واقعہ معراج

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾[بنی اسرائیل:1]
بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے جتنے انبیاء ورسل مبعوث کیے گئے وہ تمام کے تمام قبل از نبوت اور بعد از بعثت اخلاق و کردار میں اس قدر پاکیزہ، معاملات میں اس قدر صاف، گفتار میں اس قدر سچے، خصائل حمیدہ سے اس قدر متصف اور عادات قبیحہ سے اس قدر محفوظ و موصون تھے کہ ان کی زندگی کا ہر پہلو اور ہر مرحلہ دعوائے نبوت میں ان کی سچائی اور صداقت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
اور ان تمام خوبیوں میں سب سے ممتاز، نمایاں اور سرفہرست امام الانبیاء سید آدم، صاحب لواء الحمد، شافع روز جزا، جناب محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ نے تو ولد سب سے پہلے اعلان نبوت کرتے وقت اپنی چالیس سالہ قبل از نبوت زندگی کو لوگوں کے سامنے رکھا اور چیلنج کرتے ہوئے فرمایا:
(هَلْ وَجَدْتُمُونِي صَادِقًا أَوْ كَاذِبًا)
’’لوگو! بتلاؤ میں نے تمہارے درمیان چالیس برس گزارے ہیں، کیا تم نے مجھے کردار و اخلاق میں امانت و دیانت میں اور قول و گفتار میں سچا اور کھرا پایا ہے یا جھوٹا؟‘‘(بخاري، التفسير سورة ﴿تبت يدا أبي لهب﴾ (4971) و مسلم (208)]
تو سب نے بیک زبان جواب دیا ہم نے آپ کو کھرا اور سچا پایا ہے۔ جھوٹا نہیں پایا۔
بہر حال نبی اور رسول کی پاک اور صاف زندگی اور بے داغ حیات مبارکہ بذات خود پیغمبر کی صداقت دلیل واضح اور برھان سالع ہے لیکن اس کے باوجود رب ارض وسماء نے حجت پوری کرنے کے لیے اور شکوک و شبہات کا دروازہ بند کرنے کے لیے ہر دور میں ہر پیغمبر اور رسول کو ایسے ایسے معجزات عطاء فرمائے جن سے پیغمبروں کی صداقت اظهر من الشمس ہوگئی اور ان کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ یہ واقعہ اللہ کے نمائندہ سفیر اور رسول ہیں۔
قرآن وسنت میں بعض انبیاء کرام کے معجزات مذکور ہیں۔ مثلاً: حضرت صالح علیہ السلام کو ملنے والی اونٹنی جسے ’’نافۃ اللہ‘‘ کہا گیا ہے کیونکہ وہ اونٹنی ظاہری اسباب کے بغیر ایک چٹان سے پیدا ہوئی تھی اور اللہ کی قدرت کی زبردست نشانی اور حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق تھی۔
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کو ملنے والی نشانیاں جو سورۃ الاعراف وغیرہ میں مذکور ہیں عصاء، ید بیضاء، فلق البحر، بادلوں کا سایہ، من و سلوی کا نزول اور پتھر سے بارہ چشموں کا پھوٹنا وغیرہ۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملنے والے معجزات قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہیں: مثلاً مردے زندہ کرنا، پھلبہری والے اور پیدائشی اندھے کو ٹھیک کرنا وغیرہ اور سب سے زیادہ معجزات خاتم النبین رحمة للعلمین جناب محمد رسول الله ﷺ کو دیئے گئے۔ کبھی پتھر بول کر سلام کہہ رہا ہے کبھی کھجور کا تنا آپ کے خطبے سے محروم ہونے پر بچوں کی طرح رو رہا ہے کبھی چاند دو ٹکڑے ہو رہا ہے کبھی انگلیوں سے چشمے جاری ہو رہے ہیں اور 15 سو افراد وضو بھی کر لیتے ہیں نہانے والے نہا بھی لیتے ہیں۔ سیر اب بھی ہو جاتے ہیں اور برتن بھی بھر لیتے ہیں۔
کبھی کھانے کے لقمے سے سبحان اللہ کی آواز آرہی ہے کبھی ہاتھ پھیرنے سے چھڑی ٹیوب لائٹ کی طرح چمکنے لگتی ہے کبھی چند افراد کا کھانا تین سو افراد کھا کر سیر ہو رہے ہیں۔
کبھی دودھ کا ایک پیالہ ستر اصحاب صفہ کے لیے کافی ہو جاتا ہے کبھی آپ کے لعاب سے (سلمہ بن اکوع) کی ٹوٹی ٹانگ جڑ رہی ہے اور بھی اونٹنیاں قربان ہونے کے لیے گردن جھکائے خود بخود خدمت میں حاضر ہو رہی ہیں معجزات ہی معجزات اور آپ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جو چودہ صدیاں بیتنے کے باوجود اپنی اصل شکل وصورت میں محفوظ اور موجود ہے۔
ضروری بات:
معجزات کا ظہور پیغمبر پہ ہوتا ہے لیکن اللہ کی قدرت سے ہوتا ہے۔ پیغمبر کا اس میں اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور پیغمبر اپنی مرضی اور اختیار سے کوئی نشانی اور معجزہ نہیں دکھلا سکتا اس کے بہت سارے دلائل قرآن وسنت میں موجود ہیں۔ صرف ایک دلیل عرض کرتا ہوں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلم کو معجزات ملے، اللہ رب العزت نے طور کے مقام پر انہیں ہم کلامی کا شرف بخشا اور آپ کے سر پہ تاج نبوت رکھا، حکم دیا: اے موسیٰ! اپنا عصاء زمین پہ پھینکو موسیٰ علیہ السلام نے عصاء زمین پر پھینکا وہ اللہ کے اذن سے بہت بڑا اژدھا (سانپ) بن گیا تو موسی علی ڈر کر بھاگ نکلے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا (یہ تفصیل سورت میں موجود ہے) اس سے معلوم ہوا پیمبر کا معجزات میں اپنا کوئی عمل دخل اور اختیار نہیں ہوتا۔ اگر اختیار ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام ڈر کر نہ بھاگتے۔ اس لیے معجزات کی بناء پر کسی پیغمبر کو حاجت روا اور مشکل کشا نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن جس طرح نصرانیوں کو مغالطہ ہوا انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو معجزات کی بناء پرالٰہ اور ابن اللہ کہ دیا۔ اسی طرح آج بعض نادان مسلمانوں کو مغالطہ ہوا۔ اور انہوں نے جناب محمد رسول الله ﷺ کو بعض معجزات کی بناء پر مختار کل، حاجت روا، عالم الغیب اور نور من نور اللہ کہنا شروع کر دیا۔
بہر حال رسول اللہ ﷺ کو ملنے والے معجزات میں ایک اہم ترین معجزہ واقعہ اسراء و معراج ہے کہ آپ کو حالت بیداری میں روح و جسم سمیت ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور مسجد اقصی سے سورۃ انتہی تک کی سیر کروائی گئی۔ آپﷺ نے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جو زمینی سفر کیا اسے اسراء کہتے ہیں آپ نے یہ سفر براق پر طے کیا یہ ایک سفید رنگ کا جانور تھا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی حد ہوتی تھی۔
اور آپ ﷺ نے مسجد اقصی سے سدرۃ المنتہی تک کا سفر ایک عظیم الشان سیڑھی پہ طے کیا وہ سیڑھی دنیا جہان کی آٹو میٹک لفٹوں سے تیز تھی۔ اس آسمانی سفر اور سیر کو معراج کہتے ہیں۔
ایک اہم سوال اور اس کا جواب:
آپﷺ کو مسجد حرام سے ہی سیدھا آسمانوں کی طرف کیوں نہیں لے جایا گیا۔ پہلے مسجد اقصیٰ تک کا زمینی سفر کیوں کروایا گیا؟
جواب:
اس میں کئی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں جو اہل علم نے بیان فرمائی ہیں: چند حکمتیں عرض کرتا ہوں۔ زمینی سفر آسمانی سفر کی سچائی کی دلیل بنا کیونکہ لوگوں نے بیت المقدس دیکھا تھا اس لیے کافروں نے بیت المقدس کے متعلق سوالات شروع کر دیئے (اس کے دروازے کتنے ہیں، کھڑکیاں کتنی ہیں بالے کتنے ہیں) حالانکہ یہ سب سوالات بے بنیاد تھے۔ کیونکہ کسی جگہ کی سیر کرنے والا وہاں کے بالے دروازے اور کھڑکیاں تو نہیں گنتا؟ لیکن اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کی صداقت و سچائی ثابت کرنے کے لیے سارے پردے ہٹا کر اور ساری رکاوٹیں دور کر کے بیت المقدس آپ کے سامنے کر دیا تو آپ نے بیت المقدس کے بارے کافروں کے ایک ایک سوال کا مسکت و شافی جواب دیا۔ تو اس طرح زمینی سفر کی صداقت آسمانی سفر کی سچائی کی دلیل بن گئی۔
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جانا اور وہاں تمام انبیاء کی امامت کا شرف ملنا: اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسجد حرام ہو یا مسجد اقصیٰ دونوں کی نگرانی اور تولیت آخری پیغمبر اور آپ کی امت کا حق ہے۔ یہود و نصاری اس منصب سے معزول کر دیئے گئے ہیں۔ ان دونوں مبارک جگہوں پر کوئی حق نہیں ہے۔
وہ نشانیاں جو آپ ﷺ نے واقعہ اسراء و معراج میں دیکھیں:
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں واقعہ اسراء و معراج کے حوالے سے بڑی بڑی نشانیوں کا تذکرہ فرمایا ہے اسراء کے متعلق سورۃ الاسراء میں ارشاد فرمایا:
﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۝۱﴾ [بنی اسرائیل:1]
اور معراج کے متعلق سورۃ النجم میں فرمایا:
﴿ لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰی﴾ [النجم: 18]
’’آپ ﷺ نے وہاں اپنے رب کی بعض بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘
وہ نشانیاں کون سی ہیں؟
پہلی نشانی:
وہ براق ہے جو اس قدر برق رفتار جانور تھا جس نے اس دور میں ایک ماہ سے زائد مسافت والا سفر رات کی ایک معمولی سی گھڑی میں طے کر دیا۔ دنیا جہان کی ہر سواری نگاہ سے دیکھے رہتی ہیں لیکن براق ایسی سواری تھی کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی تھی۔ آج بعض اہل بدعت نے اس براق کی تصویر بنا رکھی ہے کہ پچھلا دھٹر جانور کا اور آگے چہرہ اور سر خوبرو عورت کا ﴿انا للہ وانا اليه راجعون﴾ کتنی بڑی گستاخی اور جسارت ہے اور پھر تصویر کے اوپر لکھا ہے۔ ’’براق النبی‘‘ کہ یہ نبی ﷺکا براق ہے جس پر آپ نے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک زمینی سفر طے کیا تھا۔
دوسری عظیم الشان نشانی:
بیت المقدس میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا جمع کرنا اور ان کا نبی ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنا اللہ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت سے ہوا۔ (اس سے ثابت کرنا کہ انبیاء کرام زندہ ہیں قطعاً درست نہیں، کیونکہ واقعہ معراج معجزہ ہے اور معجز و عام حالات سے مختلف ہوا کرتا ہے)۔
تیسری بڑی نشانی:
وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے آپ آسمان پر چڑھے اور تمام آسمانوں کی سیر کرتے ہوئے سدرۃ المنتہی تک پہنچے وہ کیسی عظیم الشان سیڑھی تھی کہ جس نے سالہا سال کی مسافت رات کی چھوٹی سی گھڑی میں طے کرادی آج دنیا نے سائنس میں بڑی ترقی کرلی ہے بڑے بڑے طیارے برق رفتار گاڑیاں اور عجیب و غریب المیں ایجاد کر لی ہیں لیکن وہ سیڑھی جو امام الانبیاء کے لیے رب کائنات نے پیدا فرمائی اس کی مثال نہ اب موجود ہے نہ قیامت تک ہو گی کیونکہ وہ معجزہ ہے اور معجزے کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
چوتھی اہم نشانی:
آپ ﷺ کا آسمانوں کی سیر کرنا اور مختلف آسمانوں پر مختلف پیغمبروں سے ملاقاتیں کرنا آپ کی امتیازی شان کی دلیل ہے اور ایک عظیم نشانی کا مشاہدہ ہے کہ آپ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک آنے والے بے شمار انبیاء کرام علیہم السلام میں سے اولوالعزم عظیم المرتبت اور بلند پایہ پیغمبروں (آدم، عیسی، یوسف، اور ادریس، ہارون، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام) سے ملاقات کرتے ہیں۔
پانچویں نشانی:
سدرۃ المنتہی کا مشاہدہ کرنا جو مقام انتہاء ہے۔ زمین سے اوپر جانے والی ہر چیز کی وہ انتہاء ہے اور اللہ کی طرف سے اترنے والی چیزیں بھی پہلے یہیں اترتی ہیں اور فرشتے یہاں سے وصول کر کے اس کے مطابق کارروائی کرتے ہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں فرشتے لوح محفوظ سے قضاء قدر کے فیصلے نوٹ کرتے ہیں اور یہیں آپﷺ نے ان کی قلموں کی آواز میں بھی سنی تھیں۔ اور یہ مقام تجلیات الہی بھی ہے اس کے گرد ہر وقت سونے کے پروانے محو پرواز رہتے ہیں اور اس کا حسن و جمال اور دلکش منظر بیان سے باہر ہے۔ اس مقام پر آپ کو وہ تین تحفے ملے جن کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اور سدرۃ المنتہی بیری کا درخت ہے وہ درخت دنیا کے درختوں کی طرح نہیں اس کے بیر ہجر شہر کے مٹکوں کے برابر ہیں (ہجر شہر کے مٹکے اتنے اتنے بڑے ہوا کرتے تھے کہ ایک مٹکے میں اڑھائی من تقریباً 100 کلو پانی آجاتا تھا) اور اس درخت کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کے برابر ہیں۔[صحيح البخاری، تفسير سورة النجم (4858)]
چھٹی نشانی:
آپ ﷺ نے داروغہ جہنم کو دیکھا جس کا نام مالک ہے اور دجال کو دیکھا جس کا خروج قیامت کے قریب ہو گا دجال کا فتنہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک رونما ہونے والے تمام فتنوں میں سے سب سے زیادہ ہولناک اور دہشت ناک فتنہ ہے۔ ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے خبردار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دجال کے فتنے سے بچاؤ کی دعائیں سکھلائیں جو کتب حدیث میں موجود ہیں۔
ساتویں نشانی:
آپﷺ نے ساتویں آسمان پر البیت المعمور دیکھا جو فرشتوں کی عبادت گاہ ہے جس سے اللہ تعالی کی اس نورانی مخلوق کی عظمت اور کثرت کا مشاہدہ ہوا کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس میں عبادت کے لیے آتے ہیں پھر قیامت تک ان کی دوبارہ باری نہیں آتی، غور کیجئے یہ نورانی مخلوق کتنی بڑی تعداد میں ہے اور دن رات محو عبادت ہے، قرآن کریم میں فرشتوں کی عبادت کے بارے بتلایا گیا ہے کہ وہ نہ عبادت میں وقفہ اور ناغہ کرتے ہیں اور نہ ہی عبادت کرتے ہوئے تھکتے ہیں۔
آٹھویں نشانی:
آپﷺ نے جنت اور شہر کوثر کا مشاہدہ فرمایا آپﷺ فرماتے ہیں:
(ثُمَّ اُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا جَنَابُدُ اللُّؤْلُؤْ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ)
’’پھر میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں دیکھا کہ موتیوں کے قبے ہیں اور جنت کی مٹی کستوری ہے۔‘‘[صحیح مسلم، الايمان، باب الاسراء برسول اللهﷺ (163)]
اور آپ ﷺ نے شہر کوثر کے بارے فرمایا کہ میں جنت میں چل رہا تھا کہ میں نے وہاں نہر دیکھی جس کے کنارے جوف دار (کھو کھلے) موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ تو جبریل نے کہا:
(هذا الكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ) [صحیح البخاری، التفسیر، باب تفسير سورة المكوثر (4964)]
’’یہ وہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطاء کی ہے۔‘‘
اور میں نے دیکھا کہ اس کی مٹی خوشبو دار کستوری ہے۔[صحيح البخاري، الرقاق، باب في الحوض (6581)]
اور یاد رکھیے اگر کوثر کا پانی پینا چاہتے ہو تو وضوء اور نماز میں سستی نہ کیجئے کیونکہ آپ ﷺ حوض کوثر پہ وضوء کے نشانات سے ہی اپنی امت کو پہچانیں گئے اور قرآن کریم میں بھی کوثر کے ساتھ نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے:
﴿اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۝۱
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۝۲
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠۝۳﴾ [الكوثر: 1-3]
نویں نشانی:
آپ ﷺ نے جنت میں ایک جانب سے قدموں کی آہٹ سنی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’جبریل یہ کیا ہے؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ موذن بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز ہے۔[فتح الرباني لترتيب مسند امام احمد بن حنبل الشيباني (255,254/20)]
اس مفہوم کی حدیث صحیح البخاری میں بھی موجود ہے اور اس میں مزید وضاحت ہے کہ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ ’’آپ وہ کون سا عظیم عمل کرتے ہیں جس کی بناء پر میں نے جنت میں آپ کے قدموں کی چاپ سنی۔‘‘ تو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: کہ میں جب بھی وضوء کرتا ہوں تو دو رکعتیں ضرور پڑھتا ہوں، معلوم ہوا یہ تحیہ الوضوء پر پابندی کا صلہ ہے۔
دسویں نشانی:
آپﷺ نے جہنم کو دیکھا اور جہنم میں مختلف گناہوں کی سزا میں گرفتار لوگ بھی دیکھے، مثلا:
1۔ غیبت کرنے والوں کا انجام بد:
مسند احمد میں حدیث ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے معراج کی رات جہنم میں دیکھا کہ کچھ لوگ مردار کھا رہے ہیں میں نے پوچھا: ’’جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ (یعنی لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے اور لوگوں کی بے عزتی کیا کرتے تھے)۔‘‘ [الفتح الرباني (255/20)]
قرآن کریم میں بھی غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [الحجرات: 12]
آج لوگ غیبت کو گناہ ہی نہیں سمجھتے، کوئی مجلس اس بدترین عمل سے خالی نہیں جبکہ اس کی سزا کتنی خطر ناک ہے۔
2۔ بے عمل خطباء کا عبرتناک انجام:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے معراج کی رات کچھ لوگ دیکھے جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل اے نے کہا: یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ کتاب بھی پڑھتے ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں۔[شرح السند بغوی (353/14) (4159) حدیث حسن.]
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ ہمیں ایسے خطباء میں سے نہ کرے۔
3۔ حضرت صالح علیہ السلام کو بطور معجزہ ملنے والی اونٹنی (ناقتہ اللہ) کے قاتل کا مشاہدہ:
رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات جب جہنم کی ایک جھلک دیکھی تو آپ نے اس میں ایک سرخ رنگ والا نیلگوں آنکھوں والا گھنگریالے بالوں والا پراگندہ حال شخص دیکھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’جبریل! یہ کون شخص ہے؟‘‘ جبریل لے نے کہا: یہ اونٹنی کا قاتل ہے۔‘‘[مسند أحمد في الفتح الرباني (255/20) صحيح.]
لمحہ فکریہ! ایک اونٹنی جو بطور معجزہ پیدا کی گئی تھی اس کی بے حرمتی کرنے والے کا یہ حشر ہوا تو ان لوگوں کا کس قدر بھیانک انجام ہوگا جو دنیا جہان میں رونما ہونے والے سب سے بڑے معجزے قرآن کریم کی بے حرمتی کر رہے ہیں اللہ کی کتاب کی آیتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں کتاب اللہ کے اوراق گندے نالے میں پھینک رہے ہیں ؟؟ ؟؟
معراج کی رات سدرۃ المنتہی میں ملنے والے تین تحفے ؟
آپ ﷺ کو معراج کی رات سورۃ المنتہی پر تین عظیم الشان تھے پیش کیے گئے:
1۔ پنجگانہ نمازیں۔
2۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں۔
3۔ آپ کی امت میں سے ہر اس شخص کے کبیرہ گناہوں کی بخشش جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔[صحيح مسلم، الإيمان، باب في ذكر سدرة المنتهى (173)]
اب میں ان تینوں تحفوں کی مختصر تشریح آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
پہلا تحفہ:
آپ کو معراج کی رات سورۃ المنتہی جیسے مرکز تجلیات پر یہ تحفہ دیا گیا کہ آپ اور آپ کی امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، لیکن جب آپ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے مشورہ دیا کہ میں بنو اسرائیل کو آزما چکا ہوں۔ آپ کی امت پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ تو آپﷺ نے حضرت موسیٰ میے کے مشورے پر اللہ کی بارگاہ میں دعا کی اور پانچ یا دس نمازوں کی تخفیف کر دی گئی۔ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر بار ہا سدرۃ المنتہی گئے اور وہاں اللہ کی بارگاہ میں استدعا کی حتیٰ کہ پانچ نمازیں رہ گئیں۔ اور اللہ رب العزت نے اس موقعہ پر ارشاد فرمایا: (هُنَّ خَمْسَ وَهُنَّ خَمْسُونَ)
’’یہ عمل کے اعتبار سے گنتی میں پانچ ہیں اور اجر وثواب کے اعتبار سے پچاس ہی شمار ہوں گی۔‘‘[1]
یعنی آپ اور آپ کی امت پانچ نمازیں پڑھے گی لیکن اجر و ثواب پچاس نمازوں کا ہی ملے گا۔
غور فرمائیے نماز وہ قیمتی تحفہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کو معراج کی رات دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ میں اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک عملاً اور قوالًا اس عظیم تحفے کی قدردانی کی وصیت فرماتے رہے۔
(الصَّلاةُ الصَّلَاةُ) [ابن ماجه، الوصايا، باب وهل أوى رسول اللهﷺ (2697) صحيح]
’’لوگو! نماز کی پابندی کرنا۔ لوگو! نماز کا خیال رکھنا۔‘‘
لیکن آج اس عظیم تحفے کی بے قدری کی جا رہی ہے آج کلمہ پڑھنے والوں کی اکثریت بے نماز ہے۔ لوگوں کو معراج کی رات حلوہ پکانے اور کھانے کا تو پتہ ہے لیکن معراج کی رات ملنے والے اس تحفے کی قدر و منزلت کا علم نہیں، معراج کی خوشی میں آتش بازی کرتے ہیں لیکن معراج کی رات ملنے والے تحفے کو چھوڑے ہوئے ہیں، کیسی انوکھی محبت رسولﷺ ہے ؟
دوسرا تحفہ:
سورۃ البقرہ کی آخری آیات: یہ دو آیتیں ہیں اور یہ اس قدر قیمتی تحفہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ قَرَأَ هُمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ) [صحيح مسلم، صلاة المسافرين و قصرها، باب استحباب صلاة النافلة في بيتہ]
’’جو آدمی ان دونوں کو رات کے وقت پڑھے گا یہ اس کو کفایت کر جائیں گی۔‘‘
ان دو آیتوں کی مزید فضیلت: آپ ﷺ صحابہ کرام میں امام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس حضرت جبریل امین علیہ السلام بھی تھے ایک آواز سنائی دی۔ جبریل امین نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: آج آسمان کا وہ دروازہ کھولا ہے جو پہلے بھی نہیں کھولا گیا اور پھر اس سے ایک فرشتہ اترتا ہے۔
اور وہ نبیﷺ کو مخاطب کر کے کہتا ہے: ان دو روشنیوں کے ساتھ خوش ہو جاؤ جو آپ کو دی گئی ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی ایک روشنی سورۃ الفاتحہ اور دوسری روشنی سورۃ البقرۃ کی آخری آیات ہیں۔[صحیح مسلم، صلاة المسافرين، باب فضل الفاتح… (806)
تیسرا تحفہ:
آپ ﷺ کی امت میں سے ہر اس شخص کے کبیرہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص دائمی جہنمی نہیں ہو گا وہ گناہوں کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اس تحفے میں توحید کی عظمت کا اظہار اور شرک کی مذمت کا اعلان ہے۔