کون

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہنے لگا :

 [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِيْ؟ قَالَ أُمُّكَ، قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ، قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ، قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ ثُمَّ أَبُوْكَ ]  [ بخاري، الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ : ۵۹۷۱ ]

 ’’یا رسول اللہ! لوگوں میں سے میرے حسن محبت کا زیادہ حق دار کون ہے ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھاری ماں۔‘‘ اس نے کہا : ’’پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر تمھاری ماں۔‘‘ اس نے کہا : ’’ پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر تمھاری ماں۔‘‘ اس نے کہا : ’’پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (چوتھی مرتبہ) فرمایا : ’’ پھر تمھارا باپ۔‘‘

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ (دادا بہز بن حکیم) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا :

 [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَنْ أَبَرُّ ]

 ’’یا رسول اللہ! میں کس کے ساتھ نیکی اور احسان و سلوک کروں۔‘‘

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أُمَّكَ ثُمَّ أُمَّكَ ثُمَّ أُمَّكَ ثُمَّ أَبَاكَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ ] [ أبوداوٗد، الأدب، باب في بر الوالدین، : ۵۱۳۹ ، و قال الألباني حسن صحیح ]

 ’’اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر اپنے سب سے قریب کے ساتھ، پھر اس کے بعد زیادہ قریب کے ساتھ۔‘‘

بعض اہلِ علم نے اس تاکید کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ والدہ کی کمزوری اور طبعی نرمی اور شفقت کی وجہ سے اولاد اس کی پروا نہیں کرتی اور اس کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہے، جب کہ باپ کی طبیعت کی وجہ سے اس کا خیال کرنا پڑتا ہے، لہٰذا تاکید کے لیے ماں کا ذکر تین دفعہ فرمایا۔ یہ مطلب نہیں کہ ماں کو تین روپے دو اور باپ کو ایک روپیہ، بلکہ اولاد کو دونوں ہی کا خیال رکھنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

ماں کی خدمت اور جنت میں تلاوت

حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ والدین کی خدمت کی وجہ سے جنت میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں

سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے فرمایا:  میں سو گیا اور میں نے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا اور میں نے وہاں قرآن پڑھتے ایک آدمی کی آواز سنی، میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتلایا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہے۔  پھر رسول اللہ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  نے اس صحابی کے حق میں فرمایا:

 ” كَذَاكَ الْبِرُّ، كَذَاكَ الْبِرُّ ". وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّهِ  (مسند احمد۔ 11668 وقال الالبانی سند صحيح)

حسن سلوک کا یہی انجام ہوتا ہے، حسن سلوک کا یہی انجام ہوتا ہے۔  یہ صحابی لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا۔

جنت والدین کے قدموں میں

حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ

 أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ فَقَالَ هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا

(نسائی ،كِتَابُ الْجِهَادِ،الرُّخْصَةُ فِي التَّخَلُّفِ لِمَنْ لَهُ وَالِدَةٌ،3106 حسن صحيح)

 (میرے والدمحترم) حضرت جاہمہؓ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیری والدہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: ’ا س کے پاس ہی رہ (اور خدمت کر)۔ جنت اس کے پاؤں تلے ہے۔‘‘

ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 وَيْحَكَ أَحَيَّةٌ أُمُّكَ قُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَيْحَكَ الْزَمْ رِجْلَهَا فَثَمَّ الْجَنَّةُ

(ابن ماجہ ،كِتَابُ الْجِهَادِ،بَابُ الرَّجُلِ يَغْزُو وَلَهُ أَبَوَانِ،2781 صحیح)

 تیرا بھلا ہو، کیا تیری ماں زندہ ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 تیرا بھلا ہو، اس کے قدموں میں پڑا رہ جنت وہیں ہے۔

ماں کی خدمت گناہوں کا کفارہ ہے

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں

 أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنِّیْٓ أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِیْمًا فَہَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ قَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ قَال لاقَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ خَالَۃٍقَالَ نَعَمْ قَالَ فَبِرَّہَا) [ ترمذی ،باب مَا جَآءَ فِی بِرِّ الْخَالَۃِ 1904]

 ”  ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول ! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ کیا میرے لیے توبہ ہے آپ نے فرمایا کیا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تیری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا اس کی خدمت کرو۔“

نفحة آثار السلف الصالحين

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺮﻳﻢ ﻗﺎﻝ: ﺃخبرنا ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻗﺎﻝ: ﺃخبرني ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺃﺳﻠﻢ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ ﻳﺴﺎﺭ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﺃﻧﻪ ﺃﺗﺎﻩ ﺭﺟﻞ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﺧﻄﺒﺖ اﻣﺮﺃﺓ، ﻓﺄﺑﺖ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺤﻨﻲ، ﻭﺧﻄﺒﻬﺎ ﻏﻴﺮﻱ، ﻓﺄﺣﺒﺖ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺤﻪ، ﻓﻐﺮﺕ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻓﻘﺘﻠﺘﻬﺎ، ﻓﻬﻞ ﻟﻲ ﻣﻦ ﺗﻮﺑﺔ؟ ﻗﺎﻝ: ﺃﻣﻚ ﺣﻴﺔ؟ ﻗﺎﻝ: ﻻ، ﻗﺎﻝ: ﺗﺐ ﺇﻟﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، ﻭﺗﻘﺮﺏ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﺎ اﺳﺘﻄﻌﺖ. ﻓﺬﻫﺒﺖ ﻓﺴﺄﻟﺖ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ: ﻟﻢ ﺳﺄﻟﺘﻪ ﻋﻦ ﺣﻴﺎﺓ ﺃﻣﻪ؟ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﻻ ﺃﻋﻠﻢ ﻋﻤﻼ ﺃﻗﺮﺏ ﺇﻟﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻣﻦ ﺑﺮ اﻟﻮاﻟﺪﺓ [الأدب المفرد للبخارى:(٤) الجامع لابن وهب:(١٣٧) شرح أصول إعتقاد أهل السنة والجماعة:(١٩٥٧) سنده صحيح]

أبو انس طيبى

والدین کی خدمت رزق و عمر میں اضافہ کا باعث

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُمَدَّ لَهُ فِي عُمْرِهِ، وَأَنْ يُزَادَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، فَلْيَبَرَّ وَالِدَيْهِ، وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ".

[مسند احمد حكم الحديث: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن 13401]

02.  بڑھاپے میں خیال رکھنا

إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا

’’ عِنْدَكَ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تم والدین کے پاس تھے اور ان کے محتاج تھے، اب وہ بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے تمھارے پاس اور تمھارے محتاج ہیں۔ چنانچہ انھیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہو، جو اکتاہٹ اور بے ادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے، پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

میری بوڑھی ماں کو "اولڈ ہاؤس” چھوڑ آؤ

مولانا عبدالمالك مجاھد حفظہ نے اپنی کتاب "والدین، اطاعت و نافرمانی واقعات کی زبانی” میں ایک واقعہ لکھتے ہیں

ساحل سمندر پر بیٹھی ہوئی ستر سالہ بوڑھی اماں جو کہ اپنے بیٹے کا انتظار کررہی تھی لیکن بیٹا تھا کہ واپس نہیں آ رہا تھا رات کا ایک بج گیا معذور ماں خود بخود اپنی جگہ سے اٹھ بھی نہیں سکتی تھی ایک آدمی اس کے پاس آیا اور کہنے لگا خالہ جان آپ کافی دیر سے یہاں تن تنہا بیٹھی ہوئی ہیں کوئی آپ کو لینے بھی نہیں آ رہا اگر اجازت ہو تو میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں

وہ کہنے لگی میں اپنے بیٹے کا انتظار کررہی ہوں وہ آتا ہی ہوگا

پھر اس نے ایک رقعہ اس نوجوان کو پکڑاتے ہوئے کہا میرا بیٹا جاتے ہوئے مجھے یہ پکڑا گیا تھا دیکھو اس میں کیا لکھا ہے

جب اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ کا ٹکڑا کھول کر دیکھا گیا تو اس پر لکھا تھا "اسے اولڈ ہاؤس چھوڑ آؤ”

[ص 78]

کس قدر بد نصیبی کی بات ہے حدیث میں آتا ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، قِيْلَ مَنْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ !؟ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ] [ مسلم، البر والصلۃ، باب رغم من أدرک أبویہ… : 2551/10 ]

 ’’اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو۔‘‘ پوچھا گیا : ’’یا رسول اللہ! کس کی؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 ’’جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان میں سے ایک کو یا دونوں کو، پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘

بوڑھے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آلیا اور انہوں نے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی ۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہو گیا ۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہوتا کہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو ممکن ہے وہ غار کو کھول دے ۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا

اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ، كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ وَلَدِي، وَإِنَّهُ نَاءَ بِيَ الشَّجَرُ، فَمَا أَتَيْتُ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَجِئْتُ بِالحِلاَبِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا، أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَبْدَأَ بِالصِّبْيَةِ قَبْلَهُمَا، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ. فَفَرَجَ اللَّهُ لَهُمْ فُرْجَةً حَتَّى يَرَوْنَ مِنْهَا السَّمَاءَ

(بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابُ إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ،5974)

 اے اللہ ! میرے والدین تھے ان کے لیے بکریاں چراتا تھا اور واپس آکر دودھ نکالتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو پلاتا تھا اپنے بچوں سے بھی پہلے ۔ ایک دن چار ے کے تلاش نے مجھے بہت دور لے جا ڈالا چنانچہ میں رات گئے واپس آیا ۔ میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں ۔ میںنے معمول کے مطابق دودھ نکالا پھر میں دوھا ہوا دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا میں گوارا نہیں کرسکتا تھا کہ انہیں سونے میں جگاؤں اور یہ بھی مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا کہ والدین سے پہلے بچوں کو پلاؤں ۔ بچے بھوک سے میرے قدموں پر لوٹ رہے تھے اور اسی کشمکش میں صبح ہو گئی پس اے اللہ ! اگر تیرے علم میں بھی یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ( دعا قبول کی اور ) ان کے لیے اتنی کشادگی پیدا کردی کہ وہ آسمان دیکھ سکتے تھے ۔

03.  فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ

ان دونوں کو اف مت کہہ

والدین کے کسی کام سے منع کرنے پر (اف) کہنا

والدین کے چڑ چڑے پن پر (اف) کہنا

والدین میں بڑھاپے کی وجہ سے بچپن والی عادات کے لوٹ آنے پر (اف) کہنا

جوانی کے جذبات اور بڑھاپے کے تجربات کی عدم موافقت پر (اف) کہنا

‏امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 "إذا رأى أباه على أمر يكرهه يعلمه بغير عنف ولا إساءة ولا يغلظ له في الكلام وإلا تركه وليس الأب كالأجنبي”.

*الآداب الشرعية لابن مفلح الحنبلي

واقعہ ایک نوجوان کا

یہ واقعہ بھی مولانا عبد المالک مجاہد حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مذکورہ کتاب میں لکھا ہے

ایک نوجوان اپنے باپ سے کہنے لگا ابا جان میں آپ کی ہر بات ماننے اطاعت کرنے اور خدمت کے لیے تیار ہوں آپ مجھے جو حکم کریں گے میں تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں

باپ نے کہا چلو ایک ٹیلے پر چلتے ہیں انہوں نے اپنے ساتھ کچھ سیب لیے اور 20، 25 فٹ اونچے ٹیلے پر جا بیٹھے باپ نے ایک سیب نیچے گرایا اور بیٹے کو کہا کہ اسے پکڑ کر لاؤ بیٹا اسے پکڑنے کے لیے نیچے اترا سیب پکڑا پھر اوپر چڑا ابھی اوپر پہنچا ہی تھا کہ باپ نے پھر ایک سیب نیچے پھینک دیا اور دوبارہ بیٹے سے کہا اسے پکڑ کر لاؤ وہ لے کر آتا ہے تو باپ تیسری مرتبہ پھر وہی عمل دہراتا ہے بیٹا پھر نیچے اترتا ہے جب باپ نے چوتھی مرتبہ سیب نیچے پھینکا اور بیٹے کو حکم دیا کہ پکڑ کر لائے تو بیٹا تنگ آکر کہنے لگا "اف” ابا جان یہ آپ کیا فضول کام کر رہے ہیں

تب باپ نے کہا بیٹا جب تو چھوٹا تھا ہم اسی جگہ آکر بیٹھا کرتے تھے تیرے پاس ایک گیند ہوتی تھی تو اسے بار بار نیچے پھینکتا تھا اور یہ عمل دو چار نہیں نہ جانے کتنی مرتبہ ہوتا تھا اور میں ہر بار بڑے پیار سے تجھے گیند لا کر پکڑاتا تھا لیکن کبھی تنگ نہیں پڑتا تھا اور تو اتنی جلدی تنگ پڑ گیا ہے

حیوہ بن شریح رحمہ اللہ کا واقعہ

حیوہ بن شریح مشہور تابعی ہیں استاذ الحدیث تھے ان کے حلقہ درس میں سینکڑوں طلبہ موجود ہوتے تھے مثالی درس دیتے تھے ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اپنی والدہ کے ساتھ بہت حسن سلوک کیا کرتے تھے

بسا اوقات ایسا ہوتا کہ درس و تدریس میں مشغول ہوتے، طلبہ کا جم غفیر ہوتا کسی اہم مسئلے کو سلجھانے کے لیے مختلف دلائل پیش کر رہے ہوتے طلبہ، ہاتھوں میں قلم پکڑے لکھ رہے ہوتے کہ اسی دوران ان کی والدہ محترمہ مسجد میں آجاتی اور ڈانٹتے ہوئے کہتی

قم فاعلف الدجاجۃ

اٹھو اور مرغی کو دانا ڈالو

چنانچہ حیوۃ بن شریح ماں کی بات سنتے ہی اٹھتے نہ غصہ کرتے نہ بحث کرتے نہ ماتھے پر شکن لاتے اور مرغیوں کو دانہ ڈالنے کے لیے چلے جاتے دانہ ڈال کر واپس آتے اور ادھورا سبق مکمل کرتے

[حوالہ مذکورہ بالا صفحہ 293]

 ماں کی آواز سے اپنی آواز اونچی ہونے پر دو غلام آزاد کردیئے

خارجہ بن مصعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

صحبت ابن عون أربعا وعشرين سنة ، فما أعلم أن الملائكة كتبت عليه خطيئة

[سیراعلام النبلاء 6/365]

 میں چوبیس سال عبداللہ بن عون رحمہ اللہ کی صحبت میں رہا میں نہیں جانتا کہ فرشتوں نے انکا ایک گناہ بھی لکھا ہو

 أن أمه نادته فأجابها ، فعلا صوته صوتها ، فأعتق رقبتين

[سیر 6/365]

امام عبداللہ بن عون رحمہ اللہ کو انکی والدہ نے آواز دی جواب میں انکی آواز ماں کی آواز سے اونچی ہو گئی اسکے کفارہ میں انہوں نے دو غلام آزاد کیے

حامد کمال الدین فرماتے ہیں :

تمہارے والدین کو تمہارے ساتھ بات کے دوران تمہارے تنگ آنے اور بھڑک اٹھنے کے ڈر سے، اگر اپنے الفاظ کے چناؤ میں محتاط ہونا پڑے تو تمہارا شمار نافرمان لوگوں میں ہوگا

04.  وَلَا تَنْهَرْهُمَا

 اور نہ انہیں جھڑک

بظاہر والدین کا کوئی فیصلہ آپ کی مرضی کے خلاف بھی ہو

یا ان کی طرف سے آپ بے جا مطالبوں کا سامنا کررہے ہوں

یا انہوں نے کبھی آپ کو برسرعام بے عزت کیا ہو

یا آپ کے خیال میں آپ کے والدین آپ کی حق تلفی کررہے ہوں

الغرض کچھ بھی ہوجائے

کسی صورت میں بھی والدین کو ڈانٹنے کی جرأت نہ کریں

یہی حکم الہی اور مقصود شرع ہے

فرمایا

وَلَا تَنْهَرْهُمَا

إمام أحمد بن حنبل:

 "إذا رأى أباه على أمر يكرهه يعلمه بغير عنف ولا إساءة ولا يغلظ له في الكلام وإلا تركه وليس الأب كالأجنبي”.

*[الآداب الشرعية لابن مفلح الحنبلي]

والدین پیسوں کا مطالبہ کریں تو بھی مت ڈانٹیں

ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا :

 اے اللہ کے رسول ! میرے پاس مال ہے اور اولاد بھی ، اور میرا والد میرے مال کا ضرورت مند رہتا ( یعنی لیتا رہتا ) ہے ۔

 آپ ﷺ نے فرمایا

أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ

(ابوداؤد ،کِتَابُ الْإِجَارَةِ،بَابُ فِي الرَّجُلِ يَأْكُلُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ،3530 حسن صحيح)

 ” تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے ۔ بیشک تمہاری اولادیں تمہاری بہترین کمائی ہیں ، چنانچہ تم اپنی اولادوں کی کمائی سے کھا سکتے ہو ۔ “

باپ، کسی محبوب چیز کو چھوڑنے کا حکم دے تو بھی مت ڈانٹیں

عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا

 كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ وَكُنْتُ أُحِبُّهَا وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا فَقَالَ لِي طَلِّقْهَا فَأَبَيْتُ فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلِّقْهَا

(سنن ابی داؤد، كِتَابُ النَّومِ، بَابٌ فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ5138 صحیح)

:میری زوجیت میں ایک عورت تھی اور مجھے اس سے محبت تھی۔مگر حضرت عمرؓ اسے ناپسند کرتے تھے۔تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ اسے طلاق دے دو۔میں نے انکار کیا‘ تو حضرت عمرؓ نبیﷺ کی خدمت میں گئے اور اپنی بات ان سے کہی۔نو نبیﷺ نے(مجھ سے) فرمایا:

’’اس عورت کو طلاق دے دو‘‘

 مگرشرط یہ ہے کہ باپ جو اپنے بیٹے سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کررہا ہے۔خود حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفات کا حامل ہو۔اور اس میں کوئی ہوائے نفس اور تعصب کی بات نہ ہو۔صرف شرعی مصلحت پیش نظر ہو جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آتا ہے

 والدین پر لعن طعن، گالی گلوچ کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت

علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ

(مسلم، كِتَابُ الْأَضَاحِي،بَابُ تَحْرِيمِ الذَّبْحِ لِغَيْرِ اللهِ تَعَالَى وَلَعْنِ فَاعِلِهِ،5124)

” جو شخص اپنے والد پر لعنت کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو شخص غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اس پر اللہ لعنت کرے اور جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ لعنت کرے اور جس شخص نے زمین (کی حد بندی) کا نشان بدلا اس پر اللہ لعنت کرے۔

والدین کو گالی دینا بڑا گناہ ہے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ» قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: «يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ»

(بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابٌ لاَ يَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ،5973)

 یقینا سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے ۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تودوسرا بھی اس کے باپ کو اوراس کی ماں کو برا بھلا کہے گا

05. وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

  اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ

جیسے خطا کار غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے

بعض اہلِ علم نے اس کی تفسیر میں قول کریم کی نقشہ کشی یوں فرمائی کہ ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے اور بعض نے فرمایا کہ بچپن میں جس طرح تمھارے پیشاب پاخانہ کو صاف کرتے وقت وہ کوئی کراہت محسوس نہ کرتے تھے، بلکہ محبت ہی سے پیش آتے تھے، اب تم بھی ان سے وہی سلوک کرو۔ (بغوی)

تفسير القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

انتہائی اچھے الفاظ میں مخاطب کریں

والدین سے نرمی کے ساتھ بات کرنا اور درشتی کا مظاہرہ نہ کرنا یہ بھی ان کے ساتھ حسن سلوک میں شامل ہے۔ مثلاً ان کو پکارتے وقت نام اور کنیت کا استعمال نہ کرے بلکہ ابو جی! امی جان! کہہ کر پکارے

مشرک والدین سے بھی نرمی برتنے کا حکم

فرمایا

وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُورًا[الإسراء : 28]

اور اگر کبھی تو ان سے بے توجہی کر ہی لے، اپنے رب کی کسی رحمت کی تلاش کی وجہ سے، جس کی تو امید رکھتا ہو تو ان سے وہ بات کہہ جس میں آسانی ہو۔

اگر وہ شرک کی دعوت دیں تو پھر بھی ان سے اچھی صحبت اختیار

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [لقمان : 15]

اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان اور دنیا میں اچھے طریقے سے ان کے ساتھ رہ اور اس شخص کے راستے پر چل جو میری طرف رجوع کرتا ہے، پھر میری ہی طرف تمھیں لوٹ کر آنا ہے، تو میں تمھیں بتاؤں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے

ہمارے حافظ صاحب لکھتے ہیں

یعنی جب تک وہ زندہ ہیں، ان معاملات میں جو دین کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے، ان کے ساتھ اچھے طریقے کے ساتھ رہو۔ مثلاً ان کے کھانے پینے، پہننے، رہنے اور علاج وغیرہ کی ضروریات کا خیال رکھو، ان کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ بات کرو، ان کے غصے اور تلخی کو برداشت کرتے رہو۔ جب مشرک والدین کے متعلق یہ حکم ہے، تو مومن والدین کا حق کس قدر ہو گا !

(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

ابراهيم علیہ السلام کی اپنے باپ کی تلخی کے باوجود نرمی

ابراہیم علیہ السلام کے باپ نے سختی کرتے ہوئے کہا

قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [مريم : 46]

اس نے کہا کیا بے رغبتی کرنے والا ہے تو میرے معبودوں سے اے ابراہیم!؟ یقینا اگر تو باز نہ آیا تو میں ضرور ہی تجھے سنگسار کر دوں گا اور مجھے چھوڑ جا، اس حال میں کہ تو صحیح سالم ہے۔

تو اتنے سخت جملے کے جواب میں ابراہیم علیہ السلام نے بڑی نرمی اور شائستگی میں فرمایا

قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا [مريم : 47]

کہا تجھ پر سلام ہو، میں اپنے رب سے تیرے لیے ضرور بخشش کی دعا کروں گا، بے شک وہ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان ہے۔

اور یہ الفاظ بھی ان کی نرم گوئی کی عکاسی کرتے ہیں

کہنے لگے

وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ [الشعراء : 86]

اور(اے میرے رب) میرے باپ کو بخش دے، یقینا وہ گمراہوں میں سے تھا۔

وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ [الشعراء : 87]

اور مجھے رسوا نہ کر، جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔

06.  وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ

اور رحم دلی سے ان کے لیے تواضع کا بازو جھکا دے

پرندے کے پر کا تذکرہ کیوں کیا گیا

 ’’ جَنَاحَ ‘‘ پرندے کے پر کو کہتے ہیں اور بازو کو بھی۔ مطلب یہ کہ جس طرح پرندہ اپنے بچوں کے اوپر اپنے پر جھکا کر انھیں اپنی آغوش میں لے کر ہر سرد و گرم سے محفوظ کر لیتا ہے اس طرح تو بھی رحم کی بنا پر تواضع کے بازو ان پر جھکا دے۔

موسم کے مطابق لباس لا کر دو

موسم کے مطابق فروٹ لا کر دو

بیماری کے مطابق دوا لا کر دو

سفر کے مطابق گاڑی کی سہولت دو

طلب کے مطابق کھانے کی چیزیں دو

ہجرت کے لیے آنے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت والدین کے لئے واپس کردیا

سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا :

 میں آپ کے پاس ہجرت پر بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں ۔ ۔

آپ ﷺ نے فرمایا

ارْجِعْ عَلَيْهِمَا, فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا  (ابوداؤد ،كِتَابُ الْجِهَادِ،بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَغْزُو وَأَبَوَاهُ كَارِهَانِ،2528 صحیح)

’’ان کے پاس جا اور انہیں ہنسا ( اور خوش کر ) جیسے کہ تو نے انہیں رلایا ہے‘‘

نفحة آثار السلف الصالحين

ﻗﺎﻝ: ﻭﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺣﻴﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺤﺒﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺖ ﺟﺎﻟﺴﺎ ﻣﻊ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ، ﻭﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻴﻤﻦ ﻳﻄﻮﻑ ﺑﺄﻣﻪ ﻳﺤﻤﻠﻬﺎ ﺑﻴﻦ ﻛﺘﻔﻴﻪ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﻗﻀﻰ ﻃﻮاﻓﻪ ﺑﺎﻟﺒﻴﺖ ﻭﺿﻌﻬﺎ، ﻓﺪﻋﺎﻩ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﻫﺬﻩ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﻣﻨﻚ؟ ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﻲ ﺃﻣﻲ، ﻓﻘﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﻭﺩﺩﺕ ﻟﻮ ﺃﻧﻲ ﺃﺩﺭﻛﺖ ﺃﻣﻲ ﻓﻄﻔﺖ ﺑﻬﺎ ﻛﻤﺎ ﻃﻔﺖ ﺑﺄﻣﻚ ﻭﻟﻴﺲ ﻟﻲ ﻣﻦ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﺇﻻ ﻫﺬاﻥ اﻟﻨﻌﻼﻥ  [الجامع لابن وهب:(٩١) سنده حسن لذاته]

أبو انس طيبى

07.  وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا

اور کہہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جیسے انھوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا

’’رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ‘‘ دعا میں یہ خوبی ہے کہ اس کے ساتھ دعا کرتے ہوئے والدین کے بچپن میں پرورش کا احساس ان کے لیے زیادہ اخلاص اور کوشش کے ساتھ دعا کا تقاضا کرتا ہے

والدین بچپن میں کیسے پرورش کرتے ہیں

بچپن میں والدین تمہیں شہزادے اور شہزادیوں کی طرح پالتے ہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم انہیں بڑھاپے میں بادشاہ اور ملکہ کی طرح رکھو

اولاد کے بچپن میں والدین کی مشقتیں

فرمایا اللہ تعالیٰ نے

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا [الأحقاف : 15]

اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں نے اسے ناگواری کی حالت میں اٹھائے رکھا اور اسے ناگواری کی حالت میں جنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے

ماں کی تین بڑی قربانیاں

ہمارے استاذ گرامی جناب حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں

اس آیت مبارکہ میں ماں کی تین قربانیوں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔

پہلی مشقت  یہ کہ وہ حمل کی پوری مدت اسے اپنے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس دوران اس پر کئی ناگوار حالتیں گزرتی ہیں، مثلاً متلی، بے چینی، تھکاوٹ، بیماری کی سی حالت، دن بدن بڑھتی ہوئی کمزوری، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا :

 «حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ »  [ لقمان : ۱۴ ]

 ’’اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اٹھائے رکھا۔‘‘

 خصوصاً حمل کے آخری ایام میں تو یہ بوجھ اس کی جان کا روگ بنا ہوتا ہے۔ حقیقت ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی ماں کا حق ادا کرنے کے لیے اسے کمزوری کی حالت میں اٹھا کر لیے پھرے تب بھی وہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ کہاں پوری مدتِ حمل مسلسل اپنے شکم میں اٹھائے پھرنا اور کہاں کسی وقت کچھ دیر کے لیے اٹھا لینا۔ پھر ماں ان سب ناگوار کیفیتوں کو آنے والے فرزند کی امید پر خوشی سے برداشت کرتی ہے، جب کہ اولاد اسے بوجھ سمجھ کر یا صرف اللہ کا حکم سمجھ کر اٹھاتی ہے، دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔

 دوسری قربانی   وضع حمل کا نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہے جس میں اس کی جان داؤ پر لگی ہوتی ہے، کتنی مائیں اس مرحلے میں جان سے گزر جاتی ہیں، وہ اپنے فرزند کی امید پر اس ناگوار مرحلے کو بھی برداشت کرتی ہے۔

* تیسری قربانی*   دو سال تک اس کی پرورش، اپنے آرام کی قربانی دے کر اس کے لیے ہر آسائش مہیا کرنا اور اپنا خون دودھ کی صورت میں دو سال تک پلاتے جانا ہے۔ ان تین قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ رکھا ہے۔

بو علی سینا کا واقعہ

(عقائد و نظریات سے قطع نظر) طب کی دنیا میں اس شخص کا ایک نام ہے اسے بانی طب بھی کہتے ہیں

اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ میں نے ماں کی ممتا کا مشاہدہ تب کیا جب ہم پانچ بہن بھائی تھے چھٹی ہماری ماں تھی ایک دن ہمارے گھر میں پانچ سیب تھے ماں نے پانچوں بہن بھائیوں کو ایک ایک سیب دے دیا اور خود خالی ہاتھ بیٹھی رہی جب ہم نے پوچھا ماں❗ کیا آپ نے سیب نہیں کھانا❓تو کہنے لگی

مجھے سیب پسند نہیں ہے

دوسرا جھوٹ

اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا،

اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گذرتی تھی،

یوں ہوا کہ دومچھلیاں میرے ہاتھ لگیں،

بھاگا بھاگا گھر آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا،

دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھا رہا تھا،

دیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی،

میں نے جب یہ دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو کہنے لگی،

"تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہں تم تو کھاؤ”۔

اور یہ اس کا دوسرا جھوٹ تھا۔

تیسرا جھوٹ

اور پھر وہ بہت بوڑھی ہو گئی۔

ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اس کو جان لیوا سرطان ہوگیا ہے،

مجھے اس کے پاس ہونا چاہئے تھا، لیکن ہمارے درمیاں مسافتیں حائل تھیں،

پھر جب اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا،

میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس وطن واپس آ گیا،

وہ بستر پر تھی ، مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مُسکان آ گئی،

مجھے اسے دیکھ کر ایک دھچکہ سا لگا اور دل جلنے لگا،

بہت کمزور بہت بیمار لگ رہی تھی،

یہ وہ نہیں تھی، جس کو میں جانتا تھا

میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے،

لیکن ماں نے مجھے ٹھیک سے رونے بھی نہیں دیا،

میرِی خاطر پِھر مسکرانے لگی،

"نہ رو میرے بیٹے، مجھے بالکل کوئی درد نہیں محسوس ہو رہا”۔

اور یہ اس کا آٹھواں جھوٹ تھا۔۔

اس کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں

اس کے بعد  آنکھیں کبھی نہ کھولیں

والدین کے لیے دعا کرنا فرض ہے

والدین کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرنا فرض ہے، کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے، اس لیے روزانہ ان کی زندگی میں اور فوت ہونے کے بعد اپنی دعا کے ساتھ ان الفاظ میں یا دوسرے الفاظ میں ان کے لیے دعا ضرور کرنی چاہیے

 جیسا کہ نوح علیہ السلام کی اپنے والدین کے لیے کی جانے والی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا [نوح : 28]

اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اس کو جو مومن بن کر میرے گھر میں داخل ہو اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو اور ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھا۔

ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد کے لیے دعا

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ [إبراهيم : 40]

اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ [إبراهيم : 41]

اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہوگا۔

اور یہ دعا

وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ  [الشعراء : 86]

اور میرے باپ کو بخش دے، یقینا وہ گمراہوں میں سے تھا۔

وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ [الشعراء : 87]

اور مجھے رسوا نہ کر، جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔

 حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَنَّى هَذَا فَيُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ

(ابن ماجہ ،كِتَابُ الْأَدَبِ،بَابُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ،3660)

 جنت میں آدمی کا درجہ بلند کیا جاتا ہے ۔ وہ کہتا ہے:یہ کس وجہ سے ہوا؟اسے کہا جاتا ہے:تیری اولاد کے تیرے لئے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔

08.  وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا

اور ان کے ساتھ دنیا میں اچھے طریقے سے رہ

کتاب "برالوالدين” میں لکھا ہوا ہے ایک مرتبہ ایک عالم دین اپنے دوستوں کی مجلس میں تاخیر سے پہنچے

ساتھیوں نے پوچھا کہ آپ لیٹ کیوں آئے ہیں

جواب ملا کہ میں ریاض الجنۃ کے مزے لوٹ رہا تھا

اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی والدہ کے قدموں میں بیٹھے ہوئے تھے

[بحوالہ کتاب مذکورہ از مولانا عبد المالک مجاہد صفحہ 316]

اویس قرنی رضی اللہ عنہ اور والدہ کی خدمت

 اُسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے

«يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ»

 کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔

 تو میرے لئے دعا کرو۔ پس اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے) میرے لئے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے۔

(مسلم، كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم، بَاب مِنْ فَضَائِلِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،6492)

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی والدہ

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے خبر دی

أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً، فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آصِلُهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ» (بخاری ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابُ صِلَةِ الوَالِدِ المُشْرِكِ،5978)

 کہ میری والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں میرے پاس آئیں ، وہ اسلام سے منکر تھیں ۔ میںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں