والدین سے حسن سلوک
اہم عناصر خطبہ :
01.قرآن مجید میں والدین سے حسن سلوک کی تاکید
02.احادیث نبویہ میں والدین سے حسن سلوک کے فضائل
03. والدین کے حقوق
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام !آج کا خطبۂ جمعہ ’’ بر الوالدین‘‘ یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق ہے اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں والدین سے حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان کیا ہے اور اس نے والدین کے حق کو باقی تمام حقوق العباد پر ترجیح دی ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے … تو آئیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے متعلق کیا حکم دیا ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان سے اچھا برتاؤ کرنے کی کس قدر شدید تاکید کی ہے !
قرآن مجید میں والدین سے حسن سلوک کا حکم
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس بارے میں چند آیات آپ بھی سماعت فرمائیے:
01.اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا﴾ النساء4 :36
’’ اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنا حق ذکر فرمایا اور وہ ہے صرف اسی کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا ۔ اس کے بعد والدین کا حق ذکر فرمایا اور وہ ہے ان سے اچھا برتاؤ کرنا ۔ پھر اس کے
بعد رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور پڑوسیوں وغیرہ کا حق ذکر کیا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد سب سے اہم حق والدین کا ہے اور حقوق العباد میں سب سے مقدم حق ماں باپ کا ہے ۔
02. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْْئًا وَّبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَانًا﴾ الأنعام6 :151
’’آپ ان سے کہئے کہ آؤ ، میں تمھیں پڑھ کر سناؤں کہ تمھارے رب نے تم پر کیا کچھ حرام کیا ہے اور وہ یہ باتیں ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور یہ کہ والدین سے اچھا سلوک کرو ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محرمات کا ذکر فرمایا اور ان میں سے سب سے پہلے شرک کو حرام قرار دیا ۔ پھر والدین سے حسن سلوک کا حکم دے کر ان کی نافرمانی کرنے اور انھیں اذیت پہنچانے کو بھی حرام کردیا ۔ تو اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ والدین سے بد سلوکی کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں کتنا سنگین جرم ہے !
03.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا٭وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾ الاسرا 17 :24-23
’’ اور آپ کے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے علاوہ اورکسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ بہتر سلوک کرو ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انھیں اف تک نہ کہو اور نہ ہی انھیں جھڑکو اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے سامنے جھک کر رہواور ان کے حق میں دعا کیا کرو کہ اے میرے رب ! ان پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں متعدد باتیں انتہائی توجہ کے قابل ہیں :
پہلی یہ کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے فورا بعد والدین کا حق ذکر فرمایا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سب کا معبود ایک ہے اسی طرح ہر شخص کا ماں باپ بھی ایک ہی ہوتا ہے اور یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالقِ حقیقی کے ساتھ ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کو اپنے حق کے ساتھ ملا کر ذکر کیا۔ أسعاد العباد ۔ نواب صدیق حسن خان: ص21
جبکہ مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلا والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے ، جس نے زمین بنائی۔ ہوا ،پانی ، سورج ، چاند وغیرہ پیدا کئے ، پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریاتِ زندگی زمین سے وابستہ کردیں … پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا … ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کر تی ہے اور باپ ‘ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات برداشت کرتا ہے ۔ پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون کرتا ہے ۔ تب جا کر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کیلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہو سکتی ۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یارو مدد گار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم اور کیا ہو سکتا ہے !! ‘‘ تیسیر القرآن :577/2
دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ہے کہ وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک جب بڑھاپے کو پہنچ جائے تو تم نے ان کے حق میں پانچ باتوں کی پابندی کرنی ہے اور وہ یہ ہیں:
01.پہلی یہ کہ تم نے انھیں اف تک نہیں کہنا اور ( اف ) سے مراد ہر تکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس سے والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے ۔ لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ وہ والدین سے نرمی اور اچھے انداز سے بات کرے اور انھیں کوئی بری بات نہ سنائے حتی کہ اف تک نہ کہے کیونکہ یہ بھی ہلکے درجے کی گستاخی ہے اور جب ہلکے درجے کی گستاخی جائز نہیں تو اس سے بڑی گستاخی بھی حرام ہے ۔
02. دوسری یہ کہ تم نے انھیں جھڑکنا بھی نہیں اور یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے اور ان کی کسی بات پر اولاد کو غصہ بھی آسکتا ہے ۔ تو اولاد کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ والدین کی باتیں برداشت کرے اور ان کے سامنے الٹی سیدھی باتیں نہ کرے اور انھیں نہ جھڑکے اور نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرے ۔
03. تیسری یہ کہ والدین سے بات کرو تو ادب واحترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو ۔
04.چوتھی یہ کہ والدین پر رحم اور ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ جھک کر رہو ۔
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانک لیتی ہے اور ہر طرح سے ان کی حفاظت کرتی ہے ، اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہو جائیں تو وہ ہر دم ان کی حفاظت کرے اور ان کے سامنے نہایت عاجزی وانکساری کے ساتھ رہے ۔
05.پانچویں یہ کہ ان سے اچھے برتاؤ کے ساتھ ساتھ ان کیلئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے میرے رب!ان پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے(محبت وشفقت کے ساتھ)بچپن میں میری پرورش کی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے بارے میں پانچ احکامات دئیے ہیں جن کی پابندی کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔
04. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَّ فِصَالُہُ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ. وَإِن جَاہَدَاکَ عَلٰی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ لقمان31:15-14
’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق ( اچھے سلوک کی ) نصیحت کی ہے ۔ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گذاری کر۔( تم سب کو ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہیاور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا ۔ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو۔تمھارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمھیں خبردار کروں گا۔ ‘‘
ان آیات میں انسان کو تاکیدا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا اور والدین کا شکر گذار ہو اور یہ شکر گذاری ان کا حق ادا کرنے سے ، ان کی خدمت کرنے سے اور ان سے اچھا برتاؤ کرنے سے ہی ہو سکتی ہیاور یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر کے ساتھ والدین کا شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح اولاد پر والدین کے احسانات کی بناء پر ان کا شکر بجا لانا بھی لازمی امر ہے ۔
نیز ان آیات میں والدین سے حسن سلوک کی تلقین کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی ہے
کہ اگر والدین شرک کرنے کا یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ،إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ)) متفق علیہ
’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ، اطاعت تو صرف نیکی میں ہے ۔ ‘‘
لہٰذا اللہ تعالیٰ کی معصیت میں والدین کی فرمانبرداری تو نہیں ہو گی البتہ دنیا میں ان سے پھر بھی اچھا سلوک رکھنا ہو گا ۔ حتی کہ اگر والدین کافر بھی ہوں تو تب بھی ان سے اچھا برتاؤ کرنا اور ان کی خدمت کرنا ضروری ہے ۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ’’ میری ماں‘جو عہدِ قریش ( صلحِ حدیبیہ ) میں مشرکہ تھی میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے پاس میری ماں آئی ہے اور وہ ( کفر میں یا میرے مال میں) رغبت رکھتی ہے۔ تو کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کر۔ ‘‘ صحیح البخاری:5978،صحیح مسلم :1003
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ والدین خواہ کافر کیوں نہ ہوں ان سے نیکی کرنی چاہئے ۔
05. اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَہْرًا ﴾ الأحقاف46:15
’’ ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے ، اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی جنا ۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ گئے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ اِس آیت اور اس سے پہلی دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا تاکیدی حکم دینے کے بعد خاص طور پر والدہ کی مشقت کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ حمل ، ولادت اور رضاعت کے دوران اولاد کی خاطر کئی تکلیفیں برداشت کرتی ہے ۔ اس لئے خصوصا والدہ سے اچھا برتاؤ کرنا اور بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول !
مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ ؟
لوگوں میں حسن صحبت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟
قَالَ : أُمُّکَ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔
اس نے کہا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔
اس نے کہا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔
اس نے کہا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی بار فرمایا :’’ تمھارا باپ۔ ‘‘ صحیح البخاری:5971،صحیح مسلم : 2548
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ماں ہے اور ماں، باپ پر مقدم ہے۔ اس کے بعد باپ کا درجہ ہے ۔
برادران اسلام ! ہم نے صرف پانچ قرآنی آیات ذکر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد سب سے اہم حق والدین کا حق ہے ۔ ان آیات کے علاوہ اور کئی آیات بھی اس موضوع پر موجود ہیں اورسب کا مفہوم ایک ہی ہے اورآئیے اب وہ احادیث نبویہ سماعت فرمائیں جن میں والدین سے حسن سلوک کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور ان کی نافرمانی کرنے اور انھیں اذیت پہنچانے سے منع کیا گیا ہے ۔
والدین سے حسن سلوک کے فضائل
01. والدین سے نیکی کرنا اللہ کو محبوب اعمال میں سے ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :
( أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ؟ )
یعنی کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا)) یعنی ’’ بروقت نماز ادا کرنا ‘‘
میں نے پوچھا : پھر کونسا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ)) یعنی ’’ والدین سے نیکی کرنا ۔ ‘‘
میں نے کہا : پھر کونسا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( اَلْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ )) صحیح البخاری:5970،صحیح مسلم :85
یعنی ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین سے نیکی کرنے کو اللہ کے محبوب اعمال میں سے ایک عمل قرار دیا اور اس میں ذرا غور فرمائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کا ذکر بعد میں کیا ، والدین سے نیکی کا ذکر پہلے فرمایا جو اس
بات کی دلیل ہے کہ والدین کی خدمت کرنا ، ان سے اچھا برتاؤ کرنا اور ان سے نیکی کرنا جہاد سے افضل ہے ۔
02.والدین کی خدمت کرنا بھی جہاد ہے
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَلَکَ أَبَوَانِ؟)) یعنی ’’ کیا تمھارے والدین زندہ ہیں ؟ ‘‘ اس نے کہا : ہاں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( فَفِیْہِمَا فَجَاہِدْ)) ’’ پھر انہی کی خدمت کرکے جہاد کر ۔ ‘‘ صحیح البخاری:5972، صحیح مسلم :2549
دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا :
(( أُبَایِعُکَ عَلَی الْہِجْرَۃِ وَالْجِہَادِ ،أَبْتَغِیْ الْأجْرَ مِنَ اللّٰہِ )) یعنی میں ہجرت اور جہاد پر آپ کی بیعت کرتا ہوں اور میں اس پر صرف اللہ تعالیٰ سے اجر کا طلبگار ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( فَہَلْ مِنْ وَّالِدَیْکَ أَحَدٌ حَیٌّ ؟ ))
’’ کیا تمھارے ماں باپ میں سے کوئی موجود ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی ہاں دونوں زندہ ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَتَبْتَغِیْ الْأجْرَ مِنَ اللّٰہِ ؟ ))
’’ کیا تم اللہ تعالیٰ سے اجر کے طالب ہو ؟ ‘‘اس نے کہا : جی ہاں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَارْجِعْ إلٰی وَالِدَیْکَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَہُمَا )) صحیح مسلم :2549
’’ اپنے ماں باپ کے پاس واپس چلے جاؤ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ۔ ‘‘
03. والدین کی خدمت کرنا جنت میں لے جانے والا عمل ہے
حضرت معاویۃ بن جاہمۃ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جاہمۃ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمھاری ماں ( زندہ) ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَالْزَمْہَا، فَإِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْدَ رِجْلِہَا )) سنن النسائی:11/6:3104،ابن ماجہ:2781،الألبانی:حسن صحیح:صحیح الترغیب والترہیب:2485
’’ ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔ ‘‘
جبکہ ایک روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:قَالَ:أَتَیْتُ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم أَسْتَشِیْرُہُ فِیْ الْجِہَادِ، فَقَالَ:أَلَکَ وَالِدَانِ؟قُلْتُ:نَعَمْ،قَالَ: الْزَمْہُمَا فَإنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ أَرْجُلِہِمَا
یعنی حضرت جاہمۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد کے بارے میں مشورہ طلب کیا ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا تمھارے والدین زندہ ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جاؤ انہی کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے ۔ ‘‘ الطبرانی:289/2 ۔الہیثمی:رجالہ رجال الصحیح:مجمع الزوائد:138/8،الألبانی:حسن صحیح: صحیح الترغیب والترہیب:2485
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بد نصیب قرار دیا جو والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پا کر بھی جنت میں داخل نہ ہو سکے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( رَغِمَ أَنْفُہُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہُ)) ’’ اس شخص کی ناک خاک میں ملے ، اس شخص کی ناک خاک میں ملے ،اس شخص کی ناک خاک میں ملے !! ( تین مرتبہ)
قِیْلَ : مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ پوچھا گیا : کس کی اے اللہ کے رسول ؟
قَالَ: (( مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَوْ أَحَدَہُمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ )) صحیح مسلم:2551
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو بحالتِ بڑھاپا پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہوا ۔ ‘‘
یعنی ان کی خدمت کرکے یا ان کو راضی رکھ کر جنت کا حقدار نہ بنا۔
اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ،فَسَمِعْتُ فِیْہَا قِرَائَ ۃً،فَقُلْتُ:مَنْ ہٰذَا ؟ قَالُوْا :حَارِثَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ)) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم :(( کَذَلِکُمُ الْبِرُّ کَذَلِکُمُ الْبِرُّ )) ، وفی روایۃ لعبد الرزاق ، قَالَ : (( وَکَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّہٖ))
’’ میں جنت میں گیا تو وہاں میں نے قراء ت سنی ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ تو جواب ملا : یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ( ماں باپ سے ) نیکی اسی طرح ہوتی ہے ۔ (ماں باپ سے ) نیکی کا یہی فائدہ ہوتا ہے ‘‘ اور مصنف عبد الرزاق کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ وہ اپنی ماں کے ساتھ بہت نیکو کار تھے ۔ ‘‘ صحیح البخاری فی خلق أفعال العباد:109/1،مصنف عبد الرزاق :20119 ، أحمد فی المسند: 151/6،166،وفی فضائل الصحابۃ:1507،الحاکم: 216/4برقم:4982: صحیح علی شرط الشیخین،البغوی فی شرح السنۃ:13/7برقم :3419
04.والدین سے حسن سلوک کرنا بڑے گناہوں کا کفارہ ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک بہت بڑا گنا ہ کیا ہے ، توکیا میری توبہ کی قبولیت کا کوئی راستہ ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمھاری ماں ( زندہ) ہے ؟
اس نے کہا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمھاری خالہ ہے؟ اس نے کہا : جی ہاں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تب اسی کے ساتھ نیکی کر و ۔ ‘‘ سنن الترمذی ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :2504
معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بڑے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے حتی کہ اگر ماں (زندہ) نہ ہو تو خالہ ہی کے ساتھ حسن سلوک کردے کہ یہ بھی گویا ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔
05. والدین کی رضا میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( رِضَا الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ رِضَا الْوَالِدَیْنِ، وَسَخَطُ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ سَخَطِ الْوَالِدَیْنِ )) رواہ البزار۔صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :2503
’’رب تبارک وتعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضامندی میں ہے اور رب تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے ۔ ‘‘
06. والدین سے حسن سلوک کرنے سے عمر میں برکت اور رزق میں فراوانی آتی ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یُّمَدَّ لَہُ فِیْ عُمُرِہٖ ، وَیُزَادَ فِیْ رِزْقِہٖ فَلْیَبَرَّ وَالِدَیْہِ وَلْیَصِلْ رَحِمَہُ )) أحمد:266/3،قال الہیثمی:رجالہ رجال الصحیح:مجمع الزوائد:136/8،صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :2488
’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اس کی عمر لمبی کر دی جائے اور اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے تو وہ والدین سے اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘
07. والدین کی خدمت کرنے والے شخص کی دعا قبول ہوتی ہے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تین آدمی پیدل جا رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے انھیں پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لینا پڑی ۔ جب وہ غار کے اندر چلے گئے تو پہاڑ سے ایک پتھر غار کے منہ پر آکر گرا جس سے اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب وہ آپس میں کہنے لگے : دیکھو ! وہ نیک اعمال جو تم نے خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کئے ہوں ، آج انہی اعمال کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرکے دعا کرو ، شاید وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دے دے ۔
چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا :
اے اللہ ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے ۔ میں بکریاں چراتااور ان کیلئے دودھ لے آتا ۔اور شام کو جب میں گھر واپس لوٹتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پیش کرتا ، پھر اپنے بچوں کو دیتا ۔ ایک دن میں چراگاہ دور ہونے کی وجہ سے گھر میں تاخیر سے پہنچا ۔ تو میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں ، میں نے دودھ لیا اور ان کے سر کے قریب کھڑا ہو کر ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھاکہ میں خود انھیں جگاؤں اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میں بچوں کو ان سے پہلے دودھ پلاؤں حالانکہ بچے بھوک کی وجہ سے میرے پیروں کے قریب بلبلا رہے تھے۔ لہٰذا میں اسی طرح ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا ، وہ سوئے رہے اور میرے بچے بلبلاتے رہے حتی کہ فجر ہو گئی ۔ ( اے اللہ! ) تجھے معلوم ہے کہ میں نے وہ عمل صرف تیری رضا کیلئے کیا تھا ۔ لہٰذا تو اس پتھر کو کم از کم اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی اور اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ وہ آسمان کو دیکھ سکتے تھے …باقی دونوں آدمیوں میں سے ایک نے اپنے مزدور سے حسن سلوک کی نیکی پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو وہ پتھر تھوڑا سا اور کھسک گیا لیکن اب بھی وہ باہر نہ نکل سکتے تھے ۔ اب تیسرے آدمی نے دعا کی تو اس نے اپنی ایک چچا زاد سے محبت کا ذکر کیا جس میں نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ وہ اس سے بد کاری کرنے کے عین قریب پہنچ گیا۔لڑکی نے اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا کہا تو اس نے بد کاری کا ارادہ ترک کر دیا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُس پتھر کو غار کے منہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا ۔‘‘ صحیح البخاری،الأدب باب إجابۃ دعاء من بر والدیہ:5974،صحیح مسلم:2743
اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین سے نیکی کرنے والے اور ان کے خدمت گذار انسان کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کے اِس عمل کی وجہ سے اس کی کئی پریشانیاں ختم کردیتا ہے ۔
والدین کی نافرمانی کرنا اور انھیں اذیت پہنچانا…ایک بھیانک جرم
برادران اسلام ! والدین سے حسن سلوک کرنے کے فضائل کے بعد اب والدین کی نافرمانی کرنے اور انھیں اذیت پہنچانے اور ان سے بدسلوکی کرنے کے خطرناک نتائج بھی سماعت کر لیں:
01.والدین کی نافرمانی کرنا کبیرہ گناہ ہے
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ؟ ))
’’ کیا میں تمھیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘
ہم نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال تین بار کیا ۔ اس کے بعد فرمایا :
(( اَلْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ ))
’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور انھیں اذیت پہنچانا ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے ، پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :
(( أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْرِ، أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْرِ))
’’ خبردار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی( سے بچنا) ، خبردار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی (سے بچنا )‘‘ … آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح بار بار کہتے رہے حتی کہ ہم ( دل میں ) کہنے لگے : کاش آپ خاموش ہو جاتے ۔ صحیح البخاری،الأدب باب عقوق الوالدین من الکبائر:5976،مسلم،الإیمان :87
النسائی والبزار والحاکم : صحیح التر غیب والترہیب :2511
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( عقوق الوالدین ) کو کبیرہ گناہ قرار دیا اور اسے شرک کے فورا بعد ذکر فرمایا جو اس کے برے ہونے اور سنگین جرم ہونے کی دلیل ہے ۔ یاد رہے کہ (عقوق ) کا معنی عام طور پر صرف نافرمانی سے کیا جاتا ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے ، کیونکہ نافرمانی کے ساتھ ساتھ والدین سے بد سلوکی کرنا اور انھیں کسی طرح سے اذیت پہنچانا بھی اس کے اندر شامل ہے ۔
02. والدین سے بد سلوکی کرنے والا انسان اللہ تعالیٰ کی نظرِ رحمت اور جنت سے محروم
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ثَلَاثَۃٌ لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : اَلْعَاقُّ لِوَالِدَیْہِ،وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ، وَالْمَنَّانُ عَطَائَ ہُ،وَثَلَاثَۃٌ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ:اَلْعَاقُّ لِوَالِدَیْہِ،وَالدَّیُّوْثُ، وَالرَّجِلَۃُ)) النسائی والبزار والحاکم : صحیح التر غیب والترہیب :2511
’’ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کرے گا : والدین کا نافرمان (اور ان سے بد سلوکی کرنے والا ۔) ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا اور احسان جتلانے والا اور تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہو نگے : والدین کا نافرمان اور انھیں اذیت پہنچانے والا ، دیوث
( جس کے گھر میں بد کاری ہورہی ہو اور وہ اصلاح کا فریضہ ادا نہ کرتا ہو۔) اور وہ عورت جو مردوں جیسی وضع قطع بناتی اور ان سے مشابہت اختیار کرتی ہو ۔‘‘
03. والدین کے نافرمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور آپ نے تین بار (آمین) کہا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ علیہ السلام فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ! مَنْ أَدْرَکَ أَحَدَ أَبَوَیْہِ فَمَاتَ، فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ،قُلْ : آمِیْن، فَقُلْتُ : آمِیْن،فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ! مَنْ أَدْرَکَ شَہْرَ رَمَضَانَ فَمَاتَ،فَلَمْ یُغْفَرْ لَہُ،فَأُدْخِلَ النَّارَ،فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ،قُلْ:آمِیْن،فَقُلْتُ: آمِیْن،قَالَ:وَمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ فَمَاتَ،فَدَخَلَ النَّارَ،فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ ،قُلْ:آمِیْن،فَقُلْتُ آمِیْن )) ابن حبان:188/3 :907،صحیح الترغیب والترہیب :2491
’’ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے آکر کہا : اے محمد ! جو آدمی اپنے والدین (دونوں یا ان ) میں سے کسی ایک کو پائے ( پھر ان سے نیکی نہ کرے۔) پھر وہ مر جائے اور جہنم میں چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے ) دور کر دے ۔ آپ کہیں : ( آمین ) تو میں نے کہا : ( آمین ) پھر انھوں نے کہا: اے محمد ! جس شخص نے ماہِ رمضان المبارک پایا پھر وہ اس حالت میں مر گیا کہ اس کی مغفرت نہیں کی گئی اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی (اپنی رحمت سے ) دور کردے ۔آپ کہیں : ( آمین ) تو میں نے کہا : ( آمین ) انھوں نے کہا : اور جس شخص کے پاس آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہیں پڑھا ، پھر اس کی موت آگئی اور وہ جہنم میں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ( اپنی رحمت سے ) دور کردے ۔ آپ کہیں : (آمین ) تو میں نے کہا : (آمین )۔ ‘‘
04. والدین کے نافرمان کا کوئی نیک عمل اس کیلئے فائدہ مندنہیں
حضرت عمرو بن مرۃ الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں پانچ نمازیں پڑھوں گا ، اپنے مال کی زکاۃ ادا کرونگا اور رمضان کے روزے رکھوں گا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر فرمایا :
(( مَنْ مَاتَ عَلٰی ہٰذَا کَانَ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَا لَمْ یَعُقَّ وَالِدَیْہِ )) ابن حبان: 223/8:3438،ابن خزیمہ:340/3:2212،وقال الألبانی: صحیح،صحیح الترغیب والترہیب:2515
’’ جس شخص کی موت اسی پر آئے گی وہ قیامت کے روز نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا بشرطیکہ اس نے والدین کی نافرمانی اور ان سے بد سلوکی نہ کی ہو ۔ ‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بشارت سنائی کہ جو شخص ان اعمال پر مرے گا اسے انبیاء ، صدیقین اور شہداء کا ساتھ نصیب ہو گا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کے ساتھ مشروط کردیا کہ وہ والدین کی نافرمانی نہ کرے یعنی اگر وہ ان کی نافرمانی اور ان سے بد سلوکی کا ارتکاب کرے گا تو اس کا کوئی نیک عمل اس کیلئے فائدہ مند نہیں ہو گا ۔ اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ والدین سے بد سلوکی کرنا کتنا برا عمل ہے کہ اس کی وجہ سے
نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں! والعیاذ باللہ۔
05. والدین کا نافر مان ملعون ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَلْعُوْنٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ ، مَلْعُوْنٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ، مَلْعُوْنٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ،مَلْعُوْنٌ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ،مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ)) الطبرانی فی الأوسط:234/8،والحاکم:396/4،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2420
’’ وہ شخص ملعون ہے جس نے قوم لوط والا عمل کیا ، وہ شخص ملعون ہے جس نے قوم لوط والا عمل کیا ، وہ شخص ملعون ہے جس نے قوم لوط والا عمل کیا اور وہ شخص بھی ملعون ہے جس نے غیر اللہ کیلئے جانورذبح کیا اور وہ شخص بھی ملعون ہے جس نے والدین کی نافرمانی کی یا ان سے بد سلوکی کی ۔ ‘‘
والدین کے ایک نافرمان کا عبرتناک انجام
عوام بن حوشب ( ایک راوی ٔ حدیث ) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک محلے میں گیا ، وہاں ایک قبرستان بھی تھا اور جب عصر کے بعد کا وقت آیا تو اس میں ایک قبر پھٹی اور اس میں سے ایک آدمی رونما ہوا جس کا سر گدھے جیسا تھا اور باقی جسم انسانی جسم جیسا ۔پھر اس نے تین مرتبہ گدھے جیسی آواز نکالی اور اس کے بعد وہ قبر میں چلا گیا ۔پھر قبر اس پر بند ہو گئی ۔ اچانک میں نے ایک بوڑھی عورت دیکھی جو اُونی دھاگہ کات رہی تھی ۔ تو ایک عورت نے مجھے بتایا کہ یہ اُس آدمی کی ماں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اصل ماجرا کیا ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ اس کا بیٹادراصل شراب نوشی کرتا تھا اور اس کی ماں اسے کہتی تھی : میرے پیارے بیٹے! اللہ سے ڈر ! تو کب تک شراب پیتا رہے گا ؟ تووہ کہتا : تُو تو بس گدھے جیسی آواز ہی نکالتی رہتی ہے ! پھر وہ عصر کے بعد مر گیا اور تب سے اب تک یہ روزانہ اسی طرح قبر سے باہر آتا ہے اور تین مرتبہ گدھے کی آواز نکال کر قبر میں چلا جاتا ہے۔ رواہ الأصبہانی ۔ وقال الألبانی : حسن موقوف : صحیح الترغیب والترہیب:2517
سنن ابن ماجہ:2292۔ وصححہ الألبانی
برادران اسلام ! یہ تھا والدین کے ایک نافرمان اور ان سے بد سلوکی کرنے والے انسان کا عبرتناک انجام۔ اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی اطاعت کرنے ،ان کی خدمت کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
عزیزان گرامی ! آئیے اب ہم آپ کو یہ بھی بتلا دیں کہ والدین سے حسن سلوک کی مختلف صورتیں اور اولاد پر والدین کے حقوق کیا ہیں؟
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی مختلف صورتیں اور ان کے حقوق
01. والدین اگر ضرورتمند ہوں تو اولاد ان پر خرچ کرے
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میرا باپ مجھ سے میرا مال لینا چاہتا ہے ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ،إِنَّ أَطْیَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ،وَإِنَّ أَمْوَالَ أَوْلَادِکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ فَکُلُوْہُ ہَنِیْئًا )) سنن ابن ماجہ:2292۔ وصححہ الألبانی
’’ تم اور تمھارا مال تمھارے والد کیلئے ہے ۔ بے شک سب سے پاکیزہ چیز جسے تم کھاؤ وہ وہ چیز ہے جو تمھاری کمائی سے ہو اور تمھاری اولاد کے مال تمھاری کمائی سے ہیں ، اس لئے اسے بخوشی کھاسکتے ہو ۔ ‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ والدین اگر محتاج ہوں اور اولاد مالدار ہو تو وہ اپنے والدین کے اخراجات برداشت کرے اور انھیں خرچہ دے ۔
02. والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا منع ہے
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الأدب میں ایک باب ( لَا یُجَاہِدُ إِلَّا بِإِذْنِ الْأبَوَیْنِ ) ’’والدین کی اجازت کے بغیر وہ جہاد نہیں کر سکتا ‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے اور اس کے تحت حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے جس میں انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے جہاد کی اجازت طلب کی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تو پھر ان کی خدمت کرکے ہی جہاد کرو ۔ ‘‘ صحیح البخاری:5972
اس کے علاوہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : کیا یمن میں تمھارا کوئی رشتہ دار ہے ؟ اس نے کہا : میرے ماں باپ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا انھوں نے تجھے اجازت دی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَارْجِعْ إِلَیْہِمَا فَاسْتَأْذِنْہُمَا،فَإِنْ أَذِنَا لَکَ فَجَاہِدْ،وَإِلَّا فَبِرَّہُمَا )) سنن ابو داؤد:2530،قال الألبانی:صحیح : صحیح الترغیب والترہیب:2482
’’ تو ان کے پاس واپس لوٹ جا اور ان سے اجازت طلب کر۔ اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرنا ورنہ ان کے ساتھ نیکی بجا لانا ۔ ‘‘
03. والدین سے حسن سلوک اور ان کی فرمانبرداری نفلی عبادت پر مقدم ہے
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ایک اور شکل یہ ہے کہ جب والدین خدمت کے محتاج ہوں تواولاد نفل عبادت پر ان کی خدمت کرنے کو ترجیح دے۔ اس لئے کہ ان کی خدمت ورضا مندی نفل عبادت پر مقدم ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تین بچوں کے سوا کسی نے ماں کی گود میں گفتگو نہیں کی ، عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) اور صاحبِ جریج ۔ جریج ایک عابد تھاجس نے ایک عبادت خانہ بنا رکھا تھا ۔ ایک دن وہ اس میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اس نے کہا : اے جریج ! تو اس نے دل میں کہا : یا اللہ ! ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز ۔ چنانچہ وہ نماز میں لگا رہا حتی کہ اس کی ماں واپس چلی گئی ۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی اور اس نے پکارکر کہا : اے جریج ! تو اس نے دل میں کہا : یا اللہ ! ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز ۔ آخر وہ نماز میں لگا رہا ( اب اس کی ماں کے منہ سے بد دعا نکل گئی) کہنے لگی : یا اللہ اسے موت نہ دینا جب تک کہ یہ کسی بد کار عورت کا منہ نہ دیکھ لے ۔
اُدھر بنی اسرائیل میں جریج اور اس کی عبادت کا چرچا ہونے لگا ۔ اُن میں ایک بد کار عورت تھی جس کے حسن وجمال کو بطور مثال بیان کیا جاتا تھا ۔ وہ کہنے لگی : اگر تم چاہتے ہو تو میں اسے پھنساؤں ؟ چنانچہ اس نے اپنے آپ کو جریج پر پیش کیا لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا ۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا اور اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا ۔ چرواہے نے اس سے صحبت کی تو وہ حاملہ ہو گئی ۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو کہنے لگی : یہ جریج کا بیٹا ہے ۔ لوگ آئے ، جریج کو عبادت خانہ سے باہر نکال کر عبادت خانہ کو منہدم کردیا اور جریج کی پٹائی کرنے لگے ۔ جریج نے پوچھا : کوئی بات تو بتاؤ ؟ وہ کہنے لگے: تو نے اس فاحشہ سے زنا کیا اور اب تو اس کے بچہ بھی پیدا ہو چکا ہے ۔ جریج نے کہا : وہ بچہ کہاں ہے ؟ لوگ بچہ
لے آئے ۔ تو جریج نے کہا : ذرا ٹھہرو میں نماز پڑھ لوں ۔ پھروہ نماز سے فارغ ہوکر بچہ کے پاس آیا ۔ اس کے پیٹ میں کچوکا دیا اور کہا : بچے ! بتاؤ تمھارا باپ کون ہے ؟ بچہ بول اٹھا : فلاں چرواہا ہے ۔ پھر تو لوگ جریج کے پاس آکر اسے بوسے دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تمھارے لئے سونے کا عبادت خانہ بنا دیتے ہیں۔ جریج نے کہا : نہیں۔ بس ایسا ہی مٹی کا بنا دو۔ چنانچہ انھوں نے عبادت خانہ بنا دیا ۔۔۔۔۔۔الخ ‘‘ صحیح البخاری،أحادیث الأنبیاء باب قول اﷲ تعالیٰ (وَاذْکُرْفِیْ الْکِتَابِ مَرْیَمَ):3436، مسلم،البر والصلہ،باب تقدیم بر الوالدین علی التطوع بالصلاۃ وغیرہا: 2550
یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ نفل عبادت پر والدین کی خدمت اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری مقدم ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ والدین کی بد دعا کا انجام کیا ہوتا ہے !
04.والدین کو برا بھلا کہنا منع ہے
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَّلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ ، قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَکَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ : یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ )) صحیح البخاری،الأدب باب لا یسب الرجل والدیہ:5973صحیح مسلم:الإیمان باب الکبائر وأکبرہا:90
’’بے شک کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی اپنے والدین پر بھی لعنت بھیجتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے تو اُس کے نتیجے میں وہ اِس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے اور وہ کسی کی ماں کو گالیاں دیتا ہے تو وہ اِس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے ۔ ‘‘
گویا کسی کے ماں باپ کو گالیاں دینے کے نتیجے میں اگر اپنے ماں باپ کو گالیاں پڑیں تو وہ اپنے والدین کو خود گالیاں دینے کے مترادف ہے اورکسی اور سے گالی دلوانا ویسا ہی ہے جیسے وہ خود ان کو گالی دے اور یہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے ۔
05.والدین کے حق میں دعا کرنا
ہم نے اس خطبہ کے شروع میں سورۃ بنی اسرائیل کی ایک آیت کے حوالے سے یہ ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ
نے والدین کے حق میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا ہے :
﴿ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾ الإسراء17:24
لہٰذا والدین کے حق میں یہ دعا ضرور کرنی چاہئے ۔
اورحضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) نے والدین کے حق میں یوں دعا کی :
﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ ﴾ ابراہیم14:41
’’اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے ۔ ‘‘
لیکن انھوں نے اپنے باپ کیلئے یہ دعا اس وقت تک کی جب تک ان کیلئے یہ بات واضح نہ ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔پھر اس بات کے واضح ہونے کے بعد انھوں نے اس کے حق میں دعا ترک کردی جیسا کہسورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۱۱۴ میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کیونکہ کافر کے حق میں بخشش کی دعا کرنا درست نہیں۔
اور حضرت نوح علیہ السلام نے یوں دعا کی تھی:
﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾ نوح71:28
’’ اے میرے رب ! مجھے ، میرے والدین اور ہر مومن کو بخش دے جو میرے گھر میں بحالتِ ایمان داخل ہوا اور اسی طرح دیگر تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے ۔ ‘‘
اور نیک اولاد وہ ہوتی ہے جو اپنے والدین کی موت کے بعد بھی ان کیلئے دعا کرتی رہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ : صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ)) مسلم ۔الوصیۃ باب ما یلحق الإنسان من الثواب:1631
’’ جب انسان مر جاتا ہے کہ تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ ، علمِ نافع اور صالح اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی رہے ۔ ‘‘
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کیلئے جاری رہتا
ہے ۔ ان میں سے ایک نیک اولاد ہے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد بھی ان کیلئے دعا کرتی رہے ۔اس لئے اولاد کو والدین کی موت کے بعد ان کے حق میں دعائے مغفرت ودعائے رفع ِدرجات کرتے رہنا چاہئے ۔
06.والدین اگر معقول عذر کی بنا ء پر بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیں تو اس کی تعمیل کی جائے
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ایک صورت یہ ہے کہ اگر ماں باپ کسی معقول عذر کی بناء پر بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیں تو وہ ان کی اطاعت کرے ۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میری ماں کا میرے لئے حکم ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ تو انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا :
(( اَلْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ)) یعنی ’’ باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے ‘‘ اب تُوچاہے تواس دروازے کی حفاظت کر اور چاہے تو اسے ضائع کر ۔ ‘‘ سنن الترمذی:1900،سنن ابن ماجہ : 3663،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2486
اسی طرح اس حدیث کو ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے لیکن اس میں بجائے ماں کے باپ کا ذکر ہے۔ یعنی باپ نے طلاق دینے کا حکم دیا اور اس میں یہ بھی ہے کہ اس شخص نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ ابن حبان:167/2 :425
اورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میری ایک بیوی تھی جس سے میں محبت کرتا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے ناخوش تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا:اسے طلاق دے دو لیکن میں نے ان کی بات نہ مانی۔چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ بات ان کے سامنے ذکر کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ’’اسے طلاق دے دو ۔ ‘‘ أحمد:20/2،سنن الترمذی :1189:حسن صحیح،أبو داؤد:5138،ابن ماجہ:2088، ابن حبان:170/2:427،الحاکم:453/4:صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی، وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2487
اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اشارے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ
’’…ایک دفعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیوی بچے کو دیکھنے آئے ، اُس وقت اسماعیل علیہ السلام خود گھر پر نہ
تھے۔ آپ نے ان کی بیوی سے ان کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگیں : روزی کی تلاش میں نکلے ہیں ۔ پھر آپ نے اس سے گذر بسر کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگیں : بڑی تنگی سے زندگی بسر ہورہی ہے اور سختی کی آپ سے خوب شکایت کی ۔ آپ علیہ السلام نے کہا : جب تیرا خاوند آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دے۔ چنانچہ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو انھوں نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی مہمان آیا ہو ۔ بیوی سے پوچھا کہ کیا کوئی آیا تھا ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ اِس طرح کا ایک بوڑھا آیا تھا ، تمھارے متعلق پوچھتا تھا ۔ تو میں نے اسے بتا دیا ۔ پھر پوچھا کہ تمھاری گذران کیسے ہوتی ہے ؟ تو میں نے کہا : بڑی تنگی ترشی سے دن کاٹ رہے ہیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے پوچھا : کچھ او ربھی کہا تھا ؟ کہنے لگی : ہاں ۔ تمھیں سلام کہا تھا اور کہا تھا کہ گھر کی چوکھٹ تبدیل کردو ۔ اسماعیل علیہ السلام کہنے لگے : وہ میرے والد تھے اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں چھوڑ دوں ۔ لہٰذا اب تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسے طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت کے ساتھ شادی کر لی ۔۔۔الخ صحیح البخاری:3364
07. والدین کی وفات کے بعدان کی طرف سے صدقہ کرنا
ماں باپ سے نیکی کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے کچھ مال چھوڑا ہے اور وصیت نہیں کی ۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کردوں تو کیا اس کے گناہوں کو مٹا دیا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔ صحیح مسلم ،الوصیۃ باب وصول ثواب الصدقات إلی المیت :1630
اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! بے شک میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہے اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ کوئی بات کرتی تو یقینا صدقہ کرنے کا حکم دیتی ۔ لہٰذا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے اجر ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ صحیح البخاری :1388،صحیح مسلم :1004
جبکہ حضرت ابو اسید الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں بنو
سلمہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول !
(( ہَلْ بَقِیَ مِنْ بِرِّ أَبَوَیَّ شَیْئٌ أَبَرُّہُمَا بِہٖ بَعْدَ مَوْتِہِمَا ؟))
’’ ماں باپ کی موت کے بعد کیا کوئی نیکی باقی ہے جو میں ان کے ساتھ بجا لاؤں ؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( نَعَمْ،اَلصَّلَاۃُ عَلَیْہِمَا،وَالْاِسْتِغْفَارُ لَہُمَا،وَإِنْفَاذُ عَہْدِہِمَا مِنْ بَعْدِہِمَا ، وَصِلَۃُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لَا تُوْصَلُ إِلَّا بِہِمَا،وَإِکْرَامُ صَدِیْقِہِمَا ))
یعنی ’’ ان کی نماز جنازہ پڑھنا۔ ‘‘
’’ ان کیلئے استغفار کرنا ۔‘‘
’’ ان کے بعد ان کے عہد کوجاری رکھنا ۔‘‘ یعنی ان کی وصیت واقرار کو پورا کرنا ۔
’’جو لوگ ماں باپ کے رشتہ کی وجہ سے لائقِ صلہ ہوں (جیسے خالہ ، نانی ، چچا ، دادا ) ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ماں باپ کے دوستوں کی عزت وخاطر داری کرنا ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد :5142، سنن ابن ماجہ :3664
یہ حدیث دلیل ہے اس بات پر کہ یہ سب کام صلۂ والدین وحقوقِ ابوین میں شامل ہیں ۔ اس حدیث کو ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے ۔تاہم اس کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:( قَالَ الرَّجُلُ : مَا أَکْثَرَ ہٰذَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَأَطْیَبَہُ ! قَالَ : فَاعْمَلْ بِہٖ ) ابن حبان:162/2:418
یعنی اس شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول!یہ کتنی زیادہ اور کتنی اچھی باتیں ہیں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر اچھی ہیں تو ان پر عمل کیا کر۔‘‘
اورجب حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی والدہ کے انتقال کی خبر دی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کونسا صدقہ سب سے افضل ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانی کا صدقہ بہترین صدقہ ہے ۔ چنانچہ انھوں نے اپنی ماں کی طرف سے ایک کنواں بنوا دیا اور کہا : (ہٰذِہٖ لِأُمِّ سَعْدٍ ) یعنی یہ ام سعد کیلئے ہے۔ سنن أبی داؤد:130/2:1681،وحسنہ الألبانی فی صحیح أبی داؤد،وصحیح الترغیب والترہیب:962
08.والدین کی نذر کو پورا کرنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے
لگی : میری ماں نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی ہے ۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( نَعَمْ حُجِّیْ عَنْہَا،أَرَأَیْتِ لَوْ کَانَ عَلیٰ أُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَۃً ؟ اِقْضُوْا اللّٰہَ ، فَاللّٰہُ أَحَقُّ بِالْوَفَائِ )) صحیح البخاری:1852
’’ ہاں اس کی طرف سے حج کرو ۔ تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر تمھاری ماں پر قرضہ ہوتا تو کیا تم ادا کرتی ؟ اللہ کا قرضہ ادا کرو کیونکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرضہ ادا کیا جائے ۔ ‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر والدین اپنی نذر پوری کرنے سے پہلے فوت ہو جائیں اور اولاد نذر پوری کرنے کی طاقت رکھتی ہو تو اسے وہ نذر پوری کرنی چاہئے ۔
09. والدین کے دوستوں سے حسن سلوک کرنا
والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ جو لوگ ماں باپ کے دوست ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، خاطر داری ،ادب ولحاظ اورمروت سے پیش آئے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَۃُ الرَّجُلِ أَہْلَ وُدِّ أَبِیْہِ بَعْدَ أَنْ یُّوَلِّیَ )) صحیح مسلم:2552
’’بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کی موت کے بعد حسن سلوک کرے ۔ ‘‘
اور یہی حکم ماں کی سہیلیوں کا بھی ہے۔ اسلئے کہ لفظ (أب) اسم جنس ہے اور اس میں ماں بھی شامل ہے ۔
عبد اللہ بن دینار کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک اعرابی مکہ کے راستے میں ملا ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کیا اور اپنے گدھے پر سوار کرلیا جس پر وہ خود سوار تھے اور اپنا عمامہ اس کو دے دیا جو خود ان کے سر پر تھا۔ عبد اللہ بن دینا ر نے کہا : أَصْلَحَکَ اللّٰہُ ! یہ لوگ دیہاتی ہیں ، تھوڑی سی چیز پر بھی خوش ہو جاتے ہیں! تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کا باپ میرے باپ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا دوست تھا اور میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا : (( إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَۃُ الْوَلَدِ أَہْلَ وُدِّ أَبِیْہِ )) صحیح مسلم :2552
’’ بے شک بڑی نیکی یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے دوستوں سے حسن ِ سلوک کرے ۔ ‘‘
اورحضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں آیا تو میرے پاس حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور کہنے لگے : کیا تم جانتے ہو کہ میں تمھارے پاس کیوں آیا ہوں؟ میں نے کہا : نہیں ۔ تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا کہ آپ نے فرمایا:
(( مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَّصِلَ أَبَاہُ فِیْ قَبْرِہٖ فَلْیَصِلْ إخْوَانَ أَبِیْہِ ))
’’ جو شخص یہ پسند کرے کہ وہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد بھی اس سے حسن ِ سلوک کرے تو وہ اس کے دوستوں سے حسن ِ سلوک کرے ۔‘‘
اور میرے باپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور تمھارے باپ کے درمیان برادرانہ ودوستانہ تعلق تھا ۔ تو میں نے اپنے والد سے صلہ کرنا چاہا۔ ابن حبان:175/2:432، الألبانی : حسن : صحیح الترغیب والترہیب:2506
10.والدین کو غلامی سے آزادی دلوانا
والدین سے حسن سلوک کی صورتوں اور ان کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ اگر ماں باپ کو کسی کا غلام یا نوکر پائے اور وہ انھیں آزاد کرانے کی قدرت رکھتا ہو تو قیدِ غلامی سے انھیں رہائی دلوائے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا یَجْزِی وَلَدٌ وَالِدَہُ إِلَّا أَنْ یَّجِدَہُ مَمْلُوْکًا فَیَشْتَرِیَہُ فَیُعْتِقَہُ )) صحیح مسلم:1510، سنن أبی داؤد :5137 ، سنن الترمذی :1906،سنن ابن ماجہ : 3659 ،سنن النسائی :4896
’’ کوئی بچہ اپنے والد کا مکمل حق ادا نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے غلام پائے ، پھر اسے خرید کر آزاد کردے ۔ ‘‘
والدین کے یہ دس حقوق ذکرکرتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گوہیں کہ وہ ہم سب کو والدین سے حسن سلوک کرنے اور ان کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین