والدین کے ساتھ حسن سلوک

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ﴾ (سوره بني اسرائیل، آیت:33،34)
ترجمہ: اور تیرا پر ردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام کے ساتھ بات کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں پرورش کی ہے۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِي له أَي العَمَلِ أحبُّ إِلَى اللهِ؟ قَالَ: الصَّلاةُ عَلَى وَقُتِهَا، قَالَ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: بِرُّ الوَالِدَين . قال : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ: اَلْجِهَادُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری کتاب مواقيت الصلاة، باب فضل الصلاة لوقتها، صحيح مسلم: کتاب الایمان، باب بیان كون الإيمان بالله تعالى أفضل الأعمال.)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کون سا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا، اس نے کہا پھر کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا، اس نے کہا پھر کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ الله مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ : أُمُّكَ، قَالَ : ثُمَّ من ؟ قَالَ : أُمُّكَ، قَالَ : ثُمَّ مَنْ قَالَ: أُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ قَالَ : ثُمَّ
أبُوْكَ (متفق عليه).
(صحیح بخاري كتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، صحيح مسلم كتاب البر والصلة
والآداب، باب بر الوالدين وأنهما أحق به.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر پوچھ پھر کون؟ آپ ﷺ فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا پھر کون؟ آپ نے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو بن العاص رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلى النبيﷺ سْتَأْذَنَهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: أَحَىٌّ وَالِدَاكَ ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ: فَفِيهِمَا فَجَاهِدٌ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری الجهاد و السير، باب الجهاد بأذن الأبوين، صحيح مسلم كتاب البر والصلة والأداب، باب برالو الدين و أنهما أحق به.)
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے آپ ﷺ سے جہاد میں جانے کی اجازت طلب کی، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا، کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے جواب دیا، ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پس انہی کی خدمت کی کوشش کر۔
عَنْ أَبِي هُزِيرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ هُ قَالَ : رَغمَ أَنفُ، ثُمَّ رَعْمَ أنف، ثُمَّ رغم أنف مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِليهِمَا، فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ. (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب رغم من أدرم أبويه أو أحدهما عند الكبر فلم يدخل …..)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو اس شخص کی، جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو پایا، ان میں سے ایک کو یا دونوں کو اور پھر (بھی ان کی خدمت کر کے) جنت میں نہیں جا سکا۔
تشریح:
والدین کی اطاعت اولاد پر واجب ہے ان کی نافرمانی کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک، نرمی، دیکھ بھال اور مہربانی کو ان کا حق بتلایا ہے اور اس کی تاکید اپنے حق کے ساتھ ملا کر فرمائی۔ قرآن مجید کی بہت ساری آیتیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے ساتھ نیکی کرنے پر ابھارتی ہیں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے والے کے لئے اجر عظیم کا مژدہ سنائی ہیں اور ان کی نافرمانی کرنے سے ڈراتی ہیں۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا گناہوں کی مغفرت اور دخول جنت کے اسباب میں ہے۔ رسول اکرمﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور آپ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے تین بار ماں کو جتلایا اور چوتھی بار کیا باپ۔ ماں کا مقام باپ کے مقام سے کہیں زیادہ اونچا ہے کیونکہ ماں نے بچے کو نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھا پھر پیدائش کے وقت کی تمام تکالیف کو برداشت کیا اور اسے دودھ پلایا، خود بھوکی رہی لیکن اسے بھوکے نہیں رہنے دیا، اس کی نیند کی خاطر اپنی نیند کی قربانی دی، اسے سوکھے بستر پر سلایا خود کیلے بستروں پر سورہی۔ ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے کبھی غافل نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ ماں کا مقام باپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ افضل ہے۔
باپ بچے کی نشونما اور تعلیم وتربیت کے اخراجات کے لئے دن اور رات ایک کر دیتا ہے اور گھر سے کوسوں بلکہ ہزاروں میل دور طالب معاش کے لئے نکل جاتا ہے اور ہر طرح کی پریشانیوں کو جھیلتا ہے ذرا غور کرو کہ والدین نے تمہاری خاطر کتنی قربانیاں پیش کی ہیں۔ اب آج تم بڑے ہو گئے ہو تو اب تمہیں اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے سے کیا چیز مانع ہے۔
والدین کی اہمیت کے تعلق سے ایک اور جگہ رسول اکرم ﷺ نے اس شخص کے جواب میں جس نے جہاد میں شرکت کرنے کی اجازت مانگی فرمایا کہ جاؤ اپنے والدین کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے یعنی جہاد میں جانے کا ثواب والدین کی خدمت میں مضمر ہے۔ نیز فرمایا کہ جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں نہیں جاسکا اس سے ہوا بد قسمت کوئی نہیں۔ اللہ تعالی ہمیں والدین کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا واجب ہے۔
٭ والدین کے ساتھ نیکی کرنا گناہوں کی مغفرت اور دخول جنت کا سبب ہے۔
٭ ماں کا مقام باپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلند ہے۔
٭ جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پا کر جنت نہ حاصل کر سکا وہ سب سے بد قسمت ہے۔
٭ والدین کو کلمہ اُف کہنا اور ان کی نافرمانی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
٭ والدین کی خدمت کرنے کا ثواب جہاد کرنے کے برابر ہے۔
٭٭٭٭